اصلی تصویر
راجستھان میں گرمی ویسے بھی بہت ہوتی ہے۔ بارات میں لڑکوں کے ساتھ ہم ناچتے کودتے بھی رہے تھے
''مَیں دہلی میں پیدا ہُوا ۔رہتا بھی دہلی ہی میں ہُوں لیکن میرا آبائی تعلق راجستھان سے ہے۔ جے پور کے ضلع ''داسو''کے ایک گاؤں سے۔ ہمارے کئی رشتہ دار اب بھی جے پور کے اِسی گاؤں میں رہتے ہیں۔ایک دفعہ ہمارے ایک عزیز کی شادی تھی۔ مَیں بھی بارات کے ساتھ اپنے آبائی گاؤں گیا۔گرمی بڑی تھی۔
راجستھان میں گرمی ویسے بھی بہت ہوتی ہے۔ بارات میں لڑکوں کے ساتھ ہم ناچتے کودتے بھی رہے تھے۔ گاؤں پہنچا تو مجھے شدید پیاس نے آلیا۔ گلی میں سے گزرتے ہُوئے مَیں نے ایک دروازے پر دستک دی ۔ ایک عورت اندر سے برآمد ہُوئی تو اُس سے پانی پلانے کی گزارش کی۔ بارات گلی میں باجے بجاتی ہُوئی خاصی آگے جا چکی تھی۔ عورت اندر سے نکلی تو اُس کے ہاتھ میں پانی کاایک پیالہ تھا۔ پیالہ میری جانب بڑھانے سے پہلے اُس نے مجھے پوچھا: تم بھی اِسی بارات کے ساتھ ہو؟ مَیں نے اثبات میں جواب دیا۔ سُن کر اُس نے کہا: تمہیں پانی نہیں پلا سکتی، تم تو دَلت( نچلی ذات کے ہندو) ہو، تمہیں پانی پلاؤں گی تو میرا برتن پلید ہو جائے گا۔ وہ پانی کا پیالہ اندر لے گئی۔ میرا دل ایک چھناکے سے ٹوٹ گیا۔
مجھے یہ تو معلوم تھا کہ میرا تعلق دَلت خاندان سے ہے لیکن عملی طور پر یہ میری زندگی کا پہلا تلخ تجربہ تھا جس نے مجھے بتا دیا کہ میرے اپنے وطن ، بھارت ، میں نچلی ذات کے ہندوؤں کی زندگیاں کیسے جہنم سے گزررہی ہیں۔'' انھوں نے مزید کہا:'' مجھ سے پوچھئے کہ بھارت میں چھوت چھات اور ذات کی اونچ نیچ کس کس انداز میں ظلم و استحصال کا بازار گرم رکھے ہُوئے ہے۔ اگر آپ نچلی ذات سے تعلق رکھتے ہیں اور بھارت کے سب سے بڑے سیاسی عہدے پر بھی فائز ہیں تو بھی آپ کو سماجی حقارت کا سامنا کرنا پڑے گا۔'' یہ حیران کن اور پریشان کن الفاظ اجے نویریا کے ہیں ۔
چھیالیس سالہ اجے نویریا صاحب بھارت کے اُبھرتے ہُوئے افسانہ نویس، ناول نگار ، ماہرِ تعلیم اور دانشور ہیں۔دہلی کے ایک معروف تعلیمی ادارے، جامعہ ملیہ اسلامیہ، میں ہندی لٹریچر کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ دہلی ہی کی ممتاز ترین یونیورسٹی، جے این یو، سے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مراحل طے کیے ۔ غربت ، تنگدستی اور امتیازی ماحول کی تنگنائیوں سے نکل کر اس مقام تک پہنچے ہیں۔اُن کے دادا مالی تھے اور والد صاحب بھی کچھ عرصہ تک مالی ہی رہے لیکن پھر وہ ڈاکیہ بن گئے ۔
صبح سویرے مالی کے فرائض انجام دیتے اور پھر ڈاک بانٹنے چلے جاتے۔ پانچ بچے تھے ۔ انھیں پالنا اور تعلیم دلانا آسان نہیں تھا ۔ دل میں مگر اُمید کا ایک الاؤ روشن تھا کہ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوانی ہے۔ آگے اللہ مالک ہے۔اجے نویریا کا تعلیمی ریکارڈ نہائت شاندار ہے ۔دلت ہونے کے ناتے اُن کے دل پر جتنے زخم لگے ہیں، اُن سے ہار جاتے تو شائد اپنے باپ دادا کی سی پسماندہ اور عسرت زدہ زندگی گزارتے رہتے اور سماجی طور پر پچھڑ جانے کو قسمت کا لکھا سمجھ لیتے۔ انھوں نے مگر حساس دل پایا تھا ۔ اِسی حساسیت نے انھیں افسانہ لکھنے کی طرف مائل کیا اور جن شدید سماجی اور معاشی دکھوں سے وہ اور اُن کے باپ دادا گزرے تھے، اُنہی تلخیوں کو انھوں نے اپنے افسانوں اور ناولوں کا موضوع بنایا۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ یہی ادب اب اُن کی طاقت ، شہرت اور عزت کا باعث بن گیا ہے۔
دَلت ہونے کے ناتے جے پور کے آبائی گاؤں میں انھیں جس تلخ ترین تجربے سے گزرنا پڑا تھا، اُسی کی بنیاد پر اجے نویریا صاحب نے ''کُہرا'' نامی ایک طویل افسانہ قلمبند کیا۔ یہ اُن کا پہلا افسانہ تھا اور پہلے افسانے ہی نے انھیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔اُن کی دوسری کہانی'' روائت'' کے عنوان سے تھی جس نے بھارتی امتیازی سماج پر ایک طمانچہ رسید کیا۔ ادبی نقادوں کا کہنا ہے کہ نام نہاد اونچی ذات کے ہندو بھی یہ افسانہ پڑھ کر اشک بہا دیتے ہیں۔ اجے نویریا کے افسانے اور ناول دراصل بھارت کے غیر مساویانہ سماج کی باطنی چنگیزیت کو برہنہ کرتے ہیں۔ اُن کے الفاظ تلوار سے زیادہ کاٹ دار اور پیغام زہر میں بجھا نظر آتا ہے۔ اُن کے ناول'' اُدھر کے لوگ'' نے ادبی دُنیا میں دھومیں مچا رکھی ہیں۔ اُن کے مختصر افسانوں کا ایک مجموعہ Unclaimed Terrainکے زیر عنوان ترجمہ ہُوا ہے تو اجے نویریا کے نام کی بازگشت عالمِ مغرب میں بھی سنائی دینے لگی ہے۔
بھارتی ادیب مگر اُن سے شدید ناراض ہیں کہ اجے نویریا دانستہ اپنے افسانوں، ناولٹ اور ناولوں میں بھارت کے سیاسی، سماجی اور معاشی برہمنوں کو ٹارگٹ کر رہے ہیں جس کی وجہ سے بیرونِ ملک بھارت کا چہرہ سیاہ نظر آرہا ہے۔ اجے نویریا کا مگر یہ کہنا ہے کہ میری لکھی کہانیوں میں جو دُنیا نظر آرہی ہے، اُن کا خمیر مَیں نے اپنے ملک اور اپنے سماج سے اُٹھایا ہے۔ کیا کوئی بھارتی برہمن ان سچائیوں کا انکار کر سکتا ہے؟ واقعہ بھی یہ ہے کہ اس بانکے سجیلے دلت رائٹر کو جھٹلانا کسی بھارتی برہمن کے بس کی بات نہیں ہے۔
اجے نویریا بھارت کی باطنی چنگیزیت کو عیاں کرتے ہُوئے کہتے ہیں:''میرے والد نے مجھے ایک روز بتایا کہ جے پور سے دہلی واپسی پر راستے میں ایک ڈھابہ پر چائے پینے کے لیے وہ رکے۔ ڈھابہ مالک کو جب معلوم ہُوا کہ وہ دَلت ہیں تو اُس نے میرے والد سے کہا کہ چائے پی کر اپنے کپ کو خود ریت سے مانجھ کر جانا ہوگا۔ میرے والد نے پو چھا: کپ کی کیا قیمت ہے؟ وہ چارپائی سے اُٹھے ، کپ کو زمین پر نفرت سے مار کر ریزہ ریزہ کر دیا ، چائے اور کپ کے پیسے ادا کیے اور بس پر سوار ہو گئے۔''اجے نویریا اپنے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں:''مَیں نے اپنی عملی زندگی میں کبھی کسی بھارتی برہمن چپڑاسی کو کسی دَلت بیوروکریٹ (IAS)کو پانی یا چائے پیش کرتے ہُوئے نہیں دیکھا ہے۔''اس روئیے سے اُن کے دل میں جو نفرت پیدا ہُوئی ، اس کا بدلہ اجے نویریا نے Yes Sirنامی افسانہ لکھ کر لیا ہے۔
بھارت میں نچلی ذات کے ہندوؤں سے جو غیر انسانی اور بہیمانہ سلوک کیا جاتا ہے، پاکستان میں کوئی مسلمان شہری اور پاکستانی اقلیتوں کا کوئی رکن اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ا س غیر انسانی روئیے نے بھارت میں نچلی ذات کے ذہین ، دَلت ادیبوں کو یکجا کر دیا، اس اعلان کے ساتھ کہ:'' اگر بھارت کے برہمنی ادیب اور شاعر ہمیں اپنے لٹریری پاور اسٹرکچر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دو گے تو ہم اپنا الگ لٹریری پاور اسٹرکچر تخلیق کرلیتے ہیں۔''۔یوں دلت لٹریچرکی ایک الگ ہی دُنیا بسائی گئی ہے ۔ اور اس دُنیا نے سب کو حیران کررکھا ہے۔ ۔حیران کن لٹریچر تخلیق کرنے والے بھارتی دلت ادیبوں میں موہن داس نمیش رائے اور اوم پرکاش والمیکی سامنے آئے ہیں جن کی تحریروں میں ہمیں بھارت کی اصل تصویر نظر آتی ہے ۔
اُن کی تخلیقات نے بھارت سمیت مغربی دُنیا کو بھی حیران کررکھا ہے۔ اوم پرکاش والمیکی نے '' ٹھاکر کا کنواں'' نامی نظم لکھ کر جہاں برہمنی سماج کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ مارا ہے، وہیں اوم پرکاش والمیکی صاحب نے ''جُوٹھن'' کے نام سے اپنی سوانح حیات لکھ کر بھارتی سماج کی باطنی چنگیزیت کو عیاں کیا ہے۔ اس کتاب کا اب دُنیا کی کئی معروف زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔
راقم نے چند ہفتوں میں ''جوٹھن'' کا مطالعہ ختم کیا تو خود سے پوچھا: یاخدایا، کیا کسی معاشرے میں اپنے ہی جیسے انسانوں کو نچلی ذات قرار دے کر اُن سے ایسا شرمناک سلوک بھی ہو سکتاہے؟لیکن بھارت میں اب بھی ایسا ہورہا ہے اور کروڑوں انسان شب وروز اس بہیمانہ سلوک کے بھینٹ چڑھائے جارہے ہیں۔ ظلم پسند بھارتیوں نے اپنے ملک کا آئین لکھنے والے شخص( ڈاکٹر امبیڈکر) کو بھی اِسی بہیمانہ سلوک کے بھینٹ چڑھا دیا تھا۔ ڈاکٹر امبیڈکر کا ''گناہ'' یہ تھا کہ وہ دَلت خاندان کے سپوت تھے؛ چنانچہ افسانہ نگار اجے نویریا سچ کہتے ہیں کہ'' بھارتی اپنے کسی دلت شہری کو صدر تو بنا سکتے ہیں لیکن دل میں اُسے نیچ جانتے اور اُس کا احترام نہیں کرتے ہیں۔''یہی تو بھارت کی اصلی تصویر ہے( واضح رہے بھارت کے ایک سابق صدر کے آر نارائنن دَلت تھے۔ موجودہ صدر ، رام ناتھ کووند، بھی دَلت ہیں)۔
راجستھان میں گرمی ویسے بھی بہت ہوتی ہے۔ بارات میں لڑکوں کے ساتھ ہم ناچتے کودتے بھی رہے تھے۔ گاؤں پہنچا تو مجھے شدید پیاس نے آلیا۔ گلی میں سے گزرتے ہُوئے مَیں نے ایک دروازے پر دستک دی ۔ ایک عورت اندر سے برآمد ہُوئی تو اُس سے پانی پلانے کی گزارش کی۔ بارات گلی میں باجے بجاتی ہُوئی خاصی آگے جا چکی تھی۔ عورت اندر سے نکلی تو اُس کے ہاتھ میں پانی کاایک پیالہ تھا۔ پیالہ میری جانب بڑھانے سے پہلے اُس نے مجھے پوچھا: تم بھی اِسی بارات کے ساتھ ہو؟ مَیں نے اثبات میں جواب دیا۔ سُن کر اُس نے کہا: تمہیں پانی نہیں پلا سکتی، تم تو دَلت( نچلی ذات کے ہندو) ہو، تمہیں پانی پلاؤں گی تو میرا برتن پلید ہو جائے گا۔ وہ پانی کا پیالہ اندر لے گئی۔ میرا دل ایک چھناکے سے ٹوٹ گیا۔
مجھے یہ تو معلوم تھا کہ میرا تعلق دَلت خاندان سے ہے لیکن عملی طور پر یہ میری زندگی کا پہلا تلخ تجربہ تھا جس نے مجھے بتا دیا کہ میرے اپنے وطن ، بھارت ، میں نچلی ذات کے ہندوؤں کی زندگیاں کیسے جہنم سے گزررہی ہیں۔'' انھوں نے مزید کہا:'' مجھ سے پوچھئے کہ بھارت میں چھوت چھات اور ذات کی اونچ نیچ کس کس انداز میں ظلم و استحصال کا بازار گرم رکھے ہُوئے ہے۔ اگر آپ نچلی ذات سے تعلق رکھتے ہیں اور بھارت کے سب سے بڑے سیاسی عہدے پر بھی فائز ہیں تو بھی آپ کو سماجی حقارت کا سامنا کرنا پڑے گا۔'' یہ حیران کن اور پریشان کن الفاظ اجے نویریا کے ہیں ۔
چھیالیس سالہ اجے نویریا صاحب بھارت کے اُبھرتے ہُوئے افسانہ نویس، ناول نگار ، ماہرِ تعلیم اور دانشور ہیں۔دہلی کے ایک معروف تعلیمی ادارے، جامعہ ملیہ اسلامیہ، میں ہندی لٹریچر کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ دہلی ہی کی ممتاز ترین یونیورسٹی، جے این یو، سے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مراحل طے کیے ۔ غربت ، تنگدستی اور امتیازی ماحول کی تنگنائیوں سے نکل کر اس مقام تک پہنچے ہیں۔اُن کے دادا مالی تھے اور والد صاحب بھی کچھ عرصہ تک مالی ہی رہے لیکن پھر وہ ڈاکیہ بن گئے ۔
صبح سویرے مالی کے فرائض انجام دیتے اور پھر ڈاک بانٹنے چلے جاتے۔ پانچ بچے تھے ۔ انھیں پالنا اور تعلیم دلانا آسان نہیں تھا ۔ دل میں مگر اُمید کا ایک الاؤ روشن تھا کہ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوانی ہے۔ آگے اللہ مالک ہے۔اجے نویریا کا تعلیمی ریکارڈ نہائت شاندار ہے ۔دلت ہونے کے ناتے اُن کے دل پر جتنے زخم لگے ہیں، اُن سے ہار جاتے تو شائد اپنے باپ دادا کی سی پسماندہ اور عسرت زدہ زندگی گزارتے رہتے اور سماجی طور پر پچھڑ جانے کو قسمت کا لکھا سمجھ لیتے۔ انھوں نے مگر حساس دل پایا تھا ۔ اِسی حساسیت نے انھیں افسانہ لکھنے کی طرف مائل کیا اور جن شدید سماجی اور معاشی دکھوں سے وہ اور اُن کے باپ دادا گزرے تھے، اُنہی تلخیوں کو انھوں نے اپنے افسانوں اور ناولوں کا موضوع بنایا۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ یہی ادب اب اُن کی طاقت ، شہرت اور عزت کا باعث بن گیا ہے۔
دَلت ہونے کے ناتے جے پور کے آبائی گاؤں میں انھیں جس تلخ ترین تجربے سے گزرنا پڑا تھا، اُسی کی بنیاد پر اجے نویریا صاحب نے ''کُہرا'' نامی ایک طویل افسانہ قلمبند کیا۔ یہ اُن کا پہلا افسانہ تھا اور پہلے افسانے ہی نے انھیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔اُن کی دوسری کہانی'' روائت'' کے عنوان سے تھی جس نے بھارتی امتیازی سماج پر ایک طمانچہ رسید کیا۔ ادبی نقادوں کا کہنا ہے کہ نام نہاد اونچی ذات کے ہندو بھی یہ افسانہ پڑھ کر اشک بہا دیتے ہیں۔ اجے نویریا کے افسانے اور ناول دراصل بھارت کے غیر مساویانہ سماج کی باطنی چنگیزیت کو برہنہ کرتے ہیں۔ اُن کے الفاظ تلوار سے زیادہ کاٹ دار اور پیغام زہر میں بجھا نظر آتا ہے۔ اُن کے ناول'' اُدھر کے لوگ'' نے ادبی دُنیا میں دھومیں مچا رکھی ہیں۔ اُن کے مختصر افسانوں کا ایک مجموعہ Unclaimed Terrainکے زیر عنوان ترجمہ ہُوا ہے تو اجے نویریا کے نام کی بازگشت عالمِ مغرب میں بھی سنائی دینے لگی ہے۔
بھارتی ادیب مگر اُن سے شدید ناراض ہیں کہ اجے نویریا دانستہ اپنے افسانوں، ناولٹ اور ناولوں میں بھارت کے سیاسی، سماجی اور معاشی برہمنوں کو ٹارگٹ کر رہے ہیں جس کی وجہ سے بیرونِ ملک بھارت کا چہرہ سیاہ نظر آرہا ہے۔ اجے نویریا کا مگر یہ کہنا ہے کہ میری لکھی کہانیوں میں جو دُنیا نظر آرہی ہے، اُن کا خمیر مَیں نے اپنے ملک اور اپنے سماج سے اُٹھایا ہے۔ کیا کوئی بھارتی برہمن ان سچائیوں کا انکار کر سکتا ہے؟ واقعہ بھی یہ ہے کہ اس بانکے سجیلے دلت رائٹر کو جھٹلانا کسی بھارتی برہمن کے بس کی بات نہیں ہے۔
اجے نویریا بھارت کی باطنی چنگیزیت کو عیاں کرتے ہُوئے کہتے ہیں:''میرے والد نے مجھے ایک روز بتایا کہ جے پور سے دہلی واپسی پر راستے میں ایک ڈھابہ پر چائے پینے کے لیے وہ رکے۔ ڈھابہ مالک کو جب معلوم ہُوا کہ وہ دَلت ہیں تو اُس نے میرے والد سے کہا کہ چائے پی کر اپنے کپ کو خود ریت سے مانجھ کر جانا ہوگا۔ میرے والد نے پو چھا: کپ کی کیا قیمت ہے؟ وہ چارپائی سے اُٹھے ، کپ کو زمین پر نفرت سے مار کر ریزہ ریزہ کر دیا ، چائے اور کپ کے پیسے ادا کیے اور بس پر سوار ہو گئے۔''اجے نویریا اپنے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں:''مَیں نے اپنی عملی زندگی میں کبھی کسی بھارتی برہمن چپڑاسی کو کسی دَلت بیوروکریٹ (IAS)کو پانی یا چائے پیش کرتے ہُوئے نہیں دیکھا ہے۔''اس روئیے سے اُن کے دل میں جو نفرت پیدا ہُوئی ، اس کا بدلہ اجے نویریا نے Yes Sirنامی افسانہ لکھ کر لیا ہے۔
بھارت میں نچلی ذات کے ہندوؤں سے جو غیر انسانی اور بہیمانہ سلوک کیا جاتا ہے، پاکستان میں کوئی مسلمان شہری اور پاکستانی اقلیتوں کا کوئی رکن اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ا س غیر انسانی روئیے نے بھارت میں نچلی ذات کے ذہین ، دَلت ادیبوں کو یکجا کر دیا، اس اعلان کے ساتھ کہ:'' اگر بھارت کے برہمنی ادیب اور شاعر ہمیں اپنے لٹریری پاور اسٹرکچر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دو گے تو ہم اپنا الگ لٹریری پاور اسٹرکچر تخلیق کرلیتے ہیں۔''۔یوں دلت لٹریچرکی ایک الگ ہی دُنیا بسائی گئی ہے ۔ اور اس دُنیا نے سب کو حیران کررکھا ہے۔ ۔حیران کن لٹریچر تخلیق کرنے والے بھارتی دلت ادیبوں میں موہن داس نمیش رائے اور اوم پرکاش والمیکی سامنے آئے ہیں جن کی تحریروں میں ہمیں بھارت کی اصل تصویر نظر آتی ہے ۔
اُن کی تخلیقات نے بھارت سمیت مغربی دُنیا کو بھی حیران کررکھا ہے۔ اوم پرکاش والمیکی نے '' ٹھاکر کا کنواں'' نامی نظم لکھ کر جہاں برہمنی سماج کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ مارا ہے، وہیں اوم پرکاش والمیکی صاحب نے ''جُوٹھن'' کے نام سے اپنی سوانح حیات لکھ کر بھارتی سماج کی باطنی چنگیزیت کو عیاں کیا ہے۔ اس کتاب کا اب دُنیا کی کئی معروف زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔
راقم نے چند ہفتوں میں ''جوٹھن'' کا مطالعہ ختم کیا تو خود سے پوچھا: یاخدایا، کیا کسی معاشرے میں اپنے ہی جیسے انسانوں کو نچلی ذات قرار دے کر اُن سے ایسا شرمناک سلوک بھی ہو سکتاہے؟لیکن بھارت میں اب بھی ایسا ہورہا ہے اور کروڑوں انسان شب وروز اس بہیمانہ سلوک کے بھینٹ چڑھائے جارہے ہیں۔ ظلم پسند بھارتیوں نے اپنے ملک کا آئین لکھنے والے شخص( ڈاکٹر امبیڈکر) کو بھی اِسی بہیمانہ سلوک کے بھینٹ چڑھا دیا تھا۔ ڈاکٹر امبیڈکر کا ''گناہ'' یہ تھا کہ وہ دَلت خاندان کے سپوت تھے؛ چنانچہ افسانہ نگار اجے نویریا سچ کہتے ہیں کہ'' بھارتی اپنے کسی دلت شہری کو صدر تو بنا سکتے ہیں لیکن دل میں اُسے نیچ جانتے اور اُس کا احترام نہیں کرتے ہیں۔''یہی تو بھارت کی اصلی تصویر ہے( واضح رہے بھارت کے ایک سابق صدر کے آر نارائنن دَلت تھے۔ موجودہ صدر ، رام ناتھ کووند، بھی دَلت ہیں)۔