عمران خان وہ نہیں یہ ہے

یہ قوم جہالت اور غربت کے تھپیڑے کھائے ہوئے ہے مگر پھر بھی وہ نیک اور بد کی پہچان رکھتی ہے


Abdul Qadir Hassan August 22, 2012
[email protected]

محترم عمران خان صاحب کے بارے میں ایک کالم پر فیصل آباد سے محترمہ زبیدہ مرزا صاحبہ نے اظہار خیال کیا ہے۔ ان کے خلوص اور درد مندی کی بنیاد پر میں ان کا پورا خط چھاپ رہا ہوں۔ میں نے لکھا تھا کہ عمران نے شوکت خانم جیسے عظیم ادارے کو قائم کیا اور اسے کم از کم ان کے ہاتھوں نقصان نہیں ہونا چاہیے۔ وہ جس بے سروپا انداز میں سیاست میں کُودے ہیں اسے میں نے کہا کہ کس نے ان کو سیاست میں دھکا دیا ہے۔ خدمت خلق اور وہ بھی شوکت خانم جیسے اسپتال کی صورت میں کیا کوئی معمولی کام ہے کہ اسے سیاست کی نذر کر دیا جائے۔

مجھے فی الحال تو کینسر نہیں ہے لیکن خوفزدہ ہوں کہ میں اور میرے دوسرے پاکستانی سرطان زدہ کہاں جائیں گے۔ میں خدمت خلق کے اس انداز کو سیاست سے کہیں زیادہ برتر سمجھتا ہوں لیکن عمران نے جس کردار اور جرات کا ثبوت دیا ہے اس کو دیکھ کر اس کے لیے ہر پاکستانی کے دل سے دعا ہی نکل سکتی ہے کوئی بدبخت اس کا برا نہیں چاہتا۔ اللہ کرے وہ بیک وقت ایک عظیم خادم خلق ور ایک مصلح سیاست دان ثابت ہو کہ ہم بھی زندگی میں کسی کی تو کھل کر تعریف کر سکیں ورنہ جھوٹوں کے جھوٹ چھپانے اور ان کے ساتھ اچھی توقعات وابستہ کرتے ہوئے زندگی گزر گئی۔ اللہ معاف کرے۔ اب خط ملاحظہ فرمائیں۔

محترمی و مکرمی جناب عبدالقادر حسن صاحب!
السلامُ علیکم و دعائے عمر درازی
آج کے کالم زیر عنوان ''عمران... دھکا کس نے دیا'' میں آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ ''خدا جانے قدرت عمران کی کس حرکت سے ناراض ہوئی کہ اسے سیاست کی غلاظت میں دھکیل دیا۔'' جناب! آپ جیسے عالم فاضل' گرم سرد چشیدہ' نشیب و فراز سے آگاہ قلمکار مایوسی کی باتیں کرنے لگیں تو ہم جیسے عامیوں کا حوصلہ کون بڑھائے گا اور عمران خان صاحب کو زندگی کے اس موڑ پر آگے بڑھنے کی ہمت و حوصلہ کون دے گا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ قدرت نے عمران خان صاحب سے اس ملک و قوم کو سیدھے راستے پر ڈالنے کا کام لینا ہے اس لیے قدرت نے انھیں سیاست میں دھکیل کر ملک کی سیاست کو گندگی سے صاف کرنے کا کام لینا ہے۔ کیا ماضی میں پیغمبر لوگوں کو سیدھی راہ دکھانے کے لیے مبعوث نہیں ہوتے رہے؟ کیا قدرت نہیں جانتی تھی کہ وہ اپنے بندوں کو گندگی میں پھینک کر کفار کی اذیتناک سزائوں کے حوالے کر رہی ہے؟

یہ قدرت کی منشا کہ وہ عمران خان صاحب سے وہ کام لے جو آج تک کبھی کسی نے نہ کیا ہو' صرف گند ہی ڈالا ہو۔ 65 سال سے یہ ملک اور یہ قوم لٹیروں کے ہاتھوں لٹتے رہے' دھوکا کھاتے رہے' اگر آج ایک بندہ خدا جسے نہ دولت کی ہوس ہے (زرداری ایسوں کی طرح) نہ اقتدار کا لالچ ہے' جس نے محنت شاقہ سے کام لے کر ایک ایسا کارنامہ سرانجام دیا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا تھا۔ یہ ان کا جذبہ صادق ہی تھا جس نے اس کارنامے کو انجام تک پہنچایا اور آج پاکستان کے کم مایہ لوگ اس سے استفادہ کر رہے ہیں اور انشاء اللہ کرتے رہیں گے۔

ان پر دشنام طرازی کرنے والوں کو عوام خوب پہچانتے ہیں وہ کیوں ان کے جھانسے میں آئیں گے۔ عوام کبھی بھی ان کے ہتھے نہیں چڑھیں گے۔ آپ اس قوم سے کیوں مایوس ہیں؟ ٹھیک ہے کہ یہ قوم جہالت اور غربت کے تھپیڑے کھائے ہوئے ہے مگر پھر بھی وہ نیک اور بد کی پہچان رکھتی ہے۔

آپ کو عمران خان صاحب کے نام' عزت و توقیر پر حرف آنے کی کیوں فکر ہے؟ آپ کو تو خوش ہونا چاہیے کہ (جیسا کہ آپ نے خود بھی فرمایا کہ عمران خان صاحب اس ملک و قوم کے لیے ''سیاست کے اندھیروں میں روشنی کی ایک تیز کرن دکھائی دی تھی'' نہیں ''ہے''۔ ان کے سچے جذبوں کی پذیرائی ہونی چاہیے نہ کہ عزت و توقیر کے نام پر ان کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے؟ یہ شخصیت ہر پاکستانی کے لیے روشنی کا مینار ہے' کوئی چھوئی موئی نہیں کہ لوگ دلبرداشتہ ہو جائیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ سونامی کام دکھائے گا۔

گو کہ مدمقابل حاسد بھی ہیں اور کرپشن بھی جو اپنی فراڈ ذہنیت کے کرتب دکھاتے رہتے ہیں' جن کا کام ہی قوم و ملک کو لوٹنا اور اندھیروں کے حوالے کرنا رہا ہے اور آج بھی کر رہے ہیں بلکہ اس موجودہ ڈاکو رجیم نے تو انتہائوں کو ہی چھو لیا ہے۔ کرپشن' جھوٹ' افتراق' لوٹ مار' عیاشی' بدمعاشی کے سوا اس قوم کو دیا ہی کیا ہے؟ 6,6 ارب سے بھی زیادہ ان کے سیرسپاٹوں کے لیے مختص ہوتے ہیں پھر مالی سال کے اواخر تک یہ عیاش کہیں زیادہ اپنی عیاشیوں پر اڑا چکے ہوتے ہیں۔ ہے کوئی جو ایسوں کے گلے میں پھندا ڈالے اور ان کو کیفر کردار تک پہنچائے؟ اگر آج ایک نامور شخصیت ان فراڈیوں' جعلسازوں' چوروں' اچکوں کے مدمقابل آئی ہے تو آپ کو قدرت کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ یہ شخصیت موجودہ ڈاکوؤں سے ملک و قوم کی عزت و ناموس بچانے کے لیے اپنی عزت و ناموس دائو پر لگا کر آگے بڑھی ہے' اس کی حوصلہ افزائی کریں' اسے شاباش سے نوازیں' اس کے سچے جذبوں کی قدر کریں' چہ جائیکہ اس کی حوصلہ شکنی کریں۔

عطیات و خیرات دینے والے جانتے ہیں کہ عمران خان صاحب سچے جذبوں والے ایماندار شخصیت کے مالک ہیں وہ کیوں عطیات نہ دیں گے وہ ضرور دیں گے اور مزید لوگ اس کارخیر میں حصہ لیں گے۔ خود میں نے ایک مرتبہ اس اسپتال کے لیے انتہائی حقیر سی رقم کا چیک بھیجا تھا جس کی رسید مجھے بذریعہ ڈاک ملی' اس کے بعد میں نے ہر سال بیماری کے سبب روزے نہ رکھ سکنے کے باعث ہدیہ اور فطرانہ کبھی زلزلہ زدگان کے لیے کبھی فلڈ ریلیف کے لیے کبھی تعلیمی ادارے کو جیسا کہ کراچی میں ایک سینٹر ہے (اس وقت نام یاد نہیں آ رہا) جس نے اسٹریٹ بچوں کے لیے اسکول قائم کیا تھا، عطیہ بھیجا۔ مگر اب میں شوکت خانم اسپتال کو ہی بھیجوں گی کہ میرا ضمیر مطمئن ہے اور میں جانتی ہوں کہ میرے یہ روپے کسی غریب کے علاج پر ہی خرچ ہوں گے۔

اس شخصیت نے کرکٹ میں کمال کر دکھایا' شوکت خانم اسپتال بنا کر ایک معرکہ سر کیا اور اب نمل یونیورسٹی بنا کر عوام کے دلوں میں گھر کر لیا۔ نمل یونیورسٹی جو یورپین ممالک کے بہترین اداروں کے برابر ہے یہ سب اور ان کو چلانا ایک نظم کے تحت ہو رہا ہے۔ ڈسپلن ہی ان اداروں کی تعمیر و کامیابی سے لوگوں کو مستفید ہونے کا موقع دینے کا اول و آخر زینہ ہے۔ اندازہ لگائیں یہ شخصیت خود کتنی ڈسپلنڈ ہو گی۔ یقیناً عمران خان صاحب سیاست میں آ کر اور کامیابیوں سے ہمکنار ہو کر اس قوم و ملک کو ڈسپلن کا عادی بنا دیں گے۔ کوئی ادارہ' کوئی ملک' کوئی قوم ڈسپلن کے بغیر کامیابی کی سیڑھی نہیں چڑھ سکتی ہے۔ ان اداروں کی تعمیر و کامیابی ڈسپلن ہی کی مرہون منت ہے۔ تو یہ قوم و ملک عمران خان صاحب کی ڈسپلنڈ پالیسیوں کو فالو کرتے ہوئے کامیابیوں سے ہمکنار کیوں نہ ہوں گے۔

جناب! بددل نہ ہوں' دعا صرف یہ کریں کہ عمران خان صاحب اپنی ایک اپنے جیسی پارٹی کے ساتھ سریر آرائے اقتدار ہوں کہ اس ملک و قوم کے دکھ درد دور ہوں۔
میں نے آپکی بات سے اتفاق نہ کرتے ہوئے یہ چند لائنیں تحریر کی ہیں۔ Contradiction پر معافی کی خواست گار ہوں مکرر استدعا ہے کہ آپ عمران خان صاحب کے برسراقتدار آنے کے لیے دعا فرماتے رہیں۔ اللہ بھی آپ کو اس کا اجر دے گا اور قوم بھی ممکن ہے آپ کی ممنون ہو گی۔ آپ سیاست میں عمران خان صاحب کی حوصلہ افزائی فرماتے رہیں کہ ہم ایسے اپنی زندگی میں بھی ملک و قوم کو سنوارنے کے ان کے کارنامے دیکھ پائیں۔ ہم تو اس فقرے کے مصداق ہیں ''پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ''۔
خدا حافظ
والسلام
زبیدہ مرزا' فیصل آباد

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |