اقتصادی اور مالیاتی شکنجہ
سرکاری ذرایع کے مطابق آیندہ 6 ماہ میں پاکستان کو مختلف عالمی اداروں سے 5 ارب ڈالر سے زائد رقم ملنے کی توقع ہے۔
نہ نہ کرتے پیار تمہی سے کر بیٹھے۔اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ بالآخر کشکول توڑنے کی دعویدار موجودہ حکومت نے پی پی پی کے کشکول سے بڑا کشکول تھام لیا ہے اور آئی ایم ایف نے شرائط پر مبنی 5 ارب 30 کروڑ ڈالر قرضے حکومت کے کشکول میں ڈالنے کا 3 سالہ معاہدہ کرلیا ہے۔
معاہدے کے تحت قرضے پر شرح سود تین فیصد ہوگی، قرض کی واپسی چارسال بعد شروع ہوگی جو چھ سال میں مکمل ہوگی، قرض کی حتمی منظوری آئی ایم ایف کا ایگزیکٹو بورڈ 4 ستمبر 2013 میں دے گا۔ اس سے قبل حکومت پاکستان کو معاہدے کی شرائط پر پیشگی عمل درآمد کرنا ہوگا یعنی کہ صوبوں کو زرعی آمدن پر انکم ٹیکس جب کہ خدمات کے شعبے پر 17 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنا ہوگا، ایف بی آر کے جاری کردہ ایسے تمام ایس آر اوز منسوخ کرے گی جن کے ذریعے بعض افراد یا اشیاء کو ٹیکس میں چھوٹ یا استثنیٰ دیا گیا۔
جب کہ وفاقی حکومت کو ویلیو ایڈڈ ٹیکس کی طرز پر ایک نیا ٹیکس بھی لاگو کرنا ہوگا علاوہ ازیں بجلی کے نرخوں میں اضافہ سبسڈی کا خاتمہ اور نجکاری پروگرام کا آغاز کرنا ہوگا۔ واضح رہے کہ اگر معاہدے کے مطابق پیشگی اقدامات نہ کیے گئے تو آئی ایم ایف کا ایگزیکٹو بورڈ پاکستان کے لیے5.3 ارب ڈالر کا توسیعی امدادی پروگرام مسترد کرسکتا ہے۔ تاہم پاکستان نے آئی ایم ایف سے درخواست کی ہے کہ اسے بڑھاکر 7 ارب ڈالر کیا جائے، اس اضافی رقم کے بارے میں آئی ایم ایف بورڈ فیصلہ کرے گا۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ حکومت یہ قرضہ اپنی ضروریات کے لیے نہیں بلکہ پچھلے قرضوں کی ادائیگی اور نادہندگی سے بچنے کے لیے لے رہی ہے جنہوں نے سرعام لوٹ مار کرکے ذاتی تجوریاں بھریں اور قومی خزانے کو خالی کرکے قومی معیشت کا بھٹہ بٹھادیا ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان کو نیا قرضہ ملنے کے بعد دوسرے ڈیولپمنٹ پارٹنرز بھی پاکستان کے لیے اپنی امداد و فنانسنگ بڑھائیں گے جس سے پاکستان کو معاشی ترقی کے اہداف کے حصول میں مدد ملے گی۔
سرکاری ذرایع کے مطابق آیندہ 6 ماہ میں پاکستان کو مختلف عالمی اداروں سے 5 ارب ڈالر سے زائد رقم ملنے کی توقع ہے۔ اس رقم میں آئی ایم ایف کی جانب سے ملنے والے 3 ارب ڈالر شامل نہیں۔ ایشیائی ترقیاتی بینک اور عالمی بینک جنوری 2014 تک ہر ماہ 40 سے 50 کروڑ ڈالر فراہم کریں گے جب کہ پی ٹی سی ایل کی نجکاری کے بقایا جات کی مد میں 80 کروڑ ڈالر بھی آیندہ ماہ میں ملنے کی توقع ہے ۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق نواز شریف نے جب وزیر اعظم کا قلمدان سنبھالا تو ملک پر بیرونی قرضوں کے بوجھ کی مالیت 60 ارب 87 کروڑ ڈالر اور اندرونی قرضوں کی مالیت 8800 ارب روپے کے قرضوں کا بوجھ ان کو ورثے میں ملے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی ملک میں غیرملکی سرمایہ کاری کی نہایت ابتر صورت حال کا بھی سامنا ہے جو صرف 85 کروڑ 35 لاکھ ڈالر رہ گئی ہے، یہی نہیں زرمبادلہ کے ملکی ذخائر بھی تیزی سے زوال پذیر ہیں اور اسٹیٹ بینک کے پاس صرف 6 ارب 56 کروڑ 47 لاکھ ڈالر کے ذخائر ہیں۔ ملک میں جی ڈی پی کی شرح 3.7 فیصد اور مہنگائی یعنی افراط زر کی شرح 11 فیصد کی اونچی سطح پر ہے جب کہ ملک کو 12 ارب 54 کروڑ ڈالر سے زائد کے تجارتی خسارے کا بھی سامنا ہے۔روپے کی بے قدری کا سلسلہ بھی تیزی سے جاری ہے اس کو مضبوط بنانا بھی نواز حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ 2017 تک پاکستان کے قرضوں کا حجم 28 ہزار ارب روپے ہوجائے گا۔ موجودہ قرضوں کی شرح 14 ہزار ارب روپے کے قریب ہے۔
یہ بات عیاں ہے کہ پاکستانی سیاست دان اور مختلف ادارے اپنی رقم چھپانے کے لیے سوئس بینکوں کو سب سے محفوظ تصور کرتے ہیں جسے کالا دھن بھی کہا جاتا ہے اس وقت سوئس بینکوں میں پاکستانیوں نے 15 ہزار کروڑ روپے چھپا رکھے ہیں اگر ان رقوم کو پاکستانی بینکوں میں منتقل کیا جائے تو قومی معیشت کسی حد تک مستحکم ہوسکتی ہے مگر ایسا کرنے کے لیے حب الوطنی کی ضرورت ہے جو ان شخصیات اور اداروں کے پاس نہیں ہے جو آئے روز قوم کے سامنے پاکستان کا دم بھرتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر عملاً ان کی روحیں مغرب کی سیر کر رہی ہوتی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ملک پر تیزی سے بڑھتے ہوئے قرض ملکی سیاسی اور اقتصادی حوالے سے تباہ کن ثابت ہوتے رہے ہیں اور مستقبل میں بھی امید کی کرن نظر نہیں آتی۔ پاکستان میں عالمی بینک کے کردار پر سخت تنقید کی جاتی ہے کہ ان کے دباؤ کے باعث پاکستانی قوم غربت کی لکیر سے بھی نیچے آگئی ہے اور یہاں کے عوام نہ صرف غربت میں دھنستے چلے جارہے ہیں بلکہ ان کی پریشانیوں اور مسائل میں بھی ہر ساعت اضافہ ہورہا ہے۔ بجلی، گیس اور تیل کی قیمتوں میں آئے روز کا اضافہ عوام پر مزید مالی بوجھ بنتا جارہا ہے۔
عالمی بینک پر تنقید کرنے والے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ عالمی بینک پاکستان سے نکل جائے اور پاکستان کو اس کے حال پر چھوڑدے اور ہمیں اپنی پالیسیاں بنانے میں آزاد کیا جائے۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ عالمی بینک اپنے مفاد میں جو بہتر سمجھتا ہے وہ پاکستان سے کرواتا ہے جس کے عوض وہ پاکستان کو سود پر قرض دیتا ہے۔ لیکن پاکستان کے حکمران پھر بھی قرضے لیتے ہیں اور انھیں کھا بھی جاتے ہیں۔ حکمران قرضوں کا صحیح استعمال کیوں نہیں کرتے؟ اگر عالمی بینک کی پالیسیاں غلط تھیں یا ہیں تو انھیں کیوں قبول کیا جاتا رہا ہے اور کیا جارہا ہے؟ اس میں قطعی کوئی شبہ نہیں کہ ہم نے انگریز سامراج سے جغرافیائی آزادی تو حاصل کرلی لیکن معاشی، اقتصادی لحاظ سے حکمران ہمیں غلام بناگئے ہیں۔
سرعام ملکی خزانہ لوٹتے رہے ہیں اور اربوں ڈالر بیرون ممالک منتقل کیے جاتے رہے ہیں۔ آج نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ پاکستان کا پیدا ہونے والا بچہ بھی مقروض ہے۔ کیا ان حالات میں ہم ایک نیا پاکستان تشکیل دے سکتے ہیں؟ جب کہ عالمی بینک کے شکنجے میں ہم بری طرح جکڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سر تا پاؤں مقروض ہیں۔ بلاشبہ مایوسی کفر ہے۔ مایوس قومیں تاریخ میں دفن ہوجایا کرتی ہیں جب کہ زندہ قومیں تاریخ مرتب کرتی ہیں، ہمیں بھی زندہ قوم ہونے کا ثبوت دینا ہوگا۔ اس کے لیے حکمرانوں کو اقدامات اٹھانے ہوں گے عوام تو ہمیشہ سے قربانی دیتے آئے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ اب پاکستان کے حکمران بھی قربانی دیں اور جنہوں نے پاکستان کو لوٹا ہے وہ بھی پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے لوٹی ہوئی دولت کو پاکستان میں لائیں۔
معاہدے کے تحت قرضے پر شرح سود تین فیصد ہوگی، قرض کی واپسی چارسال بعد شروع ہوگی جو چھ سال میں مکمل ہوگی، قرض کی حتمی منظوری آئی ایم ایف کا ایگزیکٹو بورڈ 4 ستمبر 2013 میں دے گا۔ اس سے قبل حکومت پاکستان کو معاہدے کی شرائط پر پیشگی عمل درآمد کرنا ہوگا یعنی کہ صوبوں کو زرعی آمدن پر انکم ٹیکس جب کہ خدمات کے شعبے پر 17 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنا ہوگا، ایف بی آر کے جاری کردہ ایسے تمام ایس آر اوز منسوخ کرے گی جن کے ذریعے بعض افراد یا اشیاء کو ٹیکس میں چھوٹ یا استثنیٰ دیا گیا۔
جب کہ وفاقی حکومت کو ویلیو ایڈڈ ٹیکس کی طرز پر ایک نیا ٹیکس بھی لاگو کرنا ہوگا علاوہ ازیں بجلی کے نرخوں میں اضافہ سبسڈی کا خاتمہ اور نجکاری پروگرام کا آغاز کرنا ہوگا۔ واضح رہے کہ اگر معاہدے کے مطابق پیشگی اقدامات نہ کیے گئے تو آئی ایم ایف کا ایگزیکٹو بورڈ پاکستان کے لیے5.3 ارب ڈالر کا توسیعی امدادی پروگرام مسترد کرسکتا ہے۔ تاہم پاکستان نے آئی ایم ایف سے درخواست کی ہے کہ اسے بڑھاکر 7 ارب ڈالر کیا جائے، اس اضافی رقم کے بارے میں آئی ایم ایف بورڈ فیصلہ کرے گا۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ حکومت یہ قرضہ اپنی ضروریات کے لیے نہیں بلکہ پچھلے قرضوں کی ادائیگی اور نادہندگی سے بچنے کے لیے لے رہی ہے جنہوں نے سرعام لوٹ مار کرکے ذاتی تجوریاں بھریں اور قومی خزانے کو خالی کرکے قومی معیشت کا بھٹہ بٹھادیا ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان کو نیا قرضہ ملنے کے بعد دوسرے ڈیولپمنٹ پارٹنرز بھی پاکستان کے لیے اپنی امداد و فنانسنگ بڑھائیں گے جس سے پاکستان کو معاشی ترقی کے اہداف کے حصول میں مدد ملے گی۔
سرکاری ذرایع کے مطابق آیندہ 6 ماہ میں پاکستان کو مختلف عالمی اداروں سے 5 ارب ڈالر سے زائد رقم ملنے کی توقع ہے۔ اس رقم میں آئی ایم ایف کی جانب سے ملنے والے 3 ارب ڈالر شامل نہیں۔ ایشیائی ترقیاتی بینک اور عالمی بینک جنوری 2014 تک ہر ماہ 40 سے 50 کروڑ ڈالر فراہم کریں گے جب کہ پی ٹی سی ایل کی نجکاری کے بقایا جات کی مد میں 80 کروڑ ڈالر بھی آیندہ ماہ میں ملنے کی توقع ہے ۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق نواز شریف نے جب وزیر اعظم کا قلمدان سنبھالا تو ملک پر بیرونی قرضوں کے بوجھ کی مالیت 60 ارب 87 کروڑ ڈالر اور اندرونی قرضوں کی مالیت 8800 ارب روپے کے قرضوں کا بوجھ ان کو ورثے میں ملے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی ملک میں غیرملکی سرمایہ کاری کی نہایت ابتر صورت حال کا بھی سامنا ہے جو صرف 85 کروڑ 35 لاکھ ڈالر رہ گئی ہے، یہی نہیں زرمبادلہ کے ملکی ذخائر بھی تیزی سے زوال پذیر ہیں اور اسٹیٹ بینک کے پاس صرف 6 ارب 56 کروڑ 47 لاکھ ڈالر کے ذخائر ہیں۔ ملک میں جی ڈی پی کی شرح 3.7 فیصد اور مہنگائی یعنی افراط زر کی شرح 11 فیصد کی اونچی سطح پر ہے جب کہ ملک کو 12 ارب 54 کروڑ ڈالر سے زائد کے تجارتی خسارے کا بھی سامنا ہے۔روپے کی بے قدری کا سلسلہ بھی تیزی سے جاری ہے اس کو مضبوط بنانا بھی نواز حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ 2017 تک پاکستان کے قرضوں کا حجم 28 ہزار ارب روپے ہوجائے گا۔ موجودہ قرضوں کی شرح 14 ہزار ارب روپے کے قریب ہے۔
یہ بات عیاں ہے کہ پاکستانی سیاست دان اور مختلف ادارے اپنی رقم چھپانے کے لیے سوئس بینکوں کو سب سے محفوظ تصور کرتے ہیں جسے کالا دھن بھی کہا جاتا ہے اس وقت سوئس بینکوں میں پاکستانیوں نے 15 ہزار کروڑ روپے چھپا رکھے ہیں اگر ان رقوم کو پاکستانی بینکوں میں منتقل کیا جائے تو قومی معیشت کسی حد تک مستحکم ہوسکتی ہے مگر ایسا کرنے کے لیے حب الوطنی کی ضرورت ہے جو ان شخصیات اور اداروں کے پاس نہیں ہے جو آئے روز قوم کے سامنے پاکستان کا دم بھرتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر عملاً ان کی روحیں مغرب کی سیر کر رہی ہوتی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ملک پر تیزی سے بڑھتے ہوئے قرض ملکی سیاسی اور اقتصادی حوالے سے تباہ کن ثابت ہوتے رہے ہیں اور مستقبل میں بھی امید کی کرن نظر نہیں آتی۔ پاکستان میں عالمی بینک کے کردار پر سخت تنقید کی جاتی ہے کہ ان کے دباؤ کے باعث پاکستانی قوم غربت کی لکیر سے بھی نیچے آگئی ہے اور یہاں کے عوام نہ صرف غربت میں دھنستے چلے جارہے ہیں بلکہ ان کی پریشانیوں اور مسائل میں بھی ہر ساعت اضافہ ہورہا ہے۔ بجلی، گیس اور تیل کی قیمتوں میں آئے روز کا اضافہ عوام پر مزید مالی بوجھ بنتا جارہا ہے۔
عالمی بینک پر تنقید کرنے والے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ عالمی بینک پاکستان سے نکل جائے اور پاکستان کو اس کے حال پر چھوڑدے اور ہمیں اپنی پالیسیاں بنانے میں آزاد کیا جائے۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ عالمی بینک اپنے مفاد میں جو بہتر سمجھتا ہے وہ پاکستان سے کرواتا ہے جس کے عوض وہ پاکستان کو سود پر قرض دیتا ہے۔ لیکن پاکستان کے حکمران پھر بھی قرضے لیتے ہیں اور انھیں کھا بھی جاتے ہیں۔ حکمران قرضوں کا صحیح استعمال کیوں نہیں کرتے؟ اگر عالمی بینک کی پالیسیاں غلط تھیں یا ہیں تو انھیں کیوں قبول کیا جاتا رہا ہے اور کیا جارہا ہے؟ اس میں قطعی کوئی شبہ نہیں کہ ہم نے انگریز سامراج سے جغرافیائی آزادی تو حاصل کرلی لیکن معاشی، اقتصادی لحاظ سے حکمران ہمیں غلام بناگئے ہیں۔
سرعام ملکی خزانہ لوٹتے رہے ہیں اور اربوں ڈالر بیرون ممالک منتقل کیے جاتے رہے ہیں۔ آج نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ پاکستان کا پیدا ہونے والا بچہ بھی مقروض ہے۔ کیا ان حالات میں ہم ایک نیا پاکستان تشکیل دے سکتے ہیں؟ جب کہ عالمی بینک کے شکنجے میں ہم بری طرح جکڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سر تا پاؤں مقروض ہیں۔ بلاشبہ مایوسی کفر ہے۔ مایوس قومیں تاریخ میں دفن ہوجایا کرتی ہیں جب کہ زندہ قومیں تاریخ مرتب کرتی ہیں، ہمیں بھی زندہ قوم ہونے کا ثبوت دینا ہوگا۔ اس کے لیے حکمرانوں کو اقدامات اٹھانے ہوں گے عوام تو ہمیشہ سے قربانی دیتے آئے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ اب پاکستان کے حکمران بھی قربانی دیں اور جنہوں نے پاکستان کو لوٹا ہے وہ بھی پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے لوٹی ہوئی دولت کو پاکستان میں لائیں۔