عوام کو کونسا ’’دو روٹی‘‘ کا فائدہ ہوگا

اس کے برعکس پاکستان کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے۔


Jabbar Jaffer July 12, 2013

انصاف اور درگزر خدائی صفت ہے۔ جب کہ انتقام اور کینہ پروری لعنت انسانی۔ جب ایک فرد کے قتل پر انتقام کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو سو افراد کے قتل کے بعد بھی نہیں رکتا، سو افراد کے قتل کے انتقام میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ ساؤتھ افریقا پر قابض گوری اقلیت نے کالی اکثریت کے رہنما نیلسن منڈیلا کو 27 برس جیل میں رکھا، ان کی جوانی جیل کی سیلن زدہ دیواریں چاٹ گئیں۔

27 سال بعد وہ سفید بالوں اور دھندلی آنکھوں کے ساتھ جیل سے نکلے اور سیدھے ایوان صدر پہنچے۔ جہاں ملک کی صدارت ان کی منتظر تھی۔ اگر وہ ذاتی انتقام پر تل جاتے تو ملک اور قوم کی ترقی مزید 27 سال معطل رہتی۔ کیونکہ وقت کسی کا غلام نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی کا انتظار کرتا ہے۔ انھوں نے ایک سچائی کمیشن قائم کردیا اور اعلان کردیا کہ جو اس کمیشن کے روبرو اپنی زیادتیوں، کوتاہیوں، ناانصافیوں کا اعتراف کرکے قوم سے معافی چاہے، منڈیلا بھی اس کو معاف کردیں گے۔ نتیجتاً آج براعظم افریقا کا واحد ترقی یافتہ اور مستقبل کا ممکنہ سپر پاور ملک ہے جو دنیا کے پانچ بڑے BRICKS (برازیل، روس، انڈیا، چائنا، ساؤتھ افریقا) ممالک میں شامل ہے۔

اس کے برعکس پاکستان کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے۔ 12 اکتوبر 1999 طیارہ سازش کیس میں سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کا موقف یہ تھا کہ سری لنکا سے واپسی پر، پاکستان سے دور، ہزاروں فٹ کی بلندی پر وہ بذریعہ ہوائی جہاز کراچی آرہے تھے۔ وہ فضا سے سنگین بغاوت کے مرتکب کیسے ہوسکتے ہیں؟ ان کی بات دل کو لگتی تھی۔ وزیراعظم نواز شریف کا موقف یہ تھا کہ وہ اسلام آباد میں بیٹھ کر پاکستان سے دور، ہزاروں فٹ کی بلندی پر اڑتے ہوئے ہوائی جہازکو کیسے اغوا کرسکتے تھے؟ بات ان کی بھی دل کو لگتی تھی۔ لیکن فیصلہ تو سپریم کورٹ نے کرنا تھا۔

ان کو آرمی چیف پرویز مشرف کی بات دل کو لگی۔ باقی داستان الم سے سب واقف ہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے بعد 31 جولائی 2009 کو دیے گئے فیصلے کے مطابق ایمرجنسی کے سلسلے میں 3 نومبر 2007 کو اٹھائے گئے غیر آئینی اقدامات کے پرویز مشرف تنہا ذمے دار نہیں ہیں۔ پرویز مشرف کی درخواست ضمانت پر فیصلہ دیتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا (1) یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ ججز کی غیر قانونی نظربندی کے احکامات پرویز مشرف نے دیے تھے۔ (2) وکلا کے بیانات کو بطور شہادت نہیں لیا جاسکتا۔ (3) ملزم کے اشتہاری رہنے سے اس کے حقوق ختم نہیں ہوتے۔ پرویز مشرف اٹارنی جنرل کے جواب پر اعتراض داخل کرتے ہوئے سوال کرتے ہیں ''ساری عدلیہ میرے خلاف ہے اور حکومت بھی۔ مجھے انصاف کیسے ملے گا؟''

وزیراعظم تیسری مرتبہ منتخب ہوکر وزارت عظمیٰ سنبھال چکے ہیں اور کل کے چیف ایگزیکٹو اپنے گھر میں نظر بند، ججز نظر بندی کیس کا سامنا کررہے ہیں اور وزیراعظم نواز شریف دوبارہ شاہراہ تصادم پر قدم رنجہ فرماتے ہیں ''3 نومبر 2007 کا اقدام آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی ہے۔ عدلیہ کی آزادی اور قانون کی بالادستی کا تقاضا یہ ہے کہ عدالت کے فیصلوں پر سر تسلیم خم کیا جائے۔''

الیکشن مہم کے دوران نوازشریف نے اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا، اس سے بچنے کی یقین دہانی کرائی، اپنے دشمنوں کو معاف کرنے کا اعلان کیا، عوام نے اس تبدیلی کو پسند کیا، اپنا فرض ادا کیا، کسی صوبہ کے جھانسے میں نہیں آئے، کسی تبدیلی کی نوید پر کان نہیں دھرا، ووٹوں کے ڈھیر لگادیے۔ اگر کامیاب وکلا تحریک کی بنیاد عدلیہ کے چیف کے ساتھ توہین آمیز سلوک تھا تو کیا آج سابق آرمی چیف کی عزت افزائی ہورہی ہے؟

کیا یقین ہے کہ ری ایکشن نہیں ہوگا؟ پہلی غلطی کو دوسری غلطی سے صحیح نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ غلطیاں دگنی ہوجاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ دو ہاتھیوں کی لڑائی میں 18 کروڑ مینڈکوں کا کیا ہوگا؟ بھلا محاذ آرائی سے عوام کو کونسا دو روٹی کا فائدہ ہوگا؟

عدلیہ مقننہ کی محاذ آرائی کل کی بات ہے۔ سوئس حکومت کو خط لکھنے پر ٹھن گئی۔ پورا ''کامیاب جمہوری دور'' خط لکھا جاتا رہا۔ آج بھی لکھا جارہا ہے۔ تمت بالخیر ہی نہیں ہوتا۔ نتیجتاً عوام کے بڑے مسائل تو دور کی بات ، حکومت پٹرول کی دن بہ دن بڑھتی ہوئی قیمتوں پر کنٹرول تو کجا ''سکتہ'' تک طاری نہ کرسکی۔ علاوہ ازیں 12 سے 16 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ سے نڈھال عوام نہ زندہ باد کے رہے نہ مردہ باد کے۔ لوگ علیک سلیک ایسے کرتے تھے جیسے کرنٹ مار رہے ہیں۔ بات بات پر فیوز اڑ جاتا تھا۔ آخرکار لوگوں کے سرکٹ میں فالٹ آنے لگا۔ وہ ہر وقت اپنے آپ کو اپنے ہاتھ سے پنکھا جھلنے لگے۔ چاہے وہ AC میں ہی کیوں نہ بیٹھے ہوں۔ رات کو سوتے دوران بھی ان کا ہاتھ چلتا ہی رہتا تھا۔ نیک بیویاں ان کے ہاتھ میں پنکھا تھماکر لوڈ شیڈنگ سے بے نیاز صبح تک ہوا کے جھونکوں میں نیند پوری کرلیتی تھیں۔

آرٹیکل 6 کے تحت آج تک کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی۔ وجہ؟ یہ فرد واحد کے بس کا روگ نہیں۔ آرٹیکل 6، 1973 کے متفقہ آئین کا حصہ بننے کے کچھ ہی عرصہ بعد مرد حق دست بستہ، سراپا انکسار مسکراتے ہوئے تشریف لائے اور سب سے پہلے آرٹیکل 6 کے خالق کو ہی لٹکادیا۔ پھر پاکستان کے متفقہ آئین 1973 کے متعلق ارشاد فرمایا ''اس کو جب چاہوں پھاڑ پھینکوں'' ماضی کی پاکستان مخالف، حال کی نظریہ پاکستان کی ٹھیکیدار پارٹی نے بھی دم نہیں مارا۔

اب عوام بڑے سیانے ہوگئے ہیں۔ آمریت مسئلہ ہے جمہوریت کے لیے اور جمہوریت مسئلہ ہے آمریت کے لیے۔ عوام تو ووٹ اس نظام کو دیں گے جس میں ان کو ''دو روٹی'' کا فائدہ نظر آئے گا اور غریبوں کی جمہوریت (لوکل گورنمنٹ) بیوروکریسی کی مداخلت کے بغیر آزادانہ، خود مختارانہ کام کرسکے گی۔ مجھے خونیں انقلاب کی دستک کا بھی خدشہ نہیں، خدا کا خوف کریں۔ ملک میں جاری بم دھماکے، خودکش بمباری، راکٹ باری، ٹارگٹ کلنگ وغیرہ کے ہوتے ہوئے خونیں انقلاب کی دستک پر بھی کان لگائے بیٹھے ہیں۔ مجھے معیشت کا بھٹہ بیٹھنے کا بھی اندیشہ نہیں۔ کیونکہ پچھلے کامیاب جمہوری دور میں کونسا بھٹہ باقی بچا ہے جو بیٹھے گا؟ (مثلاً PIA، ریلوے، اسٹیل مل وغیرہ)

رہے عوام، تو اﷲ بڑا مسبب الاسباب ہے، اپنے ہر فرد کو دوگردے ایسے ہی نہیں عطا کردیے ہیں۔ جب کہ ایک گردے سے بھی کام چل سکتا ہے۔ کیا ارب پتی سیاسی رہنما کا ووٹر لکھ پتی بھی نہیں ہوسکتا؟ بظاہر معمولی مسئلے پر میری غیر معمولی تشویش کی وجہ یہ ہے کہ خدانخواستہ اگر جاری جمہوریت بھی کل کلاں کو ہو بہو گزشتہ ''کامیاب جمہوریت'' جیسی نکلی تو کیا ووٹرز پولنگ اسٹیشن تک اپنے پیروں پر چل کر جاسکیں گے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں