بلوچستان میں تعلیمی ایمر جنسی ۔۔

 تعلیمی خدمات کو لازمی قرار دینے کا قانون کا استعمال وقت کی ضرورت بن چکا؟


 تعلیمی خدمات کو لازمی قرار دینے کا قانون کا استعمال وقت کی ضرورت بن چکا؟

1960ء کی دہائی کی بات ہے کہ کوئٹہ کی ریلوے گارڈ کالونی کی باونڈر ی وال جنوب میں لوگوں نے اس لیے توڑ رکھی تھی کہ یہاں سے ارباب کرم خان روڈ پر واقع گور نمنٹ کلی شخاں سکول کا راستہ مختصر یعنی شارٹ کٹ ہو جاتا تھا اور ہمیں بھی اس سکول میں داخل کروا دیا گیا۔

اسکول میں کلی شیخاں (جواس وقت ایک گاؤں تھا) اور گرد ونواح کے بچے بھی پڑھتے تھے لیکن زیادہ تعداد میں بچے بچیاں ریلوے کالونی کی ہوا کرتی تھیں۔ واضح رہے کہ اس وقت گورنمنٹ بوائز پرائمری سکولوں میں جہاں گرلز پرائمر ی سکولوں کی سہولت نہیں تھی وہا ں بچے بچیاں ساتھ پڑھا کرتے تھے، البتہ یہ ضرور تھا کہ بچیوں کا تناسب عموما سات یا آٹھ فیصد ہی ہوتا تھا اور ان کو کلاس میں پہلی قطار میں ٹیچر کے سامنے بٹھایا جاتا تھا۔ آج یہ سکول نہ صرف ہائی سکول ہے جس میں طلبا کی تعدار ہزار سے زیادہ ہے بلکہ ساتھ ہی سینکڑوں کی تعداد میں ٹیچر یہاں ایلیمنٹر ی کالج میں ٹریننگ بھی کرتے ہیں، مگر جب ہم بچپن میں یہاں پڑھتے تھے تو اس سکول کے ساتھ اگرچہ اس وقت بھی ٹیچر ٹریننگ سکول تھا اور اس کے نزدیک ان ٹریننگ کرنے والے ٹیچرز کا ہاسٹل بھی تھا مگر اس وقت اس سکول کی صرف سامنے والی دیوار تھی جس میں دو گیٹ بھی تھے اور باقی تین اطراف میں کوئی دیوار نہیں تھی۔

سکول کی پشت پر ایک بڑا میدان تھا، شمال میں کھیت اور مغرب کی طرف بہتی کاریز تھی اور جنو ب کی جانب چند بڑے کوٹھی نما بنگلے تھے، ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ ہمارے پرائمری کے اساتذ ہ کی تنخواہیں بہت کم یعنی صرف ایک سو دس روپے ماہانہ تھیں اور ان میں سے اکثر اساتذہ ریلوے گارڈ کالونی کے بنگلو ں کے سرونٹ کو اٹرز میں دس روپے ماہوار کرائے پر رہتے تھے۔ اس سکول ہی میں ہم نے پہلی مرتبہ امریکہ سے دوستی کا ہاتھ ملاتے دیکھا تھا اور یہ نشان ان گھی اور خشک دودھ کے ڈبوں پر ہوا کرتا تھا جو ہم بچوں کو مفت ملا کرتا، ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ امریکہ دوستی میں یہ چاہتا ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم عام ہو مگر اس سے کہیں زیادہ یہ احساس ہوا کہ ہمارے اساتذہ ہم سے بہت پیار کرتے ہیں ان کی تمام تر توجہ ہماری تعلیم پر رہتی تھی، یہاں تک کہ ہماری ریلوے گارڈ کالونی کے سرونٹ کو اٹرز میں جو ٹیچر رہتے تھے کوئی بچہ کبھی ان کے پاس چلا جائے اسے مفت پڑھا دیتے تھے، اس لیئے تعلیم کا معیار بہت بہتر تھا اور بلوچستان کے طالب علم لاہور بورڈ اور یونیورسٹی سے امتحانات مقابلے اور میرٹ کی بنیادوں پر پاس ہوا کرتے تھے۔

یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ عام انتخابات کے بعد 1972 میں بلوچستان میں وزیر اعلیٰ سردار عطا اللہ مینگل کی سر براہی میں پہلی صوبا ئی حکومت قائم ہوئی۔ اس حکومت نے یہ کہا کہ اب چونکہ ملک سے ون یونٹ کا خاتمہ ہوچکا ہے اس لیے اس لیے ضروری ہے کہ دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے صوبائی ملازمین واپس اپنے اپنے صو بوں میں جائیں اور اس کے لیے مدت یہ رکھی گئی کہ جو لوگ یہاں 1958 سے پہلے سے ملازم ہیں اُن کو بلوچستان کا مقامی باشندہ تسلیم کیا جائے گا اور وہ بلوچستان ہی میں رہیں گے۔

1972 میں قائم ہونے والی صوبائی حکومت صرف نو مہینوں میں توڑ دی گئی تھی اور اس کے لیئے پہلے شروع ہی سے منصوبہ بندی کر لی گئی تھی کہ جب صوبائی حکومت نے مرحلہ وار پنجاب کو ملازمین واپس لینے کے لیے کہا تو نہ صرف فوری طور پر تمام ملازمین کو واپس لے لیا گیا بلکہ جو یہاں 1958 سے پہلے سے موجود تھے اُن کو بھی واپس لے لیا گیا اور بلوچستان جیسے صوبے کوجو تاریخ میں پہلی مرتبہ صوبہ بنا تھا یک دم تربیت یافتہ سرکاری ملازمین کی اکثر یت سے محروم کر دیا گیا اور نئی صوبائی حکومت کے لیے نہ صرف ایک چیلنج کھڑا کردیا گیا بلکہ اس کے خلاف پروپیگنڈہ بھی کیا گیا یوں اس وقت تربیت یافتہ ٹیچرز اور ماہرین تعلیم کی ایک بڑی اکثریت بلو چستان سے چلی گئی، اس کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد راقم نے میٹرک کیا اور اور پرائمری ٹیچرکی حیثیت سے میری پہلی پوسٹنگ کوئٹہ سے تقریبا دوسوکلو میٹر دور گلستان کے قریب افغان سرحد کے ساتھ واقع ایک گاؤں کلی حکیم ''دولنگی تھانہ '' کے سنگل ٹیچر گورنمنٹ پرائمری سکول میں ہوئی تھی۔

اس وقت بلوچستان کی کل آبادی 23 لاکھ تھی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کی تعداد بھی 23 ہی تھی۔ بلو چستان کے پہلے ڈائریکٹر ایجو کیشن معرف ماہرلیسانیات پروفیسر خلیل صدیقی تھے، ضلع کو ئٹہ پشین کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر مرزا نصراللہ ہوا کرتے تھے جو صبح سائیکل پر اپنے دفتر آتے اور سائیکل دفتر کے دروازے کے پاس کھڑی کر دیا کرتے تھے اور پھر کسی بھی وقت نہایت خاموشی سے سائیکل پر اپنی ڈائری لے کر نکل جاتے اور سات آٹھ میل تک کے علاقے میں واقع کسی بھی اسکول میں اچانک پہنچ جاتے، وہ کوئٹہ سے باہر بھی سر پرائز وزٹ کرتے اس کے لیے اُن کا طریقہ کار یہ تھا کہ جب چمن تک جانا ہوتا تو صبح ٹرین میں لگیج میں اپنی سائیکل بک کرواتے اور ٹکٹ لے کر بیٹھ جاتے، دوپہر ٹرین چمن پہنچتی وہ ریسٹ ہاوس میں چلے جاتے اور وہاں سے صبح سویر ے اپنی سائیکل پر نکلتے اور اچانک کسی سکول میں پہنچ جاتے، یوں اس وقت کا ہزاروں مربع کلو میٹر پر مشتمل ڈسٹرکٹ کوئٹہ پشین میں ہر اسکول کا ٹیچر اس بات سے گھبراتا تھا کہ معلوم نہیں کب مرزا نصراللہ پہنچ جائے۔

یوں جب ہم پرائمری اسکول کے بچے تھے تو ہم نے پورے پانچ برس کبھی یہ نہیں دیکھا کہ کسی استاد نے کبھی چھٹی کی ہو اور جب خود پرائمری ٹیچر ہوئے تو پھر مرزا نصراللہ جیسا ڈسٹرکٹ ایجو کیشن آفیسر دیکھا۔ ہما رے ایک بزرگ پروفیسر دوست عبدالخالق ہیں، 1935 کی پیدائش ہے، وہ 1954 میں بلوچستان ضلع چاغی میں امین آباد میں پرائمری ٹیچر تعینات ہوئے ، یہ علاقہ کوئٹہ سے تقربیا چھ سو کلو میٹر ایران سرحد کے قریب واقع صحرائی علاقہ ہے، اس علاقے میں پانی کی سپلائی کے لیے واٹر ٹرین چلتی ہے ،گرمیوں میں شدید گرمی پڑتی ہے اُس دور میں یہاں سڑکیں پختہ نہیں تھیں، صحرا میں بھٹک جانے کا مطلب اذیت ناک موت ہوتا ہے اور لاش بھی صحرا میں بہت مشکل ہی سے ملتی ہے کیو نکہ ہوا اور آندھیاں بہت تیز ہوتی ہیں جن کی وجہ سے دن اور رات میں ریت کے ٹیلے بنتے اور بگڑتے اور اپنی جگیں بدلتے رہتے ہیں۔ 1955 میں بلو چستان کے اس دور افتادہ علاقے میں بھی پرائمری اسکول ٹیچر کی تنخواہ صرف 80 روپے ہوا کرتی تھی۔

جس کی ذمہ داری نہ صرف بچوں کو پڑھانا ہوتا بلکہ وہ اسکول کے بعد بھی مفت ہی اپنی قوم کے بچوں کو پڑھاتا تھا اس کے ساتھ محکمہ صحت کی جانب سے اس ٹیچر کو کچھ ادویات دی جاتی تھیں اور عام قسم کی بیماریو ں، وبائی بیماریوں کے بارے میں معلومات فراہم کر کے مقامی آبادی کے علاج و معالجے کی ذمہ دارایاں بھی رضاکارانہ جذبے کی بنیاد پر سونپی جاتی تھیں، البتہ محکمہ ڈاک کی جانب سے ماہانہ پانچ روپے معاوضہ ڈاک خصوصاً منی آڈر وغیر ہ کی ذمہ داری لازمی انداز میں عائد ہوتی تھی اور محکمہ موسمیات کی طرف سے بارش کی پیمائش کا ایک آلہ بھی دیا گیا تھا کہ جب اس خشک علاقے میں بارش ہو تو وہ اس دن کی تاریخ اور وقت کے ساتھ بارش کی پیمائش بھی کر کے نوٹ کر لے، اس کا معاوضہ دو روپے ماہانہ یعنی سالانہ صرف 24 روپے ہوتا تھا۔ یہا ں ٹیچر سالانہ ڈھائی مہینوں کی تعطیلات ہی میں کو ئٹہ یا جہاں کہیں ٹیچر کا گھر ہوتا تھا جاتا تھا اور چھٹیوں کے ختم ہوتے ہی اپنے اسکول پہنچ جاتا تھا، لیکن اساتذہ میں یہ اخلاقی اقدار وقت کے ساتھ ساتھ زوال پذیر ہوتی رہیں، ٹیوشن کی روایت 70 کی دہائی سے زور پکڑنے لگی ۔

بلو چستان بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجو کیشن کے خصوصاً ایف ایس سی کے سالانہ رزلٹ آج بھی ریکارڈ پر ہیںکہ ان میں ہر سال پہلی اور دوسری پو زیشن لینے والے طلبا و طالبات محکمہ تعلیم کے اعلیٰ ترین افسران کے بیٹے بیٹیاں تھے جنہوں نے میڈیکل اور انجینئرنگ کالجوں میں انہی بنیادیوں پر سیٹیں حاصل کیں۔ پھر رفتہ رفتہ صورتحال مزید انحطاط کا شکار ہوئی، نقل عام ہوئی اور امتحانات کے شعبے میں اقربا پروری اورکرپشن نے جڑیں مضبو ط کر لیں اور یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ برسوں سے میٹرک اور انٹر میڈیٹ کے امتحانات میں مخصوص اساتذہ ہی پرچے بناتے اور چیک کرتے اور امتحانات میں نگرانی کرتے۔ یہ ضرور ہے کہ دو دو چار چار برس کے وقفوں کے بعد اعلیٰ سطح کے اچھے افسران اور وزرا تعلیم آتے تو اس صورتحال کو بدلنے کی کو ششیں بھی ہوتی رہیں اور کبھی کبھی یہ کامیاب بھی ہوئیں۔

مثلًا 2002-03 بلوچستان بھر میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے سالانہ امتحا نات سکیورٹی فورسز کی نگرانی میں ہو ئے اور نقل پر مکمل پابندی رہی تو ان امتحانات میںنتائج صرف گیارہ سے سولہ فیصد رہے جب کہ اب صورتحال یہ ہے کہ نتائج 90% اور اس سے بھی زیادہ آتے ہیں۔ صوبائی محکمہ تعلیم اور بلوچستان صوبائی اسمبلی کے گذشتہ تیس برسوں کے ریکارڈ پر ہے کہ کئی مرتبہ سینکڑوں گھوسٹ سکولوں اور ہزاروں گھوسٹ ٹیچرز سے متعلق رپورٹیں سامنے آئیں اور کچھ کاروائیاں بھی ہوئیں لیکن یہ مسائل حل ہونے کی بجائے شدت اختیار کرتے گئے۔ ہر مالی سال میں صوبائی ترقیاتی اور غیر ترقیاتی بجٹ کا بڑا حصہ تعلیم کے شعبے ہی میں خرچ ہوتا ہے یہ ضرور ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ جیسے جیسے آبادی میں اضافہ ہوا ہے اسی طرح بلوچستان میں سکولوں،کالجوں، یو نیور سٹیوں کی تعداد مہں اضافہ ہوا ہے اسی طرح طلبا وطالبات اوراساتذہ کی تعداد بھی بڑھی ہے اور یہ رحجان جاری ہے لیکن یہ افسوس ہے کہ درس و تدریس کے تمام شعبوں میں معیار بلند ہونے کی بجائے پست ہوا ہے۔

بلوچستان بدقستمی سے گذشتہ 70 برسوں سے پسماندگی کا شکار ہے یہ ملک کے کل رقبے کا تقریباً 43% فیصد ہے مگر آبادی کے اعتبار سے اس کا تناسب صرف 6% ہے اور بنیادی طور پر رقبے اور آبادی کا یہ وسیع فرق ہی اس کی تعمیر وترقی میں مسائل پیدا کرتا رہا ہے اور جہاں تک مسائل کا تعلق ہے تو یہ غلط منصوبہ بندیوں اور حکمت عملی کی وجہ سے ہی پیدا ہوتے رہے اور بڑھتے اور شدت اختیار کرتے رہے ہیں۔ انگریزوں نے یہاں 1878 کے بعد رفتہ رفتہ تعلیم کا سلسلہ شروع کیا اور یہ برصغیر کے دوسرے علاقوں کے مقابلے میں بہت کم اور سست رفتار تھا۔ 1947 میں پورے بلوچستان میں صرف ایک ہائر سیکنڈری سکول، دس ہائی سکول اور اسی تناسب سے مڈل اور پرائمری اسکول تھے جن میں وقت کے ساتھ اضافہ ہو تا رہا۔



بلوچستان مینجمنٹ انفار میشن سسٹم کے مطابق بلوچستان میں مالی سال 2018-19 میں سر کاری شعبے میں37 بوائز ہائر سیکنڈری سکول ، 694 بوائز ہائی سکو لز، 836 مڈل سکولزاور بوائز پر ائمری سکولوں کی تعداد 8467 ہے۔ یوں بوائز سکولوں کی کل تعداد 10034 ہے اور لڑ کیوں کے ہائر سیکنڈری سکولوں کی تعداد 34 ، ہائی سکولوں کی تعداد 360 ، مڈل سکولوں کی تعداد 583 اور گرلز پرائمری سکولوںکی تعداد 3239 ہے یعنی کل گرلز ہائی سکول 4216 ہیںاور لڑکے لڑکیوں کے کل سکول بلوچستان میں 14250 ہیں۔ اب جہاں تک تعلق ٹیچنگ، نان ٹیچنگ اسٹاف اور طلبا وطالبات کی تعداد کا تعلق ہے تو یہ اعداد وشمار 2015-16 کے ہیں اور ان کے مطابق اس وقت اساتذہ اور استانیوں کی تعداد 48559 ہیں اور نان ٹیچینگ اسٹاف کی تعداد 7841 ہے اُس وقت اسکولوں کی کل تعداد 12980 تھی یعنی ایک سے دوبرسوں میں مجموعی تعداد میں 1270 اسکولوں کا اضافہ کیا گیا۔ اس وقت یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے طلبا و طالبات کی تعداد بارہ لاکھ سے زیادہ ہے۔

واضح ر ہے کہ بلوچستان میںطلبا وطالبات کا صرف 20% پرائیویٹ سکولوں میں پڑھتا ہے اس لیے یہ حقیقت ہے کہ اگر بلوچستان نے ترقی کرنی ہے تو وہ اسی صورت میں ہو گی کہ سرکار ی شعبے کے اسکولوں میں اساتذہ کی حاضریاں یقینی ہوں ان کی استعدادکار میں اٖضافہ ہو، اس کے لیے وزیر اعلی جام کمال نے ایک جرات مندانہ قدم اٹھا یا ہے، انہوں نے بلوچستان میں پہلے تعلیمی ایمر جنسی نافذ کرنے کے بعد ایک مسودہ قانون نافذ کرنے کا آغاز ایک ایکٹ سے کردیا، اس مسودہ قانون میں تعلیم کے شعبے کو '' لازمی خدمات یعنی Essential Services ،، قرار دیا گیا ہے اور اس کی مدت فی الحال چھ ماہ ہے اور اس دوران اگر اس کو صوبائی اسمبلی نے منظور کر لیا تو یہ باقاعد ہ ایک قانون کی حیثیت اختیار کر لے گا۔ لیکن دوسری جانب بلوچستان کے کچھ اساتذہ کی جانب سے اس قانونی مسودے کی مخالفت کی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ اصولی طور پر آئین میں دیئے گئے، انسانی بنیادی حقوق کی شقوں 16 ۔17 اور 18 کے خلا ف ہے۔

یعنی یہ قرار داد آزادیِ اظہار اور پر امن جمہوری احتجاج کے حق سے متصادم ہے جب کہ ماہرین آئین کی ان شقوں سے متعلق یہ وضاحت کرتے ہیں کہ یہ حقوق پرامن اور جمہوری ا حتجاج اور سچ اور جائز حقوق کے لیے رکاوٹ نہیں ہیں مگر تعلیمی اداروں کی تالا بندی غیر قانونی طور پر دباؤ دھونس، دھمکی اور توڑ پھوڑ امن وامان کی صورتحال میں بگاڑ پیدا کرنے اور کار سرکار میں مداخلت کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔آزادی اور جمہوری حقوق کے لحاظ سے پرانی روایت ہے کہ آپ کی آزادی وہاں پر ختم ہو جاتی ہے جہاں سے کسی کی ناک شروع ہوتی ہے۔ یہ روایت یوں ہے کہ جب انقلاب فرانس کے موقع پرفرانس کے عوام جشن منا رہے تھے خوشی سے ناچ رہے تھے تو ناچتے ہو ئے ایک شخص کی چھڑی کسی دوسر ے شخص کی ناک پر لگی تو اس نے اعتراض کیا جس پر چھڑی والے نے کہا کہ آزادی ہے اور اس پر اس نے کہا تھا کہ تماری آزادی وہاں پر ختم ہو جاتی ہے جہاں سے میری ناک شروع ہوتی ہے۔ پھر ایک مثال یہ بھی ہے کہ ''ضرورت ایجاد کی ماں ہے '' اس کی حقیقی عکاسی جمہوریت اور مقننہ سے ہو تی ہے پارلیمنٹ کا بنیادی مقصد ہی قانون سازی ہوتا ہے اور قانون سازی اس لیے کی جاتی ہے کہ معاشرے میں مسائل پیدا ہوتے ہیں جن کو حل کرنے کے لیے قانون کی ضرورت پیش آتی ہے۔

آج سے چالیس پچاس سال پہلے کبھی کسی کو خیال بھی نہیں آیا تھا کہ بلوچستان میں تعلیم کے شعبے کو لازمی خدما ت کا شعبہ قرار دیا جائے۔ جیسے قانون نافذ کرنے والے ادارے، ڈاکٹر ز، ریلوے کے گارڈ ڈرائیور وغیرہ جن کو ہڑتال کرنے، تالا بندی کی اجازت نہیں ہوتی ہے اور یہ 24 گھنٹے کے ملازم تصور کئے جاتے ہیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ جب کبھی خدانخواستہ ملک میں ایمر جنسی نافذ ہوتی ہے تو واقعی بنیادی حقوق سلب ہو جاتے ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ چالیس پچاس برس قبل ہماری اخلاقی اقدار اور روایات اس قدر مضبوط تھی کہ استاد خود ہی اپنی خدمات کو لازمی بلکہ شدید انداز کی لازمی سروس مانتا تھا اُسے احساس تھا کہ ملک و قوم کی تعمیر میں سب سے اہم اور بنیادی کردار ٹیچر کا ہے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اب ایسا نہیں ہے ویسے تو پورے معاشرے میں قحط الرجال کی کیفیت ہے مگر سب سے زیادہ فکر مند ی یہ ہے کہ یہ قحط الرجال جس سے ختم ہو سکتا ہے وہ شعبہ ہی تعلیم کا ہے جو بری طرح انحطاط پذیر ہے اور اسی لیے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ میر جام کمال خان، اُن کی کا بینہ خصوصاً وزیر تعلیم ہا ئر ایجو کشن ظہور احمد بلیدی، مشیر تعلیم برائے ثانوی تعلیم میر محمد خان لہڑی نے یہ مسودہ قانون بنایا۔ چیف سیکرٹری بلوچستان اورنگ زیب حق اور سیکرٹری ثانوی تعلیم طیب لہڑی نے اس قانون کے تحت بلوچستان میں تعلیم کے حقیقی فروغ اور استحکام کو یقینی بنا نے کی بھرپور کوشش کی ہے۔

۔بلو چستان میں مالی سال2018-19 کے صوبائی بجٹ کا کل حجم 3 کھرب 52 ارب روپے تھا جس کا بڑا غیر ترقیاتی حصہ محکمہ تعلیم کے تقریباً ساٹھ ہزارسے زیادہ ملازمین کی تنخواہوں، تقریباً 55000 سرکار ی محکموںکے ریٹائر ملازمین کی پینشنوںمیں جاتا ہے اور اس مالی سال کے غیر ترقیاتی بجٹ میں43 ارب رو پے سے زیادہ رقم بھی تعلیم کے شعبے میں خرچ کی گئی جس کی کچھ تفصیلات صوبائی محکمہ تعلیم سے حاصل کی گئیں جن کے مطابق وزیر اعلیٰ بلوچستان لیپ ٹاپ اسکیم کے لیے سالانہ پی ایس ڈی پی میں 500 ملین رو پے مختص کئے گئے، وزیر اعلیٰ نے 33 ہائی ماڈل سکول بنانے کے لیے 4000 ملین روپے اور بغیر چھتوںکے 1804اسکولوں کی حالت بہتر کرنے کے 5676 ملین روپے خرچ کئے ہیں جب کہ 35000 ٹیچرز کی ٹریننگ کے لیے 605 ملین روپے سے پرفارمنس مینجمنٹ سیل کے قیام کا منصوبہ بنا رکھا ہے، اسی طرح ای ایم آئی ایس میں تحقیق کے لیے 500 ملین روپے خرچ کئے جا رہے ہیں، سکولوں میں بیت الخلا کی تعمیر کے پروجیکٹ پر 1000 ملین روپے خرچ کئے جا رہے ہیں، یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اس سال اب تک RTSM کے تحت غیرحاضر اساتذہ سے کٹوتی کی مد میں 71 ملین روپے کی کٹوتی ہوئی ہے۔

اب جہاں تک تعلق تعلیمی مسائل کا ہے تو یہ ایک حقیقت کہ پاکستان تعلیمی اعتبار سے دنیا میں بہت پیچھے ہے اور یہاں شرح خواندگی صرف 58% ہے جب کہ یہ شرح خواندگی بلو چستان میں مزید کم ہوکر 41% رہ جاتی ہے، اسی طرح پاکستان کی آبادی 22 کروڑ ہے اور اس مجموعی آبادی میں سے سکول جانے کی عمروں کے2 کروڑ 28 لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں اور بلوچستان میں ان بچوں کی تعداد تقریباً 19 لاکھ ہے، یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اسی آئین کے آرٹٰیکل ''25 ۔اے ،، کے تحت ہم پر لازمی ہے کہ ہم ہر اس بچے کو جس کی عمر 5 سال سے 16 کے درمیان ہے مفت اور معیاری تعلیم فراہم کریں، اور یہ بھی اہم ہے کہ آئین کی اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ مکمل طور پر صوبائی اختیار میں ہے اور اس کی تمام تر ذمہ داری صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے، پھر ہمارے دردِ دل رکھنے والے اساتذہ کرام کو یہ بھی سوچنا چاہیئے کہ سرکاری ملازمین سرکار کا لازمی اور بنیادی حصہ ہوتے ہیں اور بلو چستان کے کے نہ صرف 19 لاکھ بچے جو سکولوں سے باہر ہیں ہماری اجتماعی قومی ذمہ داری ہیں بلکہ وہ بارہ لاکھ بچے جو اس وقت سرکاری سکولوں میں موجود ہیں۔

اُن کی اپنی اولاد کی طرح ہیں اور انہوں نے جو سروس جو خدمات اپنی معقول تنخواہوں کے عوض فراہم کرنی ہیں اُن کو پوری طرح اور قومی خدمت کے جذبے کے ساتھ ادا کریں، اور ازخود یہ فیصلہ کریں کہ کیا تعلیم کا شعبہ واقعی لازمی خدمت کا شعبہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ وقت کی پکار ہے جس کو اس صوبائی حکومت نے سنا ہے۔ ماہر ین یہ واضح کرچکے ہیں کہ یہ قانونی مسودہ کسی طرح بنیادی حقوق سے متصادم نہیں اور ہمارے خیال کے مطابق اگر اساتذہ کے کسی حلقے نے اس کے خلاف مزاحمت کی تو یہ تجویز ہے کہ صوبہ بلوچستان کے تمام 14250 سرکاری سکولوں کے بچوں اور ان کے والدین سے اس پر ریفرنڈم کروا لیا جائے اس کے بعد صوبائی اسمبلی کے کسی رکن سمیت کسی کو اس قانونی مسودے کی مخالفت کا اخلاقی جواز باقی نہیں رہے گا کیونکہ مجھے یقین ہے کہ اس طرح کے ریفرنڈم میں سو فیصد فیصلہ اسی قانونی مسودے کے حق میں آئے گا اور یہ ہمارے معاشرے کی تعلیمی ضرورت کی واضح عکاسی ہو گی۔ اور ہونا تو یہ چاہیے کہ اس قانونی مسودے کو باقی تین صوبے بھی اپنے ہاں نافذالعمل کریں تو اس کے مثبت اثرات تھو ڑے ہی عرصے میں سامنے آجائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں