میری پہلی کتاب
میرے لیے دوست، اُستاد، رہنما اور قائد سے بڑھ کر سب کچھ ہیں
میری پہلی کتاب 'تلخیاں'(کالموں کا مجموعہ )کی رونمائی تقریب کل بروز ہفتہ ہو رہی ہے، اس کتاب میں میرے قلم سے نکلے وہ الفاظ ہیں جو روزنامہ ایکسپریس کی زینت بنتے رہے جس کے لیے میں خاص طور پرگروپ ایڈیٹر روزنامہ ایکسپریس ایاز خان، ایڈیٹر ایڈیٹوریل لطیف چوہدری اور اعجاز ا لحق سمیت پوری ٹیم کا شکرگزار ہوں جنہوں نے ہر لمحہ رہنمائی کی۔ ''تلخیاں'' لکھنے کا مقصد ملک میں موجود ان مسائل کی طرف نشاندہی کرنا ہے جن سے ہم بطور قوم، بطور معاشرہ اور بطور انسان پیچھے رہ گئے ہیں۔
یہاں ہر روزایک لاکھ بچے پیدا ہوتے مگر کوئی انقلابی پیدا نہیں ہوتا، کیوں کہ یہاں بدعنوانیاں جو کبھی چھپ کر اور شرمندگی سے کی جاتیں تھیں آج کھلے عام اپنا حق سمجھ کر کی جاتی ہیں۔ حکومتیں اور ریاست گزشتہ 71سال سے لوٹ ما ر ، کرپشن اور عوام پر ظلم و جبر اور بھیانک استحصال کا بے رحم ہتھیار اور اوزار بن چکی ہیں اسی لیے آج بھی عوام بے سہارا اور لاوارث رہے۔ آج وہ کون سا جرم ہے جو اس دھرتی ماں کی کوکھ میں نہیں ہوتا۔اسی لیے 1947ء میں جن آنکھوں نے آزادی ، امن اور خوشحالی کا خواب دیکھا تھا آج پتھرا چکی ہیں یا پھر خون کے آنسو رو ر رہی ہیں۔
پاک سر زمین کے لیے جدوجہد کرنے والے آج اپنی جدوجہد سے شرمندہ ہیں کیونکہ اس انتہائی وسیع طبقاتی سماج میں جسم فروشی سے ضمیر فروشی تک کا وہ بازار گرم ہے جو تاریخ نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ وکی لیکس سے پاناما لیکس تک مقامی اور عالمی حکمرانوں کے سیاسی اور مالی کالے دھندوں کی منہ بولتی فلمیں ہیں۔سوئس بینکوں کے اسکینڈل سے32 سے زائد خاندانوں کی پاکستان پر بادشاہت کے قصے آج نئے نہیں رہے۔ اور اسی مالیاتی لوٹ کھسوٹ کو قائم رکھنے کے لیے آج کے سیاسی اور ریاستی ڈھانچے کی آمرانہ تعمیر و تشکیل اس طرح کی گئی ہے۔ جس میں عوام کے سیاسی ، معاشی ، سماجی حقوق کو غصب کیا جاتا ہے اور اس کے خلاف عوامی مزاحمت روکنے کے لیے حکمران طبقات خود پاکستان میں مذہب ، رنگ ،نسل ، قوم کے نام پرخون کی ندیاں بہا رہے ہیں اور اس پرحب الوطنی کا کھلواڑ کیا جاتا ہے۔
بہرکیف ''تلخیاں'' میں میرے کالم انھی مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کالم ن لیگ کے ''سنہرے'' دور پر ہیں ، جس میں کرپشن، پاناما لیکس، اخلاقیات، اداروں کی تباہی، بیوروکریسی کی تباہی، چیک اینڈ بیلنس کا نہ ہونا، اقربا پروری، اپوزیشن کی ناقص حکمت عملیوں سمیت اُن عوامل پر روشنی ڈالی ہے جن کے حوالے سے ن لیگ آج پکڑ میں ہے اور اس کے متعدد لیڈران گرفتار کیے جا رہے ہیں۔ آپ کو اس کتاب میں شامل کالم پڑھ کر ایسا محسوس ہوگا کہ یہ موجودہ حالات کے لیے ہی لکھے گئے ہیں ان میں بیان کیے گئے پیش منظر واضح طور پر درست ثابت ہوئے ہیں جو نظریاتی سچائی کا ٹھوس ثبوت ہیں اور اگر پاکستان میں کوئی حقیقی تبدیلی آ سکتی ہے تو وہ یہی عوامی اور اشتراکی نظریات اور ان کے لیے جدوجہد ہے وگر نہ یہ تو ثابت شدہ ہے کہ چہروں کی تبدیلی نے عوام کا امن و سکون اور زندگی برباد ہی کی ہے۔اس کتاب میں میرے اُن چند دوستوں کے تاثرات بھی شامل ہیں جو میرے لیے دوست، اُستاد، رہنما اور قائد سے بڑھ کر سب کچھ ہیں۔
اس سے بھی بڑھ کر میں نے اپنی کتاب کا انتساب ان 'سویلین شہداء''اور اُن کے مظلوم خاندانوں کے نام کیا ہے جن کے لیے ڈھیروں چاہتوں، ہمدردیوں اور اُلفتوں کے باوجود میں کچھ نہیں کر سکا۔ لیکن میرے نزدیک پچھتاوا نااُمیدی کی علامت ہوتا ہے اور نااُمیدی گناہ ہے۔ لہٰذاہمیں ہر لمحہ کوشش کرتے رہنا چاہیے تاکہ ارباب اختیار کی کانوں میں شاید ہم رس گھولنے میں کامیاب ہو جائیں۔اسی طرح ''تلخیاں'' میں اگر تاثرات کے حوالے سے بات کی جائے تو اس میں عارف نظامی، امتیاز عالم ،حسن نثار جیسی ممتاز اور اُستاد شخصیات نے اپنے تاثرات درج کیے جو میرے لیے باعث عزت و فخر ہیں کہ ان کی رہنمائی ہمیشہ میرے لیے کارآمد رہی ہے۔
حسن نثار لکھتے ہیں کہ '' پاکستان سیاسی، انتظامی ،سماجی و دیگر مسائل کو جڑوں تک سمجھنے کے لیے علی کی یہ کاوش تاریخ کے طالب علموں کے لیے ایک ایسا تحفہ ہے جس کی ضرورت وقت کے ساتھ ساتھ مزید بڑھتی چلی جائے گی۔ '' اسی کتاب کے حوالے سے امتیاز عالم اپنے تاثرات میں لکھتے ہیں کہ ''تلخیاں بھی تلخ اور جابرانہ قوم پرستی کے جذبات کی مظہر ہے، جس کا یہ ناچیز متحمل نہیں۔ لہٰذاڈرتے ڈرتے اس ریویو کو یوں تمام کرتا ہوں کہ لکھنے سے پہلے یہ سوچنا کیوں ضروری ہے کہ کیا نہ لکھا جائے۔ اُمید ہے تھوڑا لکھا اس کتاب کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگا۔ آخر قارئین کو بھی تو کچھ بوجھ بٹاتے ہوئے اس کتاب کو پڑھ کر اپنی رائے قائم کرنی چاہیے، پھر میں کیوں پہلے ہی سے آپکی رائے کو متعصب کروں''اسی طرح عارف نظامی اپنے خیالات کو یوں قلم بند کرتے ہیں کہ ''تلخیاں کے کالموں میں یہ بات نمایاں ہے کہ مصنف وطن عزیز پر شخصی تسلط اور موروثی حکمرانی ہمیشہ کے لیے نقصان دہ رہی ہے۔
وہ سیاست میں بڑے عہدوں پر لمبی جاگیروں، بڑی دستاروں، اونچے طروں اور پھیلی ہوئی توندوں والے بے فکرے جاگیرداروں کے قبضے سے پریشان رہتا ہے۔ علی احمد کی سیاسی وابستگی کے بارے میں بتاتا چلوں کہ بھٹو دور، ضیاء الحق کے مارشل لاء اور بینظیر کے پہلی دفعہ اقتدار میں آنے تک وہ بطور سیاسی ورکر پیپلز پارٹی کے ساتھ رہے۔ مگر بعد میں وہ لوٹ مار کی سیاست کی وجہ سے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے سخت مخالف ہوگئے جسکی ایک جھلک آپ ان کے کالموں میں دیکھ سکتے ہیں۔ ''انھی تاثرات میں میری بیگم کے تاثرات بھی شامل ہے جنہوں نے ہر لمحہ میرا ساتھ دیا وہ لکھتی ہیں کہ ''بظاہر ایک لا اُبالی شخصیت نظر آنے والے علی اندر سے بہت سنجیدہ، باریک بین اور متجسس طبیعت کے مالک ہیں اور اس کی جھلک اُن کے کالموں میں نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ اگر میں ان کے کالموں کو تحقیقاتی کالم کہوں تو بے جا نہ ہوگا۔ ''
اگر تاثرات سے باہر نکلا جائے تو اس کتاب میں کم و بیش 150کالم شامل ہیں، اور اتنے ہی کالموں پر مشتمل مسودہ اشاعت کے لیے تیار پڑا ہے۔ ویسے تو سبھی کالم سیاسی، سماجی اور معاشی نوعیت کے ہیں، لیکن جن موضوعات کا احاطہ میں نے ذاتی دلچسپی لے کر کیا ہے اُن میں کرپشن، نام نہاد سیاستدانوں کی لوٹ کھسوٹ، تبدیلی، جمہوریت کے تباہ کن دس سال، افسر شاہی، سویلین شہدا، ملالہ، قانون کی سربلندی، شہنشاہی سیاست، ہارس ٹریڈنگ، عوام، تاریخ کے جھرنے، تعلیم، بینظیر شہادت کیس، ہمارا معاشرہ ، سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس، تفریحی ٹیکس، بلوچستان، پولیس، جمہوریت کی ''فتح ہوگئی، مگر عوام کو کیا ملا؟رہی بات پارٹی کارکنوں کی، انھوں نے تو شریفوں پر اپنا حق ادا کر دیا، مگر عوام کو کیا ملا؟ زرداریوں کی سندھ میں گزشتہ دس سال سے بلاشرکت غیرے حکومت ہے ، سندھ کے ہر ہر علاقے کو موہنجو دڑو بنا دیا ، تھر کے عوام تو آج بھی بھوکے مر رہے ہیں ، سندھ کے بیشتر علاقوں میں آج بھی عوام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔
وہاں نہ کوئی سڑک، نہ کوئی اسکول، نہ کوئی اسپتال اور نہ کوئی لیبارٹری ہے،سپریم کورٹ کہہ کہہ کر تھک گئی مگر مجال ہے کہ کوئی ٹس سے مس ہوجائے اور محض کوڑا کرکٹ کو ہی ٹھکانے لگا دیا جائے ۔ اگر یہ پیارے سیاسی رہنما کوڑا تک نہیں اُٹھا سکتے تو ایسے ''شہنشاہ سیاست ''کو عوام نے چومنا تھوڑی ہے؟ اور کیا شہنشاہ سیاست کو چومنے سے مریض صحت مند ہوجائے گا، کیا سندھ کا باسی پڑھا لکھا ہوجائے گا؟ کیا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے 1ہزار روپے ماہانہ حاصل کرنے والے یہ 21ویں صدی کے غریب محلوں میں رہنا شروع ہو جائیں گے؟ شرم کی حد تو یہ ہے کہ سندھ کا باسی آج بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ملیریا، ڈائیریا، چیچک، خوراک کی کمی سمیت بیشتر بیماریوں سے لڑ رہا ہے۔ '' اور پاکستان کی خارجہ و داخلہ پالیسیاں شامل ہیں۔ دعا ہے کہ آیندہ بھی ''تلخیاں'' کے قلم سے یوں ہی روشنیاں بکھرتی رہیں اورہم ملک وقوم کی یوں ہی خدمت کرتے رہیں(آمین)
یہاں ہر روزایک لاکھ بچے پیدا ہوتے مگر کوئی انقلابی پیدا نہیں ہوتا، کیوں کہ یہاں بدعنوانیاں جو کبھی چھپ کر اور شرمندگی سے کی جاتیں تھیں آج کھلے عام اپنا حق سمجھ کر کی جاتی ہیں۔ حکومتیں اور ریاست گزشتہ 71سال سے لوٹ ما ر ، کرپشن اور عوام پر ظلم و جبر اور بھیانک استحصال کا بے رحم ہتھیار اور اوزار بن چکی ہیں اسی لیے آج بھی عوام بے سہارا اور لاوارث رہے۔ آج وہ کون سا جرم ہے جو اس دھرتی ماں کی کوکھ میں نہیں ہوتا۔اسی لیے 1947ء میں جن آنکھوں نے آزادی ، امن اور خوشحالی کا خواب دیکھا تھا آج پتھرا چکی ہیں یا پھر خون کے آنسو رو ر رہی ہیں۔
پاک سر زمین کے لیے جدوجہد کرنے والے آج اپنی جدوجہد سے شرمندہ ہیں کیونکہ اس انتہائی وسیع طبقاتی سماج میں جسم فروشی سے ضمیر فروشی تک کا وہ بازار گرم ہے جو تاریخ نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ وکی لیکس سے پاناما لیکس تک مقامی اور عالمی حکمرانوں کے سیاسی اور مالی کالے دھندوں کی منہ بولتی فلمیں ہیں۔سوئس بینکوں کے اسکینڈل سے32 سے زائد خاندانوں کی پاکستان پر بادشاہت کے قصے آج نئے نہیں رہے۔ اور اسی مالیاتی لوٹ کھسوٹ کو قائم رکھنے کے لیے آج کے سیاسی اور ریاستی ڈھانچے کی آمرانہ تعمیر و تشکیل اس طرح کی گئی ہے۔ جس میں عوام کے سیاسی ، معاشی ، سماجی حقوق کو غصب کیا جاتا ہے اور اس کے خلاف عوامی مزاحمت روکنے کے لیے حکمران طبقات خود پاکستان میں مذہب ، رنگ ،نسل ، قوم کے نام پرخون کی ندیاں بہا رہے ہیں اور اس پرحب الوطنی کا کھلواڑ کیا جاتا ہے۔
بہرکیف ''تلخیاں'' میں میرے کالم انھی مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کالم ن لیگ کے ''سنہرے'' دور پر ہیں ، جس میں کرپشن، پاناما لیکس، اخلاقیات، اداروں کی تباہی، بیوروکریسی کی تباہی، چیک اینڈ بیلنس کا نہ ہونا، اقربا پروری، اپوزیشن کی ناقص حکمت عملیوں سمیت اُن عوامل پر روشنی ڈالی ہے جن کے حوالے سے ن لیگ آج پکڑ میں ہے اور اس کے متعدد لیڈران گرفتار کیے جا رہے ہیں۔ آپ کو اس کتاب میں شامل کالم پڑھ کر ایسا محسوس ہوگا کہ یہ موجودہ حالات کے لیے ہی لکھے گئے ہیں ان میں بیان کیے گئے پیش منظر واضح طور پر درست ثابت ہوئے ہیں جو نظریاتی سچائی کا ٹھوس ثبوت ہیں اور اگر پاکستان میں کوئی حقیقی تبدیلی آ سکتی ہے تو وہ یہی عوامی اور اشتراکی نظریات اور ان کے لیے جدوجہد ہے وگر نہ یہ تو ثابت شدہ ہے کہ چہروں کی تبدیلی نے عوام کا امن و سکون اور زندگی برباد ہی کی ہے۔اس کتاب میں میرے اُن چند دوستوں کے تاثرات بھی شامل ہیں جو میرے لیے دوست، اُستاد، رہنما اور قائد سے بڑھ کر سب کچھ ہیں۔
اس سے بھی بڑھ کر میں نے اپنی کتاب کا انتساب ان 'سویلین شہداء''اور اُن کے مظلوم خاندانوں کے نام کیا ہے جن کے لیے ڈھیروں چاہتوں، ہمدردیوں اور اُلفتوں کے باوجود میں کچھ نہیں کر سکا۔ لیکن میرے نزدیک پچھتاوا نااُمیدی کی علامت ہوتا ہے اور نااُمیدی گناہ ہے۔ لہٰذاہمیں ہر لمحہ کوشش کرتے رہنا چاہیے تاکہ ارباب اختیار کی کانوں میں شاید ہم رس گھولنے میں کامیاب ہو جائیں۔اسی طرح ''تلخیاں'' میں اگر تاثرات کے حوالے سے بات کی جائے تو اس میں عارف نظامی، امتیاز عالم ،حسن نثار جیسی ممتاز اور اُستاد شخصیات نے اپنے تاثرات درج کیے جو میرے لیے باعث عزت و فخر ہیں کہ ان کی رہنمائی ہمیشہ میرے لیے کارآمد رہی ہے۔
حسن نثار لکھتے ہیں کہ '' پاکستان سیاسی، انتظامی ،سماجی و دیگر مسائل کو جڑوں تک سمجھنے کے لیے علی کی یہ کاوش تاریخ کے طالب علموں کے لیے ایک ایسا تحفہ ہے جس کی ضرورت وقت کے ساتھ ساتھ مزید بڑھتی چلی جائے گی۔ '' اسی کتاب کے حوالے سے امتیاز عالم اپنے تاثرات میں لکھتے ہیں کہ ''تلخیاں بھی تلخ اور جابرانہ قوم پرستی کے جذبات کی مظہر ہے، جس کا یہ ناچیز متحمل نہیں۔ لہٰذاڈرتے ڈرتے اس ریویو کو یوں تمام کرتا ہوں کہ لکھنے سے پہلے یہ سوچنا کیوں ضروری ہے کہ کیا نہ لکھا جائے۔ اُمید ہے تھوڑا لکھا اس کتاب کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگا۔ آخر قارئین کو بھی تو کچھ بوجھ بٹاتے ہوئے اس کتاب کو پڑھ کر اپنی رائے قائم کرنی چاہیے، پھر میں کیوں پہلے ہی سے آپکی رائے کو متعصب کروں''اسی طرح عارف نظامی اپنے خیالات کو یوں قلم بند کرتے ہیں کہ ''تلخیاں کے کالموں میں یہ بات نمایاں ہے کہ مصنف وطن عزیز پر شخصی تسلط اور موروثی حکمرانی ہمیشہ کے لیے نقصان دہ رہی ہے۔
وہ سیاست میں بڑے عہدوں پر لمبی جاگیروں، بڑی دستاروں، اونچے طروں اور پھیلی ہوئی توندوں والے بے فکرے جاگیرداروں کے قبضے سے پریشان رہتا ہے۔ علی احمد کی سیاسی وابستگی کے بارے میں بتاتا چلوں کہ بھٹو دور، ضیاء الحق کے مارشل لاء اور بینظیر کے پہلی دفعہ اقتدار میں آنے تک وہ بطور سیاسی ورکر پیپلز پارٹی کے ساتھ رہے۔ مگر بعد میں وہ لوٹ مار کی سیاست کی وجہ سے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے سخت مخالف ہوگئے جسکی ایک جھلک آپ ان کے کالموں میں دیکھ سکتے ہیں۔ ''انھی تاثرات میں میری بیگم کے تاثرات بھی شامل ہے جنہوں نے ہر لمحہ میرا ساتھ دیا وہ لکھتی ہیں کہ ''بظاہر ایک لا اُبالی شخصیت نظر آنے والے علی اندر سے بہت سنجیدہ، باریک بین اور متجسس طبیعت کے مالک ہیں اور اس کی جھلک اُن کے کالموں میں نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ اگر میں ان کے کالموں کو تحقیقاتی کالم کہوں تو بے جا نہ ہوگا۔ ''
اگر تاثرات سے باہر نکلا جائے تو اس کتاب میں کم و بیش 150کالم شامل ہیں، اور اتنے ہی کالموں پر مشتمل مسودہ اشاعت کے لیے تیار پڑا ہے۔ ویسے تو سبھی کالم سیاسی، سماجی اور معاشی نوعیت کے ہیں، لیکن جن موضوعات کا احاطہ میں نے ذاتی دلچسپی لے کر کیا ہے اُن میں کرپشن، نام نہاد سیاستدانوں کی لوٹ کھسوٹ، تبدیلی، جمہوریت کے تباہ کن دس سال، افسر شاہی، سویلین شہدا، ملالہ، قانون کی سربلندی، شہنشاہی سیاست، ہارس ٹریڈنگ، عوام، تاریخ کے جھرنے، تعلیم، بینظیر شہادت کیس، ہمارا معاشرہ ، سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس، تفریحی ٹیکس، بلوچستان، پولیس، جمہوریت کی ''فتح ہوگئی، مگر عوام کو کیا ملا؟رہی بات پارٹی کارکنوں کی، انھوں نے تو شریفوں پر اپنا حق ادا کر دیا، مگر عوام کو کیا ملا؟ زرداریوں کی سندھ میں گزشتہ دس سال سے بلاشرکت غیرے حکومت ہے ، سندھ کے ہر ہر علاقے کو موہنجو دڑو بنا دیا ، تھر کے عوام تو آج بھی بھوکے مر رہے ہیں ، سندھ کے بیشتر علاقوں میں آج بھی عوام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔
وہاں نہ کوئی سڑک، نہ کوئی اسکول، نہ کوئی اسپتال اور نہ کوئی لیبارٹری ہے،سپریم کورٹ کہہ کہہ کر تھک گئی مگر مجال ہے کہ کوئی ٹس سے مس ہوجائے اور محض کوڑا کرکٹ کو ہی ٹھکانے لگا دیا جائے ۔ اگر یہ پیارے سیاسی رہنما کوڑا تک نہیں اُٹھا سکتے تو ایسے ''شہنشاہ سیاست ''کو عوام نے چومنا تھوڑی ہے؟ اور کیا شہنشاہ سیاست کو چومنے سے مریض صحت مند ہوجائے گا، کیا سندھ کا باسی پڑھا لکھا ہوجائے گا؟ کیا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے 1ہزار روپے ماہانہ حاصل کرنے والے یہ 21ویں صدی کے غریب محلوں میں رہنا شروع ہو جائیں گے؟ شرم کی حد تو یہ ہے کہ سندھ کا باسی آج بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ملیریا، ڈائیریا، چیچک، خوراک کی کمی سمیت بیشتر بیماریوں سے لڑ رہا ہے۔ '' اور پاکستان کی خارجہ و داخلہ پالیسیاں شامل ہیں۔ دعا ہے کہ آیندہ بھی ''تلخیاں'' کے قلم سے یوں ہی روشنیاں بکھرتی رہیں اورہم ملک وقوم کی یوں ہی خدمت کرتے رہیں(آمین)