کراچی میں ڈبل سواری پر پابندی آخر کیوں
عصر حاضر میں سب سے سستا اور مطلوبہ مقام تک فوری رسائی کا واحد ذریعہ موٹر سائیکل ہی کو قرار دیا جاتا ہے۔
کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا،اس شہر بے اماں کو تاریکیوں میں ڈوبے ایک عرصہ بیت چکا ہے۔دن بدن ظلم و ستم کی پھیلی تاریکی میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔ قتل و غارتگری کا بازارگرم ہے۔سکون مفقود اور امن و چین کا دور دور تک نام و نشان نہیں ہے۔ انتظامیہ ان مخدوش حالات کو سدھارنے میںناکام و بے بس دکھائی دیتی ہے۔
لیکن جب بھی کراچی میں بدامنی کی لہر اٹھتی ہے تو انتظامیہ اپنی نااہلی کی سزاغریب و متوسط عوام کو دینے کا فیصلہ کر تے ہوئے ڈبل سواری پر پابندی لگادیتی ہے۔ کراچی میں ڈبل سواری پر پابندی لگانا انتظامیہ کی عادت ثانیہ بن چکی ہے لیکن سب بے فائدہ۔کراچی میں ڈبل سواری پر پابندی لگے کوئی چار مہینے سے زیادہ ہوگئے، جرائم میں رتی بھر کمی نہیں آئی۔ ڈبل سواری پر پابندی لگانے سے بدامنی میں کمی لانا تو صرف وہم و خیال ہی ہے، ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ مشکلات کے شکار عوام کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔
موٹر سائیکل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ غریب اور متوسط طبقے کی سواری ہے لیکن آئے دن ڈبل سواری پر پابندی عائد کرکے عروس البلادکراچی کے شہریوں کے لیے اس کی افادیت کو شجر ممنوعہ بنادیا جاتا ہے۔حکومتی حلقوں کی طرف سے ڈبل سواری پر پابندی کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ڈبل سواری سے دہشت گردوں کو اپنی مذموم کاروائیوں میں مدد ملتی ہے، اس لیے اس پر پابندی عائد رہنی چاہیے۔ عوام الناس کے نزدیک حکومت کا یہ مؤقف ''عذرگناہ بدتر ازگناہ'' کے مترادف ہے۔ امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی بجائے ڈبل سواری پر پابندی لگادینا بالکل لغو سوچ ہے۔
عصر حاضر میں سب سے سستا اور مطلوبہ مقام تک فوری رسائی کا واحد ذریعہ موٹر سائیکل ہی کو قرار دیا جاتا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں،روز ہی سی این جی بند ہوتی ہے جس کی وجہ سے سڑکوں پر بسیں چیدہ چیدہ ہی دکھائی دیتی ہیں۔ ایسے میں یہ سواری کم آمدنی اور متوسط گھرانے کے دو افراد کے لیے انتہائی موزوں اور باکفایت ذریعہ آمد و رفت ثابت ہوا ہے۔ موجودہ صورت حال کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہر شخص یہ کہنے پر مجبور ہے کہ موٹر سائیکل پر ڈبل سواری کی پابندی کے باعث شہری ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ کم آمدنی والے حضرات،ملازم پیشہ افراد اور چھوٹے کاروباری حضرات مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔
ملک کی معاشی شہ رگ کراچی میں روزانہ 12 لاکھ سے زائد موٹر سائیکلیں سڑکوں پر رواں دواں ہوتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ساڑھے چھ لاکھ موٹر سائیکلوں پر ڈبل سواری کی جاتی ہے۔لیکن ڈبل سواری پر پابندی لگنے کے بعد سرکاری اور نجی اداروں میں عملے کی بروقت حاضری تو بری طرح متاثر ہوتی ہی ہے، اس پابندی سے غریب عوام پر کئی گنا اضافی مالی بوجھ بھی بڑھ جاتا ہے۔ڈبل سواری سے ایک عام آدمی کو اور مجموعی طور پر قومی خزانے کو بے حد نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ایک موٹر سائیکل استعمال کرتے ہوئے غریب گھرانے کے دو تین افراد بیک وقت سفر کرکے اپنے کام پر پہنچتے ہیں۔اگر یہ افراد ڈبل سواری کی وجہ سے موٹر سائیکل استعمال نہ کریں تو کم سے کم ساڑھے چھ لاکھ سے زائد افراد کو بسوں میں دھکے کھانا پڑتے ہیں۔
