زمان و مکاں
تاریخی شہر سکھر سے زندگی کے سفر کا آغاز کیا
اخبار میں خبر آئی تھی '' کراچی کا ایک ٹاؤن تاریکی میں ڈوب گیا'' تب میں نے اپنے کالم میں لکھا تھا ''جانے ان اندھیروں سے کیا نکلے''۔ چیئرمین واپڈا کہہ رہے ہیں ''اگر ہمیں بروقت پیسے ملتے رہے تو مہمند ڈیم پانچ سال سے پہلے بن جائے گا۔'' اس ڈیم کے بننے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ متعلقہ کمپنی کو شفاف طریقے پر ٹھیکے دیا گیا ہے۔'' دوسری طرف (ن) لیگ کے محمد زبیر کا بیان ہے کہ ''یہ ڈیم بننے میں 20 سال لگیں گے'' اور ''عوام سوچ رہے ہیں کہ ہم کدھر جائیں'' کس کی سنیں؟ کس پہ اعتبار کریں۔
عوام پہلے ہی بہت سی پریشانیوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ اوپر سے یہ سیاست دان انھیں مزید پریشان کر رہے ہیں۔ جعلی اکاؤنٹ ہیں کہ نکلتے چلے آرہے ہیں۔ آخری بینک اکاؤنٹ ایک اندھے آدمی کا نکلا ہے، جو تِل کے لڈو بیچتا ہے، لاکھوں روپے اس کے بینک اکاؤنٹ سے بھی نکل آئے ہیں۔ ایسا کبھی سنا نہیں تھا، ایسا کبھی دیکھا نہیں تھا، جو سننے کو مل رہا ہے، جو ہم دیکھ رہے ہیں۔
آصف علی زرداری ایک ٹی وی پروگرام میں کہہ چکے ہیں کہ ''ان سارے جعلی اکاؤنٹوں کو میں Defend کروں گا۔'' زرداری صاحب نے مزید کہا تھا کہ ''جس فالودے والے کے بینک اکاؤنٹ میں کروڑوں روپے نکلے اسے اپنے اکاؤنٹ کے بارے میں معلومات ہونی چاہیے تھیں۔'' خیر اب دیکھیں کہ یہ جعلی بینک اکاؤنٹوں والا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
پریشانیوں میں دن گزر رہے ہیں۔ سال 2018 کا آخری سورج سمندر میں ڈوب گیا اور اگلی صبح سمندر نے سال 2019 کا سورج اچھال دیا۔ جانے والا سال جاتے جاتے بھی ہمارے پیاروں کو ساتھ لے گیا۔ ہمارے انتہائی پیارے دوست، کالم نگار مقتدا منصور ہم سے بچھڑ گئے۔ مقتدا منصور بھی اپنی دھرتی سے جڑے اس کے دکھ درد بیان کرتے رہے اور اچھے دنوں کی آس امید کی ڈوری کو کبھی کمزور نہیں ہونے دیا اور خود بھی اسے مضبوطی سے تھامے رکھا۔ مقتدا سیلف میڈ آدمی تھے۔ تمام زندگی لگن، جستجو اور محنت سے گزاری۔ تاریخی شہر سکھر سے زندگی کے سفر کا آغاز کیا۔
سندھ دھرتی ماں کی گود میں پلے بڑھے۔اپنی ماں دھرتی کے گیت گائے اور آخر اسی مٹی میں خود کو ملالیا۔ سال 2018 اپنے آخری لمحات میں ایک اور قدآور ادیب ڈاکٹر سلیم اختر کو بھی لے گیا۔ یہ 30 دسمبر کا دن تھا کہ جب ڈاکٹر صاحب کا لاہور میں انتقال ہوا۔ ڈاکٹر انور سدید کی طرح آپ نے بھی بہت بڑا ادبی خزانہ چھوڑا ہے۔ سو سے زیادہ کتابیں آپ نے لکھیں۔
ادب کے قارئین جن سے مستفید ہوتے رہیں گے۔ جانا تو سبھی نے ہے، جس کا جو وقت لکھا ہے وہ اپنے لکھے وقت پر چلا جائے گا، وہ لوگ بڑے ''بھاگاں'' والے ہیں جو اپنے پیچھے اپنی اچھی یادیں چھوڑ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر بھی انھی خوش نصیبوں میں سے تھے کہ جن کے لکھے حروف ان کی یاد دلاتے رہیں گے۔ ڈاکٹر صاحب کی زندگی بڑے ادیبوں کی طرح لکھتے ، پڑھتے اور بولتے گزری ، مگر ان کا بہت زیادہ وقت پڑھنے اور لکھنے میں گزرا۔ مطالعہ کی بہت اہمیت ہے۔ مطالعہ ہوگا تو مشاہدہ بھی ہوگا، مطالعہ نہیں تو کچھ نہیں۔ مقتدا منصور اور ڈاکٹر سلیم اختر ''سدھار'' میں اپنا حصہ ڈال کر آگے بڑھ گئے۔ اللہ اگلے جہان میں ان کے لیے آسانیاں پیدا کرے۔
اب کچھ وطن عزیز کی بات ہوجائے۔ حالات وہی ہیں جو چلے آرہے ہیں۔ جھوٹ کا سر اونچا ہے اور خوب جی بھر کے بولا جا رہا ہے۔ جتھے بنے ہوئے ہیں اور اپنی اپنی ''بولیاں'' بولی جا رہی ہیں۔ ''جھوٹی بولیاں''۔۔۔۔ جعلی بینک اکاؤنٹ شیطان کی آنت کی طرح نکلتے چلے آرہے ہیں۔ ایک طرف جھوٹ ہے اور دوسری طرف جعلی بینک اکاؤنٹ ہیں۔
وقت بڑی تیزی سے بدل رہا ہے۔ بھارت کے ایک اعلیٰ عدالتی جج نے کہا ہے ''میں گائے کو گاؤ ماتا نہیں مانتا، میرے نزدیک گائے، گدھے اور کتے ایک برابر ہیں، یہ سب جانور ہیں'' جج صاحب نے مزید کہا کہ ''ہم باہر کے ملکوں میں جاتے ہیں تو وہاں کے لوگ ہمارا مذاق اڑاتے ہیں اور پوچھتے ہیں ''یہ آپ کے ملک میں کیا ہو رہا ہے؟'' جج صاحب نے یہ بھی کہا کہ ''مسلمانوں کو کھلے میدانوں میں نماز جمعہ پڑھنے سے روکا جا رہا ہے یہ سب غلط ہے۔''
بھارتی جج صاحب کی طرح لاکھوں کروڑوں لوگ ہیں جو ایسے ہی خیالات رکھتے ہیں۔ میں نے کہا ناں! کہ وقت تیزی سے بدل رہا ہے۔ سچ، جھوٹ پر غالب آرہا ہے۔ ذرا سا غور کریں تو اپنے پاکستان میں بھی گھوڑے کو بڑا ''مقدس جانور'' سمجھا جاتا ہے۔ لیجیے میرے کالم میں عوامی شاعر حبیب جالب آگئے۔ ان کی ایک چھوٹی سی پنجابی نظم ہے، بنا کچھ اور کہے نظم پیش خدمت ہے۔
ایدھر گھوڑا ' اودھر گاں
دس بندیا میں کدھر جاں
ایدھر ملّا دی چھونی اے
اودھر پنڈت دی تونی ہے
ایدھر حال اگر مندا اے
اودھر وی تے بکھ چونی اے
آوے کتھے نہ سکھ دا ساں
دس بندیا میں کدھر جاں
اس چھوٹی سی نظم کا سادہ سا ترجمہ پیش خدمت ہے۔ ''ادھر گھوڑا ہے، ادھر گائے ہے، مجھے بتاؤ کہ میں کدھر جاؤں، ادھر ملّا کی چھاونی ہے، ادھر پنڈت کی ''دھونی'' ہے، ادھر حال مندا ہے تو ادھر بھی بھوک زوروں پر ہے، کہیں بھی سکھ کا سانس نہیں، بتاؤ! میں کدھر جاؤں؟'' چین کا خلائی جہاز چاند کے تاریک حصے میں اتر گیا ہے۔ چاند کے سیاہ حصے میں چینی خلائی جہاز آگ برساتا اتر رہا ہے، یہ تصویر دنیا بھر میں دیکھی گئی اور جانوروں کی وجہ سے انسانوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ اقبال آنے والے زمانوں کے بارے میں کہہ گئے ہیں:
اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں