وے صورتیں الٰہی

مجھے اپنی ڈیوٹی کے ایریا سے باہر جانا تھا اس لیے سرکاری گاڑی کا استعمال مناسب نہیں سمجھا


Hameed Ahmed Sethi January 05, 2019
[email protected]

ایک وقت تھا جب افسر لوگ سبز نمبر پلیٹ والی موٹر کار میں بیٹھنا باعث فخر سمجھتے تھے اور سڑک پر کھڑا ڈیوٹی کانسٹیبل بھی صاحب لوگ کو سیلوٹ مار دیا کرتا تھا۔ افسروں کے پاس ایک سرکاری کار اور ایک ڈرائیور ہوتا جو یونیفارم میں ملبوس ہوا کرتا، پھر ذرا سینئر افسروں کے زیراستعمال ایک سے زیادہ کاریں آنے لگیں، یہ افسر حکمرانوں کے منظور نظر ہوا کرتے تھے۔

صاحب کے علاوہ ایک کار ان کی بیگم کے زیراستعمال، ایک بچوں کو اسکول کالج لے جانے لانے کے لیے تو ایک سودا سلف ڈھونے کے لیے ہوتی تھی، پھر کچھ سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر سبز نمبرپلیٹ کاروں کو سیاہ وسفید نمبرپلیٹ لگنے لگے یا پھر کسی جانب سے اعتراض کی وجہ سے سبز نمبر پرائیویٹ نمبروں میں تبدیل ہو گئے لیکن ایک موٹرکار افسری دکھانے کے لیے سبز نمبرپلیٹ کے ساتھ ہی رکھی جاتی۔ بیس پچیس سال قبل افسر لوگ دو کیٹیگریز میں تقسیم ہو گئے تھے، ایک محض سرکاری ملازم اور دوسرے خاص منظور نظر افسر۔ یہ دوسری قسم حکمرانوں کے کل وقتی چاکر تھے جو سرکاری دفتروں میں کم لیکن صاحب کی اردل میں ہمہ وقت موجود رہتے اور جہاں تک موٹروں کا تعلق ہے ایک سے ایک قیمتی بلکہ بلٹ پروف کار بھی ان کے ڈسپوزل پر ہوتی۔

گزشتہ دور میں سرکاری ملازموں کی کاروں میں اضافہ بتدریج ہوا تھا۔ عام کاروں کے بعد لگژی کاروں کی آمد سے سرکاری افسر کم اور حکمران زیادہ مستفیض ہوئے۔ وزراء، وزیراعلیٰ اور وزیراعظم نے تو بلٹ پروف کاروں کی ڈیمانڈ بھی کر دی تھی کہ انھیں سیکیورٹی خدشات ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے آتے ہی کئی سو لگژی گاڑیاں فالتو ڈکلیئر قرار دے کر نیلام بھی کروا دیں۔ دیکھیں ان کے وزیر مشیر کب Securety threat کا بہانہ پیش کر کے پھر سے بلٹ پروف سیکیورٹی کا مطالبہ کرتے ہیں جو بعید نہیں۔

میری پہلی تعیناتی راولپنڈی میں ہوئی تو ڈپٹی کمشنر کے زیراستعمال ایک پرانی فوکس ویگن کار تھی اور Pool میںایک عدد جیپ تھی۔ ڈپٹی کمشنر اسی VW میں ایوان صدر بلائے جانے پر جاتے اور اسی کار میں دورے پر جاتے۔ کار Two Door ہونے کی وجہ سے اگلی سیٹ آگے کر کے پچھلی سیٹ پر یا اگلی سیٹ ہی پر ڈرائیور کے برابر بیٹھتے۔ لوگوں نے ایم آر عنایت کو جب ان کی تعیناتی کمشنر راولپنڈی ڈویژن سے مرکزی سیکریٹریٹ میں ہو گئی اور مفتی لطف اللہ جوائنٹ سیکریٹری کو راولپنڈی صدر سے اسلام آباد بذریعہ ویگن جاتے دیکھا ہے۔

ان کے مقام اور ان کی عزت میں ویگن میں سفر کرنے کی وجہ سے کمی نہیں ہوئی بلکہ اضافہ ہوا تھا جس کا ثبوت میری یہ تحریر بھی ہے۔ ایک بار تو میں نے ان دو محترم افسران کو اسی ویگن میں اسلام آباد کے ویگن اڈے سے عام لوگوں کے ہمراہ راولپنڈی صدر کی طرف سفر کرتے دیکھا۔ ان دنوں ویگن کا ایک طرف کا کرایہ ایک روپیہ تھا۔ یہیں پر مجھے جسٹس شیخ غلام سرور یاد آ گئے ہیں، ان کا تعلق فیصل آباد سے ہے۔ جب ان کی تعیناتی گوجرانوالہ تھی تو ہر ہفتے اتوار کی چھٹی منانے اپنے شہر فیصل آباد بذریعہ بس جایا کرتے تھے اور پھر واپسی بھی بس میں بیٹھ کر ہوتی۔

