بری لت نہ پڑے
اب ظاہر ہے کہ ان کا ذکر نہ کر کے ان کہانیوں کی دل آزاری اور آپ کے ’’ذوق‘‘ کو نظر انداز تو نہیں کرسکتے
اس روز ہم نے ''بھیک'' جیسے ثمر بار، باردار اور نقد آور پیشے کی فضیلت پر بات شروع کی تو گویا دبستان کھل گیا، ایک سے بڑھ کر ایک کہانی نے دم ہلانا یا بینچ پر کھڑے ہو کر ہاتھ ہلانا شروع کیے، اب ظاہر ہے کہ ان کا ذکر نہ کر کے ان کہانیوں کی دل آزاری اور آپ کے ''ذوق'' کو نظر انداز تو نہیں کرسکتے۔
پہلی کہانی تو اس بادشاہ کی ہے جسے ایک بھکاری خاندان کی لڑکی پسند آئی اور اس نے اسے ملکہ بنا لیا لیکن کچھ عرصے میں بادشاہ نے محسوس کیا کہ ملکہ یا تو کھانا بالکل نہیں کھاتی اور اگر زور زبردستی بٹھا لیا جائے تو ایک دو لقمے کھا کر یا چیزوں کو محض چکھ کر اٹھ جاتی ہے۔
ایک دن بادشاہ نے حسب معمول باہر جانے کے بجائے اس کی سرگرمیوں پر نظر رکھی تو اس نے دیکھا کہ ملکہ صاحبہ نے کپڑے بدلے، ہاتھ میں لاٹھی لی اور کمرے کے مختلف ''طاقوں'' کے سامنے کھڑی ہو کر کہتی، خدا کے لیے کچھ دیجیے، خدا آپ کو اس کا اجر دے، ایک بھوکی بچاری کو کھانا کھلا دیجیے۔ اس طرح تمام طاقوں سے اشیائے خوراک جمع کرنے کے بعد بیٹھ گئی اور اپنی بھیک سے بھوک مٹانے لگی۔
دوسری کہانی ایک طرح سے اس شریفافہ اور مقدس پیشے کا ''میگنا کارٹا'' ہے کہ ایک بھکاری نے شام کو اپنے بیٹے پر لاٹھی دراز کر کے اس کی دھلائی شروع کی اور ساتھ ہی ننگ خاندان، غدار قوم اور نمک مردار قسم کی گالیاں دینا شروع کیں تو شور شرابا سن کر اس کا پڑوسی بھکاری ماجرا دریافت کرنے کے لیے دوڑ پڑا، بڑی مشکل سے اس نے لڑکے کو چھڑایا اور باپ کو سرزنش کی کہ یوں نوجوان بیٹے کو مارنا اچھی بات نہیں ہے، آخر ہوا کیا ہے، اس نے ایسا کیا جرم کیا ہے۔
باپ بولا ،کیا بتاؤں اس نے آج ایک ایسی حرکت کی ہے جو میرے لیے، خاندان کے لیے اور پوری قوم کے لیے انتہائی شرمناک المناک بلکہ خطرناک بھی ہے۔ جی تو چاہتا ہے کہ بے غیرت ، بے حیا، بے شرم کو ابھی کیفر کردار تک پہنچاؤں تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ پڑوسی نے ایک مرتبہ پھر حملہ آور باپ کو روکا اس کے ہاتھ سے لاٹھی چھینی اور ایک طرف ٹھنڈا کر کے بٹھا دیا اور پھر حالات پر سکون ہونے پر ماجرا پوچھا۔
باپ نے نہایت دکھی ہوکر بتایا کہ آج میں نے خود اس ننگ خاندان کو بچشم خود بسوں کے اڈے پر دیکھا کہ یہ اپنے پیشے کو اپنے پیروں تلے روند رہا تھا۔پھر مزید تفصیلتے ہوئے بولا، میں نے دیکھا کہ یہ ایک مسافر کا سامان بس پر چڑھا رہا ہے، پھر سامان چڑھانے کے بعد اس مسافرنے اسے اجرت دی۔ ہا ئے ہائے میں مر کیوں نہ گیا ، یہ جانکاہ منظر دیکھتے ہوئے کہ میرا اپنا بیٹا میرے جدی پشتی پیشے کی عزت و حرمت کو ڈبو رہا ہے حالانکہ ہمارا،
سو پشت سے پیشۂ آبا گدا گری
منظور یہ طریقہ ٔ اجرت نہیں ہمیں
یہ کہتے ہوئے اس نے دوبارہ لاٹھی اٹھائی اور چلائی بھی غالباً یہ اس کا اٹھارواں حملہ تھا لیکن اس بزرگ بھکاری نے مستعدی سے کام لے کر حالات کو کنٹرول کیا اور لڑکے سے ایکسپلینیشن کال کی۔
لڑکا ٹسوے بہاتے ہوئے اور اپنے جوڑ جوڑ کو سہلاتے ہوئے بولا ، بے شک مجھ سے غلطی ہوئی ہے اور خاندان کے نام کو یوں بٹہ لگانے کا مجھے بھی افسوس ہے لیکن اس وقت حالات کچھ ایسے تھے کہ مجھ سے یہ غلطی سرزد ہو گئی۔ بلکہ مجھ سے زیادہ اس غلطی کی ذمے داری سب سے پہلے تو حکومت پر عائد ہوتی ہے جس نے اپنے سارے کام چھوڑ کر ''نرخ بڑھانے'' کو اپنا روز کا کام بنایا ہوا ہے۔
اس کے بعد ٹرانسپورٹرز اس کے ذمے دار ہیں جو تیل میں ایک روپیہ کا اضافہ ہوتا ہے تو یہ سواریوں کا کرایہ چار روپے بڑھا دیتے ہیں، دو روپے اپنے لیے اور دو ٹریفک پولیس کی ''رفاہی فنڈ'' میں دینے کے لیے۔ یوں قلیوں نے ہڑتال کی ہوئی تھی کہ آخر جب سب کے ''نرخ'' زندہ ہیں اور بڑھوتری کر رہے ہیں تو بھکاری کا بھی تو کچھ حق بنتا ہے۔ عوام کو لوٹنا صرف ان کا حق تو نہیں ہے ہم بھی تو اس دیس کے باسی ہیں جس میں ''گند گاہ'' بہتی ہے۔ لیکن جب ان کی نہیں سنی گئی تو ہڑتال کر دی۔
ہماری جان پہ بھاری تھا غم کا افسانہ
سنی نہ بات کسی نے تو مر گئے چپ چاپ
اس دن صرف قلیوں کی ہڑتال تھی بلکہ سارے قلی ہم سے بھی زیادہ لمبی لمبی لاٹھیاں لیے اڈے کے گرد کھڑے تھے تاکہ کوئی اور آکر ''عوام کالا نعام'' کی مدد نہ کر سکے۔ ایسے میں وہ بوڑھا مسافر رکشے سے مع سامان کے اترا تو حیران پریشان کھڑا تھا، بس سامنے کھڑی تھی لیکن وہ بچارا خود تو سانس بھی مشکل سے لے رہا تھا۔ آخر مجھے دیکھ کر اس نے استدعا کی کہ تھوڑی سی اس کی مدد کروں۔ سامان بھی کچھ زیادہ نہیں تھا ایک صندوق ہی تو تھا، اس لیے میری عقل پر پتھر پڑ گئے اوراپنے پیشے کی حرمت کو بھول کر اس کا بکسہ چڑھا دیا۔ بوڑھے نے مجھے کچھ پیسے دیے بس اتنی سی بات تھی۔
باپ نے پھر لاٹھی اٹھا کر انیسواں حملہ کیا لیکن ثالث نے اسے ناکام کر دیا۔ باپ بولا، کم بخت یہ بھی نہیں سوچا کہ اگر تجھے یہ قبیح عادت پڑگئی تو۔۔۔ بیٹے نے پھر معافی مانگی۔ ثالث بزرگ نے کہا، بیٹا تم نے واقعی نادانی کی ہے، تم یہ بھی کر سکتے تھے کہ اس کا بکسہ چڑھانے کے بعد اس سے اجرت نہ لیتے بلکہ کشکول دراز کر کے اس میں بطور بھیک کے ڈلواتے۔ تم نے وہ فلم تو دیکھی ہو گی جس میں اداکار پران پولیس کا حوالدار ہے اور کسی کے رشوت پیش کرنے پر کہتا ہے کہ میں رشوت کے پیسے کو ہاتھ نہیں لگاتا پھر اپنی جیب سامنے کر کے کہتا ہے کہ اس میں ڈالو۔
لڑکے نے کہا میں نے وہ فلم نہیں دیکھی تھی، جی معافی چاہتا ہوں۔ اس پر بزرگ نے کہا کہ بھکاریوں کو فلمیں ضرور دیکھنا چاہیے اگر ہم لوگ فلمیں نہ دیکھیں تو ان فلم والوں کو یہ کروڑوں روپے کہاں سے ملیں گے اور نہیں ملیں گے توسارے کلوٹے کلوٹیاں بھی ہمارے پیشے میں آجائیں گی۔
باپ تو بیٹے کو معاف کرنے پر بالکل آمادہ نہیں تھا کہ اب اسے ''کام'' کی لت پڑ چکی ہے لیکن بزرگ نے کہا کہ وہ اسے ٹرینڈ کر کے یہ بری لت چھڑا دے گا۔
پہلی کہانی تو اس بادشاہ کی ہے جسے ایک بھکاری خاندان کی لڑکی پسند آئی اور اس نے اسے ملکہ بنا لیا لیکن کچھ عرصے میں بادشاہ نے محسوس کیا کہ ملکہ یا تو کھانا بالکل نہیں کھاتی اور اگر زور زبردستی بٹھا لیا جائے تو ایک دو لقمے کھا کر یا چیزوں کو محض چکھ کر اٹھ جاتی ہے۔
ایک دن بادشاہ نے حسب معمول باہر جانے کے بجائے اس کی سرگرمیوں پر نظر رکھی تو اس نے دیکھا کہ ملکہ صاحبہ نے کپڑے بدلے، ہاتھ میں لاٹھی لی اور کمرے کے مختلف ''طاقوں'' کے سامنے کھڑی ہو کر کہتی، خدا کے لیے کچھ دیجیے، خدا آپ کو اس کا اجر دے، ایک بھوکی بچاری کو کھانا کھلا دیجیے۔ اس طرح تمام طاقوں سے اشیائے خوراک جمع کرنے کے بعد بیٹھ گئی اور اپنی بھیک سے بھوک مٹانے لگی۔
دوسری کہانی ایک طرح سے اس شریفافہ اور مقدس پیشے کا ''میگنا کارٹا'' ہے کہ ایک بھکاری نے شام کو اپنے بیٹے پر لاٹھی دراز کر کے اس کی دھلائی شروع کی اور ساتھ ہی ننگ خاندان، غدار قوم اور نمک مردار قسم کی گالیاں دینا شروع کیں تو شور شرابا سن کر اس کا پڑوسی بھکاری ماجرا دریافت کرنے کے لیے دوڑ پڑا، بڑی مشکل سے اس نے لڑکے کو چھڑایا اور باپ کو سرزنش کی کہ یوں نوجوان بیٹے کو مارنا اچھی بات نہیں ہے، آخر ہوا کیا ہے، اس نے ایسا کیا جرم کیا ہے۔
باپ بولا ،کیا بتاؤں اس نے آج ایک ایسی حرکت کی ہے جو میرے لیے، خاندان کے لیے اور پوری قوم کے لیے انتہائی شرمناک المناک بلکہ خطرناک بھی ہے۔ جی تو چاہتا ہے کہ بے غیرت ، بے حیا، بے شرم کو ابھی کیفر کردار تک پہنچاؤں تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ پڑوسی نے ایک مرتبہ پھر حملہ آور باپ کو روکا اس کے ہاتھ سے لاٹھی چھینی اور ایک طرف ٹھنڈا کر کے بٹھا دیا اور پھر حالات پر سکون ہونے پر ماجرا پوچھا۔
باپ نے نہایت دکھی ہوکر بتایا کہ آج میں نے خود اس ننگ خاندان کو بچشم خود بسوں کے اڈے پر دیکھا کہ یہ اپنے پیشے کو اپنے پیروں تلے روند رہا تھا۔پھر مزید تفصیلتے ہوئے بولا، میں نے دیکھا کہ یہ ایک مسافر کا سامان بس پر چڑھا رہا ہے، پھر سامان چڑھانے کے بعد اس مسافرنے اسے اجرت دی۔ ہا ئے ہائے میں مر کیوں نہ گیا ، یہ جانکاہ منظر دیکھتے ہوئے کہ میرا اپنا بیٹا میرے جدی پشتی پیشے کی عزت و حرمت کو ڈبو رہا ہے حالانکہ ہمارا،
سو پشت سے پیشۂ آبا گدا گری
منظور یہ طریقہ ٔ اجرت نہیں ہمیں
یہ کہتے ہوئے اس نے دوبارہ لاٹھی اٹھائی اور چلائی بھی غالباً یہ اس کا اٹھارواں حملہ تھا لیکن اس بزرگ بھکاری نے مستعدی سے کام لے کر حالات کو کنٹرول کیا اور لڑکے سے ایکسپلینیشن کال کی۔
لڑکا ٹسوے بہاتے ہوئے اور اپنے جوڑ جوڑ کو سہلاتے ہوئے بولا ، بے شک مجھ سے غلطی ہوئی ہے اور خاندان کے نام کو یوں بٹہ لگانے کا مجھے بھی افسوس ہے لیکن اس وقت حالات کچھ ایسے تھے کہ مجھ سے یہ غلطی سرزد ہو گئی۔ بلکہ مجھ سے زیادہ اس غلطی کی ذمے داری سب سے پہلے تو حکومت پر عائد ہوتی ہے جس نے اپنے سارے کام چھوڑ کر ''نرخ بڑھانے'' کو اپنا روز کا کام بنایا ہوا ہے۔
اس کے بعد ٹرانسپورٹرز اس کے ذمے دار ہیں جو تیل میں ایک روپیہ کا اضافہ ہوتا ہے تو یہ سواریوں کا کرایہ چار روپے بڑھا دیتے ہیں، دو روپے اپنے لیے اور دو ٹریفک پولیس کی ''رفاہی فنڈ'' میں دینے کے لیے۔ یوں قلیوں نے ہڑتال کی ہوئی تھی کہ آخر جب سب کے ''نرخ'' زندہ ہیں اور بڑھوتری کر رہے ہیں تو بھکاری کا بھی تو کچھ حق بنتا ہے۔ عوام کو لوٹنا صرف ان کا حق تو نہیں ہے ہم بھی تو اس دیس کے باسی ہیں جس میں ''گند گاہ'' بہتی ہے۔ لیکن جب ان کی نہیں سنی گئی تو ہڑتال کر دی۔
ہماری جان پہ بھاری تھا غم کا افسانہ
سنی نہ بات کسی نے تو مر گئے چپ چاپ
اس دن صرف قلیوں کی ہڑتال تھی بلکہ سارے قلی ہم سے بھی زیادہ لمبی لمبی لاٹھیاں لیے اڈے کے گرد کھڑے تھے تاکہ کوئی اور آکر ''عوام کالا نعام'' کی مدد نہ کر سکے۔ ایسے میں وہ بوڑھا مسافر رکشے سے مع سامان کے اترا تو حیران پریشان کھڑا تھا، بس سامنے کھڑی تھی لیکن وہ بچارا خود تو سانس بھی مشکل سے لے رہا تھا۔ آخر مجھے دیکھ کر اس نے استدعا کی کہ تھوڑی سی اس کی مدد کروں۔ سامان بھی کچھ زیادہ نہیں تھا ایک صندوق ہی تو تھا، اس لیے میری عقل پر پتھر پڑ گئے اوراپنے پیشے کی حرمت کو بھول کر اس کا بکسہ چڑھا دیا۔ بوڑھے نے مجھے کچھ پیسے دیے بس اتنی سی بات تھی۔
باپ نے پھر لاٹھی اٹھا کر انیسواں حملہ کیا لیکن ثالث نے اسے ناکام کر دیا۔ باپ بولا، کم بخت یہ بھی نہیں سوچا کہ اگر تجھے یہ قبیح عادت پڑگئی تو۔۔۔ بیٹے نے پھر معافی مانگی۔ ثالث بزرگ نے کہا، بیٹا تم نے واقعی نادانی کی ہے، تم یہ بھی کر سکتے تھے کہ اس کا بکسہ چڑھانے کے بعد اس سے اجرت نہ لیتے بلکہ کشکول دراز کر کے اس میں بطور بھیک کے ڈلواتے۔ تم نے وہ فلم تو دیکھی ہو گی جس میں اداکار پران پولیس کا حوالدار ہے اور کسی کے رشوت پیش کرنے پر کہتا ہے کہ میں رشوت کے پیسے کو ہاتھ نہیں لگاتا پھر اپنی جیب سامنے کر کے کہتا ہے کہ اس میں ڈالو۔
لڑکے نے کہا میں نے وہ فلم نہیں دیکھی تھی، جی معافی چاہتا ہوں۔ اس پر بزرگ نے کہا کہ بھکاریوں کو فلمیں ضرور دیکھنا چاہیے اگر ہم لوگ فلمیں نہ دیکھیں تو ان فلم والوں کو یہ کروڑوں روپے کہاں سے ملیں گے اور نہیں ملیں گے توسارے کلوٹے کلوٹیاں بھی ہمارے پیشے میں آجائیں گی۔
باپ تو بیٹے کو معاف کرنے پر بالکل آمادہ نہیں تھا کہ اب اسے ''کام'' کی لت پڑ چکی ہے لیکن بزرگ نے کہا کہ وہ اسے ٹرینڈ کر کے یہ بری لت چھڑا دے گا۔