اگر سفر سیدھا ہے تو کم سے کم 30 روپے اور اگر ایک سے زائد بسیں تبدیل کرنی پڑیں تو پھر 60 روپے تک کا یومیہ خرچ بڑھ جاتا ہے۔ اسے 40 روپے اوسطاً رکھا جائے تو 40 روپے ضرب ساڑھے چھ لاکھ... دو کروڑ 60 لاکھ روپے یومیہ۔ ڈبل سواری پر پابندی کی صورت میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر فرد پر ہر مہینہ بارہ سو روپے کا مزید بوجھ بڑھتا ہے اور مجموعی طور پر قومی خزانے پر 78 کروڑ روپے کا مزید بوجھ بڑھتا ہے۔ یہ ساری رقم بسوں، ویگنوں میں سفر کرنے والے بے چارے غریب عوام اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں۔ رکشہ، ٹیکسی میں بھی کچھ لوگ سفر کرتے ہیں، اس کا حساب الگ رہا۔ ڈبل سواری پر پابندی کا فائدہ ٹرانسپورٹ مافیا اور پولیس کو ہوتا ہے۔ ایک متعین حصہ ان حکام بالا کی جیبوں میں بھی جاتا ہے جن کے رحم وکرم پر موٹر سائیکل سواری پر پابندی برقرار ہے۔ اسی طرح سی این جی اور چنگ چی رکشے بھی ہر مہینے کروڑوں روپے اضافی کما رہے ہیں۔ شہریوں کے حصے میں صرف نقصان ہی آتا ہے۔
شہرمیں ہونے والی وارداتوں اور عوام کو تحفظ کی فراہمی میں ہمیشہ موقعے سے غائب رہنے والی پولیس اس پابندی کے لگتے ہی حفاظتی ناکے چھوڑ چھاڑ کر گلی ، محلوں ، بازاروں اور نکڑوں پر چکر کاٹتی نظر آرہی ہوتی ہے۔ان کی ڈیوٹی کے مقام پر اس دوران کوئی بم بھی رکھ سکتا ہے اور کوئی واردات بھی ہوسکتی ہے، لیکن ان کی بلا سے۔
شہر میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات ہوں یا شہریوں کے ساتھ راہزنوں کی لوٹ مار، پولیس ہمیشہ دیر سے ہی پہنچتی ہے لیکن بھلاہو اس ڈبل سواری پر پابندی کا جس کے لگتے ہی پولیس شہریوں کو اس پابندی کی خلاف ورزی کی مد میں آدم بو آدم بو کرتی ڈھونڈتی نظر آتی ہے، لیکن دہشت گرد، ٹارگٹ کلرز ، موبائل چھیننے والوں کو اس تیزی سے تلاش وگرفتار نہیں کرتی ۔کیا ہماری پولیس ان مجرموں کو دیکھ نہیں پاتی؟ پولیس کی ساری مستعدی صرف شہریوں کو تنگ کرنے تک محدود نظر آتی ہے۔
موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی کے حوالے سے حکومت ہمیشہ سے یہی راگ الاپتی نظر آئی ہے کہ اس اقدام سے دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام میں مدد ملتی ہے، لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ دہشت گرد باآسانی اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔حکومت کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جو لوگ شہر میں خوف و ہراس اور دہشت گردی کی وارداتوں کے لیے موٹر سائیکل پر جدید وخود کار اسلحہ لے کر نکلتے ہیں انھیں اس بات سے کیا ڈر وخوف ہو سکتا ہے کہ حکومتی اہلکار انھیں روکیں گے ۔اس لیے اس تدبیر کو مسئلے کا مستقل حل قرار دینا ہرگز درست نہیں۔
دوسری بات یہ بھی ہے کہ جرائم کی وارداتیں کرنے والے افراد کار اور دیگر گاڑیوں کا بھی استعمال کرتے ہیں،اس طرح تو ان پر بھی پابندی لگادینی چاہیے، صرف موٹر سائیکل پر ڈبل سواری کی پابندی سے تو براہ راست صرف متوسط اور غریب طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد متاثر ہوتے ہیں۔ ڈبل سواری پر پابندی لگا کر قانون نافذ کرنے والے ادارے محض ٹامک ٹوئیاں مار ر ہے ہیں۔ حکومت کو اور کچھ نہیں سوجھتا تو لے دے کر موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی عائد کرکے اس کبوتر کی طرح خود کو خطرے سے محفوظ تصور کرنے لگتی ہے جو بلی کو سامنے دیکھ کر بجائے اپنا بچاؤ کرنے کے آنکھیں بند کرلیتا ہے۔