ڈالر کی ریکارڈ اُڑان پاکستان پھر آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر
افراط زر اور روپے کی بے قدری، منہگائی نے عام آدمی کی زندگی مزید مشکل بنادی
2018میں پاکستان کے سیاسی اور معاشی منظرنامے پر کافی ہل چل رہی۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی و بیشی کے کھیل نے برآمد کنندگان کو راتوں رات امیر بنا دیا تو اسی کھیل نے کئی درآمد کنندگان کو عرش سے فرش پر پٹخ دیا۔ دوسری جانب حصص بازار میں اتار چڑھاؤ، سیاسی منظرنامے میں لمحمہ بہ لمحہ ہوتی تبدیلی نے بھی سرمایہ کاروں کے اربوں روپے ڈبو دیے۔
عالمی بینک کے اعدا وشمار کے مطابق 2018 ء میں پاکستانی کی معاشی نمو میں اضافہ تو جاری رہا لیکن اسے میکرو اکنامکس عدم توازن میں اضافے کا سامنا رہا۔ اس وقت پاکستان کو معاشی نقطۂ نظر سے قلیل مدت میں لاحق درپیش سب سے اہم مسئلہ میکرو اکنامکس استحکام ہے۔ مالی سال 2018ء میں پاکستان کی جی ڈی پی (مجموعی خام پیداوار) میں گذشتہ مالی سال کے مقابلے میں صفر اعشاریہ آٹھ فی صد اضافہ ہوا۔ زیادہ تیزی خدماتی اور زراعتی شعبے میں ہونے والی بہتر کارکردگی کی بدولت ہوئی، جب کہ صنعتی شعبے میں سست روی دیکھی گئی۔ کم شرح سود کے ماحول نے نجی شعبے کی ساکھ میں اضافہ کیا جس سے کاروباری سرگرمیوں میں بہتری ہوئی۔
اگر طلب کی طرف دیکھا جائے تو اس میں نجی شعبے کی کھپت جی ڈی پی کا تقریبا 86 فی صد رہی۔ مالی سال 2018ء میں افراط زر کی شرح 3اعشاریہ 8فی صد رہی جو کہ گذشتہ مالی سال میں 4 اعشاریہ 2 فی صد تھی، جب کہ مرکزی بینک کا ہدف مالی سال 2018ء میں اسے چھے فی صد سے نیچے رکھنا تھا۔ مالی سال کے آغٖاز میں افراط زر میں بتدریج اضافہ ہونا شروع ہوا اور چوتھی سہہ ماہی میں روپے کی قدر میں کمی اور طلب میں اضافے کی وجہ سے افراط زر میں تیزی سے اضافہ ہوا۔
مالی سال 2018 ء میں جاری کھاتے ( کرنٹ اکاؤنٹ) میں خسارہ جی ڈی پی کا 5اعشاریہ 8 فی صد (اٹھارہ ارب دس کروڑ) رہنے کی وجہ سے ادائیگیوں کا توازن تناؤ کا شکار رہا۔ متواتر تین مالی سال تک ہونے والے معاہدوں کی وجہ سے برآمدات میں 12اعشاریہ6 فی صد اضافہ ہوا، لیکن درآمدات میں ہونے والے 14اعشاریہ7 فی صد اضافے کی وجہ سے نتیجہ تجارتی خسارے کی صورت میں رہا۔ حکومت نے درآمدات کی شرح میں کمی کے لیے ریگولیٹری ڈیوٹیز نافذ کی لیکن پھر بھی ایکسچینج ریٹ میں مجموعی طور پر اٹھارہ فی صد کی کمی ہوئی۔
مالی سال 2018ء کے دوسرے نصف میں طلب کے دباؤ میں کمی کے لیے پالیسی شرح سود میں175بیس پوائنٹ کا اضافہ کیا گیا، لیکن اس کے باجود بین الاقوامی ذخائر ستمبر2018 ء کے آغاز تک 9ارب ساٹھ کروڑ ڈالر کم ہوگئے۔ کم ہوتے ذخائر کو بڑھانے کے لیے حکومت نے بین الاقوامی مارکیٹ میں بانڈز اور کمرشیل اور آفیشل قرضے جاری کرنا شروع کردیے۔ اسی سال ملک میں ہونے والے عام انتخابات کی وجہ سے رواں مالی سال کا خسارہ مزید بدترین ہوکر جی ڈی پی کے 6اعشاریہ 6 فی صد تک پہنچ گیا، جو کہ مالی سال کے آغاز پر متعین کیے گئے ہدف سے دو اعشاریہ پانچ فی صد زائد ہے۔
مالیاتی گراوٹ کی اہم وجہ کم آمدن بڑھوتری کے ساتھ متواتر اخراجات میں اضافہ تھا۔ مالی سال 2018ء میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی ٹیکس آمدنی 14اعشاریہ 3 فی صد اضافے کے ساتھ تین ہزار آٹھ سو بیالیس ارب روپے رہی۔ مالی سال 2018ء میں متوقع شرح غربت میں کمی جاری رہی۔ بین الاقوامی خط غربت کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح میں دو ڈالر نوے سینٹ کی کمی ہوئی۔ اگر انسانی بہبود کے اشاروں کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے تو اس ضمن میں جنوب ایشیائی خطے میں پاکستان کی کارکردگی سب سے کم رہی خصوصاً تعلیم اور غربت کے شعبے میں۔ اگرچہ اسکول میں رجسٹر ہونے والے بچوں کی شرح میں اضافہ ہوا، لیکن یہ شرح ابھی بھی دیگر جنوب ایشیائی مما لک کے مقابلے میں کم ہے۔ شیر خوار اور پانچ سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات میں بھی یہی معاملہ ہے۔
حکم رانوں کے تمام تر دعووں کے باوجود تعلیم، صحت اور تمام معاشی شعبوں میں جنس کی بنیاد پر تفاوت کا سلسلہ اس سال بھی جاری رہا۔ اس پورے خطے میں پاکستان ابھی بھی خواتین کی سب سے کم افرادی قوت رکھنے والے ملکوں میں سے ایک ہے۔ حکم رانوں، سیاست دانوں کی جانب سے ہر سال کی طرح امسال بھی غربت مٹانے اور لوگوں کو دو وقت کی روٹی دینے کے وعدے کیے گئے جو صرف بیانات کی حد تک ہی محدود رہے۔ غذا کی فراہمی اس سال بھی سب سے اہم معاشی چیلنج رہا اور پانچ سال سے کم عمر کے 45 فی صد بچے غذائی قلت کا شکار رہے۔ مالی سال 2018ء میں صحت، غذا اور تعلیم کے شعبوں پر جی ڈی پی کا صرف تین فیصد مختص کیا گیا جو کہ آٹے میں نمک برابر اور خطے کے بہت سے ممالک کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔
سماجی شعبے میں بہتری کے لیے تعلیم، صحت جیسے اہم شعبوں کے بجٹ میں اضافہ ناگزیر ہے۔ بچوں کو اسکول میں داخل کرانے سے زیادہ توجہ تعلیم کے معیار پر مرکوز کرنا ہوگی تاکہ ہماری آنے والی نئی نسل کا مستقبل محفوظ ہوسکے، جب کہ ماں اور بچے کی غذائیت اور صحت پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ گذشتہ سال کے آغاز پر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر ایک سو دس روپے تک پہنچ گئی تھی، تادم تحریر ایک ڈالر ایک چالیس پاکستانی روپے کے برابر ہوچکا ہے اور اس میں اضافے کا رجحان جاری ہے۔
حال ہی میں ورلڈ بینک کی جانب سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کم زور معاشی ترقی اور غربت میں اضافے کی وجہ سے اگلے دو سال پاکستان کی معاشی صورت حال نازک رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس کی وجہ سے لوگوں کو غربت سے نکالنے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں دشواری ہو گی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو بڑھتے ہو ئے خسارے کو پائے دار بنیادوں پر طویل مدتی ترقی کے لیے کم کرنے کی ضرورت ہے، اور اس کے لیے پاکستان کو شرح نمو میں اضافے کے لیے مزید سرمایہ کاری اور صنعتی پیداوار کو فروغ دینا ہوگا۔
اس بارے میں ورلڈ بینک کے ڈائریکٹر النگانو پتچا موتو کا کہنا ہے کہ ''سرمایہ کاری اور صنعتی پیداوار میں اضافے سے زیادہ اور بہتر تنخواہوں والی ملازمتیں پیدا ہوں گی جو کہ مستقبل میں معاشی ترقی اور استحکام کے لیے ضروری ہیں۔ پاکستان جنوبی ایشیا کا واحد ملک ہے جس کے معاشی ترقی کے راستے محدود ہیں۔ پاکستان اس وقت گرتی معیشت کے حصار میں پھنسا ہوا ہے اور آمدن اور خرچ میں حائل وسیع فرق اسے کی معاشی حالت کو اور خراب کر رہا ہے، جب کہ اکنامک انٹیلی جنس یونٹ کی ایک رپورٹ میں پاکستان کی معاشی شرح نمو 9 سال کی کم ترین سطح تین فی صد پر رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی فنڈز کے پروگرام سے روپے کی قدر میں تو استحکام پیدا ہوگا لیکن دوسری جانب اس کی وجہ سے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال2019 ء تا 2023 ء میں منہگائی کی اوسط شرح 7 اعشاریہ 3 فی صد رہے گی، تاہم شرح سود میں اضافے سے منہگائی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اکنامک انٹیلی جنس یونٹ کی اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کو اس وقت عالمی ادائیگیوں کے اہم معاشی چیلنج کا سامنا ہے، کیوں کہ زرمبادلہ کے ذخائر 2 ماہ کی درآمدات کے لیے ناکافی ہیں۔
٭ معاشی نمو اور سرمایہ کاری، زراعت اور لائیو اسٹاک
پاکستان کی وزارت خزانہ کے اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ دو سالوں سے معاشی شرح نمو پانچ فی صد سے اوپر رہی، مالی سال 2018ء میں یہ 5اعشاریہ 79 فی صد تک پہنچ گئی، جو کہ زراعت، صنعت اور خدماتی شعبے میں اضافے کی وجہ سے ہوئی، ان شعبوں میں شرح نمو بالترتیب 3 اعشاریہ 81 فی صد، 5 اعشاریہ 80 فی صد اور 6 اعشاریہ 43 فی صد رہی۔ زراعت کے شعبے میں سب سے زیادہ بڑھوتری3 اعشاریہ81 فی صد ہوئی، جب کہ اس کا ہدف ساڑھے تین فی صد رکھا گیا تھا۔
زراعت کے شعبے میں بڑھوتری کا سہرا کسان پیکج کو جاتا ہے جس کے تحت کسانوں کو زیادہ پیداواری صلاحیت رکھنے والے ہائی برڈ بیج، کھاد اور جڑی بوٹی مار ادویات دی گئیں۔ لائیو اسٹاک کے شعبے میں 3 اعشاریہ 76 فی صد کی نمو ریکارڈ کی گئی جو کہ گذشتہ مالی سال میں 2 اعشاریہ 99 فی صد تھی۔ ماہی گیری کے شعبے میں 1اعشاریہ 63 فی صد اور جنگلات کے شعبے میں 7 اعشاریہ 17فی صد بڑھوتری ہوئی۔
٭صنعتی پیداوار اور کان کنی
مالی سال 2018ء کی پہلی سہہ ماہی میں پیداواری شعبے میں 6 اعشاریہ24 فی صد نمو ریکارڈ کی گئی جو کہ گذشتہ سال اسی عرصے میں 4 اعشاریہ 40 فی صد تھی۔ صنعتوں کی جانب سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ گذشتہ سال برقی مصنوعات کی پیداوار میں 38 اعشاریہ 79 فی صد، لوہے اور فولاد کی پیداوار میں 30 اعشاریہ 85 فی صد، آٹو موبائل میں 19 اعشاریہ 73 فی صد، غیر دھاتی معدنیاتی مصنوعات میں 11اعشاریہ87 فی صد، سیمنٹ میں 11اعشاریہ95 فی صد، پیٹرولیم مصنوعات میں 10اعشاریہ 26 فی صد، انجینئرنگ مصنوعات میں 5 اعشاریہ 21 فی صد، فارما سیوٹیکل مصنوعات میں 9 اعشاریہ 44 فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا، جب کہ سب سے کم شرح نمو ٹیکسٹائل اور فوڈ بیوریجز اور تمباکو کی مصنوعات پر بالترتیب صفر اعشاریہ47 فی صد اور 2اعشاریہ 33 فی صد رہی۔
گنے کی کرشنگ میں تاخیر کی وجہ سے اس شعبے میں بڑھوتری کی شرح منفی7 اعشاریہ 69 رہی۔ گذشتہ سال لکڑی کی مصنوعات میں 27 فی صد، فرٹیلائزر میں ساڑھے سات فی صد، چمڑے کی مصنوعات میں آٹھ فی صد اور کان کنی کے شعبے میں صفر اعشاریہ 38 فی صد کی کمی واقع ہوئی۔ روپے کی قدر کم ہونے کے باوجود ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات میں اضافہ نہ ہوسکا۔ معاشی ماہرین کی جانب سے ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر کم ہونے کی وجہ سے ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات میں اضافے کی توقع کی جارہی تھی، تاہم ایسا نہیں ہوسکا۔
وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق جولائی سے نومبر کے دوران ساڑھے 5 ارب ڈالر کی ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کی گئیں، جب کہ گذشتہ مالی سال کے اسی دورانیے میں ٹیکسٹائل برآمدات ساڑھے 5 ارب ڈالر ہی ریکارڈ کی گئی تھی۔ جولائی سے نومبر کے دوران کاٹن یارن کی برآمدات 15 فی صد کمی کے بعد 47 کروڑ ڈالر، نٹ ویئر 11 فی صد اضافے سے 1 ارب 21 کروڑ ڈالر، بیڈ ویئر کی برآمدات 2 فی صد اضافے سے 96 کروڑ ڈالر اور گارمنٹس کی برآمدات 1 ارب ڈالر تک محدود رہی۔
٭زر اور اُدھار
اس سال زری پالیسی میکرواکنامک ماحول کی جانب مائل رہی۔ جنوری 2018 تک زری پالیسی سب سے کم تاریخی پالیسی ریٹ 5اعشاریہ 75 فی صد پر مستحکم رہی۔ اسی ماہ مرکزی بینک نے تیل اور کموڈیٹیز میں ملکی طلب کے دباؤ کے نتیجے میں متوقع افراط زر کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے25 بیس پوائنٹس اضافے کے ساتھ چھے فی صد پر کردیا۔ مارچ 2018میں مرکزی بینک نے پالیسی کے اثرات کو دیکھنے کے لیے اسے مزید دو ماہ تک چھے فی صد پر برقرار رکھا۔ اسی ماہ زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوکر 472 ارب روپے پر پہنچ گئے۔ اسی سال سی پی آئی انڈیکس (کنزیومر پرائس انڈیکس) سال کی بلند ترین سطح 4 اعشاریہ6 فی صد پر پہنچ گیا، جس سے منہگائی کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اس سال افراط زر کی اوسط شرح 3اعشاریہ78فی صد رہی۔
سید بابر علی
babar.ali@express.com.pk
عالمی بینک کے اعدا وشمار کے مطابق 2018 ء میں پاکستانی کی معاشی نمو میں اضافہ تو جاری رہا لیکن اسے میکرو اکنامکس عدم توازن میں اضافے کا سامنا رہا۔ اس وقت پاکستان کو معاشی نقطۂ نظر سے قلیل مدت میں لاحق درپیش سب سے اہم مسئلہ میکرو اکنامکس استحکام ہے۔ مالی سال 2018ء میں پاکستان کی جی ڈی پی (مجموعی خام پیداوار) میں گذشتہ مالی سال کے مقابلے میں صفر اعشاریہ آٹھ فی صد اضافہ ہوا۔ زیادہ تیزی خدماتی اور زراعتی شعبے میں ہونے والی بہتر کارکردگی کی بدولت ہوئی، جب کہ صنعتی شعبے میں سست روی دیکھی گئی۔ کم شرح سود کے ماحول نے نجی شعبے کی ساکھ میں اضافہ کیا جس سے کاروباری سرگرمیوں میں بہتری ہوئی۔
اگر طلب کی طرف دیکھا جائے تو اس میں نجی شعبے کی کھپت جی ڈی پی کا تقریبا 86 فی صد رہی۔ مالی سال 2018ء میں افراط زر کی شرح 3اعشاریہ 8فی صد رہی جو کہ گذشتہ مالی سال میں 4 اعشاریہ 2 فی صد تھی، جب کہ مرکزی بینک کا ہدف مالی سال 2018ء میں اسے چھے فی صد سے نیچے رکھنا تھا۔ مالی سال کے آغٖاز میں افراط زر میں بتدریج اضافہ ہونا شروع ہوا اور چوتھی سہہ ماہی میں روپے کی قدر میں کمی اور طلب میں اضافے کی وجہ سے افراط زر میں تیزی سے اضافہ ہوا۔
مالی سال 2018 ء میں جاری کھاتے ( کرنٹ اکاؤنٹ) میں خسارہ جی ڈی پی کا 5اعشاریہ 8 فی صد (اٹھارہ ارب دس کروڑ) رہنے کی وجہ سے ادائیگیوں کا توازن تناؤ کا شکار رہا۔ متواتر تین مالی سال تک ہونے والے معاہدوں کی وجہ سے برآمدات میں 12اعشاریہ6 فی صد اضافہ ہوا، لیکن درآمدات میں ہونے والے 14اعشاریہ7 فی صد اضافے کی وجہ سے نتیجہ تجارتی خسارے کی صورت میں رہا۔ حکومت نے درآمدات کی شرح میں کمی کے لیے ریگولیٹری ڈیوٹیز نافذ کی لیکن پھر بھی ایکسچینج ریٹ میں مجموعی طور پر اٹھارہ فی صد کی کمی ہوئی۔
مالی سال 2018ء کے دوسرے نصف میں طلب کے دباؤ میں کمی کے لیے پالیسی شرح سود میں175بیس پوائنٹ کا اضافہ کیا گیا، لیکن اس کے باجود بین الاقوامی ذخائر ستمبر2018 ء کے آغاز تک 9ارب ساٹھ کروڑ ڈالر کم ہوگئے۔ کم ہوتے ذخائر کو بڑھانے کے لیے حکومت نے بین الاقوامی مارکیٹ میں بانڈز اور کمرشیل اور آفیشل قرضے جاری کرنا شروع کردیے۔ اسی سال ملک میں ہونے والے عام انتخابات کی وجہ سے رواں مالی سال کا خسارہ مزید بدترین ہوکر جی ڈی پی کے 6اعشاریہ 6 فی صد تک پہنچ گیا، جو کہ مالی سال کے آغاز پر متعین کیے گئے ہدف سے دو اعشاریہ پانچ فی صد زائد ہے۔
مالیاتی گراوٹ کی اہم وجہ کم آمدن بڑھوتری کے ساتھ متواتر اخراجات میں اضافہ تھا۔ مالی سال 2018ء میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی ٹیکس آمدنی 14اعشاریہ 3 فی صد اضافے کے ساتھ تین ہزار آٹھ سو بیالیس ارب روپے رہی۔ مالی سال 2018ء میں متوقع شرح غربت میں کمی جاری رہی۔ بین الاقوامی خط غربت کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح میں دو ڈالر نوے سینٹ کی کمی ہوئی۔ اگر انسانی بہبود کے اشاروں کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے تو اس ضمن میں جنوب ایشیائی خطے میں پاکستان کی کارکردگی سب سے کم رہی خصوصاً تعلیم اور غربت کے شعبے میں۔ اگرچہ اسکول میں رجسٹر ہونے والے بچوں کی شرح میں اضافہ ہوا، لیکن یہ شرح ابھی بھی دیگر جنوب ایشیائی مما لک کے مقابلے میں کم ہے۔ شیر خوار اور پانچ سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات میں بھی یہی معاملہ ہے۔
حکم رانوں کے تمام تر دعووں کے باوجود تعلیم، صحت اور تمام معاشی شعبوں میں جنس کی بنیاد پر تفاوت کا سلسلہ اس سال بھی جاری رہا۔ اس پورے خطے میں پاکستان ابھی بھی خواتین کی سب سے کم افرادی قوت رکھنے والے ملکوں میں سے ایک ہے۔ حکم رانوں، سیاست دانوں کی جانب سے ہر سال کی طرح امسال بھی غربت مٹانے اور لوگوں کو دو وقت کی روٹی دینے کے وعدے کیے گئے جو صرف بیانات کی حد تک ہی محدود رہے۔ غذا کی فراہمی اس سال بھی سب سے اہم معاشی چیلنج رہا اور پانچ سال سے کم عمر کے 45 فی صد بچے غذائی قلت کا شکار رہے۔ مالی سال 2018ء میں صحت، غذا اور تعلیم کے شعبوں پر جی ڈی پی کا صرف تین فیصد مختص کیا گیا جو کہ آٹے میں نمک برابر اور خطے کے بہت سے ممالک کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔
سماجی شعبے میں بہتری کے لیے تعلیم، صحت جیسے اہم شعبوں کے بجٹ میں اضافہ ناگزیر ہے۔ بچوں کو اسکول میں داخل کرانے سے زیادہ توجہ تعلیم کے معیار پر مرکوز کرنا ہوگی تاکہ ہماری آنے والی نئی نسل کا مستقبل محفوظ ہوسکے، جب کہ ماں اور بچے کی غذائیت اور صحت پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ گذشتہ سال کے آغاز پر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر ایک سو دس روپے تک پہنچ گئی تھی، تادم تحریر ایک ڈالر ایک چالیس پاکستانی روپے کے برابر ہوچکا ہے اور اس میں اضافے کا رجحان جاری ہے۔
حال ہی میں ورلڈ بینک کی جانب سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کم زور معاشی ترقی اور غربت میں اضافے کی وجہ سے اگلے دو سال پاکستان کی معاشی صورت حال نازک رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس کی وجہ سے لوگوں کو غربت سے نکالنے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں دشواری ہو گی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو بڑھتے ہو ئے خسارے کو پائے دار بنیادوں پر طویل مدتی ترقی کے لیے کم کرنے کی ضرورت ہے، اور اس کے لیے پاکستان کو شرح نمو میں اضافے کے لیے مزید سرمایہ کاری اور صنعتی پیداوار کو فروغ دینا ہوگا۔
اس بارے میں ورلڈ بینک کے ڈائریکٹر النگانو پتچا موتو کا کہنا ہے کہ ''سرمایہ کاری اور صنعتی پیداوار میں اضافے سے زیادہ اور بہتر تنخواہوں والی ملازمتیں پیدا ہوں گی جو کہ مستقبل میں معاشی ترقی اور استحکام کے لیے ضروری ہیں۔ پاکستان جنوبی ایشیا کا واحد ملک ہے جس کے معاشی ترقی کے راستے محدود ہیں۔ پاکستان اس وقت گرتی معیشت کے حصار میں پھنسا ہوا ہے اور آمدن اور خرچ میں حائل وسیع فرق اسے کی معاشی حالت کو اور خراب کر رہا ہے، جب کہ اکنامک انٹیلی جنس یونٹ کی ایک رپورٹ میں پاکستان کی معاشی شرح نمو 9 سال کی کم ترین سطح تین فی صد پر رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی فنڈز کے پروگرام سے روپے کی قدر میں تو استحکام پیدا ہوگا لیکن دوسری جانب اس کی وجہ سے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال2019 ء تا 2023 ء میں منہگائی کی اوسط شرح 7 اعشاریہ 3 فی صد رہے گی، تاہم شرح سود میں اضافے سے منہگائی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اکنامک انٹیلی جنس یونٹ کی اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کو اس وقت عالمی ادائیگیوں کے اہم معاشی چیلنج کا سامنا ہے، کیوں کہ زرمبادلہ کے ذخائر 2 ماہ کی درآمدات کے لیے ناکافی ہیں۔
٭ معاشی نمو اور سرمایہ کاری، زراعت اور لائیو اسٹاک
پاکستان کی وزارت خزانہ کے اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ دو سالوں سے معاشی شرح نمو پانچ فی صد سے اوپر رہی، مالی سال 2018ء میں یہ 5اعشاریہ 79 فی صد تک پہنچ گئی، جو کہ زراعت، صنعت اور خدماتی شعبے میں اضافے کی وجہ سے ہوئی، ان شعبوں میں شرح نمو بالترتیب 3 اعشاریہ 81 فی صد، 5 اعشاریہ 80 فی صد اور 6 اعشاریہ 43 فی صد رہی۔ زراعت کے شعبے میں سب سے زیادہ بڑھوتری3 اعشاریہ81 فی صد ہوئی، جب کہ اس کا ہدف ساڑھے تین فی صد رکھا گیا تھا۔
زراعت کے شعبے میں بڑھوتری کا سہرا کسان پیکج کو جاتا ہے جس کے تحت کسانوں کو زیادہ پیداواری صلاحیت رکھنے والے ہائی برڈ بیج، کھاد اور جڑی بوٹی مار ادویات دی گئیں۔ لائیو اسٹاک کے شعبے میں 3 اعشاریہ 76 فی صد کی نمو ریکارڈ کی گئی جو کہ گذشتہ مالی سال میں 2 اعشاریہ 99 فی صد تھی۔ ماہی گیری کے شعبے میں 1اعشاریہ 63 فی صد اور جنگلات کے شعبے میں 7 اعشاریہ 17فی صد بڑھوتری ہوئی۔
٭صنعتی پیداوار اور کان کنی
مالی سال 2018ء کی پہلی سہہ ماہی میں پیداواری شعبے میں 6 اعشاریہ24 فی صد نمو ریکارڈ کی گئی جو کہ گذشتہ سال اسی عرصے میں 4 اعشاریہ 40 فی صد تھی۔ صنعتوں کی جانب سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ گذشتہ سال برقی مصنوعات کی پیداوار میں 38 اعشاریہ 79 فی صد، لوہے اور فولاد کی پیداوار میں 30 اعشاریہ 85 فی صد، آٹو موبائل میں 19 اعشاریہ 73 فی صد، غیر دھاتی معدنیاتی مصنوعات میں 11اعشاریہ87 فی صد، سیمنٹ میں 11اعشاریہ95 فی صد، پیٹرولیم مصنوعات میں 10اعشاریہ 26 فی صد، انجینئرنگ مصنوعات میں 5 اعشاریہ 21 فی صد، فارما سیوٹیکل مصنوعات میں 9 اعشاریہ 44 فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا، جب کہ سب سے کم شرح نمو ٹیکسٹائل اور فوڈ بیوریجز اور تمباکو کی مصنوعات پر بالترتیب صفر اعشاریہ47 فی صد اور 2اعشاریہ 33 فی صد رہی۔
گنے کی کرشنگ میں تاخیر کی وجہ سے اس شعبے میں بڑھوتری کی شرح منفی7 اعشاریہ 69 رہی۔ گذشتہ سال لکڑی کی مصنوعات میں 27 فی صد، فرٹیلائزر میں ساڑھے سات فی صد، چمڑے کی مصنوعات میں آٹھ فی صد اور کان کنی کے شعبے میں صفر اعشاریہ 38 فی صد کی کمی واقع ہوئی۔ روپے کی قدر کم ہونے کے باوجود ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات میں اضافہ نہ ہوسکا۔ معاشی ماہرین کی جانب سے ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر کم ہونے کی وجہ سے ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات میں اضافے کی توقع کی جارہی تھی، تاہم ایسا نہیں ہوسکا۔
وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق جولائی سے نومبر کے دوران ساڑھے 5 ارب ڈالر کی ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کی گئیں، جب کہ گذشتہ مالی سال کے اسی دورانیے میں ٹیکسٹائل برآمدات ساڑھے 5 ارب ڈالر ہی ریکارڈ کی گئی تھی۔ جولائی سے نومبر کے دوران کاٹن یارن کی برآمدات 15 فی صد کمی کے بعد 47 کروڑ ڈالر، نٹ ویئر 11 فی صد اضافے سے 1 ارب 21 کروڑ ڈالر، بیڈ ویئر کی برآمدات 2 فی صد اضافے سے 96 کروڑ ڈالر اور گارمنٹس کی برآمدات 1 ارب ڈالر تک محدود رہی۔
٭زر اور اُدھار
اس سال زری پالیسی میکرواکنامک ماحول کی جانب مائل رہی۔ جنوری 2018 تک زری پالیسی سب سے کم تاریخی پالیسی ریٹ 5اعشاریہ 75 فی صد پر مستحکم رہی۔ اسی ماہ مرکزی بینک نے تیل اور کموڈیٹیز میں ملکی طلب کے دباؤ کے نتیجے میں متوقع افراط زر کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے25 بیس پوائنٹس اضافے کے ساتھ چھے فی صد پر کردیا۔ مارچ 2018میں مرکزی بینک نے پالیسی کے اثرات کو دیکھنے کے لیے اسے مزید دو ماہ تک چھے فی صد پر برقرار رکھا۔ اسی ماہ زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوکر 472 ارب روپے پر پہنچ گئے۔ اسی سال سی پی آئی انڈیکس (کنزیومر پرائس انڈیکس) سال کی بلند ترین سطح 4 اعشاریہ6 فی صد پر پہنچ گیا، جس سے منہگائی کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اس سال افراط زر کی اوسط شرح 3اعشاریہ78فی صد رہی۔
سید بابر علی
babar.ali@express.com.pk