عمران خان پاک ترکی تعلقات اور مولانا رُومیؒ
جناب عمران خان نے دورۂ ترکی سے دو، دو فائدے سمیٹے ہیں
PESHAWAR:
لیجیے، وزیر اعظم عمران خان سرکاری دَورے پر دیرینہ دوست اور برادر اسلامی ملک، ترکی، بھی ہو آئے ہیں۔ انھیں صدرِ ترکی طیب اردوان نے محبت سے اپنے ملک مدعو کیا تھا دیکھا جائے تو یہ ایک ٹیسٹ دَورہ بھی تھا، اِس پس منظر میں کہ میاں برادران کے ترکی اور ترک صدر طیب اردوان سے گرم جوش تعلقات رہے ہیں۔
خدا کا شکر ہے کہ ترک صدر صاحب نے اپنے نئے معزز مہمان، عمران خان، کو پورے پروٹوکول سے بھی نوازا ہے اور اُن سے محبت و اکرام سے بھی پیش آئے ہیں۔ ویسے تو خان صاحب پہلے بھی اردوان صاحب سے ملتے رہے ہیں لیکن وزیر اعظم بننے کے بعد وہ پہلی بار ترکی تشریف لے گئے۔
سعودی عرب، دبئی اور ملائیشیا کے بعد یہ اُن کا چوتھا غیر ملکی دَورہ تھا۔لاریب پاکستان اور اہلِ پاکستان نے ہمیشہ ترکی سے محبت کی ہے۔ جواب میں ترکی بھی ہر آزمائش کے موقع پر ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ تازہ ترین قابلِ فخر مثال پچھلے سال سامنے آئی تھی جب ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے دُنیا کے اکثریتی ممالک نے پاکستان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا لیکن ترکی نے ببانگِ دہل پاکستان کاساتھ دے کر ساری دُنیا کو حیران کر دیا۔ اولو العزمی کے ساتھ پاکستان کے لیے یہ ترک حمایت ہم ہمیشہ یاد رکھیں گے۔
شریف انسانوں کی مانند شریف اقوام بھی کسی کا احسان کبھی فراموش نہیں کر تیں۔ پاکستان نے سائپرس کے تنازع میں ہمیشہ ترکی کا ساتھ دیا ہے اور ترکی نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہمیشہ کھل کر پاکستانی موقف کی تائید کی ہے۔ تازہ دَورئہ ترکی میں بھی جب عمران خان نے مسئلہ کشمیر کا ذکر کیا ہے تو ترک صدر نے اِس کا اثبات میں جواب مرحمت فرمایا ہے۔
یہ عجب اتفاق ہے کہ خان صاحب کے اِس دَورے سے قبل صدرِ پاکستان جناب ڈاکٹر عارف علوی بھی وہاں گئے ہیں اور چیف جسٹس آف پاکستان عزت مآب ثاقب نثار صاحب نے بھی حالیہ ایام ہی میں ترکی کا وزٹ کیا ہے۔ ترک حکام نے ہماری دونوں معزز اور محترم شخصیات کا دل سے سواگت کیا۔ صدرِ پاکستان اور چیف جسٹس آف پاکستان، دونوں کی ملاقاتیں صدر طیب اردوان سے بھی ہُوئی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عمران خان سے قبل یہ ملاقاتیں پاکستان کے لیے مفید بھی ثابت ہُوئی ہیں اور دونوں برادر ممالک میں باہمی اعتماد کو بھی فروغ ملا ہے۔ ہم تو تشکیلِ پاکستان سے قبل بھی ترکوں اور ترکی سے محبت کرتے رہے ہیں۔
تاریخ کا یہ ایک انمٹ اور ناقابلِ فراموش واقعہ ہے۔ہمارے وزیر اعظم عمران خان جب انقرہ میں ترک صدر صاحب کے ساتھ کھڑے ہو کر مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے تو انھوں نے بجا طور پر ترکوں سے ہماری دیرینہ محبتوں کا تذکرہ کیا۔ ہر ترک باشندہ ہمارے اِن بے لوث جذبوں سے آگاہ اور آشنا ہے۔ مشترکہ پریس کانفرنس میں طیب اردوان نے تو اپنی قومی زبان میں گفتگوکی جب کہ ہمارے وزیر اعظم نے انگریزی زبان میں۔ بہتر ہوتا عمران خان بھی اپنی قومی زبان، اُردو، میں اظہارِ خیال فرماتے۔
جناب عمران خان دُنیابھر میں جن شخصیات کو دل سے چاہتے ہیں، اُن میں ملائشیا کے جناب مہاتر محمد اور ترکی کے جناب طیب اردوان ہیں۔ طیب اردوان صاحب سے ہمارے وزیر اعظم کی محبت و چاہت کی شہادت تو خاتونِ اوّل محترمہ بشریٰ بی بی نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں دی ہے۔ نہایت واضح اور غیر مبہم الفاظ میں۔ وزیر اعظم کا صوفیائے کرام اور بزرگانِ دین سے محبت کا اظہار تو ہم پاکستان میں بار بار ملاحظہ کر چکے ہیں لیکن صوفیا سے دِلی لگاؤ کا مظاہرہ اُن کے دَورئہ ترکی میں بھی ہُوا ہے۔
وہ پاکستان سے براہِ راست قونیہ تشریف لے گئے جہاں ہماری اسلامی تاریخ کے عظیم بزرگ، صوفی، فلسفی شاعر اور عارف باللہ مولانا جلال الدین رُومیؒ ابدی نیند سو رہے ہیں۔عمران خان کا مولانا رُومیؒ کے مزار شریف پر حاضری اُن کی عقیدتوں اور ذہنی رجحانات کا عکاس ہے۔
عالمِ اسلام کا کونسا ایسا شخص ہے جو مولانا رُوم ؒ کے اسمِ گرامی سے ناآشنا ہے؟ مثنوی شریف یا مثنوی معنوی کے مصنف۔مولانا رُومیؒ نے مثنوی شریف میں جن دلنشیں طریقوں اور اسلوب سے اسلامی عقائد و اعمال اور تصوف کے باریک وحساس مسائل کو سمجھایا ہے، اس کی نظیر کسی دوسری تصنیف میں کم ہی ملتی ہے۔ اگر مولانا رُومیؒ کی حیات پر لکھی گئی قاضی تلمذ حسین کی شاندار تصنیف کا مطالعہ کیا جائے تو ہم پر اس بے مثل صوفی شاعر کی عظمتوں کے کئی راز کھلتے ہیں۔ کئی سال پہلے لاہور کے ایک معروف پبلشر (بک ہوم، مزنگ روڈ) نے اِسے دوبارہ شایع کیا تھا۔
یہ کتاب عجب راحت دیتی ہے۔ اس کے مطالعہ سے مولانا رُومیؒ کا دلکشا کلام اور اُن کی تعلیمات ہمارے دل کے مزید قریب آجاتے ہیں۔ مولانا رُومیؒ اتنی ہر دلعزیز شخصیت ہیں کہ افغانستان اور ایران بھی اُن پر اپنی ''ملکیت'' کے دعویدار ہیں۔ ہر کوئی انھیں اپنا بنانا اور دل میں بٹھانا چاہتا ہے۔ شاعرِ مشرق حضرت علامہ محمد اقبال ؒ تو اُن سے عشق کرتے اور انھیں اپنا مرشد قرار دیتے ہیں۔ بانگِ درا، بالِ جبریل، ضربِ کلیم اور ارمغانِ حجاز میں علامہ اقبال علیہ رحمہ نے کوئی دو درجن سے زائد بار مولانا رُومی ؒ کا ذکر اپنے اشعار میں کیا ہے۔ ''صحبتِ پیرِ رُوم سے مجھ پہ ہُوا یہ راز فاش/لاکھ حکیم سر بجیب، ایک کلیم سر بکف۔''
پاک و ہند میں مولانا رُومیؒ کا اسمِ گرامی نامانوس اور اجنبی نہیں ہے، لیکن رومیؒ کے صحیح مقام، عظمت اور حیات آفریں افکار کو سب سے پہلے علامہ اقبال نے شایانِ شان طور پر پیش کیا۔ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم (جو اقبال کے ادا شناس بھی تھے اور مولانا رُومی کے رمز آشنا بھی) نے اپنی کتاب ''تشبیہاتِ رُومی'' میں مولانا جلال الدین رومیؒ کے افکار و خیالات کی دلآویز انداز میں تشریح کی ہے۔ سید نذیر نیازی صاحب کی تحریر کردہ کتاب''اقبالؒ کے حضور: نشستیں اور گفتگوئیں'' کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں کوئی درجن بار مولانا رُومیؒ کا تذکرئہ جانفزا ملتا ہے۔
ترک حکام بھی بخوبی جانتے ہیں کہ مولانا جلال الدین رُومیؒ سے علامہ اقبال ؒ بہت زیادہ متاثر تھے اور انھیں اپنا مرشد گردانتے تھے ۔ اِسی کی یاد میں ترکی نے مولانا رُومیؒ کے مزار شریف کے نزدیک علامہ اقبالؒ کا بھی علامتی مرقد بنا رکھا ہے اور وہاں سنگِ مرمر کی ایک تختی لگائی گئی ہے جس پر ترکی، انگریزی اور فارسی زبانوں میں اقبال کا ذکر کیا گیا ہے۔
انگریزی کے الفاظ یوں کندہ کیے گئے ہیں:This position was given to Muhammad Iqbal , a national poet and philosopher of Pakistan , in the spiritual presence of his beloved Maulana. اور فارسی کے الفاظ یوں کندہ ہیں:'' این مقام بہ محمد اقبال لاہوری شاعر و متفکر ملّی پاکستان در حضور حضرت مولانا، مرشید عزیزش شدہ است۔'' 4جنوری 2019 کو جب وزیر اعظم عمران خان صاحب نے مولانا رُومیؒ کے مزار شریف پر حاضری دی تو ترک حکام نے بطورِ خاص انھیں علامہ اقبال کا یہ تاریخی علامتی مرقد بھی دکھایا۔ وزیر خزانہ اسد عمر صاحب نے اس حوالے سے ایک خصوصی ٹویٹ بھی کیا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے بھی اپنے دَورئہ ترکی کے دوران مولانا رُومیؒ کے مزار پر حاضری دی تھی۔
جناب عمران خان نے دورۂ ترکی سے دو، دو فائدے سمیٹے ہیں ۔ اُس جگہ پر حاضر ہونے کی سعادت بھی حاصل کی ہے جہاںایک عظیم بزرگ اور صوفی شاعر آسودئہ خاک ہیں اورترک صدر طیب اردوان سے دوستی اور تجدیدِ تعلق بھی کیاہے۔ہمیں نہیں معلوم ترک صدر کہاں تک پاکستان کی معاشی دستگیری کر سکتے ہیں لیکن ہمارے وزیر اعظم صاحب نے ترک صدر، ترک وزرا، ترک سرمایہ کاروں سے یہ ضرور گزارش کی ہے کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں۔دونوں ممالک کا مشترکہ اقتصادی اسٹرٹیجک فریم ورک تیار کرنے پر بھی اتفاق ہُوا ہے۔
افغان ایشو کا پُرامن حل نکالنے میں بھی دونوں مل کر کاوشیں کریں گے۔ پاکستان نے ترک صدر کے سیاسی حریف، فتح اللہ گولن، کی پاکستان میں بچی کھچی تنظیم اور وابستگان پر سخت پابندیاں تو عائد کر دی ہیں لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ترک صدر پاکستان کے وزیر اعظم کا مزید ہاتھ کیسے تھامتے ہیں!!
لیجیے، وزیر اعظم عمران خان سرکاری دَورے پر دیرینہ دوست اور برادر اسلامی ملک، ترکی، بھی ہو آئے ہیں۔ انھیں صدرِ ترکی طیب اردوان نے محبت سے اپنے ملک مدعو کیا تھا دیکھا جائے تو یہ ایک ٹیسٹ دَورہ بھی تھا، اِس پس منظر میں کہ میاں برادران کے ترکی اور ترک صدر طیب اردوان سے گرم جوش تعلقات رہے ہیں۔
خدا کا شکر ہے کہ ترک صدر صاحب نے اپنے نئے معزز مہمان، عمران خان، کو پورے پروٹوکول سے بھی نوازا ہے اور اُن سے محبت و اکرام سے بھی پیش آئے ہیں۔ ویسے تو خان صاحب پہلے بھی اردوان صاحب سے ملتے رہے ہیں لیکن وزیر اعظم بننے کے بعد وہ پہلی بار ترکی تشریف لے گئے۔
سعودی عرب، دبئی اور ملائیشیا کے بعد یہ اُن کا چوتھا غیر ملکی دَورہ تھا۔لاریب پاکستان اور اہلِ پاکستان نے ہمیشہ ترکی سے محبت کی ہے۔ جواب میں ترکی بھی ہر آزمائش کے موقع پر ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ تازہ ترین قابلِ فخر مثال پچھلے سال سامنے آئی تھی جب ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے دُنیا کے اکثریتی ممالک نے پاکستان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا لیکن ترکی نے ببانگِ دہل پاکستان کاساتھ دے کر ساری دُنیا کو حیران کر دیا۔ اولو العزمی کے ساتھ پاکستان کے لیے یہ ترک حمایت ہم ہمیشہ یاد رکھیں گے۔
شریف انسانوں کی مانند شریف اقوام بھی کسی کا احسان کبھی فراموش نہیں کر تیں۔ پاکستان نے سائپرس کے تنازع میں ہمیشہ ترکی کا ساتھ دیا ہے اور ترکی نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہمیشہ کھل کر پاکستانی موقف کی تائید کی ہے۔ تازہ دَورئہ ترکی میں بھی جب عمران خان نے مسئلہ کشمیر کا ذکر کیا ہے تو ترک صدر نے اِس کا اثبات میں جواب مرحمت فرمایا ہے۔
یہ عجب اتفاق ہے کہ خان صاحب کے اِس دَورے سے قبل صدرِ پاکستان جناب ڈاکٹر عارف علوی بھی وہاں گئے ہیں اور چیف جسٹس آف پاکستان عزت مآب ثاقب نثار صاحب نے بھی حالیہ ایام ہی میں ترکی کا وزٹ کیا ہے۔ ترک حکام نے ہماری دونوں معزز اور محترم شخصیات کا دل سے سواگت کیا۔ صدرِ پاکستان اور چیف جسٹس آف پاکستان، دونوں کی ملاقاتیں صدر طیب اردوان سے بھی ہُوئی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عمران خان سے قبل یہ ملاقاتیں پاکستان کے لیے مفید بھی ثابت ہُوئی ہیں اور دونوں برادر ممالک میں باہمی اعتماد کو بھی فروغ ملا ہے۔ ہم تو تشکیلِ پاکستان سے قبل بھی ترکوں اور ترکی سے محبت کرتے رہے ہیں۔
تاریخ کا یہ ایک انمٹ اور ناقابلِ فراموش واقعہ ہے۔ہمارے وزیر اعظم عمران خان جب انقرہ میں ترک صدر صاحب کے ساتھ کھڑے ہو کر مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے تو انھوں نے بجا طور پر ترکوں سے ہماری دیرینہ محبتوں کا تذکرہ کیا۔ ہر ترک باشندہ ہمارے اِن بے لوث جذبوں سے آگاہ اور آشنا ہے۔ مشترکہ پریس کانفرنس میں طیب اردوان نے تو اپنی قومی زبان میں گفتگوکی جب کہ ہمارے وزیر اعظم نے انگریزی زبان میں۔ بہتر ہوتا عمران خان بھی اپنی قومی زبان، اُردو، میں اظہارِ خیال فرماتے۔
جناب عمران خان دُنیابھر میں جن شخصیات کو دل سے چاہتے ہیں، اُن میں ملائشیا کے جناب مہاتر محمد اور ترکی کے جناب طیب اردوان ہیں۔ طیب اردوان صاحب سے ہمارے وزیر اعظم کی محبت و چاہت کی شہادت تو خاتونِ اوّل محترمہ بشریٰ بی بی نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں دی ہے۔ نہایت واضح اور غیر مبہم الفاظ میں۔ وزیر اعظم کا صوفیائے کرام اور بزرگانِ دین سے محبت کا اظہار تو ہم پاکستان میں بار بار ملاحظہ کر چکے ہیں لیکن صوفیا سے دِلی لگاؤ کا مظاہرہ اُن کے دَورئہ ترکی میں بھی ہُوا ہے۔
وہ پاکستان سے براہِ راست قونیہ تشریف لے گئے جہاں ہماری اسلامی تاریخ کے عظیم بزرگ، صوفی، فلسفی شاعر اور عارف باللہ مولانا جلال الدین رُومیؒ ابدی نیند سو رہے ہیں۔عمران خان کا مولانا رُومیؒ کے مزار شریف پر حاضری اُن کی عقیدتوں اور ذہنی رجحانات کا عکاس ہے۔
عالمِ اسلام کا کونسا ایسا شخص ہے جو مولانا رُوم ؒ کے اسمِ گرامی سے ناآشنا ہے؟ مثنوی شریف یا مثنوی معنوی کے مصنف۔مولانا رُومیؒ نے مثنوی شریف میں جن دلنشیں طریقوں اور اسلوب سے اسلامی عقائد و اعمال اور تصوف کے باریک وحساس مسائل کو سمجھایا ہے، اس کی نظیر کسی دوسری تصنیف میں کم ہی ملتی ہے۔ اگر مولانا رُومیؒ کی حیات پر لکھی گئی قاضی تلمذ حسین کی شاندار تصنیف کا مطالعہ کیا جائے تو ہم پر اس بے مثل صوفی شاعر کی عظمتوں کے کئی راز کھلتے ہیں۔ کئی سال پہلے لاہور کے ایک معروف پبلشر (بک ہوم، مزنگ روڈ) نے اِسے دوبارہ شایع کیا تھا۔
یہ کتاب عجب راحت دیتی ہے۔ اس کے مطالعہ سے مولانا رُومیؒ کا دلکشا کلام اور اُن کی تعلیمات ہمارے دل کے مزید قریب آجاتے ہیں۔ مولانا رُومیؒ اتنی ہر دلعزیز شخصیت ہیں کہ افغانستان اور ایران بھی اُن پر اپنی ''ملکیت'' کے دعویدار ہیں۔ ہر کوئی انھیں اپنا بنانا اور دل میں بٹھانا چاہتا ہے۔ شاعرِ مشرق حضرت علامہ محمد اقبال ؒ تو اُن سے عشق کرتے اور انھیں اپنا مرشد قرار دیتے ہیں۔ بانگِ درا، بالِ جبریل، ضربِ کلیم اور ارمغانِ حجاز میں علامہ اقبال علیہ رحمہ نے کوئی دو درجن سے زائد بار مولانا رُومی ؒ کا ذکر اپنے اشعار میں کیا ہے۔ ''صحبتِ پیرِ رُوم سے مجھ پہ ہُوا یہ راز فاش/لاکھ حکیم سر بجیب، ایک کلیم سر بکف۔''
پاک و ہند میں مولانا رُومیؒ کا اسمِ گرامی نامانوس اور اجنبی نہیں ہے، لیکن رومیؒ کے صحیح مقام، عظمت اور حیات آفریں افکار کو سب سے پہلے علامہ اقبال نے شایانِ شان طور پر پیش کیا۔ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم (جو اقبال کے ادا شناس بھی تھے اور مولانا رُومی کے رمز آشنا بھی) نے اپنی کتاب ''تشبیہاتِ رُومی'' میں مولانا جلال الدین رومیؒ کے افکار و خیالات کی دلآویز انداز میں تشریح کی ہے۔ سید نذیر نیازی صاحب کی تحریر کردہ کتاب''اقبالؒ کے حضور: نشستیں اور گفتگوئیں'' کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں کوئی درجن بار مولانا رُومیؒ کا تذکرئہ جانفزا ملتا ہے۔
ترک حکام بھی بخوبی جانتے ہیں کہ مولانا جلال الدین رُومیؒ سے علامہ اقبال ؒ بہت زیادہ متاثر تھے اور انھیں اپنا مرشد گردانتے تھے ۔ اِسی کی یاد میں ترکی نے مولانا رُومیؒ کے مزار شریف کے نزدیک علامہ اقبالؒ کا بھی علامتی مرقد بنا رکھا ہے اور وہاں سنگِ مرمر کی ایک تختی لگائی گئی ہے جس پر ترکی، انگریزی اور فارسی زبانوں میں اقبال کا ذکر کیا گیا ہے۔
انگریزی کے الفاظ یوں کندہ کیے گئے ہیں:This position was given to Muhammad Iqbal , a national poet and philosopher of Pakistan , in the spiritual presence of his beloved Maulana. اور فارسی کے الفاظ یوں کندہ ہیں:'' این مقام بہ محمد اقبال لاہوری شاعر و متفکر ملّی پاکستان در حضور حضرت مولانا، مرشید عزیزش شدہ است۔'' 4جنوری 2019 کو جب وزیر اعظم عمران خان صاحب نے مولانا رُومیؒ کے مزار شریف پر حاضری دی تو ترک حکام نے بطورِ خاص انھیں علامہ اقبال کا یہ تاریخی علامتی مرقد بھی دکھایا۔ وزیر خزانہ اسد عمر صاحب نے اس حوالے سے ایک خصوصی ٹویٹ بھی کیا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے بھی اپنے دَورئہ ترکی کے دوران مولانا رُومیؒ کے مزار پر حاضری دی تھی۔
جناب عمران خان نے دورۂ ترکی سے دو، دو فائدے سمیٹے ہیں ۔ اُس جگہ پر حاضر ہونے کی سعادت بھی حاصل کی ہے جہاںایک عظیم بزرگ اور صوفی شاعر آسودئہ خاک ہیں اورترک صدر طیب اردوان سے دوستی اور تجدیدِ تعلق بھی کیاہے۔ہمیں نہیں معلوم ترک صدر کہاں تک پاکستان کی معاشی دستگیری کر سکتے ہیں لیکن ہمارے وزیر اعظم صاحب نے ترک صدر، ترک وزرا، ترک سرمایہ کاروں سے یہ ضرور گزارش کی ہے کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں۔دونوں ممالک کا مشترکہ اقتصادی اسٹرٹیجک فریم ورک تیار کرنے پر بھی اتفاق ہُوا ہے۔
افغان ایشو کا پُرامن حل نکالنے میں بھی دونوں مل کر کاوشیں کریں گے۔ پاکستان نے ترک صدر کے سیاسی حریف، فتح اللہ گولن، کی پاکستان میں بچی کھچی تنظیم اور وابستگان پر سخت پابندیاں تو عائد کر دی ہیں لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ترک صدر پاکستان کے وزیر اعظم کا مزید ہاتھ کیسے تھامتے ہیں!!