نوکری کرنے والیاں…

حسن اتفاق دیکھئے کہ ایسی رائے، سوچ اور رویہ اس کے ساتھ رکھنے والی بھی اسی جیسی عورتیں ہی ہوتی ہیں

Shireenhaider65@hotmail.com

''میں تو پچھتا رہی ہوں ایسی بہو کولا کربہن!! '' میرے کان میں آواز پڑی۔ '' کیا تمہیں پہلے سے علم نہیں تھا کہ تمہاری بہو کو نوکری کرنے کا شوق ہے؟ '' سننے والی نے دلچسپی لیتے ہوئے سوال کیا۔

'' جانتی تھی مگر میں سمجھتی تھی کہ شادی ہو کر بڑی بڑیوں کے کس بل نکل جاتے ہیں، لیکن اس نے تو آتے ہی میرے بیٹے کو کاٹھ کا الو بنا لیا ہے، وہ بھی اسی کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے۔ سویرے سویرے دونوں ناشتہ کر کے کھلکھلاتے ہوئے گھر سے نکل جاتے ہیں اور رات کو یوں مہمانوں کی طرح گھر آتے ہیں جیسے کسی سرائے میں آئے ہوں ۔ اوپر سے انھیں کھانا بھی پکا ہوا ملے ورنہ باہر چلے جاتے ہیں کھانا کھانے! '' جلے دل کے سارے پھپھولے پھوڑ دیے گئے۔

'' میرے بچوں نے تو اپنی شادیوں کے لیے پہلی شرط ہی یہ رکھی تھی کہ ان کی ہونے والی بیویاں ملازمت پیشہ ہوں ''

'' اوہ تب تو تم مجھ سے بڑھ کر مصیبت میں ہو گی، دو دو بہوئیں اور وہ بھی نوکریاں کرنے والی؟ '' ہمدردی سے پوچھا گیا۔ ایسی ہمدردی جس کے بطن میں ایک کمینی سی خوشی چھپی ہوتی ہے۔

'' ان کی شرط اپنی جگہ مگر میں نے بھی ان کی شرط کے جواب میں اپنا مطالبہ رکھا تھا کہ میں ان کی شادیوں کے بعد ان کا کوئی کام نہیں کروں گی، ان کے کپڑے دھونا اور استری کرنا، ان کے کمرے صاف کرنا اور ان کے کھانے پکانے کا خیال رکھنا ان کی بیویوں کی ذمے داری ہو گی۔ اب وہ دونوں ، دو دو ہاتھوں سے کماتے ہیں، دونوں نے مل کر ایک ملازموں کا جوڑا رکھ لیا ہے، بیوی گھر کے اندر کا اور شوہر باہر کے سارے کام کرتا ہے، میں بھی سکون میں ہوں !! '' کمینی سی خوشی اندر ہی اندر مر گئی تھی۔

میں دو ساسوں کے بیچ ہونے والی گفتگو سن رہی تھی۔ کسی بھی جگہ کی انتظار گاہ... کسی لکھاری کے لیے کئی طرح کی کہانیوں کا مرکز ہوتی ہے ۔ بولنے والوں کی کہانیاں اور طرح کی ہوتی ہیں اور خاموش رہنے والوں کی اور طرح کی۔ میں سوچ رہی تھی کہ رویے کس طرح بدلتے ہیں۔ بیٹوں کی شادی سے پہلے یہی عورتیں کس طرح سوچتی اور بولتی ہیں اور اب۔

''بھئی آپ کی بیٹی ہے تو شوق سے نوکری کرے مگر کل کلاں کو جب ہمارے گھر آئے گی تو اسے آرام ہی آرام ملے گا!! '' ایک سنہرے اسپنے کی ریشمی ڈور اس لڑکی کے ہاتھ میں پکڑا دی جاتی ہے جو پہلے ہی اپنی شادی کے حوالے سے سہانے خواب بن رہی ہوتی ہے ۔ منگنی اور شادی کے بیچ کا سہانا وقت پنکھ لگا کر اڑتا چلا جاتا ہے اور وہ اپنے بابل کی دہلیز عبور کرکے نئے گھر کو سدھارتی ہے۔

شادی سے پہلے کی گئی نوکری، شادی کے بعد جلد ہی ، ہر طرح سے اس کے لیے طعنہ بن جاتی ہے اور اسے بارہا اس حوالے سے کچھ نہ کچھ سننا پڑتا ہے۔'' بس بی بنو... بہت کر لی نوکری اور عیاشی باوا کے گھر میں رہ کر۔ اب گھر کا چولہا چوکی سنبھالو، میری بوڑھی ہڈیوں میں دم کہاں ہے کہ گھر کو دیکھوں !! '' بہو کے گھر آتے ہی ساس کی ہڈیوںکا دم خم جمع ہو کر زبان میں اتر آتا ہے۔ '' بھئی ہمیں تو قطعی اچھا نہیں لگتا اپنی بہو بیٹیوں سے نوکری کروانا... جانے کس طرح کے ماں باپ ہوتے ہیں جو بیٹیوں کی کمائی کھاتے ہیں !! '' بابل کے گھر پر نشتر بازی کر کے اس کا دل جلایا جاتا ہے۔


'' اماں نے تم سے اتنے برس نوکری کروائی ہے مگر تمہیں سلیقہ ذرا نہیں سکھایا... اسے کیا معلوم نہیں تھا کہ اس کا اصل ٹھکانہ باورچی خانہ ہی ہوتا ہے!! '' ماں کو پھوہڑ کہنے کے لیے اس سے بہتر کیا الفاظ ہو سکتے ہیں۔

'' لو بھئی... شادی سے پہلے تو تم اچھی خاصی نوکری کرتی تھیں، اپنا جہیز بھی تم نے خود ہی بنایا ہو گا۔اب جب تمہیں معلوم ہے کہ ایک شوہر کی تنخواہ سے گزارا نہیں ہوتا ، نہ ہی وہ نمانا تمہاری کھلے منہ کی فرمائشیں پوری کر سکتا ہے تو تمہیں خود ہی چاہیے تھا کہ تم پھر سے نوکری کر لو!!'' اپنا بیٹا تو ہر حال میں نمانا ہوتا ہے۔

'' جس طرح شادی سے پہلے اپنے ماں باپ کو کما کر کھلایا ہے اسی طرح اب تمہارا فرض ہے کہ اپنے ساس اور سسر کا بھی خیال کرو، دو ہاتھ کمانے والے ہوں گے تو ہمارا بیٹا بھی سکون میں ہو گا اور تم بھی خوش!! ''

'' کہاں عادت ہوتی ہے ان نوکری کرنے والیوں کو گھر بیٹھنے کی۔ گھر کی ذمے داریوں سے کنی کترانے کے لیے ہی تو سج بن کر گھر سے نکل جاتی ہیں، صبح سے شام تک باہر وقت گزار آتی ہیں، سسرال والوں کی کوئی وقعت ہی نہیں ہے!!''

کچھ ایسی بد قسمتی ہے کہ ہمارے ہاں شادی سے پہلے لڑکیاں ملازمت کرتی ہیں تو ان کے لیے گھر پر ایک مختلف فضا ہوتی ہے، ان کے آرام اور سکون کا خیال رکھا جاتا ہے۔ وہ شوقیہ ملازمت بھی کرتی ہیں مگر زیادہ تر ضرورتاً لڑکیاں ملازمت کرتی ہیں۔ وہ اسکول کالج سے پڑھ کر یا ملازمت کر کے گھر لوٹتی ہیں تو ماں باپ کو احساس ہوتا ہے کہ وہ دن بھر سو طرح کے لوگوں سے ڈیل کر کے آتی ہیں۔

جسمانی سے زیادہ ذہنی کوفت کا سامنا کرتی ہیں۔ دفتر سے باس کی ڈانٹ کھا کر ، ماتحتوں کے نخرے دیکھ کر اور ان کی غلطیوں کے بھی ازالے کی کوشش کرتی رہتی ہیں ۔ پھر بھی انھیں دنیا بھر کے باقی ملکوں کی طرح مردوں کی نسبت تنخواہیں بھی کم ملتی ہیں ۔ دفتر سے دن تمام کر کے نکلتی ہیں تو یا پبلک ٹرانسپورٹ میں دھکے کھاتی ہوئی آتی ہیں یا اپنی گاڑی میں کوفت بھرا سفر کر کے لوٹتی ہیں۔ ماں کوئی کام کہے بھی تو اس سے کہتی ہے کہ وہ بہت تھکی ہوئی ہے ... لیکن شادی، یہی بات وہ شادی کے بعد کسی سے نہیں کہہ سکتی۔ اس سے اپنی تھکاوٹ اور تکلیف کا اظہار کرنے کا حق چھن جاتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں مرد کو ہر لحاظ سے کام کرنے کی وجہ سے فوقیت حاصل ہے کہ وہ باہر سے کام کر کے لوٹے تو گھر میں اسے بادشاہ جیسا آرام ملے۔ اس کے گھر لوٹتے ہی اس کے سامنے گرما گرم چائے بھی لوازمات کے ساتھ پیش کی جائے، بیوی دن بھر کے کام کار سے تھکی ماندی بھی ہو تو اسے تیار اور بنی سنوری ملے... مسکراہٹ سے اس کا استقبال کرے ۔ بیوی والا نہ ہو تو ماں اس کا خیال رکھے، اپنا کوئی مسئلہ اسے نہ بتائے ، اسے اس کے بعد کسی نوعیت کاکوئی کام نہ کہا جائے ، کسی کے گھر جانے کو نہ کہا جائے، اپنی دوا دارو کے ختم ہونے کا تذکرہ نہ کیا جائے... نہ ہی کوئی پریشان کن مسئلہ اس کے ساتھ زیر بحث لایا جائے۔ اس سے کوئی کام کروانا ہو تو ویک اینڈ کا انتظار کیا جائے ۔

بیٹا ملازمت سے لوٹ کر آئے تو ماں کہتی ہے میرا بچہ تھکا ہوا لوٹا ہے... بہو واپس آ کر کچھ کہہ سکتی ہے نہ تھکاوٹ کا لفظ زبان پر لا سکتی ہے۔ اسے ایک نارمل انسان نہیں سمجھا جاتا بلکہ اسے سپر وومن کی طرح رویہ اختیار کرنا ہوتا ہے، اس کے سامنے گھر لوٹ کر کچی سبزی، گیس کا کم پریشر، روتے بسورتے ، اپنی ضرورتوں کی فہرست لیے ، نامکمل ہوم ورک لیے اس کے بچے، ان بچوں کے ان دھلے یونیفارم اور شوہر کے دھلے ہوئے کپڑوں کا ڈھیر ہوتا ہے جسے اس نے رات کو سونے سے قبل دھونا اور استری کرنا ہوتا ہے۔ وہ بھی اگر بجلی وفا کرے تو۔

اس پر بھی کسی کے چہرے پر اس کے لیے مسکراہٹ آتی ہے نہ کسی کے منہ سے تشکر کا ایک لفظ نکلتا ہے ۔ ہماری لغت کے مطابق، ملازمت پیشہ عورت ایک ایسے جانور کا نام ہے جس کے پاس بہت طاقت اور برداشت ہوتی ہے... اس کے سینے میں عام لوگوں جیسا دھڑکتا ہوا دل نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے کوئی جذبات، مرضی اور رائے ہوتی ہے۔ اس کی عزت نفس نام کا کوئی کیڑا اس کے اندر نہیں ہوتا اور اس کے ارد گرد رہنے والے لوگوں پر اس کی عزت کرنا بھی واجب نہیں ہے۔ حسن اتفاق دیکھئے کہ ایسی رائے، سوچ اور رویہ اس کے ساتھ رکھنے والی بھی اسی جیسی عورتیں ہی ہوتی ہیں۔
Load Next Story