پاکستان کی خارجہ پالیسی کی نئی جہتیں

نئے معاشی امکانات سمیت خارجہ پالیسی میں نئی مثبت جہتوں کو فروغ دینے کا سبب بن سکتی ہے


سلمان عابد January 06, 2019
[email protected]

پاکستان کا ایک بنیادی مسئلہ اس کا داخلی اور خارجی استحکام ہے کیونکہ ہمیں بیک وقت داخلی اور خارجی محاذ پر جو بڑے مسائل یا چیلنجز درکار ہیں وہ کمزور کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

عمومی طور پر آج کی دنیا میں تصورات کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے اوراس وقت عالمی دنیا میں ہمارا ایک منفی تاثر موجود ہے۔ اس منفی تاثر کو پیدا کرنے میں ہمارے دشمنوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے، مگر خود ہماری اپنی ہی غلطیاں بھی موجود ہیں جو ہماری تصویر کو عالمی دنیا میں منفی انداز میں پیش کرتی ہیں۔

اس لیے ہمیں سارا غصہ غیروں پر نکالنے کے بجائے کچھ ماتم اپنا بھی کرنا چاہیے کہ ہم سے کہاں غلطیاں ہورہی ہیں۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خارجی تعلقات میں بہتری، سازگار ماحول اور برابری پر مبنی تعلقات کا بڑا تعلق ہماری اپنی داخلی استحکام سے جڑا ہوتا ہے۔ جو بھی ریاست داخلی محاذ پر کمزور ہوگی اس کا خارجی پہلو بھی نہ صرف کمزور ہوگا بلکہ عالمی دنیا اس سے فائدہ اٹھاکر ہم پر دباو ڈال کر اپنے مفادات کو ترجیح دیتی ہے۔آج کی دنیا میں خارجہ پالیسی کو مرتب کرتے وقت تین بنیادی اصول وضع کیے جاتے ہیں جس میں اول داخلی پالیسی، دوئم علاقائی یا ہمسائے کے ساتھ بہتر تعلقات اور سوئم عالمی خارجہ پالیسی کے خدوخال شامل ہوتے ہیں۔

خارجہ پالیسی کو ترتیب دیتے وقت زیادہ سے زیادہ دوست بنانا اور ممالک کو اپنے ساتھ جوڑنا اہم ہوتا ہے۔خارجہ پالیسی میں دوستی کے ساتھ ساتھ مفادات اہم ہوتے ہیں کہ کس طرح سے ممالک مل کر ایک دوسرے کے مفاد کو تقویت دیتے ہیں۔ایک مسئلہ بداعتمادی، شکوک وشبہات اور الزام تراشیوں پر مبنی سیاست کا ہوتا ہے جو عمومی طور پر خارجہ محاذ پر مزید بدگمانیوں کو پیدا کرکے مسائل پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ان ہی اہم معاملات کو مدنظر رکھ کر ریاست یا حکومتی نظام اپنی داخلی اور خارجہ پالیسی کے خدوخال ترتیب دیتا ہے اوربوقت ضرورت اس میں حالات کے مطابق تبدیلیوں کو بنیاد بنا کر مزید نئی اصلاحات کو پیدا کرتا ہے، کیونکہ خارجہ پالیسی کبھی بھی جامد نہیں ہوتی اور یہ حالات کے ساتھ تبدیل ہوتی ہے۔

پاکستان کو جو پانچ بڑے چیلنجز خارجہ پالیسی کے تناظر میں درپیش ہیں ان کو سمجھنا بھی ضروری ہے ۔ اول داخلی سیاسی عدم استحکام، دوئم معاشی عدم استحکام اور غیر وں پر بہت زیادہ انحصار، سوئم سول ملٹری تعلقات کے مسائل، چہارم ہمسائے ممالک کے ساتھ بداعتمادی، پنجم اداروں کے بجائے افراد پر مبنی پالیسی یا مشاورتی عمل کا فقدان شامل ہیں ۔ان ہی مسائل کی وجہ سے ہم ایک موثر خارجہ پالیسی سازی میں مشکلات میں گھرے ہوتے ہیں۔ سیاست میں جو فہم، تدبر، فراست اوربردباری سمیت دانش درکار ہے وہ ہم اجتماعی طور پر مضبوط نہیں بنا سکے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ ہم بطور قوم دانش سے محروم ہیں بلکہ اصل مسئلہ قوم میں موجود اہل دانش کو نظرانداز کرنا اور ایسے تھنک ٹینک یا سوچ بچار کے اداروں کا فقدان اوران کو اہمیت نہ دینے کی پالیسی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو داد دینی ہوگی کہ وہ روایتی خارجہ پالیسی کے مقابلے میں کچھ ایسے نئے امکانات اور سوچ بچار کے بعد ایسے فیصلے کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو مستقبل میں بہتر نتائج دے سکتے ہیں ۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نہ صرف ایک تجربہ کار سیاستدان اورپارلیمنٹرین ہیں بلکہ اس سے قبل بھی وزیر خارجہ کے طور پر اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ اس لیے ان کا ماضی کا تجربہ بھی کافی اہمیت رکھتا ہے اور عالمی سطح پر ان کے ملکوں کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی۔

یہ ہی وجہ ہے کہ شاہ محمود قریشی کے تسلسل کے ساتھ قطر، چین، یو اے ای، افغانستان، ایران، روس، سعودی عرب کے دورے اور اسلام آباد میں مختلف ممالک کے سفیروں اور وزرائے خارجہ کے ساتھ باہمی ملاقاتیں ظاہر کرتی ہیں کہ حکومتی ایجنڈے میں خارجی مسائل اور ان کا حل ترجیحی ایجنڈا ہے۔

اسی طرح سے وزیر اعظم عمران خان کا بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش اوربھارت کے ایک قدم چلنے پر دو قدم آگے بڑھنے کا پیغام، بھارتی وزیر اعظم کو خط، کرتار پور راہداری کا سنگ بنیاد، افغان موثر حل، امریکا چین، روس سے تعلقات اور جنگوں و تنازعات کے مقابلے میںانسانوں پر سرمایہ کاری کرنے اور غربت سمیت معاشی خوشحالی کوفوقیت دینا اہم نکات ہیں۔حل ہی میں حکومت نے دو اہم فیصلے خارجہ پالیسی اور معاشی استحکام کے تناظر میں کیے ہیں جو واقعی اہمیت بھی رکھتے ہیں اور اگر یہ موثر انداز میں آگے بڑھے تو اس کے بہتر نتائج بھی مل سکیں گے۔

اول وزیر اعظم عمران خان نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سربراہی میں خارجہ پالیسی پر مشاورت کے لیے 18رکنی کونسل کے قیام کی منظوری دی ہے ۔ اس کونسل میں سابق سفیر وں، خارجہ امور کے ماہرین اوراہل دانش سمیت حکومتی وزرا کو شامل کیا گیا ہے۔ خارجہ امور کے ماہرین میں سلمان بشیر، جلیل عباس جیلانی، اشرف جہانگیر قاضی، محمد صادق، ڈاکٹر ہما بقائی، ڈاکٹر رفعت حسین، ڈاکٹر حسن عسکری رضوی، ڈاکٹر عادل نجم، ڈاکٹر رابعہ اختر اور قاسم نیاز شامل ہیں۔جب کہ وزیر قانون، وزیر خزانہ، مشیر تجارت، وزیر منصوبہ بندی، سیکریٹری خارجہ، ڈی جی فارن سروس اکیڈمی، ایڈیشنل سیکریٹری شامل ہیں۔ پہلی بار حکومتی سطح پر یہ کوشش کی گئی ہے کہ خارجہ پالیسی میں ماہرین کی مشاورت کو بنیاد بنا کر آگے بڑھا جائے۔

البتہ اس کونسل میں ریاض کھوکھر اور سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد خان کو بھی شامل کیا جانا چاہیے تھا اور دونوں اس شعبہ میں کمال کی مہارت رکھتے ہیں۔اس کونسل سے حکومتی سطح پر اس تاثر کی بھی نفی کی گئی ہے کہ خارجہ پالیسی صرف فوج بناتی ہے اوراس میں حکومت سمیت کسی اورکی کوئی اہمیت نہیں۔ مگر حکومت نے ماہرین کی سطح پراس کونسل کو بنا کر یہ تاثر دیا ہے کہ جو بھی خارجہ پالیسی بنے گی وہ تمام سیاسی اور انتظامی، عسکری اداروں سمیت ماہرین اورپارلیمنٹ کی مشاورت سے بنے گی، جو اچھی ابتدا ہے۔

دوسری اہم بات حکومتی سطح پر 27-28 دسمبر کو تاریخ میں پہلی بار سفیروں کی معاشی ڈپلومیسی کی کانفرنس طلب کی گئی۔ اس کانفرنس میں وزیر اعظم نے کلیدی خطاب کیا۔ اس کا کانفرنس کا مقصد دنیا میں موجود سفارتکاروں اور اداروں کو اس نکتے پر لانا تھا کہ خارجہ پالیسی کی مضبوطی اورمعاشی استحکام میں سفیروں اور سفارتی اداروں کا کیا موثر کردار بنتا ہے۔ماضی میں ہم ان سفارت پر مبنی اداروں کو اول تو استعمال ہی نہیں کرسکے اوراگر کچھ ہوا تو ان اداروں میں سیاسی تقرریاں تھیں۔

اس حکومت کو یہ داد بھی ملنی چاہیے کہ مختلف ممالک میں جو نئے سفیر لگائے گئے ہیں ان میں میرٹ کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔کانفرنس میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ان کی حکومت سفیروں اور سفارتکاروں سمیت سابق ماہرین کی خدمات سے خارجہ امور کے معاملات کو درست سمت میں لے جانا چاہتی ہے۔ان کے بقول دفتر خارجہ، سفیروں اور وزرات داخلہ میں رابطوں کا جو فقدان ہے اس کو موثر بنانا ہوگا۔ ان کے بقول اوورسیز پاکستانیوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں، ان کا ڈیٹا مرتب کرنا، قانونی معاونت فراہم کرنا، سرمایہ کاری کی طرف راغب کرنا، مقامی لوگوں پر مبنی کمینونٹیز فورم کا قیا م، مختلف سماجی تقریبات کا فروغ، پاکستان کا مثبت تصور اجاگر کرنا، نئے معاشی مواقع کی تلاش، پاکستانی مارکیٹ کا عالمی مارکیٹ تک رسائی، انسانی حقوق کی صورتحال کا مقدمہ موثر انداز میں پیش کرنا شامل ہے۔

اس کانفرنس میں مختلف حکومتی اداروں وزارتوں اور ماہرین نے سفیروں کے سامنے مختلف سیشنز کی مدد سے ان پہلووں کو اجاگر کیا کہ کس طرح سے ہم سفارتی محاذ پر معاشی ڈپلومیسی کی جنگ جیت سکتے ہیں۔حکومتی سطح پر یہ کام محض ایک کانفرنس تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس میں تسلسل کی ضرورت ہے تاکہ اس بحث کو آگے بڑھایا جا سکے اور مثبت نتائج سامنے آسکیں ۔

وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ سمیت ہماری عسکری قیادت نے جو حالیہ مہینوں میں افغانستان کے پرامن حل کے حوالے سے امریکا، افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان جو ڈپلومیسی کی اورجس طرح سے سب فریقین کو ایک میز پر بٹھایا وہ قابل قدر ہے۔ پاکستان کا فوری طور پر گرے لسٹ سے باہر آنا بھی حکومت کی اہم کامیابی ہے۔امریکا کا پہلے سخت ردعمل اوربعد میں پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کا عندیہ، سعودی عرب، ایران، یو اے ای، ملائیشیا، قطر سمیت چین سے معاشی معاملات ظاہر کرتے ہیں کہ بات پیچھے کے بجائے آگے بڑھ رہی ہے جو مستقبل میں نئے معاشی امکانات سمیت خارجہ پالیسی میں نئی مثبت جہتوں کو فروغ دینے کا سبب بن سکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں