لیاری کے محنت کش نوجوانوں کا موسیقی اور فٹبال سے تعلق قائم

لیاری کے نوجوانوں پر نوکریوں کے دروازے اب بھی بند ہیں،مہنگائی سے غربت کاعفریت حاوی ہونے لگا

محنت کش نبیل احمدنے فنکاروں کاگروپ بناکرشادی اور دیگرتقریبات میں پرفارمنس شروع کر دی

فٹ بال اور موسیقی لیاری میں آباد مکرانی اور شیدی قبائل کے خون میں شامل ہیں۔

شیدی اور مکرانی قبائل جو اب سندھی اور بلوچ قبائل میں گھل مل گئے ہیں خود کو بلوچ کہلوانا پسند کرتے ہیں پاکستان میں بسنے والی جفاکش قوموں میں سے ایک ہیں ، تعلیم کا رجحان کم ہونے کی وجہ سے زیادہ تر محنت مزدوری کرکے اپنے کنبے کی کفالت کرتے ہیں، کراچی میں بدامنی کے دور میں یہ محنت کش سب سے زیادہ متاثر ہوئے، غربت اور بیروزگاری کی وجہ سے بہت سے نوجوان جرائم کی راہ پر چل پڑے جو تاریک راہوں کا شکار ہوئے تاہم لیاری کی وجہ شہرت اب بھی فٹ بال سے محبت اور ملنساری ہے بندرگاہ کے نزدیک آباد ہونے کی وجہ سے مزدروں کی اس بستی کے مکین اب بھی شہر کی مرکزی تھوک مارکیٹ ، بندرگاہ، شیر شاہ مارکیٹ اور ادرگرد کے بازاروں میں محنت مزدوری کرکے گزبسر کررہے ہیں، لیاری کے نوجوانوں کیلیے تبدیلی محض ایک انتخابی نعرہ ثابت ہوئی اور ان کے روز شب میں کوئی تبدیلی نہیں آئی سرکاری نوکریوں کے دروازے اب بھی ان پر بند ہیں، مہنگائی کی وجہ سے غربت کا عفریت روز بہ روز حاوی ہورہا ہے۔

کلاکوٹ کے رہائشی 23سالہ نوجوان نبیل احمد بھی ایسے ہی جفاکش اور محنتی نوجوانوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے حالات کی سختیوں کے باوجود موسیقی اور فٹ بال سے اپنا تعلق ختم نہیں ہونے دیا 4 بھائیوں اور 5 بہنوں میں سب سے چھوٹے نبیل احمد نے آنکھ کھولی تو باپ کو محنت مزدوری کرتے پایا اور جوانی کی دہلیز پر پہنچے سے قبل ہی خود بھی مزدوری شروع کردی، نبیل احمد نے بلوچی رقص اور موسیقی کو اپنے روزگار کا ذریعہ بنالیا دن میں جوڑیا بازار میں ٹرکوں اور گوداموں سے اجناس کی بوریا ں اپنی پیٹھ پر لاد کر اتار کر فی بوری4 روپے اجرت کمانے والا نبیل دن بھر محنت مزدوری کے بعد شادی بیاہ کی تقریبات میں بلوچی رقص اور موسیقی کا مظاہرہ کرکے روزی کماتے ہیں اضافی آمدن لیاری کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کو فٹ بال کی تربیت فراہم کرنے پر خرچ کرتے ہیں، نبیل احمد سے کلاکوٹ کے ایک چائے کے ڈھابے پر ملاقات ہوئی جہاں وہ اپنے گروپ کے دیگر فنکاروں نوید، عدنان، شاہ زیب اور عابد کے ساتھ موجود تھے۔

ان سب نوجوانوں کی عمر20 سے 25سال کے درمیان ہے اور سب فٹ بال کے بہترین کھلاڑی بھی ہیں، نبیل احمد نے بتایا کہ محنت مزدوری سے گھر چلانا مشکل ہے اس لیے آٹھ سال قبل موسیقی کے شوق کو روزگار کا ذریعہ بنانے کا فیصلہ کیا نبیل کے موسیقی میں استاد گل فیض ہیں جنھوں نے نبیل کو سر تال سے شناسا کیا، نبیل اپنے گروپ کے ہمراہ کراچی کے مختلف علاقوں میں شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں بلوچی رقص اور موسیقی کا مظاہرہ کرتے ہیں ایک سے تین گھنٹے تک موسیقی کے اس مظاہرے پر انھیں 3سے 5 ہزار روپے اجرت ملتی ہے کرایا بھاڑا نکال کر گروپ کے ہر ممبر کے حصہ میں ایک پروگرام سے600 سے 700روپے آتے ہیں۔

