کرپشن کا 20 سالہ عروج
احتساب جج نے دو دہائیوں میں کرپشن عروج پر پہنچ جانے کے ریمارکس دیے ہیں
احتساب عدالت کے جج نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ ملک میں کرپشن عروج پر پہنچ چکی ہے اور یہ سب کچھ گزشتہ دو دہائیوں کے درمیان ہوا ہے۔ اس سے قبل سپریم کورٹ کے فاضل جج کرپشن روکنے اور پکڑنے کے ایک با اختیار ادارے نیب کے لیے کہہ چکے ہیں کہ نیب سے بارگیننگ کرلو اور جان چھڑاؤ۔ فاضل جج کے ان ریمارکس کو تقویت اس لیے مل رہی ہے کہ نیب کی طرف سے بڑے فخر سے میڈیا میں دعوے سامنے آئے ہیں کہ نیب نے اتنی بڑی اربوں روپے کی رقم بدعنوانوں سے وصول کرکے حکومت کو دے دی ہے۔
اس رقم میں نیب والوں کو بھی قانونی طور حصہ ملتا ہے مگر فخر سے یہ بات نہیں کی جاتی کہ نیب مقدمات میں کتنے بدعنوانوں پر عدالتوں پر مقدمات ثابت کرکے انھیں سزا دلائی گئی۔
نیب کے تین مقدمات میں دو میں سزا پانے والے سابق وزیر اعظم نواز شریف فخریہ طور پر دعویٰ کر رہے ہیں کہ '' بہ فضل خدا میرا ضمیر مطمئن ہے کہ نیب مجھ پرکرپشن توکیا کوئی کک بیک اورکمیشن ثابت نہیں کرسکی ۔'' سابق صدر آصف زرداری جیلوں میں سب سے زیادہ عرصہ قید رہنے کا ریکارڈ رکھتے ہیں اور کرپشن کے تمام مقدمات میں باعزت بری ہونے کا سرکاری اعزاز بھی حاصل کرچکے ہیں ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ نیب ان کے خلاف کرپشن ثابت نہیں کرسکی تھی۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف مسلسل دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان پر ایک دھیلے کی بھی کرپشن ثابت نہیں کی جاسکی ہے۔
اپوزیشن کا الزام ہے کہ ان کا بے بنیاد یک طرفہ میڈیا ٹرائل ہو رہا ہے اور اپوزیشن کو حکومتی ملی بھگت سے گرفتار پہلے کرلیا جاتا ہے اور ثبوت بعد میں ڈھونڈے جاتے ہیں جس کا ثبوت کرپشن کے سنگین الزامات میں طویل عرصے قید میں رکھے جانے والے آصف زرداری کے بعد ڈاکٹر عاصم بھی ہیں جنھیں عدالتی ضمانت ملنے کے بعد اب بھی مقدمات کا سامنا ہے اور ثبوت نہ ہونے کی وجہ مقدمہ آگے نہیں بڑھ رہا اور پیشی پہ پیشی ہو رہی ہے۔ ملک میں یہ بھی ہوا کہ مقدمات میں ملوث ملزم ضمانت پر رہا ہوئے اور حکومتی مہربانی سے علاج کے بہانے ملک سے چلے گئے اور اب سپریم کورٹ کا استفسار ہے کہ علاج کراکر باہر جانے والی ایان علی کو کیسے واپس لایا جائے۔
بڑے لوگ جب تک گرفتار نہیں ہوتے اپنی بیماریوں سے لاعلم ہوتے ہیں اورگرفتار ہوتے ہی وہ سنگین بیماری کے باعث اسپتال منتقل ہوجاتے ہیں اور ان اسپتالوں کے مہنگے ترین پر تعیش آرام دہ کمروں میں آرام کرتے ہیں اور پرائیویٹ علاج کراتے ہیں۔بڑے لوگوں کے اسپتال میں وی آئی پی روم اور سہولتوں کا چیف جسٹس پاکستان خود معائنہ کرچکے ہیں جو سب جیل قرار پانے کے بعد شراب کو شہد میں تبدیل کرا دیتے ہیں اور اسمبلیوں میں آکر خطاب میں احتساب کرنے والوں پر الزامات لگا کر خود کو بے گناہ قرار دیتے ہیں۔
ملک کے عوام حیران ہیں کہ احتساب کی زد میں آکر جو بھی سرکاری افسر یا سیاستدان پکڑا جاتا ہے اس پر اربوں نہیں تو کروڑوں کی کرپشن کا الزام ضرور ہوتا ہے کیونکہ لاکھوں کی کرپشن تو شاید کرپشن شمار نہیں ہوتی۔ سرکاری افسروں کے بنگلوں سے برآمد ہونے والی بڑی بڑی رقمیں، غیر ملکی کرنسی میڈیا پر قوم دیکھتی رہتی ہے مگر ان بدعنوانوں کو ثبوت کے لیے عدالتوں میں پیش کیوں نہیں کیا جاتا کہ رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر انھیں سزا ملے مگر عدالتوں میں مہینوں گزر جانے کے بعد ان مبینہ بدعنوانوں کو ضمانت مل جاتی ہے سزا نہیں ملتی۔
سزا دینے کا اختیار عدالتوں کے اور کرپشن پر بارگیننگ کا اختیار احتساب کرنے والوں کے پاس ہے اس لیے کوئی ثبوت نہ ملنے پر عدالتیں عام طور پر انھیں سزا نہیں دے پاتیں تو قانونی طور پر ضمانت دے دیتی ہیں۔ اب ملک میں ہو یہ رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے برخلاف میڈیا پر آکر سرکاری افسران کرپشن کے انکشاف توکر جاتے ہیں مگر ثبوت حاصل کرکے کارروائی آگے نہیں بڑھاتے ، البتہ ان کا میڈیا ٹرائل ضرور ہوجاتا ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف اپنے احتساب الرحمن کے ذریعے آصف زرداری اور بے نظیر بھٹو کے خلاف کرپشن کا ثبوت نہ ملنے کے بعد اپنے دوسرے دور میں کہہ چکے تھے کہ کرپشن اب اس قدر جدید اور ٹیکنیک سے کی جاتی ہے کہ ثبوت نہیں چھوڑا جاتا اور ثبوت نہ ملنے پر وہ عدالتوں سے باعزت بری ہوتے آرہے ہیں۔
احتساب جج نے دو دہائیوں میں کرپشن عروج پر پہنچ جانے کے ریمارکس دیے ہیں اور اب اعلیٰ عدالت نے رہائی کے لیے بار ثبوت ملزم پر ڈال دیا ہے کہ وہ ثابت کرے کہ وہ بے گناہ ہے۔ اس فیصلے سے بدعنوانیاں پکڑنے والوں کو اور سہولت ہوگئی ہے اور وہ بغیر ثبوت انھیں پہلے گرفتار پھر بارگیننگ کرکے انھیں عدالتوں میں جانے کی زحمت نہیں دیں گے جس سے خود حکومت کو زیادہ اور انھیں کم فائدہ ہوگا اور حکومت کو کرپشن کے ذریعے لوٹے گئے کروڑوں روپے بھی واپس مل جائیں گے۔
قوم کو چار ماہ سے انصافی حکومتی کے وزیروں سے کرپشن، کرپشن اور صرف کرپشن پر کی جانے والی روزانہ کی میڈیا بریفنگ پر اتنا کچھ سننے کو مل رہا ہے کہ ان کے کان پک گئے ہیں اور نہیں مل رہا تو ثبوت نہیں مل رہے جن سے انھیں سزا دلائی جاسکے تو کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ بارگیننگ وسیع کرکے افسروں کی طرح سیاستدانوں کو بھی یہ موقعہ دے کر رقم وصول کی جائے۔