سبق وسیم کی شادی سے
اگر وسیم کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر سوچا جائے تو سبق ہی سبق نظر آتے ہیں۔
وسیم اکرم نے آسٹریلوی دوشیزہ سے شادی کا فیصلہ کرلیا۔ اس ایک خبر میں ہمارے معاشرے کی نوجوان لڑکیوں کے لیے ایک سبق ہے۔ ویسے تو مشہور بلے باز کی زندگی میں کئی ایک سبق پوشیدہ ہیں لیکن سب سے اہم نصیحت لڑکپن کو عبور کرنے والی بچیوں کے لیے ہے۔ وہ کنواریاں جو کسی نوجوان کو پسند کرتی ہیں انھیں وسیم اکرم کی ازدواجی زندگی کے دوسرے دور کو غور سے دیکھنا چاہیے۔ وہ بیٹیاں جو اپنی پسند کی خاطر ماں باپ سے ٹکرانے کا سوچ رہی ہیں ان کے لیے مشہور کرکٹر کی زندگی میں ایک اہم سبق پوشیدہ ہے۔
کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان نے تیس سالہ شانیریا سے شادی کا فیصلہ کرلیا ہے۔ وسیم نے روایتی انداز میں گھٹنوں کے بل بیٹھ کر آسٹریلوی خاتون کو شادی کی پیشکش کی۔ خاتون کا کہنا ہے کہ یہ ان کی زندگی کا سب سے رومانوی لمحہ تھا۔ بننے والے دولہا نے اپنے ہونے والے سسر سے فون پر بات کی اور ان کی دعائیں لیں۔
وسیم اکرم کے بچوں نے بھی اپنے والد کی شادی کے فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا۔ میلبورن سے تعلق رکھنے والی خاتون نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ وسیم کی پہلی اہلیہ ہما کا انتقال 2009 میں ہوگیا تھا۔ اس وقت بچوں کی عمریں آٹھ اور گیارہ سال کی تھیں۔ پہلی بیوی کے انتقال کے چار برسوں بعد وسیم اکرم ایک بار پھر رشتہ ازدواج میں منسلک ہوجائیں گے۔ تعلقات عامہ کی سابق مشیر شادی کے بعد پاکستان میں قیام کریں گی۔ دنیا کے مشہور بالر کی زندگی میں ہمارے لیے کئی سبق چھپے ہوئے ہیں۔سب سے اہم سبق نوجوان بچیوں کے لیے ہے۔ یعنی وہ فاسٹ بالر کی منگنی سے شادی تک کے مراحل کو غور سے دیکھیں۔ اگر وسیم کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر سوچا جائے تو سبق ہی سبق نظر آتے ہیں۔ بائیں ہاتھ سے گیند کرنے والے بالر نے فرسٹ کلاس کرکٹ نہیں کھیلی تھی۔ اچانک انھیں کپتان عمران خان کے سامنے لے آیا گیا۔ جب وہ آزمائشی بنیادوں پر گیند کروا رہے تھے توان کے پاس اتنی دولت اور وسائل نہ تھے۔
وہاں سے وسیم کا انتخاب ہوا اور پھر انھوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اﷲ تعالیٰ کبھی کسی کو اچانک نوازتا ہے اور نوازتا ہی چلا جاتا ہے۔ ہمیں اس سے حسد نہیں کرنا چاہیے اور اسے قدرت کا فیصلہ سمجھ کر سراہنا چاہیے۔ جس پر اﷲ کی بیش بہا نعمتیں ہوں اسے بھی انکساری و عاجزی سے رہنا چاہیے۔ اگر کوئی قسمت کا دھنی ہو تو اس کے کردار کو غور سے دیکھنا چاہیے۔ اگر وہ بدل جائے یا بے نقاب ہوجائے تو سمجھ لیں کہ اﷲ اس کی رسی جلد کھینچ لے گا۔ وسیم کی خوش مزاجی ظاہر کرتی ہے کہ وہ بدلا نہیں، تو یہ پہلا سبق ہے جو ہمیں وسیم کی زندگی سے ملتا ہے لیکن سب سے اہم سبق کنواریوں کے لیے ہے۔
ہما اپنے شوہر اور دو بچوں کے ساتھ خوشگوار زندگی گزار رہی تھیں۔ ان کے ہاتھوں کی لکیروں میں شاید زندگی کی مہلت کم ہو۔ بیمار ہوئیں تو وسیم انھیں لے کر بیرون ملک جارہے تھے۔ ہمارا ایمان ہے کہ ہر انسان کی موت کا وقت اور جگہ متعین ہے۔ اگر کوئی کہتا کہ ہما کی زندگی کے آخری لمحات بھارت کے صوبے چنائے میں گزریں گے تو کوئی یقین نہ کرتا۔ ہما کی طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو طیارے کا رخ بھارت کی جانب موڑ دیا گیا۔ وہاں کے اسپتالوں میں ہما کا علاج ہوا لیکن زندگی نے وفا نہ کی۔ پاکستان سے امریکا کو روانگی اور کہیں آثار نہیں تھے کہ ہندوستان جانا ہے۔ سچ ہے کہ موت کا وقت و مقام معین ہے۔
بارہ سے پندرہ سال کے بچوں کو ناسمجھ کہا جاسکتا ہے اور نہ بہت زیادہ سمجھدار۔ اس صورت حال کے باوجود بھی وسیم اکرم کے صاحبزادوں نے اپنے والد کی دوسری شادی پر خوشی کا اظہار کیا۔ یقینا سگی ماں کی محبت اپنی جگہ ہوتی ہے اور اس کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔ پچیس تیس سال قبل اگر کسی کی بیوی کا انتقال ہوجاتا تو مرد کی دوسری شادی کی سب سے زیادہ مخالفت خاندان کی جانب سے ہوتی اور اس میں بیٹے پیش پیش ہوتے۔ اب معاشرے میں ایک اچھی سماجی تبدیلی آئی ہے۔ لوگ مرنے والی کے ساتھ اس کے شوہر کو مارنے پر اب آمادہ نہیں ہوتے۔ اگر مرد کی عمر، صحت اور پیسہ مناسب ہے تو اسے دوسری شادی سے نہیں روکنا چاہیے۔ تینوں باتوں کے لیے لفظ مناسب، یقین جانیے، مناسب ترین ہے۔ اب ہر فرد، خاندان اور معاشرہ اس کی تشریح کرسکتا ہے۔ ایک مرد کی شادی ہوگی تو یقیناً ایک خاتون کا گھر بھی بس جائے گا۔ یہ تیسرا سبق ہے جو ہمیں وسیم کی شادی سے مل رہا ہے لیکن سب سے اہم سبق نوجوان بچیوں کے لیے ہے۔
شادی کے بعدوسیم اکرم کی اہلیہ پاکستان میں رہیں گی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فاسٹ بالر نے اپنے والدین و رشتے داروں کو بھی اعتماد میں لیا ہوگا۔ دلہن کا اسلام قبول کرنا بھی اعلیٰ ظرفی ہے۔ قرآن مسلمانوں کو مشرک یعنی ہندو مرد و خواتین سے شادی کی بالکل اجازت نہیں دیتا۔ اگرچہ اہل کتاب سے اجازت ہے لیکن ہر چوتھے اور پانچویں سبق کے علاوہ سب سے اہم سبق نوجوان لڑکیوں کے لیے ہے۔ بالر کے دوسری مرتبہ دلہا بننے میں اہم سبق ان دوشیزاؤں کے لیے ہے جو وسیم کے بیٹوں سے عمر میں ذرا بڑی ہوں گی۔
47 سالہ وسیم اکرم ایک بین الاقوامی شخصیت کے مالک، مشہور و دولت مند شخص ہیں۔ عزت، دولت اور شہرت ان کے گرد گھومتی ہے۔ اس پوزیشن کے باوجود بھی انھوں نے شادی کے لیے اہل خانہ، بچوں اور رشتے داروں کو اعتماد میں لیا ہے۔ اگر وہ اپنی مرضی سے سب کچھ کرلیتے تو کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ یہ خاندان کی اہمیت کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ کوئی شخص کتنا بھی طاقتور ہوجائے، اسے اپنے قریبی لوگوں کی ضرورت ہر لمحہ رہتی ہے۔ والدین سے ٹکرا کر پسند کی شادی کرنے کا سوچنے والی بچیوں کو اس بات پر ضرور غور کرنا چاہیے۔
خواتین کو آزادی دلانے والی این جی اوز آزادی کے نام پر کم عمر بچیوں کو کافی ورغلا چکی ہیں۔ چند دن قبل پشاور ہائی کورٹ نے پسند کی شادی کے بعد طلاق ہوجانے والی دو خواتین کو دارالامان بھجوانے کے احکامات جاری کیے۔ ''نہ خدا ملا نہ وصال صنم'' سے بہتر ہے کہ نوجوان لڑکیوں کو مضبوطی سے خاندان سے جڑے رہنا چاہیے۔ ''نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے '' بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ اگر لڑکیوں کی پسند اور والدین کی پسند مل جاتی ہے تو اس سے اچھی کوئی بات نہیں ہوسکتی۔ اگر صورت حال مختلف ہو تو گھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھنا بہت بڑا رسک ہوتا ہے۔ ایسا رسک تو مضبوط، توانا، خوشحال، مشہور، دنیا دیکھے اور عمر رسیدہ وسیم اکرم نے بھی نہیں لیا۔ جوں جوں وسیم کی آسٹریلوی دوشیزہ سے شادی کی خبریں آئیں گی ویسے ویسے یہ کالم پڑھنے والی پاکستانی دوشیزائیں اپنے خاندان سے قریب تر ہوتی جائیں گی۔ یہی اہم سبق ہے وسیم کی ہونے والی شادی سے۔