علمی‘ ادبی اور تحقیقی اداروں کا مستقبل
کوئی ایسا انتظامی ادارہ یا وزارت قائم کی جائے جو صوبوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالے بغیر قومی نوعیت کے اداروں کو چلا سکے
یگانہ نے کہا تھا
علم کیا' علم کی حقیقت کیا
جیسی' جس کے گمان میں آئی
غالب نے ادب اور قاری کے رشتے کو کچھ اس نظر سے دیکھا کہ
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
اور ادبی تخلیق کی وضاحت کچھ اس طرح سے کی کہ
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریر خامہ' نوائے سروش ہے
اور تحقیق کی زبوں حالی کا نوحہ اقبال نے ان الفاظ میں قلم بند کیا کہ
شیر مردوں سے ہوا پیشۂ تحقیق تہی
رہ گئے صوفی و ملا کے غلام' اے ساقی
علم' ادب اور تحقیق یہ تینوں شعبے ایسے ہیں جن سے کسی معاشرے میں موجود زندگی اور اس کی اصل اور معیاری ترقی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ہمارے سامنے دو راستے کھلے تھے ایک یہ کہ انگریز کے قائم کردہ متعلقہ اداروں کو اپنی ضروریات اور قومی مقاصد کے مطابق ڈھالنے کے بعد جاری رکھا جائے اور دوسرا یہ کہ ان شعبوں کی حفاظت اور تعمیر و ترقی کے لیے نئے ادارے قائم کیے جائیں۔ بدقسمتی سے بوجوہ تعلیم کبھی بھی ہماری قومی ترجیحات کی پہلی صف میں شامل نہیں رہی۔
سو اس سے متعلقہ ذیلی ادارے بھی یا تو بروقت اور صحیح طریقے سے قائم نہ ہو سکے یا پھر ان پر مناسب توجہ نہیں دی گئی۔ عوامی یا نیم سرکاری سرپرستی میں کام کرنے والے کچھ اداروں سے قطع نظر جو چند ادارے مرکز کی سطح پر قائم کیے گئے ان میں سب سے زیادہ قابل ذکر مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔ اردو ڈکشنری بورڈ
2۔ مرکزی اردو بورڈ (اردو سائنس بورڈ)
3۔ اکادمی ادبیات پاکستان
4۔ نیشنل بک فائونڈیشن
5۔ مقتدرہ قومی زبان
6۔ قائد اعظم اکیڈیمی
7۔ نیشنل آرکائیوز (قومی ادارہ برائے تحفظ دستاویزات پاکستان)
یہ ادارے کب اور کیسے بنے اور ان سے پہلے یا ان کے علاوہ کون کون سے ادارے ہیں اور تھے یہ تفصیل تو برادرم عقیل عباس جعفری جیسا کوئی مستند اور محنتی محقق ہی بتا سکتا ہے لیکن فی الوقت اگر ان سات اداروں کے حوالے سے ہی بات کی جائے تو جو صورتحال سامنے آتی ہے وہ کوئی بہت زیادہ حوصلہ افزاء نہیں کہی جا سکتی کہ ان اداروں کو قائم تو کر دیا گیا ہے اور بعض کو بہت معقول سالانہ گرانٹس بھی مل رہی ہیں چند ایک کو شاندار اور خاص طور پر متعلقہ اداروں کے لیے بنائی گئی عمارتوں میں بھی منتقل کر دیا گیا ہے-
لیکن نہ تو ان کی کارکردگی پر نظر رکھنے اور انھیں بہتر طریقے سے چلانے کے لیے ''ماہرین'' کی زیر نگرانی کوئی باقاعدہ طریقۂ کار وضع کیا گیا ہے اور نہ ہی ان میں اُس طرح کی سرکاری بھرتیوں اور نامزدگیوں کو روکا گیا ہے جس کی وجہ سے آج بیشتر قومی ادارے تباہ ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں مگر یہ سب کچھ ہونے کے باوجود ان اداروں میں سے بیشتر کی کارکردگی اگر ''شاندار'' نہیں تو ''معقول'' ضرور کہی جا سکتی ہے اور اگر انھیں کسی واضح اور جامع قومی پالیسی کے تحت چلایا جائے اور ان کے کام میں ''ناجائز سیاسی مداخلت'' نہ کی جائے تو یہ بات دعویٰ سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ ان مقاصد کی بہت حد تک تسلی بخش تکمیل کا کام بخوبی انجام دے سکتے ہیں جن کے لیے ان کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔
مجھے ذاتی طور پر اردو سائنس بورڈ (جو 1982ء سے پہلے مرکزی اردو بورڈ کہلاتا تھا اور جس کے تقریباً 25 برس تک میرے محترم اور اردو ادب کا ایک عظیم نام اشفاق احمد سربراہ رہے) کی تقریباً تین برس سربراہی کا شرف حاصل رہا ہے اور ایک دو کو چھوڑ کر باقی اداروں کی بھی عمومی کارکردگی میرے علم میں ہے۔ ان اداروں کی اکثریت کا انتظامی کنٹرول مرکزی وزارت تعلیم کے پاس رہا ہے جس کے نمایندے ان کے بورڈ آف گورنر میں بھی سرکاری ارکان کے طور پر شامل رہے ہیں۔
چنانچہ عام طور پر انھیں منظور شدہ اور خصوصی طور پر مطلوبہ دونوں طرح کی گرانٹس ملتی رہی ہیں یوں چھوٹی موٹی شکایات سے قطع نظر یہ سلسلہ بحسن و خوبی چلتا رہا ہے لیکن گزشتہ برس منظور ہونے والی اٹھارہویں آئینی ترمیم سے یہ منظرنامہ بہت حد تک بدل گیا ہے اور تعلیم کا شعبہ صوبوں کی سپرداری میں دیے جانے کے باعث یہ علمی ادبی اور تحقیقی ادارے جو وفاقی سطح پر قائم کیے گئے تھے ایک کشمکش اور بے اعتباری کی کیفیت میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ ان کا ہیئتی ڈھانچہ (جو اگرچہ عمومی طور پر چاروں صوبوں پر محیط ہے) وفاق کے حوالے سے قائم کیا گیا تھا اور اس کی فنڈنگ اور کارکردگی کی نگرانی بھی اسی کے دائرہ اختیار میں تھی سو اب دو ہی راستے ہیں یا تو ان کو از سر نو صوبائی سطحوں پر تشکیل دیا جائے (جو میرے خیال کے مطابق ایک پیچیدہ' ناقابل عمل اور مختلف النوع وجوہات کی بنا پر ضرر رساں طریقہ کار ہو گا) یا پھر مرکز میں کوئی ایسی وزارت ادارہ یا رابطہ آفس قائم کیا جائے جو صوبوں کے ساتھ مل کر ان کی دیکھ بھال کرے' اور یہ کوئی بہت نئی یا انوکھی بات نہیں بہت سے ملکوں اور معاشروں میں آپ کو ایسے ادارے مل جائیں گے جن کا تعلق صوبوں کے حقوق سے ہے لیکن عملی طور پر انھیں مرکز کی معاونت اور مشورے سے چلایا جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں علم و ادب اور تحقیق کے شعبوں میں ابھی بہت سا کام کرنے کو پڑا ہے جو کئی نئے اداروں کے قیام کا متقاضی ہے لیکن ان 65 برسوں میں کسی نہ کسی طرح جو ادارے بن گئے ہیں اور دیگر قومی اداروں کے مقابلے میں نسبتاً بہتر انداز میں کام بھی کر رہے ہیں ضرورت ہے کہ ان کی کارکردگی کو تسلسل اور اطمینان بخش فضا مہیا کرنے کے لیے مرکز اور صوبوں کے اشتراک سے کوئی ایسا انتظامی ادارہ یا وزارت قائم کی جائے جو صوبوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالے بغیر ان قومی نوعیت کے اداروں کو چلا سکے۔
بدقسمتی سے حکومت کی طرح ہمارے الیکٹرانک میڈیا کے لیے بھی تعلیم کا مسئلہ کبھی ''اولین ترجیحات'' کی صف میں داخل نہیں ہو سکا لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے نان ایشوز پر ہر شام مختلف طرح کے تماشے دکھانے والے اینکر حضرات و خواتین کچھ وقت نکال کر اس سچ مچ کے ''ایشو'' پر بھی بات کریں تاکہ اس ملک کے اہل فکر و نظر کی آراء کے وزن سے حکومت وقت بھی اس مسئلے کی اہمیت سے آگاہ ہو اور قوم کے اخلاق، تہذیب، تاریخ اور شناخت سے متعلق یہ ادارے پہلے سے بھی بہتر انداز میں کام کر سکیں۔
علم کیا' علم کی حقیقت کیا
جیسی' جس کے گمان میں آئی
غالب نے ادب اور قاری کے رشتے کو کچھ اس نظر سے دیکھا کہ
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
اور ادبی تخلیق کی وضاحت کچھ اس طرح سے کی کہ
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریر خامہ' نوائے سروش ہے
اور تحقیق کی زبوں حالی کا نوحہ اقبال نے ان الفاظ میں قلم بند کیا کہ
شیر مردوں سے ہوا پیشۂ تحقیق تہی
رہ گئے صوفی و ملا کے غلام' اے ساقی
علم' ادب اور تحقیق یہ تینوں شعبے ایسے ہیں جن سے کسی معاشرے میں موجود زندگی اور اس کی اصل اور معیاری ترقی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ہمارے سامنے دو راستے کھلے تھے ایک یہ کہ انگریز کے قائم کردہ متعلقہ اداروں کو اپنی ضروریات اور قومی مقاصد کے مطابق ڈھالنے کے بعد جاری رکھا جائے اور دوسرا یہ کہ ان شعبوں کی حفاظت اور تعمیر و ترقی کے لیے نئے ادارے قائم کیے جائیں۔ بدقسمتی سے بوجوہ تعلیم کبھی بھی ہماری قومی ترجیحات کی پہلی صف میں شامل نہیں رہی۔
سو اس سے متعلقہ ذیلی ادارے بھی یا تو بروقت اور صحیح طریقے سے قائم نہ ہو سکے یا پھر ان پر مناسب توجہ نہیں دی گئی۔ عوامی یا نیم سرکاری سرپرستی میں کام کرنے والے کچھ اداروں سے قطع نظر جو چند ادارے مرکز کی سطح پر قائم کیے گئے ان میں سب سے زیادہ قابل ذکر مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔ اردو ڈکشنری بورڈ
2۔ مرکزی اردو بورڈ (اردو سائنس بورڈ)
3۔ اکادمی ادبیات پاکستان
4۔ نیشنل بک فائونڈیشن
5۔ مقتدرہ قومی زبان
6۔ قائد اعظم اکیڈیمی
7۔ نیشنل آرکائیوز (قومی ادارہ برائے تحفظ دستاویزات پاکستان)
یہ ادارے کب اور کیسے بنے اور ان سے پہلے یا ان کے علاوہ کون کون سے ادارے ہیں اور تھے یہ تفصیل تو برادرم عقیل عباس جعفری جیسا کوئی مستند اور محنتی محقق ہی بتا سکتا ہے لیکن فی الوقت اگر ان سات اداروں کے حوالے سے ہی بات کی جائے تو جو صورتحال سامنے آتی ہے وہ کوئی بہت زیادہ حوصلہ افزاء نہیں کہی جا سکتی کہ ان اداروں کو قائم تو کر دیا گیا ہے اور بعض کو بہت معقول سالانہ گرانٹس بھی مل رہی ہیں چند ایک کو شاندار اور خاص طور پر متعلقہ اداروں کے لیے بنائی گئی عمارتوں میں بھی منتقل کر دیا گیا ہے-
لیکن نہ تو ان کی کارکردگی پر نظر رکھنے اور انھیں بہتر طریقے سے چلانے کے لیے ''ماہرین'' کی زیر نگرانی کوئی باقاعدہ طریقۂ کار وضع کیا گیا ہے اور نہ ہی ان میں اُس طرح کی سرکاری بھرتیوں اور نامزدگیوں کو روکا گیا ہے جس کی وجہ سے آج بیشتر قومی ادارے تباہ ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں مگر یہ سب کچھ ہونے کے باوجود ان اداروں میں سے بیشتر کی کارکردگی اگر ''شاندار'' نہیں تو ''معقول'' ضرور کہی جا سکتی ہے اور اگر انھیں کسی واضح اور جامع قومی پالیسی کے تحت چلایا جائے اور ان کے کام میں ''ناجائز سیاسی مداخلت'' نہ کی جائے تو یہ بات دعویٰ سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ ان مقاصد کی بہت حد تک تسلی بخش تکمیل کا کام بخوبی انجام دے سکتے ہیں جن کے لیے ان کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔
مجھے ذاتی طور پر اردو سائنس بورڈ (جو 1982ء سے پہلے مرکزی اردو بورڈ کہلاتا تھا اور جس کے تقریباً 25 برس تک میرے محترم اور اردو ادب کا ایک عظیم نام اشفاق احمد سربراہ رہے) کی تقریباً تین برس سربراہی کا شرف حاصل رہا ہے اور ایک دو کو چھوڑ کر باقی اداروں کی بھی عمومی کارکردگی میرے علم میں ہے۔ ان اداروں کی اکثریت کا انتظامی کنٹرول مرکزی وزارت تعلیم کے پاس رہا ہے جس کے نمایندے ان کے بورڈ آف گورنر میں بھی سرکاری ارکان کے طور پر شامل رہے ہیں۔
چنانچہ عام طور پر انھیں منظور شدہ اور خصوصی طور پر مطلوبہ دونوں طرح کی گرانٹس ملتی رہی ہیں یوں چھوٹی موٹی شکایات سے قطع نظر یہ سلسلہ بحسن و خوبی چلتا رہا ہے لیکن گزشتہ برس منظور ہونے والی اٹھارہویں آئینی ترمیم سے یہ منظرنامہ بہت حد تک بدل گیا ہے اور تعلیم کا شعبہ صوبوں کی سپرداری میں دیے جانے کے باعث یہ علمی ادبی اور تحقیقی ادارے جو وفاقی سطح پر قائم کیے گئے تھے ایک کشمکش اور بے اعتباری کی کیفیت میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ ان کا ہیئتی ڈھانچہ (جو اگرچہ عمومی طور پر چاروں صوبوں پر محیط ہے) وفاق کے حوالے سے قائم کیا گیا تھا اور اس کی فنڈنگ اور کارکردگی کی نگرانی بھی اسی کے دائرہ اختیار میں تھی سو اب دو ہی راستے ہیں یا تو ان کو از سر نو صوبائی سطحوں پر تشکیل دیا جائے (جو میرے خیال کے مطابق ایک پیچیدہ' ناقابل عمل اور مختلف النوع وجوہات کی بنا پر ضرر رساں طریقہ کار ہو گا) یا پھر مرکز میں کوئی ایسی وزارت ادارہ یا رابطہ آفس قائم کیا جائے جو صوبوں کے ساتھ مل کر ان کی دیکھ بھال کرے' اور یہ کوئی بہت نئی یا انوکھی بات نہیں بہت سے ملکوں اور معاشروں میں آپ کو ایسے ادارے مل جائیں گے جن کا تعلق صوبوں کے حقوق سے ہے لیکن عملی طور پر انھیں مرکز کی معاونت اور مشورے سے چلایا جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں علم و ادب اور تحقیق کے شعبوں میں ابھی بہت سا کام کرنے کو پڑا ہے جو کئی نئے اداروں کے قیام کا متقاضی ہے لیکن ان 65 برسوں میں کسی نہ کسی طرح جو ادارے بن گئے ہیں اور دیگر قومی اداروں کے مقابلے میں نسبتاً بہتر انداز میں کام بھی کر رہے ہیں ضرورت ہے کہ ان کی کارکردگی کو تسلسل اور اطمینان بخش فضا مہیا کرنے کے لیے مرکز اور صوبوں کے اشتراک سے کوئی ایسا انتظامی ادارہ یا وزارت قائم کی جائے جو صوبوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالے بغیر ان قومی نوعیت کے اداروں کو چلا سکے۔
بدقسمتی سے حکومت کی طرح ہمارے الیکٹرانک میڈیا کے لیے بھی تعلیم کا مسئلہ کبھی ''اولین ترجیحات'' کی صف میں داخل نہیں ہو سکا لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے نان ایشوز پر ہر شام مختلف طرح کے تماشے دکھانے والے اینکر حضرات و خواتین کچھ وقت نکال کر اس سچ مچ کے ''ایشو'' پر بھی بات کریں تاکہ اس ملک کے اہل فکر و نظر کی آراء کے وزن سے حکومت وقت بھی اس مسئلے کی اہمیت سے آگاہ ہو اور قوم کے اخلاق، تہذیب، تاریخ اور شناخت سے متعلق یہ ادارے پہلے سے بھی بہتر انداز میں کام کر سکیں۔