مجاہد ملت قاضی حسین احمد چند باتیں چند یادیں
قاضی صاحب مقبوضہ مسلم علاقوں خاص طور پر کشمیر اور فلسطین کی آزادی کے لیے ضرورآواز اٹھاتے
قاضی حسین احمد ایک جہد مسلسل کا نام ہے وہ پارے کی طرح ہر وقت حرکت میں رہنے والی شخصیت تھے۔ مایوسی کا لفظ ان کی کتاب میں نہیں تھا جس طرح حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ نے فرمایا تھا کہ اس سے پہلے کہ موت میری طرف آئے کیوں نہ میں موت کا بڑھ کر استقبال کروں۔
وہ چاہتے تھے کہ چلتے چلتے ان کی زندگی کا اختتام اللہ کے رستے پر ہو۔قاضی حسین احمد ایک روایتی سیاستدان نہیں تھے بلکہ وہ ایک کارکن کے طور پر جماعت اسلامی میں آئے اور نا صرف جماعت اسلامی بلکہ امت کے قائد کے طور پر اس جہان فانی سے رخصت ہوئے ۔قاضی صاحب علمی دنیا سے تعلق رکھتے تھے ،بنیادی طور پر وہ جغرافیہ کے پروفیسر تھے اور سیدو شریف کالج سوات میں پڑھاتے رہے ۔اس لیے آخری لمحہ تک ان کا انداز ایک معلم اور مربی کا رہا۔
قاضی حسین احمد نے سید مودودی ؒ کا لٹریچر نثر میں پڑھا تھا مگر اس کا اظہار وہ علامہ اقبال ؒ کے اشعار میں کرتے تھے ۔علامہ اقبال کا اردو اور فارسی کلام انھیں ازبر تھا خاص طور پر فارسی کلام پر تو انھیں ایسی دسترس حاصل تھی کہ اپنے خطاب اور تقریر میں اشعار پڑھتے تو ایسا لگتا کہ حکیم الامت ؒ نے یہ شعر دراصل کہا ہی اس موقع کے لیے تھا۔
قاضی صاحب کوئی بات بھی اپنے دل میں چھپا کر نہیں رکھتے تھے میں محسوس کرتا ہوں کہ ان کا باطن ان کے ظاہر سے زیادہ روشن تھا ۔اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے والے انسان تھے ، اپنے بعض سیاسی فیصلوں کے بارے میںبرملا اظہارکرتے تھے ،2008کے انتخابات کے بائیکاٹ کے حوالے سے ان کا اعتراف تھا کہ ہمیں الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہیے تھا۔جب قاضی حسین احمد امیر جماعت بنے میں ان دنوں صوبہ سرحد کا اسلامی جمعیت طلباء کا ناظم تھا اور بعد میں 88میںجمعیت کا ناظم اعلیٰ منتخب ہوا۔ہم پشاور یونیورسٹی میں ہوتے تھے قاضی صاحب جب بھی پشاور آتے ہم فجر کی نماز ان کی امامت میں پڑھنے کے لیے ان کے گھر جاتے تھے اور صبح کی واک میں ان سے مشاورت کرتے تھے ۔
واک کے دوران وہ انتہائی شفقت اور محبت سے ہماراہاتھ پکڑ کر سنجیدہ مسائل پر ہماری راہنمائی فرماتے تھے ۔مجھے یاد ہے کہ ایک بار رمضان کے مہینے میں ہم روزہ رکھ کر پشاور سے نکلے اور کوہاٹ ،بنوں ، کرک اور ڈیرہ اسماعیل خان سے ہوتے ہوئے اسلام آباد پہنچے ،راستے میں پانی اور کھجور سے روزہ افطار کیا،سحری میں قریبا تین گھنٹے باقی تھے ۔سبھی تھکے ہوئے تھے جہاں پڑے سو گئے لیکن جب ہم سحری کے لیے اٹھے تو قاضی صاحب اسی طرح ہشاش بشاش تھے اور اپنے گھر میں ہماری میزبانی کررہے تھے ۔پھر وہ ہمیں فجرپڑھاتے ہی اسلام آباد میںکسی میٹنگ میں چلے گئے ۔
قاضی حسین احمد نے افغان جہاد میں بنیادی کردار ادا کیا،آج جس طرح پاکستان کے عوام ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں اسی طرح افغان عوام ان سے عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہیں ۔1989میں ،میں بنگلا دیش گیا اور ڈھاکہ سے آگے کوکس بازار ،بنگلا دیش اور برما کے درمیان پہاڑی علاقے میں برما کے مظلوم و مجبور مہاجرین نے لالٹین کی روشنی میں اجتماع رکھا،وہاں روہنگیا مسلمانوں سے تعارف ہوا تو انھوں نے قاضی صاحب سے انتہائی عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یقین تھا کہ قاضی صاحب ہماری مدد کو ضرور آئیں گے اور ہماری سرپرستی کریں گے ۔
قاضی صاحب پاکستان میں ایک ایسی سوسائٹی چاہتے تھے جہاں ایک انسان دوسرے کا غلام نہ ہو،وہ ایسے معاشرے کی تشکیل چاہتے تھے جس میں نیکی کرنا آسان اور بدی کرنا مشکل ہواور چاروں طرف ایک دوسرے سے محبت ،ہمدردی اور غمگساری کرنے اور ایک دوسرے کا غم بانٹنے والے ہوں ۔جب میں جماعت اسلامی کی شوری کے اجلاس میں پہلی بار شریک ہوا تو قاضی صاحب نے اپنے خطاب سے پہلے جو آیات تلاوت کیں ان کا مفہوم یہ تھا کہ ''تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ جب اللہ کے راستے میں نکلنے کے لیے کہا گیا تو تم زمین سے چمٹ گئے ،کیا تم نے دنیا کی زندگی کو آخرت کے مقابلے میں پسند کیا ہے ؟اور یہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے ۔(التوبہ)
میں ان دنوں طالب علم تھا جب قاضی صاحب جمعیت کے پروگرام میں تشریف لائے تو انھوں نے اپنے خطاب میں اسلامی دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ قیادت کا فقدان قرار دیا تھااور فرمایا تھا کہ عالم اسلام تو ایک سمندر ہے مگر قیادت کے نہ ہونے کی وجہ سے یہ سمندر ایک معمولی قطرے کی حیثیت بھی نہیں رکھتا۔ان کی زبان سے سنے اقبال ؒ کے اشعار آج بھی مجھے یاد ہیں ۔
تونے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے حق تجھے میری طرح صاحب اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزارکرے
قاضی حسین احمد اسلاف کی ایک جیتی جاگتی تصویر اور نشانی تھے ۔ان کے اندرامت کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہواتھا وہ بلا شبہ اتحاد امت کے سب سے بڑے داعی تھے۔
قاضی صاحب نے مختلف سیاسی اور دینی اتحاد قائم کیے ،وہ آئی جے آئی میں شریک رہے اگرچہ وہ تجربہ بھی خوشگوار نہیں تھا۔قاضی صاحب نے اسلامک فرنٹ بنایا ،لیکن جماعت کو ایک اور متحد رکھنے کے لیے انھوں نے دوبارہ جماعت کے نام اور جھنڈے سے انتخابات میں جانا ہی بہتر سمجھا ۔ دینی جماعتوں اور مختلف مکتبہ فکر کو متحد کرنے کے لیے انھوں نے ملی یکجہتی کونسل بنائی ، قاضی صاحب کے اندر سالار قافلہ کی وہ تمام خوبیاں جمع تھیں جو ہمیں قرون اولیٰ کے مسلمانوں میں ملتی ہیں وہ بہت سرعت سے چلتے تھے ،جب ہم انھیں جمعیت کے پروگراموں اور ریلیوں وغیرہ میں دیکھتے تو وہ جوانوں سے زیادہ تیز چلتے تھے ۔
حتی کہ جب انھیں دل کی تکلیف ہوگئی اور ڈاکٹروں نے انھیں تیز چلنے سے منع کردیا تب بھی وہ اپنی عادت کے مطابق ہمیشہ دوسروں سے آگے ہوتے ۔قاضی صاحب مذہبی جماعتوں کو متحد اوراکٹھا کرنے کے لیے ہمیشہ متحرک رہے ۔اس مقصد کے لیے انھوں نے دیگر قائدین کے ساتھ مل کر 2002میں متحدہ مجلس عمل بنائی ،یہ پاکستان کی تاریخ میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد کا کامیاب ترین تجربہ تھا ۔ایم ایم اے کے 68ارکان اسمبلی میں پہنچے اور ایم ایم اے خیبر پختونخواہ میں حکومت بنانے میں بھی کامیاب ہوئی ۔پرویز مشرف کے مارشل لاء کو سب سے پہلے قاضی صاحب نے چیلنج کیا تھا۔
چائنا کے دورے میں ہم قاضی صاحب کے ساتھ تھے ،چائنا کی قیادت کے ساتھ طویل مجالس بھی ہوئیں ،جب ایک چینی ذمے دار نے چائنا میں مقیم مسلمانوں کے بار ے میں کہا کہ یہ یہور مسلمان ہیں تو قاضی صاحب نے اسی وقت ان کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اب یہ چائنیزمسلمان ہیں ،ان کو آپ غیر نہیں اپنا ہی سمجھیں۔قاضی صاحب مشورے اور وقت کے کتنے پابند تھے اس کی ایک مثال چائنا کے اسی دورے کے دوران میرے سامنے آئی ،چائنا میں ہمارے پروٹوکول افسر آکر جب قاضی صاحب سے پوچھتے کہ کھانا ،ناشتہ یا ڈنر کس وقت کریں گے تو وہ کہتے کہ ہم مشورہ کرکے آپ کو بتاتے ہیں ۔
پھر وہ ہم سے مشورہ لیتے ۔اگر وہ کہتے کہ ناشتہ ہم صبح آٹھ بجے کریں گے تو ہمیں ساتھ لے کر وہ ٹھیک آٹھ بجے ناشتے کی میز پر پہنچ جاتے ۔جب ہم واپس آنے لگے تو چینی میزبانوں نے بتایاکہ ہمارے پاس دنیا بھر سے وفود آتے ہیں لیکن جس وفد نے ہمارے پروٹوکول افسروں کو بھی متاثر کیا ہے وہ جماعت اسلامی کا ہے ۔اسی دورہ کے دوران چائنا کی کیمونسٹ پارٹی کے ساتھ ہم نے تیرہ نکاتی یادداشت پر دستخط کیے ۔اس میمو رنڈم میں مسئلہ کشمیر سرفہرست تھا ۔قاضی صاحب مسلم و غیر مسلم جس ملک کے دورے پر بھی ہوتے وہاں مقبوضہ مسلم علاقوں خاص طور پر کشمیر اور فلسطین کی آزادی کے لیے ضرورآواز اٹھاتے ۔
وہ چاہتے تھے کہ چلتے چلتے ان کی زندگی کا اختتام اللہ کے رستے پر ہو۔قاضی حسین احمد ایک روایتی سیاستدان نہیں تھے بلکہ وہ ایک کارکن کے طور پر جماعت اسلامی میں آئے اور نا صرف جماعت اسلامی بلکہ امت کے قائد کے طور پر اس جہان فانی سے رخصت ہوئے ۔قاضی صاحب علمی دنیا سے تعلق رکھتے تھے ،بنیادی طور پر وہ جغرافیہ کے پروفیسر تھے اور سیدو شریف کالج سوات میں پڑھاتے رہے ۔اس لیے آخری لمحہ تک ان کا انداز ایک معلم اور مربی کا رہا۔
قاضی حسین احمد نے سید مودودی ؒ کا لٹریچر نثر میں پڑھا تھا مگر اس کا اظہار وہ علامہ اقبال ؒ کے اشعار میں کرتے تھے ۔علامہ اقبال کا اردو اور فارسی کلام انھیں ازبر تھا خاص طور پر فارسی کلام پر تو انھیں ایسی دسترس حاصل تھی کہ اپنے خطاب اور تقریر میں اشعار پڑھتے تو ایسا لگتا کہ حکیم الامت ؒ نے یہ شعر دراصل کہا ہی اس موقع کے لیے تھا۔
قاضی صاحب کوئی بات بھی اپنے دل میں چھپا کر نہیں رکھتے تھے میں محسوس کرتا ہوں کہ ان کا باطن ان کے ظاہر سے زیادہ روشن تھا ۔اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے والے انسان تھے ، اپنے بعض سیاسی فیصلوں کے بارے میںبرملا اظہارکرتے تھے ،2008کے انتخابات کے بائیکاٹ کے حوالے سے ان کا اعتراف تھا کہ ہمیں الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہیے تھا۔جب قاضی حسین احمد امیر جماعت بنے میں ان دنوں صوبہ سرحد کا اسلامی جمعیت طلباء کا ناظم تھا اور بعد میں 88میںجمعیت کا ناظم اعلیٰ منتخب ہوا۔ہم پشاور یونیورسٹی میں ہوتے تھے قاضی صاحب جب بھی پشاور آتے ہم فجر کی نماز ان کی امامت میں پڑھنے کے لیے ان کے گھر جاتے تھے اور صبح کی واک میں ان سے مشاورت کرتے تھے ۔
واک کے دوران وہ انتہائی شفقت اور محبت سے ہماراہاتھ پکڑ کر سنجیدہ مسائل پر ہماری راہنمائی فرماتے تھے ۔مجھے یاد ہے کہ ایک بار رمضان کے مہینے میں ہم روزہ رکھ کر پشاور سے نکلے اور کوہاٹ ،بنوں ، کرک اور ڈیرہ اسماعیل خان سے ہوتے ہوئے اسلام آباد پہنچے ،راستے میں پانی اور کھجور سے روزہ افطار کیا،سحری میں قریبا تین گھنٹے باقی تھے ۔سبھی تھکے ہوئے تھے جہاں پڑے سو گئے لیکن جب ہم سحری کے لیے اٹھے تو قاضی صاحب اسی طرح ہشاش بشاش تھے اور اپنے گھر میں ہماری میزبانی کررہے تھے ۔پھر وہ ہمیں فجرپڑھاتے ہی اسلام آباد میںکسی میٹنگ میں چلے گئے ۔
قاضی حسین احمد نے افغان جہاد میں بنیادی کردار ادا کیا،آج جس طرح پاکستان کے عوام ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں اسی طرح افغان عوام ان سے عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہیں ۔1989میں ،میں بنگلا دیش گیا اور ڈھاکہ سے آگے کوکس بازار ،بنگلا دیش اور برما کے درمیان پہاڑی علاقے میں برما کے مظلوم و مجبور مہاجرین نے لالٹین کی روشنی میں اجتماع رکھا،وہاں روہنگیا مسلمانوں سے تعارف ہوا تو انھوں نے قاضی صاحب سے انتہائی عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یقین تھا کہ قاضی صاحب ہماری مدد کو ضرور آئیں گے اور ہماری سرپرستی کریں گے ۔
قاضی صاحب پاکستان میں ایک ایسی سوسائٹی چاہتے تھے جہاں ایک انسان دوسرے کا غلام نہ ہو،وہ ایسے معاشرے کی تشکیل چاہتے تھے جس میں نیکی کرنا آسان اور بدی کرنا مشکل ہواور چاروں طرف ایک دوسرے سے محبت ،ہمدردی اور غمگساری کرنے اور ایک دوسرے کا غم بانٹنے والے ہوں ۔جب میں جماعت اسلامی کی شوری کے اجلاس میں پہلی بار شریک ہوا تو قاضی صاحب نے اپنے خطاب سے پہلے جو آیات تلاوت کیں ان کا مفہوم یہ تھا کہ ''تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ جب اللہ کے راستے میں نکلنے کے لیے کہا گیا تو تم زمین سے چمٹ گئے ،کیا تم نے دنیا کی زندگی کو آخرت کے مقابلے میں پسند کیا ہے ؟اور یہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے ۔(التوبہ)
میں ان دنوں طالب علم تھا جب قاضی صاحب جمعیت کے پروگرام میں تشریف لائے تو انھوں نے اپنے خطاب میں اسلامی دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ قیادت کا فقدان قرار دیا تھااور فرمایا تھا کہ عالم اسلام تو ایک سمندر ہے مگر قیادت کے نہ ہونے کی وجہ سے یہ سمندر ایک معمولی قطرے کی حیثیت بھی نہیں رکھتا۔ان کی زبان سے سنے اقبال ؒ کے اشعار آج بھی مجھے یاد ہیں ۔
تونے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے حق تجھے میری طرح صاحب اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزارکرے
قاضی حسین احمد اسلاف کی ایک جیتی جاگتی تصویر اور نشانی تھے ۔ان کے اندرامت کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہواتھا وہ بلا شبہ اتحاد امت کے سب سے بڑے داعی تھے۔
قاضی صاحب نے مختلف سیاسی اور دینی اتحاد قائم کیے ،وہ آئی جے آئی میں شریک رہے اگرچہ وہ تجربہ بھی خوشگوار نہیں تھا۔قاضی صاحب نے اسلامک فرنٹ بنایا ،لیکن جماعت کو ایک اور متحد رکھنے کے لیے انھوں نے دوبارہ جماعت کے نام اور جھنڈے سے انتخابات میں جانا ہی بہتر سمجھا ۔ دینی جماعتوں اور مختلف مکتبہ فکر کو متحد کرنے کے لیے انھوں نے ملی یکجہتی کونسل بنائی ، قاضی صاحب کے اندر سالار قافلہ کی وہ تمام خوبیاں جمع تھیں جو ہمیں قرون اولیٰ کے مسلمانوں میں ملتی ہیں وہ بہت سرعت سے چلتے تھے ،جب ہم انھیں جمعیت کے پروگراموں اور ریلیوں وغیرہ میں دیکھتے تو وہ جوانوں سے زیادہ تیز چلتے تھے ۔
حتی کہ جب انھیں دل کی تکلیف ہوگئی اور ڈاکٹروں نے انھیں تیز چلنے سے منع کردیا تب بھی وہ اپنی عادت کے مطابق ہمیشہ دوسروں سے آگے ہوتے ۔قاضی صاحب مذہبی جماعتوں کو متحد اوراکٹھا کرنے کے لیے ہمیشہ متحرک رہے ۔اس مقصد کے لیے انھوں نے دیگر قائدین کے ساتھ مل کر 2002میں متحدہ مجلس عمل بنائی ،یہ پاکستان کی تاریخ میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد کا کامیاب ترین تجربہ تھا ۔ایم ایم اے کے 68ارکان اسمبلی میں پہنچے اور ایم ایم اے خیبر پختونخواہ میں حکومت بنانے میں بھی کامیاب ہوئی ۔پرویز مشرف کے مارشل لاء کو سب سے پہلے قاضی صاحب نے چیلنج کیا تھا۔
چائنا کے دورے میں ہم قاضی صاحب کے ساتھ تھے ،چائنا کی قیادت کے ساتھ طویل مجالس بھی ہوئیں ،جب ایک چینی ذمے دار نے چائنا میں مقیم مسلمانوں کے بار ے میں کہا کہ یہ یہور مسلمان ہیں تو قاضی صاحب نے اسی وقت ان کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اب یہ چائنیزمسلمان ہیں ،ان کو آپ غیر نہیں اپنا ہی سمجھیں۔قاضی صاحب مشورے اور وقت کے کتنے پابند تھے اس کی ایک مثال چائنا کے اسی دورے کے دوران میرے سامنے آئی ،چائنا میں ہمارے پروٹوکول افسر آکر جب قاضی صاحب سے پوچھتے کہ کھانا ،ناشتہ یا ڈنر کس وقت کریں گے تو وہ کہتے کہ ہم مشورہ کرکے آپ کو بتاتے ہیں ۔
پھر وہ ہم سے مشورہ لیتے ۔اگر وہ کہتے کہ ناشتہ ہم صبح آٹھ بجے کریں گے تو ہمیں ساتھ لے کر وہ ٹھیک آٹھ بجے ناشتے کی میز پر پہنچ جاتے ۔جب ہم واپس آنے لگے تو چینی میزبانوں نے بتایاکہ ہمارے پاس دنیا بھر سے وفود آتے ہیں لیکن جس وفد نے ہمارے پروٹوکول افسروں کو بھی متاثر کیا ہے وہ جماعت اسلامی کا ہے ۔اسی دورہ کے دوران چائنا کی کیمونسٹ پارٹی کے ساتھ ہم نے تیرہ نکاتی یادداشت پر دستخط کیے ۔اس میمو رنڈم میں مسئلہ کشمیر سرفہرست تھا ۔قاضی صاحب مسلم و غیر مسلم جس ملک کے دورے پر بھی ہوتے وہاں مقبوضہ مسلم علاقوں خاص طور پر کشمیر اور فلسطین کی آزادی کے لیے ضرورآواز اٹھاتے ۔