بھارت کا جارحانہ رویہ اور پاکستان کی پالیسی

آیندہ وزیراعظم بننے کی دوڑ میں شریک ہونے کے باعث نریندر مودی جارحانہ انداز اپنائے ہوئے ہیں


Editorial January 06, 2019
آیندہ وزیراعظم بننے کی دوڑ میں شریک ہونے کے باعث نریندر مودی جارحانہ انداز اپنائے ہوئے ہیں (فوٹو: فائل)

KARACHI: ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ بھارت سے خطرہ مستقل ہے اسی لیے بطور پروفیشنل آرمی اس کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔

ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ پاک فوج کے ہمہ وقت تیار رہنے کی وجہ کوئی جھوٹا بھارتی دعویٰ یا بیان بازی نہیں، مسلح افواج سرحد پار سے کسی بھی قسم کی مس ایڈونچر کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بھارتی میڈیا پر نظر آنے والے جنگی جنون کا سبب اس کی اندرونی سیاسی صورتحال ہے، دونوں ملکوں کے ڈی جی ایم اوز کا ہفتہ وار ہاٹ لائن رابطہ اور فلیگ میٹنگز معمول کے مطابق جاری ہیں، بھارت سے خطرہ مستقل ہے لیکن پیشہ ورانہ مہارت کی حامل پاک فوج تمام خطرات کا سامنا کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔

بھارت کے پردھان منتری نریندر مودی کی وزارت عظمیٰ کا آئینی پانچ سالہ دور اب اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے اور چند ماہ بعد لوک سبھا کے لیے عام انتخابات منعقد ہونے والے ہیں۔ آیندہ وزیراعظم بننے کی دوڑ میں شریک ہونے کے باعث نریندر مودی جارحانہ انداز اپنائے ہوئے ہیں، ان کے جارحانہ تیروں کا رخ بالخصوص پاکستان کی جانب ہے' ان کا تعلق چونکہ انتہا پسند جماعت بی جے پی سے ہے' مسلمانوں اور پاکستان کی مخالفت اس جماعت کی سیاست کا جزولاینفک ہے' اپنے اس متعصبانہ رویے کے باعث وہ مسلمانوں کو تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ بی جے پی کی حکومت نے مسلمانوں ہی نہیں بلکہ دوسری اقلیتوں کے حلاف محاذ آرائی بھی جاری رکھی ہوئی ہے۔ بھارتی میڈیا نے بھی دو قدم آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان کے خلاف نفرت انگیز مہم شروع کر رکھی ہے۔

بھارتی میڈیا ملک میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی بھی سیاسی مہم کا بنیادی نقطہ پاکستان کے خلاف خود ساختہ محور کے گرد گھومتا ہے۔انھی حالات کے تناظر میں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے بھارتی میڈیا پر نظر آنے والے جنگی جنون کا سبب اس کی اندرونی سیاسی صورت حال کو قرار دیا ہے۔ ادھر بھارتی عوام کا باشعور طبقہ نریندر مودی کے اس متعصبانہ جال میں آنے کے لیے آمادہ نہیں اور وہ سیاسی میدان میں انتہا پسند طبقے کو شکست دینے کے لیے متحرک ہو چکا ہے۔

گزشتہ دنوں بھارت کی بعض ریاستوں میں ہونے والے ریاستی انتخابات میں بی جے پی کو شرم ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا' یہ انتخابی نتیجہ اس امر کا مظہر ہے کہ بھارتی عوام کا باشعور طبقہ بی جے پی اور مودی کی سیاست سے متنفر ہوتا جا رہا ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ مودی سے بھارت کی ترقی اور خوشحالی کے لیے جو توقعات وابستہ کی گئی تھیں وہ اس کے معیار پر پورا نہیں اتر سکے اور ان کے دور میں انتہا پسندی کو فروغ ملا۔جس سے بھارت کا سیکولر چہرہ بدنما ہوا ۔ مودی کے دور حکومت میں پاکستان کے ساتھ سرحدوں پر مسلسل کشیدگی اور تناؤ کا ماحول چھایا رہا' بھارتی فوج کی جانب سے نہ صرف کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر وقتاً فوقتاً گولہ باری اور فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا بلکہ مقبوضہ کشمیر میں بھی کشمیریوں کے خلاف متشددانہ اور سفاکانہ کارروائیوں میں تیزی آ گئی۔

بھارتی فوج نے عالمی قوانین کو روندتے ہوئے آزادی پسند کشمیریوں کے خلاف پیلٹ گن کا استعمال کیا۔ بھارتی فوج نے پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیکس کا بلند بانگ دعویٰ بھی کر ڈالا اور پوری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی کہ پاکستان دہشت گردوں کی معاونت کر رہا ہے۔

آئے دن بھارتی سیاستدانوں کی جانب سے جنگ کی دی جانے والی دھمکیوں کے پیش نظر پاکستان کو اپنی مشرقی سرحد پر مسلح افواج کو ہر وقت چوکس رکھنا پڑتا ہے' اسی صورت حال کی وضاحت کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کو کہنا پڑا کہ بھارت سے مستقل خطرہ ہے اور پاک فوج بھارت کے کسی بھی مس ایڈونچر کا بھرپور جواب دینے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔

سرحدوں کو پرامن رکھنے کے لیے دونوں ممالک کے ڈی جی ایم اوز کے درمیان ہارٹ لائن پر رابطہ اور فلیگ میٹنگز ہوتی رہتی ہیں لیکن اس سب کے باوجود بھارتی افواج سرحدوں کو گرم رکھنے سے باز نہیں آتی۔ پاک فوج اپنی بہادری' جرات، بہترین منصوبہ بندی اور پیشہ ورانہ مہارت کے باعث پوری دنیا میں بلند مقام رکھتی ہے۔ بھارتی حکمرانوں کو بھی اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے کہ پاکستان سے لڑنا آسان نہیں اور اگر اس نے غلط فہمی سے کوئی مہم جوئی بھی کی تو اس کو اس کا بھرپور جواب ملے گا جس میں اس کا اچھا خاصا نقصان بھی ہو سکتا ہے ، اس لیے بھارت قیادت کو چاہیے کہ وہ سیاسی مفادات کے لیے اس خطے کے امن کو داؤ پر لگانے کی پالیسی کو ترک کردے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