سامراجی ہتھکنڈے

بعدازاں برسوں مذہبی جماعتیں آپس میں ہی ایک دوسرے کے خلاف قتل و غارت گری کرتی رہیں۔


Zuber Rehman July 12, 2013
[email protected]

28 اپریل 1978 میں افغانستان میں ثور انقلاب (یعنی اپریل انقلاب برپا ہوا)۔ یہاں کی صدیوں پرانی بادشاہت کو ختم کرکے نور محمد ترکئی کی قیادت میں خلق پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ بائیں بازو کی اس حکومت کے سربراہ کامریڈ ترکئی ایک سبزی فروش تھا۔ انھوں نے افغانستان میں ولور (بردہ فروشی) سود اور جاگیرداری ختم کردی تھی۔

30 جریب سے زیادہ زمینیں بے زمین کسانوں میں تقسیم کردی گئی تھیں۔ شرح تعلیم 40 فیصد تک جا پہنچی تھی۔ سامراجی رشتے ناتوں سے آزاد خودمختار اور عوامی حکومت قائم ہوئی۔ IMF، WB اور ADB سے ناتا توڑنے پر امریکا اور دیگر مغربی سامراجی ممالک خوش نہ تھے۔ افیون (پوست) کی کاشت بند کروا دینے پر تاجر، سرمایہ دار، ملک اور عالمی سامراج کو کانٹا کھٹکتا رہا، نتیجتاً انھوں نے ایک درجن مذہبی جماعتوں کی تخلیق کی، انھیں جدید اسلحوں سے مسلح کیا،105 تربیتی کیمپس قائم کیے گئے، جہاں امریکا، یورپی ممالک، آسٹریلیا اور اسرائیل کے انسٹرکٹرز نے ان جماعتوںکے کارکنوں کو فوجی تربیت دینی شروع کی۔ افغانستان میں بائیں بازو کی حکومت ختم ہونے کے بعد ڈاکٹر نجیب اﷲ کو شہید کرکے ان کی نعش کو گھسیٹا اور لٹکایا گیا۔

بعدازاں برسوں مذہبی جماعتیں آپس میں ہی ایک دوسرے کے خلاف قتل و غارت گری کرتی رہیں۔ ایک دہائی تک اس عمل سے نبردآزما مذہبی جماعتوں میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے امریکی سامراج نے ایک اور مذہبی جماعت کے طلبا کو افغانستان میں داخل کیا ۔ امریکی سامراج کی جانب سے جو رقوم بھیجی جاتی تھیں اس کی تمام تر مالک اور کرتا دھرتا بعض مذہبی جماعتیں تھیں۔ طالبان امن اور صلح کے نام پر افغانستان میں داخل ہوئے،ان کے ہاتھ میں سفید جھنڈے تھے، بعدازاں انھوں نے خود اقتدار پر قبضہ کرلیا۔

ان کی پالیسیاں سابق حکمرانوں سے بالکل مختلف تھیں، امریکی سامراج نے 6 ارب ڈالر خرچ کرکے افغانستان کے پہاڑ میں سرنگ بنوائی جس میں متعدد ٹرک اور ٹرالر داخل ہوسکتے تھے۔ جب سوشلسٹ بلاک نہ رہا تو امریکا اور مغربی سامراجی ممالک نے افغانستان کی مذہبی جماعتوں کو ڈالر (وظیفے) دینا بند کردیا۔ اس لیے بھی کہ اب اسے یہاں پہلے کی طرح کمیونسٹوں کے خلاف مذہبی جماعتوں سے مدد کی ضرورت نہ رہی۔ امریکی سامراج ہو یا نام نہاد مذہبی جماعتیں، یہ سب سرمایہ داری کی ہی پیداوار ہیں۔ ریاست خود دولت مندوں کی محافظ ہوتی ہے اس لیے سرمایہ داری کے حامی گروہوں میں دوستی اور دشمنی دونوں الگ الگ اور بروقت بھی ہوتی ہے۔

انگریزی کی ایک کہاوت ہے کہ (Love and Hate) یعنی محبت اور نفرت۔ سامراج کا القاعدہ اور طالبان سے یہی رشتہ ہے۔ امریکا کے 70 فیصد کارخانے اسلحے کی پیداوار کرتے ہیں۔ انھیں استعمال کرنے کے لیے میدان جنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ تب ہی اسلحہ بک سکتا ہے۔ یہ میدان جنگ کبھی ویت نام، کبھی جنوبی افریقہ، کبھی موزنبیق، کبھی عراق اور اب افغانستان ہے۔ اب یہ بات بڑی آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ پاکستان، افغانستان یا امریکا میں جو ہزاروں معصوم شہری قتل ہورہے ہیں، وہ کس کے کہنے پر اور کون کررہا ہے۔

درحقیقت سرمایہ داری اپنی جس عالمی اور علاقائی انحطاط پذیری اور بحران کا شکار ہے، اسے اس دلدل سے نکالنے کے لیے اب کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔ اس لیے حکمران طبقات کے مختلف دھڑے آپس میں ہی الجھتے رہتے ہیں۔ اس کا واحد حل عالمی انقلاب ہے جو طبقات، نجی ملکیت اور سرمایہ داری کو نیست و نابود کرکے بے ریاستی امداد باہمی کا معاشرہ قائم کرے، جہاں سب مل کر پیداوار کریں اور مل کر بانٹ لیں۔ ایسا نظام آج سے 5/7 ہزار سال قبل ٹیکسلا، ہڑپہ، موئن جو دڑو اور نال میں تھا جو کہ کمیون یعنی امداد باہمی پر مشتمل تھا۔ وہاں کوئی سرمایہ دار تھا، جاگیردار تھا اور نہ کوئی سردار۔

دور جدید کی تحقیق میں پاکستان میں پائی جانے والی قدیم تہذیبوں میں بلوچستان کی نال کی تہذیب زیادہ قدیم ہے۔ یہاں کی پیداوار کو ذخیرہ کرنے، تقسیم کرنے اور سماجی انصاف فراہم کرنے والی عبوری یا وقتی کمیٹیاں ہوا کرتی تھیں۔ کوئی امیر اور غریب نہیں تھا۔ مگر آج سرمایہ داری کی وحشت سے یہ علاقہ جہنم بنا ہوا ہے۔ بلوچستان کا صوبہ میدان جنگ بن چکا ہے، یہاں مسلسل خلفشار اور لڑائیاں معمول بن چکی ہیں۔ 1970 کی دہائی تک ان جنگوں میں بائیں بازو کے رجحانات اور سوشلسٹ نظریات حاوی تھے۔ امریکی سامراج کی حمایت سے اس جدوجہد کو کچلا گیا۔

حالیہ عرصے میں بلوچستان میں ریاستی جبر میں اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف سوویت یونین کے انہدام کے بعد سے تحریکیں دنیا بھر میں نظریاتی تذبذب کا شکار ہیں، بلوچستان میں بھی صورت حال مختلف نہیں۔ پہلے ہی بلوچستان کے عوام، پراکسی جنگوں کے ہاتھوں تاراج ہورہے ہیں۔ موجودہ عہد میں کئی دوسرے عناصر کی شمولیت نے صورت حال کو بہت پیچیدہ بنادیا ہے۔ سامراجی قوتوں کے جنگجو گروہ مختلف نظریاتی لبادے اوڑھ کر بربریت کر رہے ہیں۔ ہزارہ برادری کا درندہ صفت قتل، ویمن یونیورسٹی اور بولان میڈیکل کمپلیکس میں طالبات اور دیگر کا قتل عام اسی جبر کی پیداوار ہے۔

2008 کے عالمی مالیاتی انہدام کے بعد سے سرمایہ دارانہ نظام کے بڑھتے ہوئے بحران کے باعث کارپوریٹ کمپنیاں وسائل پر لوٹ مار اور مختلف زمینی خطوں کو قبضہ میں لینے کرنے کے لیے سرگرداں ہیں۔ معدنی وسائل سے مالامال بلوچستان بھی ان کے شکار میں سے ایک ہے۔ چین کا خطے میں بڑھتا ہوا اثرورسوخ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے ناقابل قبول ہے۔ بلوچستان میں امریکی سامراج کچھ آزادی پسند مسلح گروہوں کی پشت پناہی بھی کر رہا ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ سامراج نے ہمیشہ محنت کش عوام اور نوجوانوں کو ملک بنانے اور توڑنے میں ہی مدد کی ہے نہ کہ نظام بدلنے میں۔ جس کا مقصد منڈیوں کو پھیلانا، بے تحاشا منافعوں کا حصول، وسائل کی لوٹ مار اور دولت پر قبضے کے لیے سیاسی بالادستی کا حصول ہے۔ پاکستان کی نئی حکومت ملکی تاریخ کے بدترین سماجی اور معاشی حالات میں برسر اقتدار آئی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے بلوچستان میں غربت، ذلت اور محرومی میں اضافہ تو ہوسکتا ہے کمی نہیں۔ اس لیے سامراجی بالادستی اور سرمایہ داری کو ختم کیے بغیر بلوچ شہریوں اور کارکنوں کے مسائل حل نہیں ہوسکتے ہیں۔ نال کی قدیم امداد باہمی کا نظام قائم کرکے ریاست، عدالت، اسمبلی، صحافت، وکالت، صدارت، فوج، پولیس، کرنسی نوٹس اور جیل خانے ختم کرکے ایک حقیقی آزاد، خوشحال اور خودکار معاشرہ قائم کرکے بلوچ کارکنان کو ان کے وسائل کی برکاتوں سے لبریز کیا جاسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں