سیاسی بھونچال
شہر میں تھوڑے ہی عرصے میں کئی ٹارگٹ کلنگزکا ہونا تشویش ناک صورتحال کا عکاس ہے
پی ایس پی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نے درست ہی کہا ہے کہ کراچی میں امن تو آگیا ہے مگر دشمن نہیں مرا۔ شہر میں تھوڑے ہی عرصے میں کئی ٹارگٹ کلنگزکا ہونا تشویش ناک صورتحال کا عکاس ہے۔ ڈیڑھ مہینے میں چھ انتہائی خطرناک دہشت گردانہ کارروائیاں ہوچکی ہیں۔
یہ سلسلہ 16 نومبر کو قائد آباد پل کے نیچے بم دھماکے سے شروع ہوا جو اب سابق رکن قومی اسمبلی علی رضا عابدی کے قتل تک پہنچ چکا ہے۔ آئی جی سندھ کا کہنا ہے کہ ایک پرانا دہشت گرد گروپ پھر سے شہر میں سرگرم ہوگیا ہے۔
اس وقت تمام ہی سیاسی پارٹیوں میں پی ایس پی سب سے زیادہ جانی نقصان اٹھانے والی پارٹی ہے۔ اس کے اب تک چار کارکنان کو شہید کیا جاچکا ہے۔ کسی سیاسی پارٹی کے کارکنان کا ایک نہیں دو بار نشانہ بنایا جانا یقینا اس کے لیے سخت تشویش کی بات ہے۔ اس وقت صرف پی ایس پی ہی نہیں بلکہ دوسری سیاسی پارٹیوں کے لیے بھی شہرکی بگڑتی ہوئی سیکیورٹی کی صورتحال ایک لمحہ فکریہ ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق پی ایس پی کو شاید اس لیے بھی ٹارگٹ کیا جا رہا ہے کیونکہ اس نے شہرکو ایک عرصے تک خون میں نہلانے والے گروہ کے خلاف کھلا جہاد کیا تھا اور اس کے دہشت گردانہ ہتھکنڈوں کا پردہ چاک کیا تھا ۔ اس وقت شہر میں تمام ہی سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں اور کارکنان کی سیکیورٹی کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔ اس لیے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کب اور کہاں کسے نشانہ بنا دیا جائے۔
حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے سابق رہنما فاروق ستار نے وزیر اعظم عمران خان کو ایک خط کے ذریعے اپنے اور ایم کیو ایم پاکستان کے تمام رہنماؤں کے لیے سیکیورٹی کا مطالبہ کیا ہے گوکہ وہ اس وقت ایم کیو ایم سے باہر ہیں مگر اس کے باوجود ایم کیو ایم بہادر آباد کے رہنماؤں کے لیے سیکیورٹی طلب کرنا ان کا بڑا پن ہے۔
اس وقت فاروق ستار کی کوئی پارٹی نہیں ہے وہ تن تنہا ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ کوئی ان کی جانب راغب نہیں ہو رہا ہے جب کہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ انھیں کوئی کچھ بھی کہے مگر ان کی مقبولیت اپنی جگہ موجود ہے۔ عوام ان سے اب بھی پہلے کی طرح پیار کرتے ہیں البتہ ان سے جو سب سے بڑی غلطی ہوئی وہ پی ایس پی کے ابتدائی دنوں میں اس کے ساتھ مل کر ایک نئی پارٹی تشکیل نہ دینا تھا اگر وہ کام اس وقت ہوجاتا تو کراچی میں اس وقت جو سیاسی خلا پایا جاتا ہے وہ نہ ہوتا۔
اس وقت شہر میں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے درمیان گھمسان کا رن پڑنے کے آثار نمایاں ہوچکے ہیں۔ پی ٹی آئی، سندھ حکومت کو ختم کرانے کے درپے ہوچکی ہے۔ یہ صورتحال اس طرح پیدا ہوئی ہے کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ پر بھی کرپشن کے الزامات لگائے گئے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کے خلاف بننے والی جے آئی ٹی میں ان کا نام بھی شامل ہے اس طرح انھیں بھی بدعنوان قرار دیا جا رہا ہے حالانکہ اصل فیصلہ تو عدالت میں ہی ہونا ہے کہ وہ کرپٹ ہیں کہ نہیں مگر فیصلہ آنے سے قبل ہی ان کی کرسی کو چھیننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی برہمی کے بعد کہ ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ کا نام ای سی ایل میں کیسے ڈالا جاسکتا ہے، پی ٹی آئی والے کچھ ٹھنڈے پڑ گئے ہیں مگر پھر بھی پیپلز پارٹی میں فارورڈ بلاک بننے کی باتیں کی جا رہی ہیں اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ دو درجن سے زیادہ پیپلز پارٹی کے صوبائی ارکان نے ان سے رابطہ کرلیا ہے۔ ادھر پیپلز پارٹی اپنے ممبران کی وفاداری کے بارے میں پہلے سے ہی شکوک و شبہات کا شکار ہے۔
نئے حالات میں اگر پیپلز پارٹی اپنے وزیر اعلیٰ کو تبدیل کرنا بھی چاہے تو یہ ممکن نہیں اس لیے کہ اسے یقین نہیں ہے کہ اس کے تمام صوبائی ممبران نئے وزیر اعلیٰ کو ووٹ دیں گے دراصل اس کے بعض ممبران پارٹی میں دھڑے بندی سے تنگ ہیں تو بعض وزارتوں کی تقسیم میں ناانصافی سے پریشان ہیں کسی کو تین تین وزارتیں نواز دی گئی ہیں جب کہ کسی حق دار کو کچھ بھی نہیں ملا ہے۔
مراد علی شاہ کا نام جے آئی ٹی میں ڈالنے سے پیپلز پارٹی میں ہلچل کا سماں ہے اس لیے کہ اس کی اس وقت صرف سندھ میں حکومت قائم ہے جس سے اس کا بھرم قائم ہے چنانچہ پیپلز پارٹی اپنی سندھ کی حکومت بچانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا سکتی ہے۔ بلاول بھٹو نے سندھ کی حکومت کو خطرے میں دیکھ کر وفاقی حکومت کو گرانے کی بات کی ہے۔
دراصل پی ٹی آئی کی حکومت بھی اتنی مضبوط نہیں ہے وہ بھی صرف چار ممبران کی برتری سے قائم ہے اگر کسی بھی حلیف پارٹی نے اپنی حمایت واپس لے لی تو راتوں رات حکومت گر سکتی ہے اور پھر پی ٹی آئی کے بھی برے دن شروع ہوسکتے ہیں۔ پھر سندھ میں پی ٹی آئی کی حلیف پارٹیاں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت گرانے یا وزیر اعلیٰ کی تبدیلی کے حق میں سرگرم دکھائی نہیں دیتیں کیونکہ ان کے نزدیک ایسا کرنا ملک میں جمہوریت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے جب کہ لگتا ہے پی ٹی آئی والوں کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔
سندھ کی اصل صورتحال کے جائزے کے بعد اب وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا بیان آیا ہے کہ پی ٹی آئی سندھ حکومت کو گرانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی البتہ وہ یہ ضرور چاہتی ہے کہ آصف زرداری اور ان کے رفقا اب خوش فہمیوں اور دھمکیوں سے نکل کر جیل جانے کے لیے تیار ہوجائیں۔ ان کے مطابق اب ان کی سیاست نواز شریف اور شہباز شریف کی طرح ختم ہوچکی ہے اب ان کا ملک میں کوئی سیاسی مستقبل نہیں ہے۔
پرانے سیاست دانوں کے بارے میں اس طرح کے ریمارکس کو تجزیہ کار ملک میں جمہوریت کے مستقبل کے لیے نیک شگون قرار نہیں دے رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاست دانوں کا جیل آنا جانا ہوتا رہتا ہے مگر ان کی سیاست کبھی ختم نہیں ہوتی بلکہ جیل جانے سے ان کی سیاست میں مزید پختگی آتی ہے چنانچہ ان کے جیل جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اس لیے بھی کہ ان کی پارٹی تو بہرحال فعال رہے گی اور جب پارٹی فعال ہو تو ان کا سیاسی کیریئر کیسے ختم ہوسکتا ہے۔
عوام تو انھیں نااہل ہونے پر بھی اہل سمجھتے ہیں اس طرح سیاست دانوں کے سیاسی مستقبل کو ختم کرنے کی باتیں سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ پی ٹی آئی کی انھی باتوں کی وجہ سے اس پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ ملک میں ایک پارٹی رول قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
پی ٹی آئی کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ اب وہ بیس سال تک راج کرے گی کسی جمہوری ملک میں ایسا دعویٰ کیسے کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے ملک میں ہر پانچ سال بعد عام انتخابات منعقد ہوتے ہیں چنانچہ کیا پتا عوام کب کسے حکومت کرنے کا موقعہ دیں۔
حکومت کو منتخب کرنے کا حق تو صرف عوام کے پاس ہی ہے البتہ یہ حق آمرانہ نظام میں ضرور چھینا گیا ہے مگر اب ملک میں کسی آمر کے برسر اقتدار آنے کا کوئی چانس نہیں ہے کیونکہ ہماری فوج پہلے ہی واضح کرچکی ہے کہ اسے دفاع وطن کے اپنے فرض کی ادائیگی کے سوا کسی چیز میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ چنانچہ پی ٹی آئی کی حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمے داریوں کا احساس کرے اپنی توانائیاں دیگر معاملات میں صرف کرنے کے بجائے ملک کو آگے بڑھانے کی فکر کرے۔
یہ سلسلہ 16 نومبر کو قائد آباد پل کے نیچے بم دھماکے سے شروع ہوا جو اب سابق رکن قومی اسمبلی علی رضا عابدی کے قتل تک پہنچ چکا ہے۔ آئی جی سندھ کا کہنا ہے کہ ایک پرانا دہشت گرد گروپ پھر سے شہر میں سرگرم ہوگیا ہے۔
اس وقت تمام ہی سیاسی پارٹیوں میں پی ایس پی سب سے زیادہ جانی نقصان اٹھانے والی پارٹی ہے۔ اس کے اب تک چار کارکنان کو شہید کیا جاچکا ہے۔ کسی سیاسی پارٹی کے کارکنان کا ایک نہیں دو بار نشانہ بنایا جانا یقینا اس کے لیے سخت تشویش کی بات ہے۔ اس وقت صرف پی ایس پی ہی نہیں بلکہ دوسری سیاسی پارٹیوں کے لیے بھی شہرکی بگڑتی ہوئی سیکیورٹی کی صورتحال ایک لمحہ فکریہ ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق پی ایس پی کو شاید اس لیے بھی ٹارگٹ کیا جا رہا ہے کیونکہ اس نے شہرکو ایک عرصے تک خون میں نہلانے والے گروہ کے خلاف کھلا جہاد کیا تھا اور اس کے دہشت گردانہ ہتھکنڈوں کا پردہ چاک کیا تھا ۔ اس وقت شہر میں تمام ہی سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں اور کارکنان کی سیکیورٹی کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔ اس لیے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کب اور کہاں کسے نشانہ بنا دیا جائے۔
حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے سابق رہنما فاروق ستار نے وزیر اعظم عمران خان کو ایک خط کے ذریعے اپنے اور ایم کیو ایم پاکستان کے تمام رہنماؤں کے لیے سیکیورٹی کا مطالبہ کیا ہے گوکہ وہ اس وقت ایم کیو ایم سے باہر ہیں مگر اس کے باوجود ایم کیو ایم بہادر آباد کے رہنماؤں کے لیے سیکیورٹی طلب کرنا ان کا بڑا پن ہے۔
اس وقت فاروق ستار کی کوئی پارٹی نہیں ہے وہ تن تنہا ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ کوئی ان کی جانب راغب نہیں ہو رہا ہے جب کہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ انھیں کوئی کچھ بھی کہے مگر ان کی مقبولیت اپنی جگہ موجود ہے۔ عوام ان سے اب بھی پہلے کی طرح پیار کرتے ہیں البتہ ان سے جو سب سے بڑی غلطی ہوئی وہ پی ایس پی کے ابتدائی دنوں میں اس کے ساتھ مل کر ایک نئی پارٹی تشکیل نہ دینا تھا اگر وہ کام اس وقت ہوجاتا تو کراچی میں اس وقت جو سیاسی خلا پایا جاتا ہے وہ نہ ہوتا۔
اس وقت شہر میں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے درمیان گھمسان کا رن پڑنے کے آثار نمایاں ہوچکے ہیں۔ پی ٹی آئی، سندھ حکومت کو ختم کرانے کے درپے ہوچکی ہے۔ یہ صورتحال اس طرح پیدا ہوئی ہے کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ پر بھی کرپشن کے الزامات لگائے گئے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کے خلاف بننے والی جے آئی ٹی میں ان کا نام بھی شامل ہے اس طرح انھیں بھی بدعنوان قرار دیا جا رہا ہے حالانکہ اصل فیصلہ تو عدالت میں ہی ہونا ہے کہ وہ کرپٹ ہیں کہ نہیں مگر فیصلہ آنے سے قبل ہی ان کی کرسی کو چھیننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی برہمی کے بعد کہ ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ کا نام ای سی ایل میں کیسے ڈالا جاسکتا ہے، پی ٹی آئی والے کچھ ٹھنڈے پڑ گئے ہیں مگر پھر بھی پیپلز پارٹی میں فارورڈ بلاک بننے کی باتیں کی جا رہی ہیں اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ دو درجن سے زیادہ پیپلز پارٹی کے صوبائی ارکان نے ان سے رابطہ کرلیا ہے۔ ادھر پیپلز پارٹی اپنے ممبران کی وفاداری کے بارے میں پہلے سے ہی شکوک و شبہات کا شکار ہے۔
نئے حالات میں اگر پیپلز پارٹی اپنے وزیر اعلیٰ کو تبدیل کرنا بھی چاہے تو یہ ممکن نہیں اس لیے کہ اسے یقین نہیں ہے کہ اس کے تمام صوبائی ممبران نئے وزیر اعلیٰ کو ووٹ دیں گے دراصل اس کے بعض ممبران پارٹی میں دھڑے بندی سے تنگ ہیں تو بعض وزارتوں کی تقسیم میں ناانصافی سے پریشان ہیں کسی کو تین تین وزارتیں نواز دی گئی ہیں جب کہ کسی حق دار کو کچھ بھی نہیں ملا ہے۔
مراد علی شاہ کا نام جے آئی ٹی میں ڈالنے سے پیپلز پارٹی میں ہلچل کا سماں ہے اس لیے کہ اس کی اس وقت صرف سندھ میں حکومت قائم ہے جس سے اس کا بھرم قائم ہے چنانچہ پیپلز پارٹی اپنی سندھ کی حکومت بچانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا سکتی ہے۔ بلاول بھٹو نے سندھ کی حکومت کو خطرے میں دیکھ کر وفاقی حکومت کو گرانے کی بات کی ہے۔
دراصل پی ٹی آئی کی حکومت بھی اتنی مضبوط نہیں ہے وہ بھی صرف چار ممبران کی برتری سے قائم ہے اگر کسی بھی حلیف پارٹی نے اپنی حمایت واپس لے لی تو راتوں رات حکومت گر سکتی ہے اور پھر پی ٹی آئی کے بھی برے دن شروع ہوسکتے ہیں۔ پھر سندھ میں پی ٹی آئی کی حلیف پارٹیاں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت گرانے یا وزیر اعلیٰ کی تبدیلی کے حق میں سرگرم دکھائی نہیں دیتیں کیونکہ ان کے نزدیک ایسا کرنا ملک میں جمہوریت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے جب کہ لگتا ہے پی ٹی آئی والوں کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔
سندھ کی اصل صورتحال کے جائزے کے بعد اب وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا بیان آیا ہے کہ پی ٹی آئی سندھ حکومت کو گرانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی البتہ وہ یہ ضرور چاہتی ہے کہ آصف زرداری اور ان کے رفقا اب خوش فہمیوں اور دھمکیوں سے نکل کر جیل جانے کے لیے تیار ہوجائیں۔ ان کے مطابق اب ان کی سیاست نواز شریف اور شہباز شریف کی طرح ختم ہوچکی ہے اب ان کا ملک میں کوئی سیاسی مستقبل نہیں ہے۔
پرانے سیاست دانوں کے بارے میں اس طرح کے ریمارکس کو تجزیہ کار ملک میں جمہوریت کے مستقبل کے لیے نیک شگون قرار نہیں دے رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاست دانوں کا جیل آنا جانا ہوتا رہتا ہے مگر ان کی سیاست کبھی ختم نہیں ہوتی بلکہ جیل جانے سے ان کی سیاست میں مزید پختگی آتی ہے چنانچہ ان کے جیل جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اس لیے بھی کہ ان کی پارٹی تو بہرحال فعال رہے گی اور جب پارٹی فعال ہو تو ان کا سیاسی کیریئر کیسے ختم ہوسکتا ہے۔
عوام تو انھیں نااہل ہونے پر بھی اہل سمجھتے ہیں اس طرح سیاست دانوں کے سیاسی مستقبل کو ختم کرنے کی باتیں سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ پی ٹی آئی کی انھی باتوں کی وجہ سے اس پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ ملک میں ایک پارٹی رول قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
پی ٹی آئی کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ اب وہ بیس سال تک راج کرے گی کسی جمہوری ملک میں ایسا دعویٰ کیسے کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے ملک میں ہر پانچ سال بعد عام انتخابات منعقد ہوتے ہیں چنانچہ کیا پتا عوام کب کسے حکومت کرنے کا موقعہ دیں۔
حکومت کو منتخب کرنے کا حق تو صرف عوام کے پاس ہی ہے البتہ یہ حق آمرانہ نظام میں ضرور چھینا گیا ہے مگر اب ملک میں کسی آمر کے برسر اقتدار آنے کا کوئی چانس نہیں ہے کیونکہ ہماری فوج پہلے ہی واضح کرچکی ہے کہ اسے دفاع وطن کے اپنے فرض کی ادائیگی کے سوا کسی چیز میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ چنانچہ پی ٹی آئی کی حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمے داریوں کا احساس کرے اپنی توانائیاں دیگر معاملات میں صرف کرنے کے بجائے ملک کو آگے بڑھانے کی فکر کرے۔