راجہ میں وہ بات کہاں

پرویز اشرف صرف نام کے راجہ ہیں۔ ان میں وہ بات کہاں؟


Ayaz Khan August 22, 2012
[email protected]

لکھنا تو عید کے چاند پر چاہتا تھا لیکن اب عید گئی بات گئی' فی الحال مجھے ساٹھ کی دہائی کی سپرہٹ پنجابی فلم ''ہتھ جوڑی'' میں خوبرو اداکارہ نغمہ پر فلمائے گئے ایک خوبصورت گیت کا یہ مکھڑا یاد آ رہا ہے ''تھوڑا تھوڑا چن ویکھیا بُہتا رہ گیا گھٹاں دے اولہے'' (تھوڑا تھوڑا چاند دیکھا' زیادہ گھٹائوں کی اوٹ میں رہ گیا) ہیروئن یہ گیت اپنے چاند یعنی محبوب کے حوالے سے گا رہی تھی لیکن ملک میں اس بار جو تین عیدیں منائی گئی ہیں اس کی مناسبت سے لگتا ہے یہ گیت اس صورتحال پر بھی پورا اترتا ہے یعنی گھٹائوں کی اوٹ میں چھپا ہوا چاند جمعے کو شمالی وزیرستان میں دکھائی دیا' ہفتے کو خیبر پختونخوا میں اس کی جھلک نظر آئی اور پھر اتوار کو باقی ملک کے لوگوں نے اسے دیکھ لیا۔ آیندہ عیدالفطر تک چاند کے معاملے کو موخر کر دیتے ہیں کیونکہ چاند کی سیاسی اور مذہبی بحث میں پڑنے کا کوئی فائدہ نہیں تاہم یہ معاملہ اپنی جگہ ایک لمحہ فکریہ ضرور ہے کہ آج جب دنیا کے ترقی یافتہ ممالک چاند کے بعد مریخ پر کمندیں ڈال رہے ہیں ہم چاند نظر آنے یا نظر نہ آنے کی بحث میں الجھے ہوئے ہیں۔

عید کے چاند سے آگے بڑھتے ہیں اور قومی و سیاسی افق پر مستقبل قریب میں نمودار ہونے والے کسی چاند کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں' عید گزر چکی ہے اس لیے چاند کی تلاش میں اوپر اٹھنے والی ساری نظریں اب ایک بار پھر سپریم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں۔ این آر او کیس اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ موجود ہے۔ یہ کیس ایک وزیر اعظم کا سامان پیک کرا کے گھر بھجوا چکا ہے اور دوسرے وزیر اعظم کے سر پر خوف کی تلوار بن کر لٹکا ہوا ہے۔ راجہ پرویز اشرف کو سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کی وضاحت کے لیے طلب کیا چکا ہے ۔

گیلانی صاحب کے ملتان جانے کے بعد راجہ صاحب نے جب وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا تھا تو وہ این آر او کیس کے حوالے سے پریشان دکھائی دیتے تھے لیکن اب ان کی باڈی لینگوئج خاصی تبدیل ہو چکی ہے' اطمینان ان کے چہرے سے جھلکتا ہے اور وہ پہلے کی نسبت کافی پُراعتماد نظر آتے ہیں۔ اس قسم کا اطمینان صرف اس وزیر اعظم کے چہرے سے جھلک سکتا ہے جسے یہ یقین ہو کہ اسے ہٹایا نہیں جائے گا اور وہ اپنی ٹرم پوری کرے گا۔ راجہ صاحب اپنی ٹرم پوری کریں گے یا نہیں اس کا پتہ 27 اگست کو چلے گا۔ ان کے مطمئن ہونے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ سپریم کورٹ میں سوئس حکام کو خط لکھنے کے حوالے سے کوئی درمیانی راستہ نکالنے پر اتفاق کی امید پیدا ہوئی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ممکن ہے انھوں نے اپنے دل میں یہ طے کر لیا ہو کہ جب تک وزیراعظم ہائوس میں رہیں گے اطمینان سے رہیں گے۔

مجھے راجہ صاحب کی وزارت عظمیٰ میں ایک کمی محسوس ہو رہی ہے۔ ان میں روایتی وزرائے اعظم والا ٹھاٹ باٹ نظر نہیں آتا۔ ان کے پیش رو دونوں وزرائے اعظم شوکت عزیز اور یوسف رضا گیلانی مہنگے ترین ڈیزائنرز سوٹ پہنا کرتے تھے۔ ان کے شوز' شرٹس اور ٹائیاں بھی انتہائی قیمتی ہوتی تھیں۔ گیلانی صاحب کی تو گھڑیوں کا بھی بہت چرچا رہا کہا جاتا تھا کہ ان کے دام بھی لاکھوں میں ہوتے ہیں۔شوکت عزیز چونکہ امپورٹڈ وزیر اعظم تھے اس لیے ان کے مہنگے ترین سوٹ پر کسی کو حیرت نہیں ہوتی تھی۔ گیلانی صاحب نے ڈیزائنر سوٹ پہننا شروع کیے تو لوگوں نے ان پر انگلیاں اٹھانا شروع کر دیں' اس کے باوجود وہ جب تک وزیر اعظم رہے' انھوں نے سستا سوٹ' شرٹ' ٹائی اور شوز نہیں پہنے۔ ان کے زیادہ تر سوٹ لندن اور شاید دنیا کے مہنگے ترین اسٹور سے خریدے جاتے تھے۔

لیڈی ڈیانا کے ساتھ کار حادثہ میں مارے جانے والے دودی الفائد کے والد محمد الفائد کا یہ اسٹور اتنا مہنگا ہے کہ عام گورا بھی اس کے اندر جانے کی جرات نہیں کرتا۔ گیلانی صاحب پر جب بہت زیادہ تنقید ہوئی تو انھوں نے وضاحت کی کہ یہ سوٹ ان کے دوست تحفے میں دیتے ہیں۔ گیلانی صاحب خوش قسمت تھے کہ ان کے دوست اتنے مہنگے سوٹ' شرٹس' ٹائیاں اور شوز وہ بھی درجنوں کے حساب سے انھیں گفٹ کر دیتے تھے' ہمیں تو کسی دوست نے آج تک پندرہ سو روپے کی شرٹ گفٹ نہیں کی۔ راجہ صاحب ان دونوں کے سامنے خاصے ''غریب'' وزیر اعظم لگتے ہیں۔ ایک مزدور وزیر اعظم کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ عید سے قبل جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ سپریم کورٹ نے انھیں گھر بھجوایا تو وہ کہاں جانا پسند کریں گے' گوجر خان یا اسلام آباد؟ اس پر انھوں نے جواب دیا تھا ان کا تعلق مڈل کلاس سے ہے' انھیں جہاں بھجوایا جائے گا وہ چلے جائیں گے' کلاس کا فرق تو ہوتا ہے۔

راجہ صاحب کی وزارت عظمیٰ میں ایک اور کمی بھی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ گیلانی وزیر اعظم تھے تو ان کے خاندان کا ہر فرد کچھ نہ کچھ کرتا اور خبروں میں رہتا تھا۔ ان کے بیٹے' بیٹی اور دیگر قریبی رشتہ دار کاروبار سیاست میں بھرپور کردار ادا کرتے تھے۔ گیلانی صاحب کو اسی لیے ایم بی بی ایس کہا جاتا تھا۔ ایم بی بی ایس کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ سب جانتے ہیں یہ ڈاکٹری کی نہیں بلکہ اس سے کہیں منافع بخش ڈگری تھی۔ پرویز اشرف کے دور میں کسی اور راجہ کا نام ہی سنائی نہیں دیتا۔ ان کی آل اولاد کیا کرتی ہے کوئی جانتا تک نہیں۔

وہ اکیلے ہی کام کرتے رہتے ہیں' اس طرح تو راجہ صاحب تھک جائیں گے' ان کی فیملی کے بارے میں کوئی خبر ہی نہیں بنتی۔ یہ سلسلہ کب تک چلتا ہے' ایلیٹ کلاس کے دو وزیر اعظموں کے بعد مڈل کلاس کا یہ وزیر اعظم کب تک اپنا بھرم قائم رکھتا ہے' دیکھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے مڈل کلاس سے ان کے تعلق کے اعتراف کو سپریم کورٹ بھی پسند کرے۔ شوکت عزیز اور یوسف گیلانی اپنے لباس اور اسٹائل سے راجہ لگتے تھے' پرویز اشرف صرف نام کے راجہ ہیں۔ ان میں وہ بات کہاں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں