ہاکی کو بچانے کیلیے نئے لوگ سامنے لائے جائیں سابق اسٹارز
موجودہ حکام 5 برس میں کچھ نہ کر سکے، ٹیم ورلڈکپ میں جگہ بنانے کیلیے ترس رہی ہے، اصلاح الدین
پاکستان کے سابق ہاکی اولمپیئنز نے ٹیم کی شرمناک کارکردگی پر وزیراعظم سے اپیل کی کہ قومی کھیل کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے والی فیڈریشن کو فوری طور پر تبدیل کر دیا جائے۔
بہتری کیلیے نئے لوگ سامنے لائے جائیں۔ یاد رہے کہ ملائیشیا میں منعقدہ ورلڈ ہاکی لیگ میں پاکستانی ٹیم 8 ٹیموں میں ساتویں نمبر پر آئی تھی،اب آئندہ سال ورلڈ کپ کیلیے کوالیفائی کرنے کا واحد راستہ ہر صورت ایشیا کپ میں فتح ہے۔ سابق کپتان اصلاح الدین اور سمیع اللہ نے بی بی سی کو انٹرویو میں کہا کہ پی ایچ ایف اربابِ اختیار کی غیرسنجیدگی کے سبب اس وقت پاکستانی ٹیم ورلڈکپ میں جگہ بنانے کیلیے ترسنے لگی، ایسے میں ٹیم مینجمنٹ یہ راگ الاپ رہی ہے کہ وہ ایشیا کپ جیت لیں گے۔اصلاح الدین نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سرپرست ہیں،انھیں اس ناطے قومی کھیل کی بربادی پر فوری توجہ دینی چاہیے، قاسم ضیا، آصف باجوہ اور رانا مجاہد کو پیپلز پارٹی کے دورحکومت میں 5 سال ملے لیکن وہ ہاکی کی بہتری کیلیے کچھ بھی نہ کرسکے۔
سابق ہاکی اولمپیئن نے کہا کہ قومی کھیل پر توجہ دینے کے بجائے قاسم ضیا نے اپنی توانائی پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے انتخابات پر صرف کردی، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اولمپکس میں ٹیم آٹھویں نمبر پر آئی اور اب ورلڈکپ سے باہر ہونے کے خطرے سے بھی دوچار ہوگئی ہے۔اصلاح الدین نے کہا کہ ورلڈ ہاکی لیگ میں 8 ٹیموں کی موجودگی نے پاکستان کو ابتدائی 3 پوزیشنز میں سے کوئی ایک حاصل کرکے ورلڈکپ میں رسائی کا سنہری موقع ملا لیکن گرین شرٹس صرف جنوبی افریقہ جیسی کمزور ترین ٹیم کو ہی ہرا سکے۔ سابق کپتان سمیع اللہ نے کہا کہ ایشیا کپ میں بھارت، جنوبی کوریا، جاپان اور ملائیشیا کے مقابلے میں پاکستان کے لیے جیت بہت مشکل ہوگی۔
انھوں نے کہا کہ یہ فیڈریشن وہ کام کر جائے گی اور ایسے ریکارڈ بنا جائے گی کہ نئے آفیشلز کو معاملات بہتر کرنے میں ہی 5 سال لگ جائیں گے۔ سمیع اللہ نے کہا کہ اس فیڈریشن کو صرف ایشین گیمز کے گولڈ میڈل کا زعم ہے لیکن باقی تمام عرصے میں بڑے بڑے ٹورنامنٹس میں آخری نمبر پر آنے کی عادت نے مذاق والی صورتحال پیدا کردی ہے، اب لوگ مذاق میں کہتے ہیں کہ مبارک ہو پاکستانی ٹیم نیچے سے پہلے یا دوسرے نمبر پر آئی، اس الٹی گنتی میں ہم نے ورلڈ کپ میں 12ویں، اولمپکس میں آٹھویں پوزیشن لیتے اور دیگر کئی ٹورنامنٹس میں ٹیم کو شرمناک طریقے سے ہارتے دیکھ لیا، انھوں نے کہا کہ موجودہ ٹیم مینجمنٹ اور کھلاڑیوں سے کسی اچھی کارکردگی کی توقع رکھنا فضول ہے، پلیئرز میںفٹنس کی کمی ہے اور کوچنگ اسٹاف عصر حاضر کے تقاضوں کے تحت سکھانے کی اہلیت نہیں رکھتا۔
انھوں نے کہا کہ اس فیڈریشن کی اب یہی کوشش ہوگی کہ کسی طرح پاکستانی ٹیم کی ورلڈ کپ میں شرکت کو یقینی بنانے کے لیے وائلڈ کارڈ حاصل کر لیا جائے جو وہ پہلے بھی کر چکی ہے۔سمیع اللہ نے کہا کہ حکام نے دعوے تو بہت کیے لیکن عملی اقدامات برعکس رہے، اکیڈمیز میں ایسے کوچز بھرتی کیے گئے جو مفت کی تنخواہیں لیتے رہے اور بلیک بورڈ کے سامنے2 منٹ کھڑے ہوکر لیکچر نہیں دے سکتے۔دونوں سابق اولمپئنز نے کہا کہ وقت آگیا اب قومی ہاکی کو مزید تباہی سے بچانے کے لیے نئے لوگ سامنے لائے جائیں کیونکہ موجودہ آفیشلز اپنی باری لے چکے ہیں۔
بہتری کیلیے نئے لوگ سامنے لائے جائیں۔ یاد رہے کہ ملائیشیا میں منعقدہ ورلڈ ہاکی لیگ میں پاکستانی ٹیم 8 ٹیموں میں ساتویں نمبر پر آئی تھی،اب آئندہ سال ورلڈ کپ کیلیے کوالیفائی کرنے کا واحد راستہ ہر صورت ایشیا کپ میں فتح ہے۔ سابق کپتان اصلاح الدین اور سمیع اللہ نے بی بی سی کو انٹرویو میں کہا کہ پی ایچ ایف اربابِ اختیار کی غیرسنجیدگی کے سبب اس وقت پاکستانی ٹیم ورلڈکپ میں جگہ بنانے کیلیے ترسنے لگی، ایسے میں ٹیم مینجمنٹ یہ راگ الاپ رہی ہے کہ وہ ایشیا کپ جیت لیں گے۔اصلاح الدین نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سرپرست ہیں،انھیں اس ناطے قومی کھیل کی بربادی پر فوری توجہ دینی چاہیے، قاسم ضیا، آصف باجوہ اور رانا مجاہد کو پیپلز پارٹی کے دورحکومت میں 5 سال ملے لیکن وہ ہاکی کی بہتری کیلیے کچھ بھی نہ کرسکے۔
سابق ہاکی اولمپیئن نے کہا کہ قومی کھیل پر توجہ دینے کے بجائے قاسم ضیا نے اپنی توانائی پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے انتخابات پر صرف کردی، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اولمپکس میں ٹیم آٹھویں نمبر پر آئی اور اب ورلڈکپ سے باہر ہونے کے خطرے سے بھی دوچار ہوگئی ہے۔اصلاح الدین نے کہا کہ ورلڈ ہاکی لیگ میں 8 ٹیموں کی موجودگی نے پاکستان کو ابتدائی 3 پوزیشنز میں سے کوئی ایک حاصل کرکے ورلڈکپ میں رسائی کا سنہری موقع ملا لیکن گرین شرٹس صرف جنوبی افریقہ جیسی کمزور ترین ٹیم کو ہی ہرا سکے۔ سابق کپتان سمیع اللہ نے کہا کہ ایشیا کپ میں بھارت، جنوبی کوریا، جاپان اور ملائیشیا کے مقابلے میں پاکستان کے لیے جیت بہت مشکل ہوگی۔
انھوں نے کہا کہ یہ فیڈریشن وہ کام کر جائے گی اور ایسے ریکارڈ بنا جائے گی کہ نئے آفیشلز کو معاملات بہتر کرنے میں ہی 5 سال لگ جائیں گے۔ سمیع اللہ نے کہا کہ اس فیڈریشن کو صرف ایشین گیمز کے گولڈ میڈل کا زعم ہے لیکن باقی تمام عرصے میں بڑے بڑے ٹورنامنٹس میں آخری نمبر پر آنے کی عادت نے مذاق والی صورتحال پیدا کردی ہے، اب لوگ مذاق میں کہتے ہیں کہ مبارک ہو پاکستانی ٹیم نیچے سے پہلے یا دوسرے نمبر پر آئی، اس الٹی گنتی میں ہم نے ورلڈ کپ میں 12ویں، اولمپکس میں آٹھویں پوزیشن لیتے اور دیگر کئی ٹورنامنٹس میں ٹیم کو شرمناک طریقے سے ہارتے دیکھ لیا، انھوں نے کہا کہ موجودہ ٹیم مینجمنٹ اور کھلاڑیوں سے کسی اچھی کارکردگی کی توقع رکھنا فضول ہے، پلیئرز میںفٹنس کی کمی ہے اور کوچنگ اسٹاف عصر حاضر کے تقاضوں کے تحت سکھانے کی اہلیت نہیں رکھتا۔
انھوں نے کہا کہ اس فیڈریشن کی اب یہی کوشش ہوگی کہ کسی طرح پاکستانی ٹیم کی ورلڈ کپ میں شرکت کو یقینی بنانے کے لیے وائلڈ کارڈ حاصل کر لیا جائے جو وہ پہلے بھی کر چکی ہے۔سمیع اللہ نے کہا کہ حکام نے دعوے تو بہت کیے لیکن عملی اقدامات برعکس رہے، اکیڈمیز میں ایسے کوچز بھرتی کیے گئے جو مفت کی تنخواہیں لیتے رہے اور بلیک بورڈ کے سامنے2 منٹ کھڑے ہوکر لیکچر نہیں دے سکتے۔دونوں سابق اولمپئنز نے کہا کہ وقت آگیا اب قومی ہاکی کو مزید تباہی سے بچانے کے لیے نئے لوگ سامنے لائے جائیں کیونکہ موجودہ آفیشلز اپنی باری لے چکے ہیں۔