نبیل احمد نے بتایا کہ موسیقی کا گروپ بنانے سے قبل وہ گدھا گاڑی چلاتے تھے جو ان کے والد کا بھی پیشہ تھا لیکن گزر بسر میں دشواری کا سامنا تھا اس لیے موسیقی سے روزی کمانی شروع کی انھوں نے بتایا کہ بلوچ آبادی کے علاوہ اردو بولنے والے علاقوں میں ان کا رقص اور موسیقی بے حد پسند کیا جاتا ہے اور زیادہ تر کام اردو بولنے والے علاقوں میں ہی ملتا ہے، شہری علاقوں میں زیادہ بابل شیرے شما بے ملے تر وش ملے اور برو برو شری جانبو جیسے مشہور گانوں پر رقص کی فرمائش کی جاتی ہے نوید شہنائی بجاتے ہیں، نبیل گروپ کو ڈھول کی تھاپ پر لیڈ کرتے ہیں جبکہ عابد زمین پر بیٹھ کر ٹھال بجاتے ہیں جو تانبے کی پلیٹوں کا ایک جھن جھناتا ہوا ساز ہے، کراچی کے مختلف علاقوں میں فن کے اظہار کے موقع پر شہری ان کے فن کو کھل کر سراہتے ہیں اور محبت سے پیش آتے ہیں، لیاری اور کراچی میں بدامنی کے دور میں ان کے لیے اپنے اس شوق کو جاری رکھنا دشوار تھا اس کے باوجود انھوں نے کام جاری رکھا۔

افریقی رقص لاواکوباباملنگ چارلی نے پاکستان میں متعارف کرایا

افریقی رقص لاوا کو پاکستان میں متعارف کرانے والے سینئر فنکار باباملنگ چارلی کو قرار دیا جاتا ہے جنھوں نے افریقہ سے یہ رقص سیکھا اور پاکستان میں اپنے لاتعداد شاگرد تیار کیے۔ وہ 1972 میں پاکستان کی طرف سے جنوبی افریقہ گئے تھے اور وہاں انھوں نے یہ فن سیکھا اور کراچی لائے اس رقص کے لاوا سے لیوا ڈانس ہونے میں کئی دہائیاں لگیں اور مقامی کلچر کے اثر نے اسے اور رنگارنگ بنا دیا انھوں نے وہیں سے لکڑی کے ڈول کے بنانے اور جنگلی بننے کے فن کو سیکھا،فن کی ترویج کے باوجود انھوں نے کسمپرسی میں زندگی بسر کی اور کچھ سال قبل وفات پاگئے۔

ان کے بعد سنگولین کے رہائشی ابراہیم ڈاڈا کو اس فن کے استاد کا درجہ حاصل ہوا ابراہیم ڈاڈا نے بھی لاتعداد شاگر د تیار کیے انھیں پی آئی اے میں نوکری ملی ابراہیم ڈاڈا بھی انتقال کر چکے ہیں اور ان کے شاگرد ان کا نام عزت و احترم سے لیتے ہیں ان کے صاحبزادے ان کے فن کو آگے بڑھارہے ہیں، لیاری کے ایک اور مشہور فنکار ذوالفقار حسین 20 سال سے زائد عرصہ سے اس فن سے وابستہ ہیں اور بندرگاہ پر واقع تفریح گاہ پورٹ گرینڈ پر اپنے گروپ کے ساتھ فن کا مظاہرہ کرتے ہیں، ذوالفقار حسین کو جمیکا کے مشہور گلوکار سے مماثلت کی وجہ سے باب مارلے بھی پکارا جاتا ہے۔

افریقہ کے جنگلی قبائل کا روپ دھار کرکیا جانے والا رقص لاوا ہے

روایتی بلوچ رقص لہروں پر چلنے جیسا عمل ہے جس میں رقاص کے جس کی لچک اور ہات پیروں سر اور گردن کی سست اور تیز رفتاری سے حرکت قابل دید ہوتی ہے، بلوچی رقاص بھڑکیلے رنگوں والے ریشمی لباس زیب تن کرتے ہیں اور سر اور ہاتھوں پر بھی شوخ رنگ کا رومال باندھتے ہیں رقص کا مظاہرہ کرتے وقت چمکیلا لباس جھل مل کرتا دکھائی دیتا ہے، لیاری کے فنکار بلوچی رقص کے ساتھ جنگلی رقص میں بھی خصوصی مہارت رکھتے ہیں۔


افریقہ کے جنگلی قبائل کا روپ دھار کر کیا جانے والا رقص لاوا کہلاتا ہے جو مقامی زبان میں تبدیل ہوکر لیوا بن چکا ہے دیکھنے والوں کو افریقہ کے قبائل کی جھلک دکھلاتے ہیں چہرے بازؤں اور پورے جسم پر رنگ برنگی لکیریں او ر سر پر پرندوں کے پرو ں کا تاج پہنے لیاری کے یہ فنکار ہوبہو افریقہ کے جنگلی قبائل دکھائی دیتے ہیں اور رقص کے دوران ان ہی قبائل جیسی آوازیں نکالتے ہیں ڈھول پر ہونے والے اس رقص کے دوران رقاص اپنے منہ سے آگ نکالنے کا بھی مظاہرہ کرتے ہیں اور دیکھنے والے خوب لطف اٹھاتے ہیں آگ اگلنے کا مظاہرہ جان کو داؤ پر لگاکر کیا جاتا ہے۔

روایتی بلوچ رقص کرنے والوں کو 1500سے 2000 روپے معاوضہ ملتا ہے جبکہ جنگلی روپ دھارنے والوں کو 2500 سے 3 ہزار روپے تک کا معاوضہ ملتا ہے، جنگلی روپ دھارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی لیاری کے فنکاروں کا دعویٰ ہے کہ جنگلی قبائل بھی انھیں شناخت کرنے میں دھوکہ کھاسکتے ہیں یہ روپ دھارنے میں اس قدر مہارت حاصل کرچکے ہیں کہ 15 سے 20 منٹ میں جنگلی روپ دھار لیتے ہیں۔

کھیلوں کی سرپرستی رکنے سے لیاری کے نوجوان متاثر ہوئے

لیاری کے نوجوانوں کو رقص و موسیقی، فٹ بال، سائیکلنگ، باکسنگ، جوڈ و کراٹے ، اتھلیٹ، گدھا گاڑی اور سائیکل ریس سے جنون کی حد تک لگائو ہے، سخت جسمانی ساخت اور بلند حوصلوں کی وجہ سے لیاری کے نوجوان دنیا کی کسی بھی اسپورٹس ٹیم سے مقابلہ کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں لیکن مختلف سرکاری اور نجی اداروں کی جانب سے کھیلوں کی سرپرستی کا سلسلہ ترک کیے جانے سے لیاری کی صلاحیتوں کے فروغ کا عمل بھی رک چکا ہے، بدامنی کے تاریک دور نے لیاری کو کئی دہائیوں پیچھے دکھیل دیا،کھیلوں کی سرپرستی کرتے ہوئے لیاری کے نوجوانوں کا احساس محرومی ختم کیا جاسکتا ہے، لیاری سے کامیاب ہونے والی تحریک انصاف نے بھی نوجوانوں کو سبز باغ دکھائے لیکن تاحال لیاری کے نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی ان کی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے پلیٹ فار م مہیا نہیں کیا۔

ماضی میں بھی پیپلز پارٹی نے لیاری کے نوجوانوں کا استحصال کیا جس کا نتیجہ عام انتخابات کی مہم کے دوران بلاول بھٹو کے قافلے کو روکنے کی شکل میں سامنے آیا، لیاری کے نوجوانوں کسی بھی دوسری زبان بولنے والوں کی طرح باصلاحیت ہیں لیاری میں تعلیم کا رجحان بھی رو ز بہ روز تقویت اختیار کررہا ہے لڑکوں کے ساتھ بچیاں بھی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش مند ہیں لیاری سے تعلق رکھنے والے کئی نامو ر شاعر ادیب، سیاسی و سماجی رہنما، اساتذہ اور ہنرمند دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرچکے ہیں، سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی نے لیاری کو فراموش کیے رکھا تاہم اب لیاری کے نوجوان وزیراعظم عمران خان کے وعدوں کی تکمیل کے منتظر ہیں لیاری کے نوجوانوں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم خود کھلاڑی ہیں اور کھیل کے ذریعے لیاری میں دیرپا امن قائم کرنے کے ساتھ لیاری کے نوجوانوں کا مسقبل سنوار سکتے ہیں۔

نبیل لیاری کے کمسن بچوں کو فٹ بال کی تربیت دیتے ہیں
لیاری کے فنکار نبیل احمد فٹ بال کے بہترین کھلاڑی ہیں اور لیاری کے کمسن بچوں کو فٹ بال کی تربیت بھی فراہم کرتے ہیں، نبیل سے تربیت حاصل کرنے والے کم سن فٹ بالرز قطر میں انڈر ٹین مقابلوں میں حصہ لے چکے ہیں اور اب وہ اس ٹورنامنٹ کے لیے اگلی ٹیم کی تربیت کررہے ہیں۔ لیاری کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے 25 بچے نبیل سے تربیت حاصل کررہے ہیں گزشتہ سال 40 بچوں کا گروپ تربیت مکمل کرچکا ہے۔

نبیل احمد دن بھر محنت مزدوری اور شام کو شادی بیاہ میں فن کا مظاہرہ کرنے کے بعد رات نو سے 10 بجے گبول پارک میں بچوں کو تربیت فراہم کرتے ہیں اور اپنے شوق کی تسکین کے لیے ان بچوں کو مختلف ٹورنامنٹ میں شرکت میں مدد دیتے ہیں، نبیل اپنی محنت کی کمائی بچوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے پر بھی خرچ کرتے ہیں اور ٹورنامنٹ میں شرکت کے لیے سفری آمدورفت پر بھی اخراجات برداشت کرتے ہیں، نبیل احمد خود بھی لیٹ آف بلوچ کلب سے وابستہ ہیں جو ایک رجسٹرڈ فٹ بال کلب ہے نبیل احمد کے تربیت یافتہ بچوں کو کراچی یونائیٹڈ نے منتخب کیا اور انھیں قطر میں ٹورنامنٹ تک پہنچانے میں مدد دی۔

کوک اسٹوڈیو والے مجھے ڈھونڈتے ہوئے لیاری آئے، نبیل احمد

تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے کوئی مستقل نوکری نہیں ملی اس لیے فن کے اظہار کو پیٹ پالنے کا ذریعہ بنالیا اور محنت اور لگن کی وجہ سے ان کو ملک کے مختلف شہروں کے علاوہ عمان اور خلیجی ریاستوں میں بھی اپنے فن کے اظہار کا موقع مل چکا ہے یہ بات نبیل احمد نے گفتگو میں کہی انھوں نے کہا کہ لاہور کے قذافی اسٹیڈیم اور اسلام آباد میں ہونے والی سرکاری ثقافتی تقریبات میں غیرملکی فنکاروں کے ساتھ بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔ نبیل احمد نے کوک اسٹوڈیو سیزن 11میں حسن جہانگیر اور گلوکارہ گل پانا کے ساتھ بھی مشہور گانے ہوا ہوا کے لیے ڈھول بجایا، نبیل احمد نے بتایا کہ کوک اسٹوڈیو والوں نے بھی لیاری میں پتہ پوچھتے پوچھتے رابطہ کیا تھا ۔

نبیل نے اپنے استاد کو آگے رکھا اور 3روز تک ریہرسل کی فائنل ریکارڈنگ کے دن صبح 9بجے سے رات ساڑھے نو بجے تک اسٹوڈیو میں گزارا، کوک اسٹوڈیو کے دیگر سازندوں اور فنکاروں نے ان کی حوصلہ افزائی کی نبیل اپنے مداحوں کو جب کوک اسٹوڈیو میں فن کے مظاہرے کا بتاتے ہیں تو وہ بڑے شوق سے پوری وڈیو دیکھتے ہیں لیکن کوک اسٹوڈیو نے اس وڈیو میں نبیل کو پس منظر میں دکھایا جس سے اس سادے انسان اور فن کی قدآور شخصیت کو شایان شان مقام نہ مل سکا۔
Load Next Story