ناکامیوں کے بھنور میں پھنسی ہاکی کو نئے عہدیداروں کا سہارا

پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سیکرٹری کا عہدہ اپنے اندر بڑی کشش رکھتا ہے

پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سیکرٹری کا عہدہ اپنے اندر بڑی کشش رکھتا ہے

پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سیکرٹری کا عہدہ اپنے اندر بڑی کشش رکھتا ہے،لاکھوں روپے تنخواہ، گاڑی، ڈرائیور سمیت متعدد مراعات اسے حاصل ہوتی ہیں، ایف آئی ایچ اور اے ایچ ایف کے اجلاسوں میں شرکت کی آڑ میں دنیا دیکھنے کا موقع ملتا ہے، قومی ٹیموں کے انٹرنیشنل ایونٹس کے موقع پر بھی فیڈریشنز کے سیکرٹری صاحبان آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور یورپ سمیت مفت میں دنیا بھر کے سیر سپاٹے کرتے نظر آتے ہیں، ڈالرز میں یومیہ معاوضہ الگ سے ملتا ہے، اس لئے ہر کوئی سیکرٹری بننے کے چکر میں ہوتا ہے۔

فیڈریشن کے اہم عہدہ تک رسائی کے لئے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کیا جاتا ہے، اعلی حکومتی شخصیات کا اثرو رسوخ استعمال کیا جاتا ہے، منزل پا لینے کے بعد نیا سیکرٹری کروڑوں روپے کے فنڈز کو اپنی مرضی سے استعمال کرتا ہے، اپنے بینک بیلنس میں اضافہ کرتا ہے، اپنے یاروں دوستوں کو خوب نوازتا ہے، تاہم پاکستان ہاکی فیڈریش حکام کی ناتجربہ کاریوں اور من مانیوں کے بعد صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ اب کوئی بھی سیکرٹری فیڈریشن بننے کیلئے تیار نہیں، ذرائع کے مطابق پی ایچ ایف حکام نے سیکرٹری کے لئے جن اولمپئنز سے رابطہ کیاان کا جواب''ناں'' کی صورت میں سامنے آیا۔ انکار کرنے والے شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کا موجودہ سیٹ اپ چند دنوں کا مہمان ہے، اس لئے اس ڈوبتے ہوئے ٹائی ٹینک میں سوار ہونے کی آخر کیا ضرورت ہے؟

اس نازک موڑ پر لاس اینجلس اولمپکس 1984کی فاتح ٹیم کے اہم رکن ایاز محمود ہاکی کو اس کا کھویا ہوا مقام واپس دلانے کے لئے میدان میں آئے ہیں، اگر ایاز محمود کے ہاکی کے بیک گراؤنڈ کی بات کی جائے تو گرین شرٹس کی کامیابیوں میں ایاز محمود کا ریکارڈ بڑا درخشاں ہے، ہاکی فیملی کے مایہ ناز سپوت نے اپنے کھیل سے ان گنت نقوش چھوڑے ہیں، ان کے والد محمود الحسن مرحوم خود ہاکی کے قابل فخر کھلاڑی تھے، جنہوں نے پاکستان ٹیم کی لندن اولمپکس 1948 اور ہیلنسکی اولمپکس1952 میں نمائندگی کی، ایاز محمود نے خود لاس اینجلس اولمپکس 1984 میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے گرین شرٹس کو سونے کا تمغہ دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔

سابق اولمپئن نے ہاکی کا آغاز ایچی سن کالج لاہور سے کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنے کھیل کی نفاست اور فنکاری سے ہاکی کے آسمان پر ستارے کی طرح ابھرے، کوئٹہ میں ہونے والی جونیئر نیشنل چیمپئن شپ 1979 کے مقابلوں میں شریک ہوئے اور اپنی اعلی کارکردگی سے پی آئی اے کولٹس میں شامل کر لئے گئے۔1981 میں انہوں نے پاکستان جونیئر ٹیم کے ساتھ یورپ کا دورہ کیا اور اعلی کارکردگی دکھا کر قومی ٹیم کا حصہ بن گئے۔ وہ بنیادی طور پر رائٹ ہاف کی پوزیشن کے کھلاڑی تھے۔

تاہم اختر رسول کی ریٹائرمنٹ کے بعد ٹیم کی ضرورت اور مضبوطی کی خاطر انہیں سنٹر ہاف کی پوزیشن پر تبدیل کر دیا گیا اور اس پوزیشن پر بھی انہوں نے مہارت اور پختگی کا ثبوت دیا۔ایاز محمود نے پاکستان بھارت ٹیسٹ سیریز، ہالینڈ ٹیسٹ سیریز1983، پانچ ملکی ٹورنامنٹ کوالالمپور1984، سوویت ٹیسٹ 1984، دورہ یورپ 1985 سمیت متعدد ایونٹس میں قومی ٹیم کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے عمدہ کھیل سے سبزہلالی پرچم لہرایا۔


حال میں ہی پاکستان ہاکی فیڈریشن کے قائم مقام سیکرٹری بنائے جانے والے ایاز محمود نے نیشنل ہاکی سٹیڈیم لاہور میں ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ٹیم میں اب وہی رہے گا جس کی پہلی ترجیح پاکستان ہوگی،غیر ملکی لیگز کے لئے قومی کیمپس کو چھوڑنے والے پلیئرز کے لیے ٹیم میں کوئی جگہ نہیں ہو گی، ڈسپلن اور ہاکی کے کھیل پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا، پاکستان ہاکی ٹیم کی انٹرنیشنل کامیابیوں کی کنجی ملکی کوچ کے پاس ہی ہے البتہ غیر ملکی ٹرینرز کی خدمات حاصل کرنے میں کوئی حرج نہیں، قومی کھیل کی بقا کے لئے سابق اولمپئنز کا ایک پلیٹ فارم پر کھڑا ہونا ضروری ہے،ان کے آراء سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ نہ صرف کھلاڑیوں کی نفسیات سے آگاہ ہیں بلکہ ہاکی کی بہتری کے لئے بھی ان کے پاس جامع پلان موجود ہے۔

ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کے بعد ہیڈ کوچ توقیر ڈار اور منیجر حسن سردار نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا تھا، ان اولمپئنز کی جگہ اب یہ دوہری ذمہ داری سابق اولمپئن سعید خان کو سونپی گئی ہے، ہاکی ٹیم کے نئے ہیڈ کوچ کا تعلق بنوں سے ہے، ہاکی کی دنیا میں آئے تو پاکستان کے آل راؤنڈر کھلاڑی قرار پائے، شہناز شیخ کے بعد سعید خان دوسرے کھلاڑی تھے جنہوں نے فارورڈ لائن کی تمام پوزیشنز پر ماہرانہ چابک دستی کا مظاہرہ کیا، اس کی ایک مثال پاکستان آسٹریلیا سیریز ہے۔

1984 میں دوبئی میں شیڈول اس سیریز میں سعید خان نے رائٹ ان کی پوزیشن پر کھیلتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کا فنکارانہ مظاہرہ کیا اور متواتر کئی ٹورنامنٹ میں ناقابل شکست آسٹریلیا کی ٹیم کو شکست دینے میں اہم رول ادا کیا، انہوں نے تہران ایشین گیمز 1974، چیمپئنز ٹرافی 1978، بیونس آئرس ورلڈ کپ 1978، بنکاک ایشین گیمز 1978، ممبئی ورلڈ کپ1982، ایشیا کپ1982 اور نیو دہلی ایشین گیمز 1982 میں پاکستان کی طرف سے کھیلتے ہوئے سونے کے تمغے جیتے۔

پاکستان ہاکی ٹیم کی نئی ٹیم مینجمنٹ کی صلاحیتوں کا پہلا امتحان 19 جنوری سے شیڈول پروہاکی لیگ سے ہے، لیگ کی تیاریوں کے لیے کیمپ کا باقاعدہ آغاز بھی کر دیا گیا ہے، تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی پاکستانی ٹیم بلند عزائم کے ساتھ کسی انٹرنیشنل ایونٹ میں شریک ہوئی، فتح وکامرانی اس کا مقدر بنی، اس کی واضح مثال لاس اینجلس اولمپکس کی ہے، میگا ایونٹ میں منظور جونیئر کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے حریف سائیڈز کو ناکوں چنے چبواتے ہوئے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کی، فیصلہ کن مقابلے میں اب ٹاکرا دنیا کی بیسٹ ٹیم آسٹریلیا کے ساتھ تھا۔

اولمپکس سے پہلے آسٹریلیا کے خلاف جتنے بھی میچز ہوئے تھے، ان میں گرین شرٹس کو ناکامیوں کا سامنا رہا، سیمی فائنل کھیلنے سے ایک رات قبل قبل بریگیڈیئر عاطف نے تمام کھلاڑیوں کو جمع کیا ، ہر کھلاڑی کو انفرادی ہدایات دیں ، پھر سب سے کہا کہ ممکن ہے کہ آسٹریلیا کی ٹیم کھیل کے اعتبار سے تم بہتر ہو لیکن جسمانی لحاظ سے تم بہتر ہو اور اسی برتری کے ساتھ تم جیت سکتے ہو، آپ لوگ ہمت کریں، پوری توانائی اور ہمت کے ساتھ میچ کھیلیں تو فتح ہمار مقدر ٹھہرے گی،کھلاڑیوں کی اس انداز میں حوصلہ افزائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان نے آسٹریلیا کو نہ صرف سیمی فائنل میں شکست دی بلکہ فائنل میں جرمنی کو بھی ہرا کر تیسری بار اولمپکس کا چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا، پاکستان ہاکی ٹیم کے موجودہ کھلاڑیوں کو بھی پی ایچ ایف اور ٹیم مینجمنٹ کی طرف سے اسی طرح کا اعتماد دیئے جانے کی ضرورت ہے۔
Load Next Story