قاہرہ کے التحریر اسکوائر سے پاکستانی التحریر اسکوائر تک
اگرچہ حسنی مبارک کی آمرانہ حکومت کا خاتمہ مصری عوام کے لیے اچھی خبر تھی
گزشتہ برسوں عرب دنیا میں اٹھنے والی انقلاب کی لہروں کے نتیجے میں لیبیا سے لے کر مصر تک آمرانہ و جابرانہ حکومتوں کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ تین دہائیوں سے مصر پر بلاشرکت غیرے حکمرانی کرنے والے آمر حسنی مبارک کو بھی قاہرہ کے التحریر چوک پر جمع لاکھوں افراد کے حسنی آمریت کے خلاف ہونے والے شب و روز احتجاجی مظاہروں کے بعد چاروناچار اقتدار چھوڑنا پڑا۔ ملک میں عام انتخابات کا ڈول ڈالا گیا، جس میں اسلام پسند اخوان المسلمون نے کامیابی حاصل کی اور 62 سالہ محمد مرسی صدارتی انتخاب میں 52 فیصد ووٹ لے کر مصر کی تاریخ کے پہلے جمہوری صدر منتخب ہوگئے۔
اگرچہ حسنی مبارک کی آمرانہ حکومت کا خاتمہ مصری عوام کے لیے اچھی خبر تھی، پورے ملک میں حسنی مبارک کی رخصتی پر جشن منایا گیا، عوام بجاطور پر اب یہ توقع کر رہے تھے کہ آمریت کی لمبی سیاہ رات کے بعد طلوع ہونے والا جمہوریت کا اجالا ملک و قوم کے روشن و تابناک مستقبل کی نوید لائے گا، عوام کے دیرینہ مسائل حل ہوں گے اور ملک میں جمہوری قدروں کو استحکام ملے گا۔
لیکن بعد کے حالات میں اخوان المسلمون کی کامیابی اور محمد مرسی کا منصب صدارت پر فائز ہونا ملک کی لبرل قوتوں، عسکری حلقوں، امریکا اور اس کے حامیوں کے لیے کسی صورت قابل قبول نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اول مرحلے میں اخوان المسلمون کی کامیابی اور محمد مرسی کے صدارتی انتخاب کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی سازشیں کی گئیں جو ناکام ثابت ہوئیں اور محمد مرسی صدر منتخب ہوگئے، تاہم مرسی اور اخوان المسلمون کے خلاف داخلی و خارجی قوتوں نے پس پردہ سازشوں کے جال بننا شروع کردیے اور صدر مرسی اپنے مخالف عناصر کی چالاکیوں کو سمجھنے سے قاصر رہے۔
اگرچہ ایک جانب مصر کے لبرل اور آزاد خیال حلقے اور غیر سیاسی عناصر بھی صدر مرسی کی مخالفت پر کمربستہ تھے اور انھیں بیرونی طاقتوں کی آشیرباد بھی حاصل تھی، بعض مذہبی عناصر بھی صدر مرسی کی مخالفت کر رہے تھے تو دوسری جانب صدر مرسی کے بعض حکومتی اقدامات بھی ان کی مخالفت میں اضافے کا سبب بنے۔ مبصرین کے مطابق صدر مرسی واضح حمایت سے منصب صدارت پر فائز ہونے کے باوجود اسلام پسند اور لبرل قوتوں کے درمیان موجود فاصلوں کو کم کرنے اور افہام و تفہیم پیدا کرنے میں ناکام رہے، اسی طرح انتظامی سطح پر بھی ان کی حکومت میں کمزوریاں اور خامیاں نمایاں ہوتی چلی گئیں۔
معاشی و اقتصادی مسائل بھی صدر مرسی کی حکومت کے کنٹرول سے باہر ہورہے تھے، جس کے باعث عوام کی مشکلات میں اضافہ ہونے لگا تھا جس کا براہ راست فائدہ مرسی مخالف قوتوں نے اٹھایا اور وہ عوام کی ایک بڑی تعداد کو صدر مرسی کے خلاف احتجاج کے لیے سڑکوں پر لانے میں کامیاب ہوگئے۔ مصر کی عسکری قیادت اور عالمی اسٹیبلشمنٹ پہلے ہی مناسب موقع کی تلاش میں تھی کیونکہ صدر مرسی امریکی مفادات کی راہ میں رکاوٹ اور عرب دنیا کے ہیرو بننے کے خواہاں تھے، جو مغرب کو کسی صورت قبول نہ تھا، نتیجتاً وہ لمحہ آن پہنچا جب مصری فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتح السیسی نے تحریر اسکوائر پر جمع ہونے والے مرسی حکومت کے لاکھوں مظاہرین کے احتجاج اور پرزور مطالبے پر 30 جون 2012 کو اقتدار سنبھالنے والے صدر مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔
آئین معطل کرکے اخوان المسلمون کی قیادت کو پس زنداں ڈال دیا گیا ہے اور آئینی عدالت کے چیف جسٹس عادل منصور کی قیادت میں ٹیکنو کریٹس کی حکومت قائم کردی گئی ہے۔ مصر کے نئے آمر نے قوم کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ملک میں جلد انتخابات کراکے اقتدار نو منتخب قیادت کے حوالے کردیا جائے گا۔ معزول صدر محمد مرسی کے حامیوں اور اخوان المسلمون نے فوجی بغاوت کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کردیا اور مصر کی سڑکوں پر حکومت کے حامی و مخالف گروپوں کے درمیان جھڑپوں میں شدت آتی جارہی ہے، مصر ایک مرتبہ پھر خونریز داخلی خانہ جنگی کی سمت بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔
مصر کے ''تازہ انقلاب'' سے بظاہر وہاں کے لبرل خیال طبقات اور آمریت کو فتح حاصل ہوگئی ہے لیکن مصر ایک مرتبہ پھر جمہوریت کی پٹری سے اتر گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عوام کو فوجی قیادت کے اس دعوے کی صداقت پر یقین ہے کہ ان پر جبری مسلط کی گئی بنگلہ دیش ماڈل ٹیکنوکریٹس کی حکومت واقعی دی گئی مقررہ مدت میں اپنے وعدے کے مطابق مصر میں انتخابات کروا کے اقتدار نئی قیادت کے حوالے کردے گی؟ اور مصر پھر سے جمہوریت کی راہ پر گامزن ہوجائے گا؟ تجزیہ نگاروں اور ماہرین کی آراء کے مطابق مصر ایک مرتبہ پھر طویل عرصے کے لیے جمہوریت سے دور ہوگیا ہے، داخلی سطح پر عسکری حلقے اور مصر کے لبرل طبقات اور اخوان کے مخالفین جب کہ خارجی سطح پر امریکا اور اس کے حامی لمبے عرصے تک ٹیکنوکریٹس حکومت کے خواہاں ہیں جس میں وہ اپنی مرضی کے لوگ ''فٹ'' کرسکتے ہیں جو ان کے مفادات کے نگہبان بنے رہیں۔
بنگلہ دیش میں بھی ٹیکنوکریٹس نے طویل عرصے حکمرانی کی تھی۔ وطن عزیز میں بھی گزشتہ دور حکومت میں متعدد بار بنگلہ دیش ماڈل کی بازگشت سنائی دیتی رہی لیکن چونکہ ملک عوام کی تائید و حمایت اور صدر آصف علی زرداری کی مفاہمانہ پالیسی کے تحت پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت نے مضبوطی سے قدم جمائے رکھے اس لیے حکومت کے خاتمے، آصف علی زرداری کی ایوان صدر سے رخصتی کی تاریخوں پر تاریخیں دینے والے بدخواہوں کی ملک میں بنگلہ دیش ماڈل حکومت کے قیام کی خواہشوں کے پھول بنا کھلے مرجھا گئے اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک منتخب جمہوری حکومت نے اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کی ملک میں عام انتخابات کا انعقاد ممکن ہوا اور پہلی مرتبہ ایک سویلین حکومت سے پرامن طریقے سے اقتدار دوسری منتخب سویلین قیادت کو منتقل ہوا۔
اس حوالے سے پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مثبت جمہوری سوچ اور پیشہ وارانہ تعمیری کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم (ن) لیگ کی نئی منتخب حکومت نے اب تک جو اقدامات اٹھائے ہیں اور جس طرح عام آدمی کو توانائی کے بحران، مہنگائی کے طوفان اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبادیا گیا ہے جس میں آئی ایم ایف سے کڑی شرائط پر قرضے کے بعد مزید اضافے کا خدشہ ہے تو اس پس منظر میں ماہرین، مبصرین یہ کہنے پر مجبور نظر آتے ہیں کہ حکومتی اقدامات سے عوامی سطح پر جو شدید بے چینی، عدم اطمینان، اضطراب اور حکومت کے خلاف غم و غصہ پایا جاتا ہے اس کے نتیجے میں پاکستانی شہر بھی تحریر اسکوائر بن سکتے ہیں۔
اگرچہ حسنی مبارک کی آمرانہ حکومت کا خاتمہ مصری عوام کے لیے اچھی خبر تھی، پورے ملک میں حسنی مبارک کی رخصتی پر جشن منایا گیا، عوام بجاطور پر اب یہ توقع کر رہے تھے کہ آمریت کی لمبی سیاہ رات کے بعد طلوع ہونے والا جمہوریت کا اجالا ملک و قوم کے روشن و تابناک مستقبل کی نوید لائے گا، عوام کے دیرینہ مسائل حل ہوں گے اور ملک میں جمہوری قدروں کو استحکام ملے گا۔
لیکن بعد کے حالات میں اخوان المسلمون کی کامیابی اور محمد مرسی کا منصب صدارت پر فائز ہونا ملک کی لبرل قوتوں، عسکری حلقوں، امریکا اور اس کے حامیوں کے لیے کسی صورت قابل قبول نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اول مرحلے میں اخوان المسلمون کی کامیابی اور محمد مرسی کے صدارتی انتخاب کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی سازشیں کی گئیں جو ناکام ثابت ہوئیں اور محمد مرسی صدر منتخب ہوگئے، تاہم مرسی اور اخوان المسلمون کے خلاف داخلی و خارجی قوتوں نے پس پردہ سازشوں کے جال بننا شروع کردیے اور صدر مرسی اپنے مخالف عناصر کی چالاکیوں کو سمجھنے سے قاصر رہے۔
اگرچہ ایک جانب مصر کے لبرل اور آزاد خیال حلقے اور غیر سیاسی عناصر بھی صدر مرسی کی مخالفت پر کمربستہ تھے اور انھیں بیرونی طاقتوں کی آشیرباد بھی حاصل تھی، بعض مذہبی عناصر بھی صدر مرسی کی مخالفت کر رہے تھے تو دوسری جانب صدر مرسی کے بعض حکومتی اقدامات بھی ان کی مخالفت میں اضافے کا سبب بنے۔ مبصرین کے مطابق صدر مرسی واضح حمایت سے منصب صدارت پر فائز ہونے کے باوجود اسلام پسند اور لبرل قوتوں کے درمیان موجود فاصلوں کو کم کرنے اور افہام و تفہیم پیدا کرنے میں ناکام رہے، اسی طرح انتظامی سطح پر بھی ان کی حکومت میں کمزوریاں اور خامیاں نمایاں ہوتی چلی گئیں۔
معاشی و اقتصادی مسائل بھی صدر مرسی کی حکومت کے کنٹرول سے باہر ہورہے تھے، جس کے باعث عوام کی مشکلات میں اضافہ ہونے لگا تھا جس کا براہ راست فائدہ مرسی مخالف قوتوں نے اٹھایا اور وہ عوام کی ایک بڑی تعداد کو صدر مرسی کے خلاف احتجاج کے لیے سڑکوں پر لانے میں کامیاب ہوگئے۔ مصر کی عسکری قیادت اور عالمی اسٹیبلشمنٹ پہلے ہی مناسب موقع کی تلاش میں تھی کیونکہ صدر مرسی امریکی مفادات کی راہ میں رکاوٹ اور عرب دنیا کے ہیرو بننے کے خواہاں تھے، جو مغرب کو کسی صورت قبول نہ تھا، نتیجتاً وہ لمحہ آن پہنچا جب مصری فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتح السیسی نے تحریر اسکوائر پر جمع ہونے والے مرسی حکومت کے لاکھوں مظاہرین کے احتجاج اور پرزور مطالبے پر 30 جون 2012 کو اقتدار سنبھالنے والے صدر مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔
آئین معطل کرکے اخوان المسلمون کی قیادت کو پس زنداں ڈال دیا گیا ہے اور آئینی عدالت کے چیف جسٹس عادل منصور کی قیادت میں ٹیکنو کریٹس کی حکومت قائم کردی گئی ہے۔ مصر کے نئے آمر نے قوم کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ملک میں جلد انتخابات کراکے اقتدار نو منتخب قیادت کے حوالے کردیا جائے گا۔ معزول صدر محمد مرسی کے حامیوں اور اخوان المسلمون نے فوجی بغاوت کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کردیا اور مصر کی سڑکوں پر حکومت کے حامی و مخالف گروپوں کے درمیان جھڑپوں میں شدت آتی جارہی ہے، مصر ایک مرتبہ پھر خونریز داخلی خانہ جنگی کی سمت بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔
مصر کے ''تازہ انقلاب'' سے بظاہر وہاں کے لبرل خیال طبقات اور آمریت کو فتح حاصل ہوگئی ہے لیکن مصر ایک مرتبہ پھر جمہوریت کی پٹری سے اتر گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عوام کو فوجی قیادت کے اس دعوے کی صداقت پر یقین ہے کہ ان پر جبری مسلط کی گئی بنگلہ دیش ماڈل ٹیکنوکریٹس کی حکومت واقعی دی گئی مقررہ مدت میں اپنے وعدے کے مطابق مصر میں انتخابات کروا کے اقتدار نئی قیادت کے حوالے کردے گی؟ اور مصر پھر سے جمہوریت کی راہ پر گامزن ہوجائے گا؟ تجزیہ نگاروں اور ماہرین کی آراء کے مطابق مصر ایک مرتبہ پھر طویل عرصے کے لیے جمہوریت سے دور ہوگیا ہے، داخلی سطح پر عسکری حلقے اور مصر کے لبرل طبقات اور اخوان کے مخالفین جب کہ خارجی سطح پر امریکا اور اس کے حامی لمبے عرصے تک ٹیکنوکریٹس حکومت کے خواہاں ہیں جس میں وہ اپنی مرضی کے لوگ ''فٹ'' کرسکتے ہیں جو ان کے مفادات کے نگہبان بنے رہیں۔
بنگلہ دیش میں بھی ٹیکنوکریٹس نے طویل عرصے حکمرانی کی تھی۔ وطن عزیز میں بھی گزشتہ دور حکومت میں متعدد بار بنگلہ دیش ماڈل کی بازگشت سنائی دیتی رہی لیکن چونکہ ملک عوام کی تائید و حمایت اور صدر آصف علی زرداری کی مفاہمانہ پالیسی کے تحت پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت نے مضبوطی سے قدم جمائے رکھے اس لیے حکومت کے خاتمے، آصف علی زرداری کی ایوان صدر سے رخصتی کی تاریخوں پر تاریخیں دینے والے بدخواہوں کی ملک میں بنگلہ دیش ماڈل حکومت کے قیام کی خواہشوں کے پھول بنا کھلے مرجھا گئے اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک منتخب جمہوری حکومت نے اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کی ملک میں عام انتخابات کا انعقاد ممکن ہوا اور پہلی مرتبہ ایک سویلین حکومت سے پرامن طریقے سے اقتدار دوسری منتخب سویلین قیادت کو منتقل ہوا۔
اس حوالے سے پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مثبت جمہوری سوچ اور پیشہ وارانہ تعمیری کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم (ن) لیگ کی نئی منتخب حکومت نے اب تک جو اقدامات اٹھائے ہیں اور جس طرح عام آدمی کو توانائی کے بحران، مہنگائی کے طوفان اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبادیا گیا ہے جس میں آئی ایم ایف سے کڑی شرائط پر قرضے کے بعد مزید اضافے کا خدشہ ہے تو اس پس منظر میں ماہرین، مبصرین یہ کہنے پر مجبور نظر آتے ہیں کہ حکومتی اقدامات سے عوامی سطح پر جو شدید بے چینی، عدم اطمینان، اضطراب اور حکومت کے خلاف غم و غصہ پایا جاتا ہے اس کے نتیجے میں پاکستانی شہر بھی تحریر اسکوائر بن سکتے ہیں۔