عجلت
جے آئی ٹی رپورٹ ایک ضخیم دستاویز ہے جو اس کیس کو کسی شک کی گنجائش کے بغیر واضح کرتی ہے
اربوں روپے کے جعلی بینک اکاؤنٹس کے معاملے کی تفتیش کے لیے سپریم کورٹ کے حکم پر قائم کی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم(جے آئی ٹی) نے بالآخر حتمی رپورٹ 31دسمبر کو دو رکنی بینچ کے سامنے پیش کردی۔ سپر یم کورٹ کا یہ بینچ چیف جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل ہے۔ 32جعلی کھاتوں اور ان سے متعلقہ رقوم کی منتقلیوں کی تفتیش کرتے ہوئے جے آئی ٹی نے172 افراد کو نامزد کیا، جن میں سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری، اومنی گروپ کے انور مجید اور عبدالغنی مجید وغیرہ شامل ہیں۔
وزارتِ داخلہ نے ان172 ناموں کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا۔ای سی ایل میں ڈالے گئے دیگر اہم ناموں میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، سابق وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ، سندھ کے صوبائی وزیرامتیاز احمد شیخ، رکن سندھ اسمبلی علی نواز مہر، مکیش چاولہ اور سہیل انورسیال، سمٹ بینک کے صدر حسین لوائی، نیشنل بینک آف پاکستان کے صدر سید علی رضا، مینیجر سندھ بینک ثروت عظیم اور محمد مختار احمد نیز سندھ بینک کے گروپ ہیڈ کریڈٹ ندیم الطاف اور دیگر افراد بھی شامل ہیں۔ وزارت داخلہ کے اس اقدام پر سپریم کورٹ نے وزیر مملکت برائے امورِداخلہ شہریار آفریدی کو طلب کرکے برہمی کا اظہار کیا۔ وزیر مملکت سے پوچھا گیا کہ سپریم کورٹ کے جے آئی ٹی رپورٹ کا جائزہ لینے سے قبل ہی انھوں نے یہ نام ای سی ایل میں کیوں شامل کیے۔
جسٹس ثاقب نثار نے شہریار آفریدی سے دریافت کیا کہ حکومت سپریم کورٹ کی منظوری کے بغیر ایسا کیسے کرسکتی ہے۔وفاقی وزیر مملکت کو اگلے کابینہ اجلاس میں اس معاملے کا از سر نو جائزہ لینے کی ہدایت جاری کی گئی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ شاید کابینہ نے عجلت میں سمری منظور کردی۔ اب حکومت کو ہر کیس کو علیحدہ علیحدہ دیکھنا چاہیے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے فوری طور پر سپریم کورٹ کی ہدایات پر عمل شروع کردیا۔
جے آئی ٹی رپورٹ ایک ضخیم دستاویز ہے جو اس کیس کو کسی شک کی گنجائش کے بغیر واضح کرتی ہے۔ جن کے نام پر یہ اکاؤنٹس کھولے گئے یہ رقوم ان کی ملکیت نہیں۔ دنیا کے کسی بھی قانون میں ایسے اکاؤنٹ کھولنے والا قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا جاتا ہے۔ تحریک انصاف کا جے آئی ٹی رپورٹ پر رد عمل ایسا تھا،گویا معاملہ تمام شکوک و شبہات سے بالاتر طور پر ثابت ہوچکا ہو۔اگرچہ جے آئی ٹی میں نامزد تمام افراد کے خلاف ٹھوس شواہد فراہم کیے گئے ہیں، تاہم تمام کارروائی متعلقہ قوانین کے مطابق ہی ہونی چاہیے۔حکومت کو اس قدر عجلت کے بجائے تحمل سے کام لینا چاہیے تھا۔جے آئی ٹی رپورٹ کو عدالتی فیصلہ تصور کیا گیا اور تمام نامزد افراد کر مجرم ٹھہرا دیا گیا۔اگر معلوم بھی ہو کہ کوئی مجرم ہے تو اسے شک کا پورا فائدہ ملنا چاہیے اور قانونی عمل مکمل ہونا چاہیے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ روز اول سے یہ مسئلہ درپیش رہا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ نیم دلی کے ساتھ تحریک انصاف کے ساتھ چلنے والوںکی ناقص مشاورت ایسے اقدامات کا سبب رہی ہے، اور اس بار منطقی طور پر اس کا فائدہ ملزمان کو ہوا۔
جے آئی ٹی کا کردار بہت اہم ہے۔ اس کا کام تفتیش کرنا اور کیس تیار کرنا ، نیز سفارشات اور نتائج مرتب کرکے عدالت کو پیش کرنا ہے۔ مزید تفتیش کا حکم دینا، کیس کو ٹرائل کے لیے بھیج دینا یا کوئی اور حکمت عملی اختیار کرنا عدالت کی صوابدید ہے۔ جب تک عدالت ایسا نہیں کرتی، حکومت کو کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہیے، کیوں کہ ایسے یک طرفہ فیصلے احتساب کے عمل اور اس کے مقاصد کو شک کی زد میں لاکر مزید مشکلات کا شکار کردیتے ہیں۔ شاید حکومت پر یہ واضح نہ ہو، لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ جے آئی ٹی میں نامزد ملزمان کسی ایسے موقعے کی تلاش میں تھے کہ حکومت کوئی ایسا اقدام اٹھائے اور انھیں اس معاملے کو سیاسی رنگ دے کر مزید متنازعہ بنانے کا جواز ہاتھ آجائے۔
ٹیلی ویژن ٹاک شوز میں کھیلے جانے والے الزامات کا کھیل اور روزمرہ بے تکے مباحثوں کے طوفان بدتمیزی میں حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی انصاف، قانونی حقوق، قانون کے مطابق عمل درآمد وکارروائی اور جمہوریت کے حقیقی مفہوم کو فراموش کرتی نظر آتی ہیں۔ سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ پیش ہونے سے قبل ہی اس کے مخصوص حصے میڈیا میں لیک کردیے گئے ، جہاں بخوشی بال کی کھال اتاری گئی۔ اس وجہ سے اس تاثر نے جنم لیا کہ حتمی فیصلہ کے لیے راہ ہموار کرنے کی خاطرمیڈیا ٹرائل ہورہا ہے۔اگرچہ آصف زرداری اور ان کے شراکت داروں کے خلاف رپورٹ میں کیے گئے کئی انکشافات بظاہر ناقابل تردید ہیں، لیکن انھیں عدالت میں پایۂ ثبوت تک پہنچانا بھی لازم ہے اور اس کا حتمی اختیار سپریم کورٹ کے پاس ہے۔ انصاف کے عمل پر یقین برقرار رکھنے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ عدالت کو فیصلہ کرنے دے اور اس کے احکامات پر عمل درآمد میں مستعدی دکھائے۔یہ کیس کے قانونی تقاضے نبھانے کا دانشمندانہ طریقہ کار ہوگا۔ حکومت کاتا اور لے دوڑی کا طرز عمل نہیں اپناتی، تحریک انصاف کی حکومت کو عجلت سے گریز کرنا ہوگا۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)