صاحب اختیار ہو آگ لگا دیا کرو
سو پاکستانی قوم تو بڑی مظلوم ہے کہ اس کے مقدر میں سوائے پریشانیوں کے کچھ نہیں
عجب سانحہ ہے کہ اس دور بے ہنراں میں مسیحائی بھی باقی نہ رہی۔ معاشرتی برائیاں کب نہیں تھیں مگر اتنی نہیں کہ معاشرہ تو غائب ہوگیا اور برائی رہ گئی۔کیا یہ سچ نہیں ہے کہ فی زمانہ کوئی کسی کے لیے اچھا بھی نہیں سوچتا اس کی وجہ وقت کی کمیابی ہے یا خودغرضی؟ کوئی وقت تھا کہ صحرا میں بھی پھول کھلا کرتے تھے جس کی خوشبو جسم و جاں کو معطر کردیتی تھی، چہرے دمکتے تھے اور روح سرشاری میں رقص کرتی تھی، پھر یوں ہوا کہ سرسبز و شاداب درختوں سے امن کی فاختائیں گھائل ہو ہو کر گرنے لگیں، فضا میں پھیلی ہوئی محبت کی مہک بارود کی بو میں بدل گئی، ہاتھوں میں ہاتھ نہ رہے اور اسلحہ آگیا، کمیں گاہوں میں چھپے ہوئے دوستوں کے چہرے بے نقاب ہونے لگے۔
اس افراتفری کے عالم میں ہر شخص اپنے ہی حصار میں زندہ رہنے لگا۔ پڑوس میں کون بھوکا سویا، کس کے گھر کا چولہا نہ جلا، کس کے ہاں مہلک بیماریوں نے ڈیرہ ڈال لیا، کسی کو کسی کا پتہ نہیں، بے خبری کا اک گرداب ہے۔ میرے خوابوں کی سرزمین لہولہان ہے، یہ پاکستان ہے جہاں کے بسنے والوں کے چہروں سے تازگی رخصت ہوگئی، سب کے دامن تار تار ہیں اور گریباں چاک، سوائے ان کے جنہوں نے عوام کو بدحالی میں مبتلا کیا، باہر کے بینکوں میں سرکاری خزانے سے اربوں ڈالر منتقل کیے، بے شمار، بے حساب مراعات لیں اور مزید لینے کے لیے دوبارہ ایوانوں میں آگئے۔
گرانی کے ساتھ سرگرانی لازمی ہے۔ زندگی مصائب کے صد راستے پر کھڑی اپنے ہونے پر شرمندہ ہے، تقسیم کے بعد پیدا ہونے والوں نے تو خیر ہجرت کا سفر دیکھا ہی نہیں مگر وہ جو اپنا گھر بار، مال و متاع چھوڑ کر اپنے پیاروں کو سپرد اجل کرکے اس اسلامی مملکت میں آئے، ان کو کیا ملا کہ ہر طرف بندر بانٹ ہے، سفارشیں ہیں، اقرباپروری ہے، قوم پرستی ہے، ایک مدت کے بعد مدتوں امید اور انتظار کے درمیان کھڑے ہم سوچ رہے ہیں کہ
کیا اس لیے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے
''بچ'' جائے نشیمن تو کوئی آگ لگادے
آج ہندوستان میں کتنے صوبے، کتنی قومیتیں، کتنی زبانیں اور تہذیبیں موجود ہیں، مگر کیا وہ سب آپس میں اسی طرح دست و گریباں رہتے ہیں۔ انھیں اپنے ہندوستانی ہونے پر ناز ہے جب کہ ہم اپنے آپ کو پاکستانی کہنے میں عار محسوس کرتے ہیں، ہم سندھی ہیں، پنجابی ہیں، پٹھان ہیں کے گرداب میں اس خوبصورت وطن کے چہرے کو داغ دار کر رہے ہیں جہاں سب کچھ ہمارا ہوسکتا تھا۔بلوچستان کے وسیع و عریض، بلند وبالا کوہساروں میں معدنیات ہی پورے پاکستان کو مالا مال کرنے کے لیے کافی ہیں، یہاں تیل کے ذخائر بھی ہیں اور کوئلے کی کانیں بھی، یہاں گندم بھی ہے اور پھلوں کے انبار بھی، یہاں کے سمندر سی فوڈ کا خزانہ ہیں، مگر قدرت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ
ہم ہی نے خون بخشا تھا بہاروں کو گلستاں میں
ہم ہی محروم ہیں لیکن بہاروں میں گلستاں سے
سو پاکستانی قوم تو بڑی مظلوم ہے کہ اس کے مقدر میں سوائے پریشانیوں کے کچھ نہیں، مگر بات پھر وہیں آکر ٹھہر جاتی ہے تو اسے منزل کی تلاش نہیں ہے ورنہ درست سمت میں چلنے والے ان خودغرض سیاستدانوں کے ہاتھوں میں حکومت کی باگ ڈور نہیں دیتے۔اب ماہ مبارک آپہنچا ہے، عبادتوں اور سعادتوں کا مہینہ، ثواب کمانے اور دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ، نزول قرآن کی آمد کا مہینہ، غریبوں، ناداروں، لاوارثوں، ناتوانوں کی حتی الامکان مدد کا مہینہ، زکوٰۃ، خیرات اور صدقات کا مہینہ، مگر اسی قابل احترام ماہ میں اشیائے خورونوش کی قیمتیں ایک عام انسان کی پہنچ سے باہر ہیں، گویا سحری اور افطاری کا اہتمام بھی اہل ثروت کی قسمت میں ہے، سبزی فروش کہتے ہیں منڈی میں ہی مال مہنگا ہے تو ہم سستا کیسے بیچیں، سستی تو بس ایک ہی چیز ہے ''انسان'' جو شہر میں گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں اور پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔
ضروریات زندگی دسترس سے باہر ہیں، بازاروں میں رونقیں وہ نہیں جو کبھی تھیں، دل کے آنگن سونے پڑے ہیں، نگاہوں میں حسرت ہے، یاس ہے، مسئلہ روزی روٹی کا ہو، بجلی کا، گیس کا یا پانی کا، کون سا شعبہ ایسا ہے جہاں دھاندلی اور بے ایمانی نہیں ہے۔اسی دمکتے چمکتے شہر میں کبھی رات گئے چہل پہل ہوتی تھی، عزیزوں، دوستوں کے ہاں آنا جانا تھا، اب ہم صرف نوکری کے لیے، گھر کے ضروری سامان کے لیے، شادی کے لیے اور تفریح کے لیے ہی دہلیز سے قدم باہر نکالتے اور گھر لوٹتے وقت خیریت سے پہنچنے کی دعائیں مانگتے، بہت سے علاقوں میں اس لیے نہیں جاتے کہ وہاں ہر روز کسی نہ کسی کی مسخ شدہ، تشدد زدہ لاش ملتی ہے، ہم لاشوں کے اس شہر میں زندہ تو ہیں مگر فی الحال، کل کس سمت سے کس نکڑ، کس گلی سے گولی ہمارے تعاقب میں آئے اور ہم بن بلائے دنیا چھوڑ جائیں۔
سرکاری میٹنگز، امن وامان کی صورت حال پر اجلاس حکومت کی سہ رکنی، چھ رکنی، بارہ رکنی کمیٹیاں تشکیل پاتی ہیں، قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے ہدایت نامے جاری ہوتے ہیں، قاتل اول تو پکڑے نہیں جاتے اور اگر پکڑے گئے تو انھیں چھوڑنے میں دیر نہیں کی جاتی، کچھ اور نہیں تو ضمانت پر ہی رہا ہوجاتے ہیں، قانون نافذ کرنے والے خود جرائم میں شامل ہوجاتے ہیں، بس وہی لوگ کچھ سکون سے ہیں جنہوں نے اپنا مال بیرون ملک منتقل کردیا ہے۔
اندازہ کہتا ہے کہ اب اس ملک میں پانچ فیصد لوگ بھی ایماندار، دیانت دار نہیں رہے، حصول زر کی دوڑ میں سب وحشی اندھے گھوڑوں کی طرح سرپٹ دوڑے جارہے ہیں۔ جہاں سے آئے، جتنا آئے، جس قدر آئے سمیٹ لو کیونکہ Some Thing is Better than Nothing والی بات ہے۔ ہمارا میڈیا بہت آزاد ہے، آئینہ دکھاتا رہتا ہے اور لوگوں سے داد بھی وصول کرتا ہے مگر اس میڈیا میں حق اور سچائی کی بات کرنے والے بعض افراد خود کتنے صاحب کردار ہیں اور سرکار سے کتنی مراعات لیتے ہیں یہ ایک الگ بحث ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ آج معاشرتی برائیوں کی فہرست ناقابل شمار ہے، دور تک کوئی نظر نہیں آتا جو مہاتیر محمد اور چواین لائی کی طرح اس بکھرتے ہوئے ملک کو سنبھال لے۔آج سے پانچ سال بعد پھر الیکشن ہوں گے، پھر ووٹ پڑیں گے پھر وہی چہرے ہوں گے، پھر وہی نظام پھر وہی وعدے ہوں گے، پھر وہی عہد و پیماں۔ یہ سفر یوں ہی چلتا رہے گا گویا
یہ دنیا یوں ہی رہے گی اور سارے جانور
اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گے
آئیے! رمضان کی ان بابرکت راتوں میں اپنے خالق سے نہایت عجزوعاجزی سے گڑگڑا کر دعا مانگیں کہ خدا پاکستان کی حفاظت کرے! اور ارباب اختیار سے ایک درخواست کریں گے کہ آج پوری قوم جو لوڈشیڈنگ کے عذاب میں گلے گلے ڈوب چکی ہے تم سے کہیں یہ کہنے پر مجبور نہ ہوجائے کہ
شہر اگر طلب کرے تم سے علاج تیرگی
صاحب اختیار ہو آگ لگادیا کرو