انھیں بس چلنے کے فوراً بعد نیند آ جاتی اور بس چاہے آہستہ چلتی یا تیز، ہچکولے کھاتی یا رکتی، وہ ان کی نیند کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی تھی۔ وہ پورا سفر خواب خرگوش کے مزے لینے کے عادی تھے۔ جب بس روانہ ہوتی تو وہ بس کنڈیکٹر کو ہدایت کرتے کہ مجھے منزل آنے پر جگا دینا۔ اسی طرح واپسی پر کنڈیکٹر کو حکم دیتے کہ بس گوجرانوالہ اڈے پر پہنچے تو جگا دینا۔ البتہ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو ہوائی جہاز سے بیرون ملک سفر پر جائیں تو بھی سو نہیں پاتے۔

خیال رہے کہ وقت تبدیل نہیں ہوا، لوگوں کی سوچ اور عادت تبدیل ہو گئی ہے۔ آج اگر آپ گریڈ سترہ کے افسر کو بائیسکل پر سوار دفتر یا کسی سڑک پر جاتے دیکھیں تو آپ تو صرف حیران ہو جائیں گے لیکن اس کے دوست اور ہم سروس آپس میں بیٹھ کر اسے ہنسی مذاق اور ٹھٹھے کا نشانہ بنائیں گے اور یہ حقیقت ہے کہ سرکاری ملازموں میں کرپشن کی ایک وجہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی گھٹیا کوشش بھی ہے جس کا اظہار وہ خوب سے خوب تر معیار زندگی کی نمائش سے کرتے ہیں۔

پاکستان میں بائیسکل اب صرف غریب کی سواری ہے لیکن یورپی ممالک اور برطانیہ میں کئی جگہ شوقین حضرات کے لیے کرایہ پر لینے کے سائیکل اسٹینڈ ہیں اور سڑکوں سے ذرا ہٹ کر بائیسکل Lanes بنائی گئی ہیں جب کہ ناروے جیسے خوشحال ملک میں بے شمار لوگ بائیسکل چلاتے نظر آئیں گے۔ حیرت ہے کہ پاکستان جیسے معاشی لحاظ سے بدحال ملک میں کافی عرصہ سے بے شمار لوگ نئی سے نئی اور مہنگی کاریں لیے پھرتے ہیں اور ان کے گھروں کے گیراج اور صحن میں کئی کئی کاریں کھڑی ملتی ہیں۔

بہت زیادہ عرصہ نہیں ہوا، گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل ڈاکٹر نذیر احمد تھے۔ ایک بار میں انھیں بھارت سے آنے والے سکھ زائرین کو ہمراہ چل کر واہگہ بارڈر پر جتھے کو ویلکم کرنے کی دعوت دینے گیا تو ان کے نائب قاصد نے کہا پرنسپل صاحب پابندی وقت کرتے ہیں، ابھی کالج کے مین گیٹ سے آتے نظر آ جائیں گے۔

میں بھی اس کے ساتھ دفتر کے باہر گیٹ کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو گیا۔ کچھ ہی دیر میں ایک سفید کرتے قمیص میں ملبوس سائیکل سوار گیٹ سے داخل ہو کر پرنسپل کے کمرے کے آگے رکا تو نائب قاصد نے سائیکل سنبھال کر کہا یہ پرنسپل صاحب ہیں۔ سی ڈبلیو ٹریسلر مرے کالج سیالکوٹ کے وائس پرنسپل اور میرے استاد ہمیشہ سوٹ میں ملبوس اور ایک چمکتی ہوئی بائیسکل پر سوار کالج گیٹ سے داخل ہو کر اپنے کمرے کے آگے رکتے اور بڑی احتیاط کے ساتھ اسے دو اسٹیپ اونچا لے جا کر کمرے کی سائیڈ پر پارک کرتے تھے۔

بریگیڈیئر خواجہ نسیم اقبال نے ایک بار بتایا کہ ان کا جنرل بس اسٹاپ کے پاس سے گزر ہوا تو دیکھا کہ حاضر سروس جنرل الطاف قادر اپنی بیگم کے ساتھ ایک بس کی اگلی سیٹ سے اتر رہے تھے۔ وہ حیران ہوئے اور سلام کرنے کے بعد پوچھا کہ ''سر آپ پبلک بس پر سوار؟'' جنرل صاحب سمجھ گئے اور جواب دیا ''مجھے اپنی ڈیوٹی کے ایریا سے باہر جانا تھا اس لیے سرکاری گاڑی کا استعمال مناسب نہیں سمجھا۔''

وے صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں

اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں