خیر و برکت کے سرچشمے

ایک چاند کیا طلوع ہوتا ہے، ایک رات میں لوگوں کا اخلاق ہی بدل جاتا ہے

اسد اللہ غالب

کیسا وقت تھا جو گزر گیا ہے، رحمت سے لبریز لمحات، ایک ایک گھڑی صدیوں پر بھاری، رحمت اور مغفرت اور نار جہنم سے نجات کے تین عشرے، اللہ کے بندے دن اور رات تسبیح میں مصروف۔ فرشتوں سے بڑھ کر عبادت اور پھر خدائے لم یزل کی طرف سے ڈھیروں ثواب۔ شیطان کو قید کر دیا گیا اور نیکی کی طرف بلاوا، بُرائی کی طرف بڑھنے والے قدم روک لو۔ ساتویں آسمان اور عرش سے اتر کر سننے والا پہلے آسمان پر آجاتا تھا ا ور بندوں کو پکارتا تھا کوئی ہے جو حاجت مند ہو، کوئی دعا کرنے والا ہے، کوئی نیکی کی تمنا رکھتا ہے اور برائی سے اجتناب کا خواہاں ہے۔

کوئی ہے جو بخشش کا طالب ہو۔ مسجدیں نمازیوں سے بھری نظر آتی تھیں۔ روزے داروں کی خدمت میں ہر کوئی سبقت لے جانے کا خواہاں تھا۔ افطاری سے پہلے لوگوں کے دروازوں پر روزے داروں کا جمگھٹا۔ دیگیں سارا دن پکتی تھیں اور سرشام ضرورت مندوں میں تقسیم شروع ہو جاتیں، بازاروں میں کرسیاں بچھ جاتیں، سڑکوں پر بنچ سج جاتے اور نیکیاں سمیٹنے والے پہاڑی چشموں کی طرح ابل پڑتے۔ ایک مہینہ، سال میں صرف ایک بار لیکن معاشرے کا کلچر ہی بدل جاتا ہے، ایک چاند کیا طلوع ہوتا ہے، ایک نئی تہذیب کروٹ لیتی ہے، ایک رات میں لوگوں کا اخلاق ہی بدل جاتا ہے، وہ جو مسلمان نہیں ہیں، وہ بھی خیر کی طرف قدم بڑھاتے ہیں۔

وائٹ ہائوس صدر اوبامہ کی طرف سے افطار پارٹی منعقد ہوتی ہے، ہلیری کلنٹن جیسی مضبوط ترین شخصیات امت مسلمہ کے لیے عید کی مبارکباد کا پیغام جاری کرتی ہیں۔ نئی دہلی میں بھارتی وزیر اعظم بھی افطار پارٹی اور عید ملن کا اہتمام کرتے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم تو کئی برسوں سے مسلمانوں کی دلجوئی کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی پارلیمنٹ کے کئی حلقوں میں مسلمان ووٹروں کی اکثریت ہے اور کئی مسلمان مسیحی اکثریتی حلقوں سے منتخب ہوتے ہیں۔ عالم اسلام کا ہی نہیں ایک ماہ کے لیے دنیا کا کلچر بھی بدل جاتا ہے۔

تو نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ جو تہذیب طاقتور ہو گی وہ اپنا آپ منوا کر رہتی ہے اور ایک نتیجہ یہ ہے کہ اگر ایک ماہ کے لیے ہم اپنی اصلیت کی طرف لوٹ کر اپنا لوہا منوا سکتے ہیں تو سال کے باقی گیارہ مہینے بھی اپنی اصل پر قائم رہیں تو جیو اسٹرٹیجک صورت حال بھی بدل جائے، پھر تہران عالم مشرق کا جنیوا نہیں، جدہ بھی کل عالم کا نیویارک بن جائے۔ اور اس میں مشکل کیا ہے۔ جو خدا ایک ماہ کے لیے ہر رات کو عرش سے اتر کر پہلے آسمان پر اپنے بندوں کے قریب تر ہو جاتا ہے وہ تو ہر لمحے سال کے تین سو پینسٹھ دن ان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب رہتا ہے۔ وہی سنتا ہے، سب کچھ جانتا ہے، ہر معاملے سے باخبر ہے اور بے حد و حساب دیتا ہے، کوئی اس سے رجوع تو کرے، اس سے لو تو لگائے۔

وہ رحمتوں کی برسات میں شرابور ہو جائے گا۔ چلیے، ایک ماہ ہی سہی! معاشرہ ایک نئی نہج پر چل نکلتا ہے، سڑکوں پر بینر لہراتے ہیں، کوئی گنگا رام اسپتال کے لیے صدقات کا طالب ہے، کوئی جناح اسپتال کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے، کوئی ایدھی کی طرف متوجہ کرتا ہے اور کوئی سہارا کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جنرل اسپتال ملک کا ایک میگا پروجیکٹ ہے، اس کی بھی ضروریات ہیں۔ ہر شہر اور ہر قصبے میں خیراتی ادارے قائم ہیں اور مقامی سطح پر ضروریات پوری کرتے ہیں، وہیں سے اپنی ضروریات کے طالب ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر حفیظ الرحمان کا الخدمت فائونڈیشن بھی یتیموں کی کفالت میں پیش پیش ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کی تنظیم اخوت نے تو ایک انقلاب کی بنیاد رکھ دی ہے، یہاں خیرات نہیں دی جاتی، سرمایہ کاری کی جاتی ہے اور سائلین کو اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کا موقع ملتا ہے۔ ایک لحاظ سے یہ بنگلہ دیش کے ڈاکٹر یونس کے گرامین بینک سے بھی زیادہ موثر اور مثبت کردار ادا کر رہا ہے۔ اس نے کتنے ہی سفید پوشوں کا بھرم قائم رکھا ہوا ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کی صلاحیتوں سے پنجاب حکومت بھی استفادہ کر رہی ہے اور عالمی ڈونرز ادارے بھی ان پر آنکھیں بند کر کے اعتماد کرتے ہیں۔


دس سال قبل انھوں نے صرف دس ہزار روپے سے نیکی کے سفر کا آغاز کیا تھا، اب تک وہ ایک ارب روپیہ مستحقین کی دہلیز تک پہنچا چکے ہیں جو ایک لاکھ گھرانوں کی باعزت روزی روٹی کا سبب ہے، ایک دفتر اور ایک رضاکار سے اب پچاس سے زائد دفاتر قائم ہیں اور چار سو ملازمین اس میں شامل ہیں۔ یہاں میں ایک اور ڈاکٹر کا تذکرہ کروں گا، یہ ہیں ڈاکٹر آصف جاہ جنہوں نے دو ہزار پانچ کے تباہ کن زلزلے میں خدمات انجام دیں، پھر سیلاب زدگان کی خدمت میں کمربستہ رہے، درمیان میں ڈینگی کی وبا پھوٹی تو انھوں نے اس کی دوا مفت بانٹی۔ ڈاکٹر آصف جاہ نے اپنے تجربات پر کئی کتابیں تحریر کر دی ہیں، یہ بجائے خود ایک مشقت کا کام ہے۔

ساتھ ساتھ وہ ایک خیراتی شفاخانہ بھی چلاتے ہیں۔ جب بھی دیکھو، وہ اندرون سندھ کے سفر پر ہوتے ہیں، یہ ایسے علاقے ہیں جہاں صرف وبائیں قدم رکھتی ہیں اور انسان ادھر جانے سے تھر تھر کانپتے ہیں مگر آصف جاہ وہاں ہفتوں قیام کرتے ہیں، نئی بستیاں بساتے ہیں اور مایوس مریضوں کو نئی زندگی بخشنے کا سبب بنتے ہیں، سیلاب کے تجربات پر مبنی ان کی کتاب 'ڈوبتے شہر' ہے، ایک کتاب ان کی زیرطبع ہے۔ اور اب ذکر کروں گا کاروان علم فائونڈیشن کا جس کا میں اولین راہی تھا۔

اس وقت اس ادارے کی بنیاد نہیں پڑی تھی مگر ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کے جذبے جوبن پر تھے، آج ڈاکٹر صاحب پچاسی چھیاسی کے پیٹے میں ہیں، دل کے روگ میں مبتلا ہیں مگر جوانوں سے زیادہ ترنگ کے مالک ہیں، رمضان کریم میں اس ادارے کے ایک ساتھی مجیب الرحمان شامی نیو یارک گئے تو وہاں کاروان علم کے لیے فنڈ ریزنگ ڈنر ہوا جس میں چند گھنٹوں کے اندر پچاس لاکھ ڈالر کے عطیات اکٹھے ہو گئے۔ کاروان علم فائونڈیشن سے فیض یاب ہونے والوں کا تذکرہ خالد ارشاد صوفی نے اپنی کتاب 'جوہر قابل' میں تفصیل سے کیا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ انیس یعقوب کے فن پاروں نے اس کتاب کی جگمگاہٹ کو دوچند کر دیا ہے۔

ایک ادارہ جو سب سے زیادہ قدآور ہے وہ ہے شوکت خانم کینسر اسپتال۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ن لیگ نے عین رمضان المبارک میں اس ادارے پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی ہے۔ اس دوڑ میں ن لیگی دانش ور بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے لیکن وہ اس چراغ کو پھونکوں سے نہیں بجھا سکتے، اسے عوام نے روشن کیا ہے، اس دیے میں لوگوں کی دعائوں کا لہو جلتا ہے۔ ستائیسویں کی شب اس ادارے کے ایک محسن نے آخری سانس لیے اور لیلۃ القدر کے حیات افروز لمحات میں انھیں قبر میں اتارا گیا، ابدالآباد تک زندہ رہنے والی اس ہستی کے نام پر شوکت خانم کا تیسرا فلور موسوم کیا گیا ہے، اس فلور کے چار کمرے جن میں بیس مریض سما سکتے ہیں' ایک کروڑ کے عطیے سے تعمیر ہوئے اور دو کروڑ روپے بے سہارا مریضوں کے مفت علاج کے لیے بھی عطیہ کیے گئے۔

ستائیسویں کی بھیگتی رات کو اس ہستی کی قبر پر مٹی ڈالتے ہوئے عبدالعلیم خان کی روح بہت پُرسکون تھی، اس لیے کہ ان کے والد عبدالرحیم خان کے خیر و برکت کے کاموں نے ان کے درجات بلند کر دیے تھے، اسی صاحب خیر نے گونگے بہرے معذور بچوں کے لیے رائزنگ سن اسکول میں ایک تہہ خانے کو جدید تریں آلات سے لیس لیبارٹریوں سے آراستہ کیا ہے جہاں ان بچوں کو بولنے، سننے اور سوچنے، سمجھنے کی صلاحیتوں سے مالامال کیا جاتا ہے، یہ وہ بچے ہیں جو اپنے ماں باپ کے لیے بھی بوجھ ہوتے ہیں لیکن عبدالرحیم خان نے انھی بچوں کو والدین کے اثاثے میں تبدیل کر دیا ہے۔

کئی منزلہ ایئرکنڈیشنڈ بلڈنگ اور گھر سے اسکول لانے لے جانے کے لیے ایئرکنڈیشنڈ بسیں ان بچوں کی خدمت پر مامور کی گئی ہیں۔ یتیم بچوں کے لیے 'اپنا گھر' کے نام سے ہوسٹل کھولنے کی نیکی بھی اسی صاحب خیر کے ہاتھوں انجام پائی جہاں فائیو اسٹار سہولتیں میسر ہیں اب رمضان گزر گیا مگر خیر و برکت کا سلسلہ رکنا نہیں چاہیے، میں نے ان اداروں اور شخصیتوں کا رمضان میں ذکر نہیں کیا، اب کر رہا ہوں کہ رحمتوں کی بارش کی ضرورت تو سدا رہتی ہے، صرف ایک ماہ کے لیے تخصیص کیوں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب، ڈاکٹر آصف جاہ، ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی اور عبدالرحیم خان کے جذبے زندہ اور توانا رہیں گے تو ہمارا معاشرہ بھی زندہ اور توانا رہے گا اور اس کا جادو غیروں کے بھی سر چڑھ کے بولے گا اور وہ ہمارے کلچر کو مرعوب یا معدوم نہیں کر سکیں گے۔
Load Next Story