مایوس کن رپورٹ
کمیشن کی رپورٹ کے کچھ مندرجات ایک معروف انگریزی اخبار کے صفحہ اول پر شایع ہوئے۔
اس صدی کی ایک اہم خبر ایبٹ آباد میں امریکی میرین دستوں کی کارروائی میں القاعدہ کے قائد اسامہ بن لادن کی ہلاکت تھی۔ حکومت نے پارلیمنٹ کے مطالبے پر ایبٹ آباد کے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے (ر) جسٹس جاوید اقبال کی قیادت میں ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کیا تھا۔ کمیشن ایک ریٹائرڈ فوجی جنرل ندیم احمد، سابق پولیس افسر عباس خان اور سابق سفارتکار اشرف قاضی پر مشتمل تھا۔ کمیشن نے ایک سال کے عرصے کے دوران اس واقعے کی تحقیقات کی۔ اس تحقیقات میں سیاسی رہنمائوں، فوجی افسران، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہ، صحافی کمیشن کے سامنے پیش ہوئے۔ کمیشن نے تحقیقات کے دوران ہزاروں نوعیت کی دستاویزات کی چھان بین کی تھی، کمیشن نے اس سال جنوری میں وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو رپورٹ پیش کی مگر جمہوری دور ہونے کے باوجود کمیشن کی رپورٹ ابھی تک منظر عام پر نہیں آئی۔
کمیشن کی رپورٹ کے کچھ مندرجات ایک معروف انگریزی اخبار کے صفحہ اول پر شایع ہوئے، بعد میں باقی ذرایع ابلاغ نے یہ رپورٹ شایع کی۔ اس رپورٹ کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسامہ بن لادن کا خاندان 2002 میں پشاور منتقل ہوگیا تھا، پھر اس سال کے وسط میں اسامہ اپنے خاندان کے ساتھ شامل ہوگیا تھا، وہاں سے اسامہ سوات گئے جہاں ان کی ملاقات القاعدہ کے ایک رہنما خالد شیخ محمد سے ہوئی، اسامہ خاندان ہری پور ہزارہ منتقل ہوا جہاں یہ لوگ 2005 تک مقیم رہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسامہ کے ساتھی کویتی نژاد پاکستانی ابو احمد الکینی اور اس کے بھائی ابرار نے جعلی شناختی کارڈ پر ایبٹ آباد میں زمین خریدی اور پھر ایک قلعہ نما مکان تعمیر کرایا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ مکان تین کمپلیکس پر مشتمل تھا، پہلے حصے میں کویتی نژاد اور اس کا خاندان مقیم تھا، دوسرا کمپلیکس 3 منزلہ تھا جس میں اسامہ اپنی بیویوں کے ساتھ مقیم تھا، یہ کمپلیکس اس طرح تعمیر کیا گیا تھا کہ الکینی اور ابرار کے بچے اسامہ کو نہ دیکھ سکیں۔
اس گھر میں ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کی سروس نہیں تھی، صر ف ڈش انٹینا کے ذریعے ایک گھنٹے کی الجزیرہ ٹیلی ویژن نشریات دیکھی جاتی تھی۔ کمیشن کی رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ اس مکان کے لیے زمین کی خریداری کے لیے ہاتھ سے تیار کردہ قومی شناختی کارڈ ریونیو ڈپارٹمنٹ نے قبول کیا، جب کہ 2004 میں ریونیو ڈپارٹمنٹ اور کنٹونمنٹ بورڈ سمیت ملک کے تمام اداروں کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ نادرا کا جاری کردہ کمپیوٹرائزڈ کارڈ ہی قبول کریں گے۔ کمیشن کے اراکین کا کہنا ہے کہ ایبٹ آباد میں تعمیر ہونے والا یہ قلعہ بلڈنگ پلان کی واضح خلاف ورزی تھا۔ اس مکان پر کبھی پراپرٹی ٹیکس بھی عائد نہیں کیا گیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایبٹ آباد کا کنٹونمنٹ بورڈ محکمہ ریونیو اس اہم معاملے پر مکمل طور پر غافل رہا۔
کمیشن نے اس رپورٹ میں امریکی میرین دستے کے آپریشن اور اسامہ کی بیویوں کے بیانات کو بھی حصہ بنایا۔ کمیشن نے رپورٹ کی ہے کہ امریکی شہریوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھی، اس بات کی تحقیقات کرائی کہ اتنے سارے امریکی شہریوںکو ویزے جاری ہوگئے جنہوں نے ایک مضبوط انٹیلی جنس نیٹ ورک قائم کیا۔
پاکستان افغانستان کے تنازعے میں 80 کی دہائی میں ملوث ہوا، امریکا کی ایما پر سی آئی اے کے پروجیکٹ کے لیے ملک میں جہادی کلچر قائم ہوا، دنیا بھر سے انتہا پسندوں کو پشاور اور کوئٹہ میں جمع کیا گیا پھر ان لوگوں کو افغانستان میں جہاد کے لیے کھلا چھوڑ دیا گیا، جب سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکا افغانستان سے واپس گیا تو جنرل ضیاء الحق کے ڈاکٹرائن کے مطابق ان انتہا پسندوں کو دنیا بھر میں اسلامی انقلاب پھیلانے پر لگادیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ 1989 میں جب قومی اسمبلی میں وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تھی تو اراکین اسمبلی کی وفاداریوں کو خریدنے کے لیے اسامہ نے سرمایہ فراہم کیا تھا۔ اسامہ نے اسی پر سرمایہ کاری سوڈان میں بھی کی تھی، جب افغانستان میں ملا عمر کی حکومت قائم ہوئی تو اسامہ وہاں آ گئے، جب امریکا میں نائن الیون کا سانحہ ہوا تو اس کا الزام اسامہ پر لگایا گیا۔ امریکا نے ملا عمر کو پیشکش کی کہ اسامہ اور ان کے ساتھیوں کو امریکا کے حوالے کردیں تو ان کی حکومت کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی۔ افغانستان پر امریکا کے حملے کے بعد طالبان قیادت اور اسامہ روپوش ہو گئے۔
چند سال بعد اتحادی فوج کے سربراہ نے الزام لگایا کہ ملا عمر اور اسامہ پاکستان میں ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے اس الزام کی تردید کی، انھوں نے کئی دفعہ کہا کہ اسامہ گردوں کے مرض میں مبتلا ہیں، وہ کسی ڈرون حملے میں جاں بحق ہوگئے تھے۔ گزشتہ حکومت نے بھی یہ ہی موقف اختیار کیا، مگر بعض صحافی کہتے ہیں کہ امریکی سی آئی اے نے پاکستانی ایجنسیوں سے مایوس ہوکر ایک علیحدہ انٹیلی جنس نیٹ ورک قائم کیا، ریمنڈ ڈیوس اس نیٹ ورک سے منسلک تھا مگر 2 مئی 2011 کا دن دنیا کے لیے حیر ت والا تھا کہ حکومت پاکستان کے دعووں کے باوجود امریکی انٹیلی جنس نیٹ ورک نے ایبٹ آباد میں اسامہ کو ڈھونڈ نکالا اور ایک گھنٹے پر مشتمل آپریشن میں اسامہ کو ہلاک کیا اور اس کی لاش لے کر اطمینان سے چلے گئے۔
یہ صورتحال پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف موقف کو داغدار کرنے کے مترادف تھا، حکومت اور ادارے دبائو میں آ گئے۔ پارلیمنٹ کے دبائو پر حکومت نے تحقیقات کا فیصلہ کمیشن کسی فرد یا ادارے کو اس پورے واقعے کا ذمے دار نہیں کرپایا۔ کمیشن محض اداروں کی کارکردگی پر مایوسی کے اظہار کے علاوہ کچھ نہیں کرسکا۔ اس طرح ذمے داری کا تعین نہ کرنے کی بنا پر رپورٹ کا بہت زیادہ فائدہ نہ ہوگا۔ ایک معروف سابق سرکاری وکیل کا کہنا ہے کہ کمیشن کے ٹرم آف ریفرنس میں ذمے داری کا تعین نہیں تھا، اس بنا پر کمیشن نے خاموشی اختیار کرلی۔
جمہوری ممالک میں تمام قسم کے واقعات پر کمیشن قائم ہوتے ہیں، امریکا میں نائن الیون کے واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن قائم ہوا، اس کمیشن نے کئی ہزار صفحات پر مشتمل رپورٹ جاری کی، یہ رپورٹ کتاب کی صورت میں شایع ہوئی۔ اس کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں ہوم سیکیورٹی کا ادارہ قائم ہوا اور دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے نئے قوانین بنانے کے بعد نائن الیون کے واقعے میں نااہلی کا مظاہرہ کرنے والے افسران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی۔
اس کمیشن کی رپورٹ پر کانگریس سمیت تمام اداروں میں کھل کر بحث ہوئی۔ ایک صحافی نے کمیشن کی مخالفت پر ایک ڈاکومینٹری فلم تیار کی جس میں امریکی ایجنسیوں کو نائن الیون کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا۔ اسی طرح پڑوسی ملک بھارت میں کارگل لڑائی پر ایک کمیشن بنا، کمیشن کی رپورٹ میں کئی اعلیٰ فوجی افسروں کو اپنے عہدے چھوڑنے پڑے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اہم معاملات پر کھلے انداز میں بحث مباحثے کا کلچر ابھی تک قائم نہیں ہوا۔ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کو اب شایع ہونا چاہیے، اس رپورٹ پر پارلیمنٹ سمیت تمام اداروں میں بحث ہونی چاہیے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کا تدارک ہو اور پاکستان کا عالمی سطح پر امیج بہتر ہوسکے۔