علی رضا عابدی بھی قتل ہوئے…
افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ بعض سیاسی جماعتوںنے اپنے عسکری ونگ قائم کرلیے تھے
ایم کیو ایم کے ایک اور سابق رکن قومی اسمبلی علی رضا عابدی بھی قتل ہوئے۔ موٹر سائیکل سوار قاتلوں نے علی رضا عابدی کو قتل کرنے کے لیے بھی وہی طریقہ اختیار کیا جو 1988ء سے کراچی میں رائج ہے۔ علی رضا عابدی اعلیٰ تعلیم یافتہ، شائستہ اور متحرک سیاسی کارکن تھے۔
انھوں نے عوام سے رابطوں کے لیے جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ساتھ پرانے روایتی طریقے بھی استعمال کیے۔ وہ ٹویٹر اور فیس بک پر اپنا پیغام لوگوں تک پہنچاتے تھے اور اپنے حلقہ انتخاب میں ہونڈا 50 موٹر سائیکل پر گھر گھر جاتے اور ہر فلیٹ کا دروازہ کھٹکھٹا کر ووٹروںکو اپنی جماعت کے حق میں مائل کرتے۔ علی رضا عابدی کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ ایم کیو ایم میں ہونے والی گروہ بندی سے مایوس تھے اور تمام گروپوں کو متحد کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ علی رضا عابدی کے خاندان کا شمار کراچی کے ممتاز شیعہ گھرانوں میں ہوتا ہے۔
یہ خاندان ایک عرصے تک شاہ فیصل کالونی میں آباد رہا۔ علی رضا عابدی کے ایک چچا میجر حامد عابدی نے زندگی کا ایک عرصہ پاکستان آرمی میں گزارا۔ وہ مختلف عہدوں پر تعینات رہے، سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کے قریب ہوئے۔ پرویز مشرف کے دور میں جب سندھ کے وزیر اعلیٰ ارباب رحیم تھے تو وہ صوبائی محکمہ اطلاعات کے مشیر رہے۔ مقامی اخبار روزنامہ امن کے ایڈیٹر رہے۔ میجر حامد علی عابدی دوستوں کی مدد کے لیے شہرت رکھتے تھے۔ انھوں نے کبھی اپنے مذہبی اور سیاسی نظریات کی بنیاد پر کسی قسم کا امتیاز روا نہیں رکھا۔ علی رضا عابدی کے ایک چچا مرغوب عابدی زمانہ طالب علمی میں پیپلز پارٹی کی طلبہ تنظیم نیشنل آرگنائزیشن آف پروگریسو اسٹوڈنٹس (NOPS)میں متحرک رہے۔ وہ شاہ فیصل کالونی میں ایک کالج کی یونین کے صدر منتخب ہوئے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں بائیں بازوکی طلبہ تنظیم کی جبری پالیسی کے خلاف مزاحمتی تحریک میں کردار ادا کرتے رہے ۔عابدی خاندان رواداری، دوستی اور سماجی خدمات کے حوالے سے معروف ہے۔
کراچی میں نئی صدی کے 15 سال تباہی و بربادی کے گزرے۔ یہ صورتحال گزشتہ صدی کی 80ء کی دہائی میں ہونے والی انارکی کا نتیجہ تھے، یوںسیاسی کارکنوں، مذہبی رہنماؤں، وکلاء، اساتذہ، خواتین اور ڈاکٹروں کی ٹارگٹ کلنگ روزکا معمول بن گئی تھی۔اغواء برائے تاوان، اسٹریٹ کرائمز، موبائل و موٹر سائیکل اورکاروں کے چھیننے کی باقاعدہ صنعت وجود میں آئی تھی۔ نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد خودکش حملے ، بموں کے دھماکے ، افغانستان ، جنوبی افریقہ اور دیگر ممالک سے ملنے والی ٹیلی فون کالوں نے اس شہرکو دہشت زدہ کردیا تھا ۔ کراچی کے حالات پر تحقیق کرنے والے سماجی ماہرین کہتے ہیں کہ کراچی کے حالات کو خراب کرنے میں ریاست کے اداروں کے ساتھ غیر ممالک کا بھی کردار تھا۔
افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ بعض سیاسی جماعتوںنے اپنے عسکری ونگ قائم کرلیے تھے ، پہلے پرویز مشرف پھر زرداری حکومت کے دور میں کراچی کے امن کی بحالی کے لیے خاطرخواہ اقدامات نہ ہوئے۔ جب افتخار چوہدری دوبارہ چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہوئے تو انھوں نے سپریم کورٹ کے ازخود اختیار (Suo Moto Notice) کو استعمال کرتے ہوئے کراچی کی صورتحال کے بارے میں سماعت کی۔ سپریم کورٹ کے پولیس اور رینجرز کے سابق افسران اس میں پیش ہوئے۔ سیاسی جماعتوں، انسانی حقوق کی تنظیموں، وکلاء انجمنوں نے اپنی معروضات وہاں پیش کیں۔ ان معروضات میں پولیس کو سیاست کے عنصر سے آزاد کرنے، عدالتی نظام کو بہتر بنانے، گواہ کے تحفظ کے لیے قانون سازی، شہر میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے میگا منصوبوں کی تجاویز شامل تھیں ۔ مہینوں سماعت کے بعد ایک پولیس افسرکو جو ریٹائرمنٹ کے بعد فرائض انجام دے رہا تھا، ہٹانے کے علاوہ کوئی اور اہم فیصلہ نہیں کیا گیا مگر مختلف جماعتوں اور اداروں کی طرف سے پیش کی جانے والی معروضات انتہائی اہم تھیں۔
پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر طالبان دہشت گردوں کے حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان تیار ہوا۔ ایپکس کمیٹیاں قائم ہوئیں، پورے ملک میں صرف سندھ میںایپکس کمیٹیوں میں منتخب نمایندوں اور ریاستی اہلکاروں نے ایک مشترکہ حکمت عملی پر اتفاق کیا، یوں اس آپریشن کے خاطرخواہ نتائج برآمد ہوئے۔ لیاری میں گینگ وار کی جلتی ہوئی آگ، راکھ میں تبدیل ہوئی۔ نائن زیرو پر چھاپے میں کئی ٹارگٹ کلرز گرفتار ہوئے اور شہر میں ٹارگٹ کلنگ سمیت جرائم کی شرح کم ہوگئی، مگر نیشنل ایکشن پلان میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جو بنیادی نکات طے ہوئے تھے ان پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ دہشت گردی کا اسلحے کی فراہمی سے گہرا تعلق ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کا جنرل ضیاء الحق نے 5 جولائی1977ء کو تختہ الٹا۔ جنرل ضیاء الحق افغانستان میں نور محمد ترکئی کی انقلابی کمیونسٹ حکومت کے خاتمے کے لیے امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے پروجیکٹ میں جڑ گئے۔ اس پروجیکٹ نے جہاں افغان جہاد سے منسلک گروہوں کو مالا مال کیا وہیں اسلحے کی فراہمی پر قدغن ختم ہوگئی۔
ہیروئن اور کلاشنکوف سستے داموں ملنے لگیں ۔ اسلحہ مافیا اتنا مضبوط ہوگیا کہ صارف کو محفوظ طریقے سے اسلحہ پہنچانے کے جدید طریقے سامنے آئے، یوں ہر شخص بندوق کے ذریعے اپنی خواہش پوری کرنے لگا۔ یہ عجیب سی صورتحال ہے کہ 38 برسوں میں کبھی بھی ناجائز اسلحے کے خاتمے کے کسی منصوبے پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ یہ کیسی تلخ حقیقت ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد میں اسلحے کے خاتمے پر توجہ نہیں دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی میں یورپی اور امریکی حتیٰ کہ اسرائیل کا جدید اسلحہ آسانی سے دستیاب ہے۔ گزشتہ 18 برسوں میں جب بھی کراچی کو اسلحے سے پاک کرنے کی تجویز آئی تو یہ بحث چھڑ گئی کہ اسلحہ باہر سے آتا ہے۔ یہ الزام بھی لگا کہ کراچی میں دہشت گردی میں سمندر سے اسمگل ہو کر آنے والا اسلحہ بھی استعمال ہوا۔
اگر پرویز مشرف حکومت اس صدی کے آغاز سے جب لیفٹیننٹ جنرل معین حیدر وزیر داخلہ تھے، پورے ملک کو اسلحے سے پاک کرنے کی مہم شروع کرتی تو اب تک اسلحے کی دستیابی مشکل ہوجاتی ۔ امن و امان کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی کہتے ہیں کہ اسلحے کی تجارت میں سول اور عسکری بیوروکریسی، سیاست دانوں، قبائلی سرداروں کا مفاد ہے۔ اس بناء پر اس صدی میں بھی غیر قانونی اسلحہ آسانی سے دستیاب رہے گا ، ایک معاملہ دہشت گردوں کا مالیاتی پائپ لائن کے خاتمے کا ہے۔ پاکستان فنانشل ٹیرر ازم کے مسئلے پر مشکل صورتحال کا شکار ہے۔ حکومت کو اگلے ایک دو مہینوں میں اہم فیصلے کرنے ہیں ۔ حکومت نے اس مہم کو سول سوسائٹی کے خاتمے کے لیے استعمال کیا۔ یہ مہم صرف بینکوں کے نظام پر پابندیوں سے کامیاب نہیں ہوسکتی۔
اس پائپ لائن کو منقطع کرنے کے لیے سوچ بچار کی ضرورت ہے اور حقیقی معاملہ تشدد کے ذریعے مقاصد حاصل کرنے کی سوچ کا ہے۔ اس ذہن کی تبدیلی کے لیے مدرسوں اور جدید تعلیمی اداروں کے نصاب اور اساتذہ کے ذہنوں کو تبدیل کرنے سے لے کر سیاسی جماعتوں اور میڈیا کے بیانیے کو تبدیل کرنے کا ہے۔ پولیس اور عدالتی نظام کو بہتر بنائے بغیر حقیقی ملزموں کو سزا نہیں ہوسکتی۔ ابھی تک بین الاقوامی معیارکے مطابق گواہ کے تحفظ کا قانون نہیں بن سکا ۔ گزشتہ سال کے دستیاب اعداد وشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ کراچی میں اب بھی ٹارگٹ کلرز کی کمپنیاں متحرک ہیں اور کرائے کے قاتل اپنے روزگار کے لیے نامعلوم قوتوں کے مقاصد کو پورا کرتے ہیں۔
دنیا بھر میں نگرانی کرنے والے خفیہ کیمروں ڈرون طیاروں کی ٹیکنالوجی کے ذریعے دہشت گردوں کا اسی وقت سراغ لگالیا جاتا ہے جب وہ کوئی تخریب کاری کا منصوبہ بنا رہے ہوتے ہیں مگر سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب پرکروڑوں روپے خرچ ہونے کے باوجود دہشت گردوں پر گرفت تنگ نہ ہوسکی ۔ کراچی شہر بد ترین طرز حکومت کا شکار ہے۔ بے روزگاری ، پانی، بجلی،گیس کی نایابی اور ٹرانسپورٹ کے دستیاب نہ ہونے سے نوجوانوں میں باغیانہ خیالات ابھرتے ہیں، اہم ترین معاملہ سیاسی شراکت داری کا ہے۔ اس وقت اردو بولنے والی برادری تنہائی کا شکار ہے۔ جو جماعتیں اردو بولنے والے لوگوں کے علاقوں کی نمایندگی کرتی ہیں وہ حقیقی نمایندے نہیں ہیں۔ وفاق اور صوبائی حکومت کو عوام کے حقیقی نمایندوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے حکمت عملی پر غور کرنا چاہیے۔
ایک سیاسی کارکن جس کے قریبی رشتے دارکراچی میں ہونے والے آپریشن میں کئی سال لاپتہ رہے، وہ کہتے ہیں کہ علی رضا عابدی کا قتل اس شخص کے لیے پیغام ہے جو مہاجر فیکٹر کو اکٹھا کرنے پر سوچے گا ۔ ایم کیو ایم ملک کی واحد جماعت ہے جس کے سب سے زیادہ اراکین نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ ان کو کس نے اور کس کے کہنے پر قتل کیا اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ۔