معاشی چیلنجز حقائق و امکانات
سو دنوں کے مثبت سفرکا تقاضہ یہی تھا کہ اس میں عوام پر کوئی نیا ٹیکس نہ لگایا جاتا
ملکی اقتصادیات اور معاشی بریک تھروکے لیے تاحال پی ٹی آئی حکومت سر توڑکوششوں میں مصروف ہے، معاشی مبصرین کا کہنا ہے کہ جس مربوط ، منظم اور ٹریکل ڈاؤن ثمرات کی عوام جو توقع کر رہے ہیں ، اس میں کامیابی کے متضاد دعوے ہیں، وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ غربت اورکرپشن کے خلاف جہاد ہمارا عزم ہے اور حکومت کی کئی ٹاسک فورس،کمیٹیاں ، مشاورتی فورمز اورکونسلزکی تگ ودو معیشت کا ایک یقینی روڈ میپ مرتب کرنے کا صرف منظر نامہ پیش کرنے کی میڈیائی کوششوں تک محدود ہے جب کہ ضرورت اور چیلنج حکومت مخالف قوتوں کو ایک بڑے سنگ میل کو عبور کرنے کی عملی کامیابی سے مشروط ہے۔ غیر جانبدار معاشی حلقوں اور ملکی تجارتی اورکاروباری انڈیکس پر نظریں مرکوز کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ صورت حال خاصی گنجلک ہوگئی ہے۔
معیشت کو جن زمینی اور ٹھوس مالیاتی بحران اور مشکل معاملات نے حصار میں لے رکھا ہے اس سے نکلنے کے لیے بے پناہ معاشی بصیرت ، دلیرانہ فیصلوں ، شفاف اقدامات اور پیدا شدہ اقتصادی گرداب سے نکلنے کی دانش مندانہ حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے ، تاہم اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ماہرین معاشی گتھیوں کو سلجھانے کی مشق ناتمام میں مصروف دکھائی دیتے ہیں، ادھر حکومتی ذرایع عوام کو یقین دلا رہے ہیں کہ بحران نام کی کوئی چیز موجود نہیں ، ادائیگیوں کا مسئلہ حل ہوچکا ، عوام حکومت کوکچھ وقت دیں اور پھر دیکھیں کہ حکومت معاشی سمت کی درستگی کے لیے کتنے اہم اور سنجیدہ اقدامات کرنے جا رہی ہے۔ بلاشبہ معاشی چیلنجز موجودہ صورت حال میں اعصاب شکن ہیں اور جن معاشی مسائل کا عوام اور ملک کو سامنا ہے وہ قوم کو بے چین رکھے ہوئے ہیں۔
وجہ اس کی پی ٹی آئی کے انتخابی وعدوں ،خوشنما نعروں، اور غیر معمولی تبدیلی کے خوابوں کی تعبیروں میں تاخیر اور بے عملی بھی ہے، دوسری وجہ معاشی مسیحاؤں کی بے تدبیری ، ناتجربہ کاری ، داخلی کشمکش، دباؤ اور زمینی اقتصادی حقائق سے لاعلمی کا شاخسانہ ہے، لہذا پی ٹی آئی حکومت کے لیے معاشی پلان کی تیاری میں غفلت ، ہوم ورک سے گریز اور اقتدار میں آتے ہی اس احساس کا ادراک کہ قوم کو اتنی جلدی کیا معاشی ثمرات دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان قوتوں کو بھی شاید اندازہ نہ تھا کہ ملکی معیشت کا پہیہ گھومنے اور قرضوں کے بوجھ سے نجات کے لیے وزیراعظم کو ڈراسٹک ایکشن لینے کی ضرورت تھی اور ان کے پاس دھرنے کے دورانیے میں اپنا اقتصادی روڈ میپ اور اکنامک پالیسی پوری جامعیت کے ساتھ موجود ہونی چاہیے تھی۔ عمران خان کے پاس الہ دین کا چراغ بلاشبہ نہیں ہے، ان پر اپوزیشن کا دباؤ بھی شدید ہے، حکومت کے اپنے معاشی اقدامات اور حکمت عملی بھی ہمہ جہتی تضادات کا شکار ہے ۔
جب کہ سو دنوں کے مثبت سفرکا تقاضہ یہی تھا کہ اس میں عوام پر کوئی نیا ٹیکس نہ لگایا جاتا، گیس ، بجلی ، پٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے سے گریزکی عملیت پسندی اختیارکی جاتی مگر ، اپنے پہلے ہی بجٹ میں حکومت پھنس گئی، اب نیا منی بجٹ آرہا ہے، رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران گیس 42.66 فیصد، پٹرول26.41 فیصد مہنگا، تعلیم 12.61 فیصد مہنگی ہوئی جب کہ رواں مالی سال 2018-19کی پہلی ششماہی کے دوران ملک میں مجموعی طور پر مہنگائی میں 6.5 فیصد جب کہ گزشتہ ماہ (دسمبر) میں مہنگائی کی شرح میں6.17 فیصد اضافہ ہوا۔ اعداد وشمار کے مطابق گیس کی قیمت میں 42.66 فیصد ، سونا 5.75 فیصد اور ایل پی جی 6.69 فیصد مہنگی ہوئی مٹی کا تیل 32.60 فیصد اور موٹر فیول 26.41 فیصد مہنگا ہوا۔
دال مونگ 4 فیصد اور چائے کی پتی 3.48 فیصد مہنگی ہوئی ۔ عوام پر مہنگائی بم گرائے گئے، بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے عاجز عوام کو ایک بار پھر نہ صرف بنیادی ضروریات کے حصول میں مشکلات در پیش ہیں بلکہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پانی کی قلت ، گیس کے کم پریشر یا عدم فراہمی ، بجلی کی 8 سے 12گھنٹے کی اذیت ناک لوڈ شیڈنگ اور سی این جی کی بندش سے عوام کے اعصاب جواب دے چکے ہیں ، نئی بسیں سڑکوں پر نہیں لائی جاسکیں، ماس ٹرانزٹ پروگرام کا کچھ پتا نہیں ، سرکلر ریلوے کے فنکشنل ہونے کے لیے تجاوزات کا خاتمہ ضروری ہے۔ وزیراعظم نے کراچی کو وفاق کی طرف سے ہر ممکن مدد دینے کا عندیہ دیا ہے اور وہ چاہیں تو شہر قائد کو دنیا کا صاف ستھرا شہر بنانے کے اپنے وعدے کی تکمیل بھی کرسکتے ہیں ، مگر اس کے لیے وعدے یا انتظار فردا کی کوئی گنجائش نہیں ۔ بہرکیف کچھ مثبت اشارے بھی ملے ہیں۔
ادھر اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حکومت معاشی ، ترقی اور استحکام کے عمل میں بھی مخاصمت ، انتقام اور ضدکی پالیسی پر قائم ہے، یہ حقیقت ہے کہ حکومت کے مشیران خزانہ اور اقتصادی پنڈت معاشی حقائق کو نہ چھپائیں ۔ اس بات سے کسی کو انکار نہیں کی چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے امداد میں پہل کی ہے، پاکستان ان ملکوں کا مشکور ہے مگر پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے، اس کے 22کروڑ عوام قرضوں ،گرانٹ کے سہارے زندہ نہیں رہ سکتے ، حکومت کا اولین چیلنج معیشت کو اپنے پیروں پرکھڑا کرنا ہے اور یہ کام عمران خان اور ان کی معاشی ٹیم کو ہی سرانجام دینا ہے ، لیکن اس کے لیے لازم ہے کہ میڈیا میں گردش کرنے والی خبروں اور افواہوں کا فوری تدارک ہو، عوام کو اطمینان نصیب ہونا چاہیے، حکومت اس بات کی تحقیق کرے کہ واقعی اس کے ان چار مہینوں میں قرضوں کا حجم اب تک لیے گئے قرضوں سے زیادہ ہے ، معیشت کی بحالی کے لیے اقتصادی سرنگ سے باہر آنے میں دیر مت لگایے ۔
عالمی معاشی عوامل کا ادراک کرتے ہوئے ملک کوگردشی قرضوں ، بیروزگاری ، غربت اور صحت وتعلیم کے شعبے میں انقلابی تبدلیوں کا آغازکرنے کی ضرورت ہے۔ ابھی تک کوئی تجارتی، صنعتی، تعلیم ، صحت، اور زرعی پالیسی کا اعلان نہیں کیا گیا، زرعی شعبہ دگرگوں ہے، آلو، مٹر کی فصل اور دیگر سبزیوں کے کاشتکار مسائل کا شکار ہیں، فاقوں کی نوبت آئی ہے، سبزیوں کی پیداواری لاگت بڑھ جانے سے زرعی اجناس اگانے والے ہاری و مزارع مفلسی کی تصویر بن گئے ، حتیٰ کہ گنے کے کاشتکار تک سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہوئے، کھاد ، بیج، بجلی، ڈیزل، زرعی آلات و مداخل مہنگائی کی لپیٹ میں ہیں ، کسان کو اپنی محنت کا صلہ بھی نہیں مل رہا۔ دریں اثناء بیجنگ میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ہفتہ وار بریفنگ کے دوران کہا پاکستان سدا بہار دوست اور اسٹرٹیجک پارٹنرہے، اقتصادی و سماجی ترقی کے لیے چین اس کی معاونت جاری رکھے گا ، سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو ایک ارب ڈالرقرض کی تیسری قسط رواں ماہ موصول ہونے کی یقین دہانی خوش آیند ہے ۔اب حکومت کے لیے معاشی بریک تھروکے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں۔
معیشت کو جن زمینی اور ٹھوس مالیاتی بحران اور مشکل معاملات نے حصار میں لے رکھا ہے اس سے نکلنے کے لیے بے پناہ معاشی بصیرت ، دلیرانہ فیصلوں ، شفاف اقدامات اور پیدا شدہ اقتصادی گرداب سے نکلنے کی دانش مندانہ حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے ، تاہم اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ماہرین معاشی گتھیوں کو سلجھانے کی مشق ناتمام میں مصروف دکھائی دیتے ہیں، ادھر حکومتی ذرایع عوام کو یقین دلا رہے ہیں کہ بحران نام کی کوئی چیز موجود نہیں ، ادائیگیوں کا مسئلہ حل ہوچکا ، عوام حکومت کوکچھ وقت دیں اور پھر دیکھیں کہ حکومت معاشی سمت کی درستگی کے لیے کتنے اہم اور سنجیدہ اقدامات کرنے جا رہی ہے۔ بلاشبہ معاشی چیلنجز موجودہ صورت حال میں اعصاب شکن ہیں اور جن معاشی مسائل کا عوام اور ملک کو سامنا ہے وہ قوم کو بے چین رکھے ہوئے ہیں۔
وجہ اس کی پی ٹی آئی کے انتخابی وعدوں ،خوشنما نعروں، اور غیر معمولی تبدیلی کے خوابوں کی تعبیروں میں تاخیر اور بے عملی بھی ہے، دوسری وجہ معاشی مسیحاؤں کی بے تدبیری ، ناتجربہ کاری ، داخلی کشمکش، دباؤ اور زمینی اقتصادی حقائق سے لاعلمی کا شاخسانہ ہے، لہذا پی ٹی آئی حکومت کے لیے معاشی پلان کی تیاری میں غفلت ، ہوم ورک سے گریز اور اقتدار میں آتے ہی اس احساس کا ادراک کہ قوم کو اتنی جلدی کیا معاشی ثمرات دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان قوتوں کو بھی شاید اندازہ نہ تھا کہ ملکی معیشت کا پہیہ گھومنے اور قرضوں کے بوجھ سے نجات کے لیے وزیراعظم کو ڈراسٹک ایکشن لینے کی ضرورت تھی اور ان کے پاس دھرنے کے دورانیے میں اپنا اقتصادی روڈ میپ اور اکنامک پالیسی پوری جامعیت کے ساتھ موجود ہونی چاہیے تھی۔ عمران خان کے پاس الہ دین کا چراغ بلاشبہ نہیں ہے، ان پر اپوزیشن کا دباؤ بھی شدید ہے، حکومت کے اپنے معاشی اقدامات اور حکمت عملی بھی ہمہ جہتی تضادات کا شکار ہے ۔
جب کہ سو دنوں کے مثبت سفرکا تقاضہ یہی تھا کہ اس میں عوام پر کوئی نیا ٹیکس نہ لگایا جاتا، گیس ، بجلی ، پٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے سے گریزکی عملیت پسندی اختیارکی جاتی مگر ، اپنے پہلے ہی بجٹ میں حکومت پھنس گئی، اب نیا منی بجٹ آرہا ہے، رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران گیس 42.66 فیصد، پٹرول26.41 فیصد مہنگا، تعلیم 12.61 فیصد مہنگی ہوئی جب کہ رواں مالی سال 2018-19کی پہلی ششماہی کے دوران ملک میں مجموعی طور پر مہنگائی میں 6.5 فیصد جب کہ گزشتہ ماہ (دسمبر) میں مہنگائی کی شرح میں6.17 فیصد اضافہ ہوا۔ اعداد وشمار کے مطابق گیس کی قیمت میں 42.66 فیصد ، سونا 5.75 فیصد اور ایل پی جی 6.69 فیصد مہنگی ہوئی مٹی کا تیل 32.60 فیصد اور موٹر فیول 26.41 فیصد مہنگا ہوا۔
دال مونگ 4 فیصد اور چائے کی پتی 3.48 فیصد مہنگی ہوئی ۔ عوام پر مہنگائی بم گرائے گئے، بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے عاجز عوام کو ایک بار پھر نہ صرف بنیادی ضروریات کے حصول میں مشکلات در پیش ہیں بلکہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پانی کی قلت ، گیس کے کم پریشر یا عدم فراہمی ، بجلی کی 8 سے 12گھنٹے کی اذیت ناک لوڈ شیڈنگ اور سی این جی کی بندش سے عوام کے اعصاب جواب دے چکے ہیں ، نئی بسیں سڑکوں پر نہیں لائی جاسکیں، ماس ٹرانزٹ پروگرام کا کچھ پتا نہیں ، سرکلر ریلوے کے فنکشنل ہونے کے لیے تجاوزات کا خاتمہ ضروری ہے۔ وزیراعظم نے کراچی کو وفاق کی طرف سے ہر ممکن مدد دینے کا عندیہ دیا ہے اور وہ چاہیں تو شہر قائد کو دنیا کا صاف ستھرا شہر بنانے کے اپنے وعدے کی تکمیل بھی کرسکتے ہیں ، مگر اس کے لیے وعدے یا انتظار فردا کی کوئی گنجائش نہیں ۔ بہرکیف کچھ مثبت اشارے بھی ملے ہیں۔
ادھر اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حکومت معاشی ، ترقی اور استحکام کے عمل میں بھی مخاصمت ، انتقام اور ضدکی پالیسی پر قائم ہے، یہ حقیقت ہے کہ حکومت کے مشیران خزانہ اور اقتصادی پنڈت معاشی حقائق کو نہ چھپائیں ۔ اس بات سے کسی کو انکار نہیں کی چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے امداد میں پہل کی ہے، پاکستان ان ملکوں کا مشکور ہے مگر پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے، اس کے 22کروڑ عوام قرضوں ،گرانٹ کے سہارے زندہ نہیں رہ سکتے ، حکومت کا اولین چیلنج معیشت کو اپنے پیروں پرکھڑا کرنا ہے اور یہ کام عمران خان اور ان کی معاشی ٹیم کو ہی سرانجام دینا ہے ، لیکن اس کے لیے لازم ہے کہ میڈیا میں گردش کرنے والی خبروں اور افواہوں کا فوری تدارک ہو، عوام کو اطمینان نصیب ہونا چاہیے، حکومت اس بات کی تحقیق کرے کہ واقعی اس کے ان چار مہینوں میں قرضوں کا حجم اب تک لیے گئے قرضوں سے زیادہ ہے ، معیشت کی بحالی کے لیے اقتصادی سرنگ سے باہر آنے میں دیر مت لگایے ۔
عالمی معاشی عوامل کا ادراک کرتے ہوئے ملک کوگردشی قرضوں ، بیروزگاری ، غربت اور صحت وتعلیم کے شعبے میں انقلابی تبدلیوں کا آغازکرنے کی ضرورت ہے۔ ابھی تک کوئی تجارتی، صنعتی، تعلیم ، صحت، اور زرعی پالیسی کا اعلان نہیں کیا گیا، زرعی شعبہ دگرگوں ہے، آلو، مٹر کی فصل اور دیگر سبزیوں کے کاشتکار مسائل کا شکار ہیں، فاقوں کی نوبت آئی ہے، سبزیوں کی پیداواری لاگت بڑھ جانے سے زرعی اجناس اگانے والے ہاری و مزارع مفلسی کی تصویر بن گئے ، حتیٰ کہ گنے کے کاشتکار تک سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہوئے، کھاد ، بیج، بجلی، ڈیزل، زرعی آلات و مداخل مہنگائی کی لپیٹ میں ہیں ، کسان کو اپنی محنت کا صلہ بھی نہیں مل رہا۔ دریں اثناء بیجنگ میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ہفتہ وار بریفنگ کے دوران کہا پاکستان سدا بہار دوست اور اسٹرٹیجک پارٹنرہے، اقتصادی و سماجی ترقی کے لیے چین اس کی معاونت جاری رکھے گا ، سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو ایک ارب ڈالرقرض کی تیسری قسط رواں ماہ موصول ہونے کی یقین دہانی خوش آیند ہے ۔اب حکومت کے لیے معاشی بریک تھروکے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں۔