کیا ہمارا قانون انصاف فراہم کرتا ہے

پاکستان کا ریاستی ڈھانچہ اور قوانین بنیادی طور پر برطانوی راج سے ورثے میں ملے ہیں

انصاف کی فراہمی کسی بھی انسانی سماج کی بنیادی قدر اور ریاست کا سب سے بڑا جواز ہے تاہم تمام انسانی معاشروں میں انصاف کا تصور یکساں نہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ مختلف ادوار میں مختلف تہذیبوں کا تصورِ انصاف جدا جدا رہا ہے۔ جاگیردارانہ یا قبائلی سماج میں انصاف کا مفہوم جمہوریت سے مختلف ہے۔ جمہوری معاشرے میں انصاف سے مراد شفافیت کے ساتھ معاشی یا سماجی مقام و مرتبے سے قطع نظر قانون کا نفاذ ہے۔

پاکستان کا ریاستی ڈھانچہ اور قوانین بنیادی طور پر برطانوی راج سے ورثے میں ملے ہیں۔ آزادی کے بعد سے ہم انصاف کے اس افادیت پسندانہ تصور ہی کی جانب سست روی سے قدم اٹھا رہے ہیں، برطانوی سماج جس سے بہت آگے بڑھ چکا۔ اس تصور میں انصاف کو دراصل اس کے بہترین نتائج اور نتائج کو ان کی افادیت سے جانچا جاتا ہے۔انصاف کے اس مفہوم سے واضح ہے کہ یہ تصور صرف مادّی جہت تک محدود ہے۔ اراکین پارلیمنٹ اور سیاست داں ، جن میں غالب اکثریت جاگیر داروں کی ہے، وہ اپنے، اپنے خاندان، برادری ، ساتھیوں اور دوستوں کی ''بھلائی'' خوب سمجھتے ہیں اور قانون سازی کرتے ہوئے ملک کی فلاح و بہبود کے بجائے ان کی اولین ترجیح بھی یہی مفادات ہوتے ہیں۔ شاید پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں جاگیردارانہ نظام باقی ہے اور پھل پھول رہا ہے۔

قیام کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام تو ریاست کو مل گیا مگر اس تصور میں حقیقت کا رنگ بھرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ عدل اسلام کے مرکزی تصورات میں شامل ہے اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ''عادل'' اﷲ تعالی کے اسمائے الحسنیٰ میں شامل ہے۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر انصاف کے مفہوم کو واضح اور اس کے نفاذ کے لیے مثالیں اور اصول بیان فرمائے گئے ہیں۔

انصاف کا اسلامی مفہوم دو اعتبارات سے پاکستان کے نظام قانون و انصاف سے مختلف ہے۔ اول، انصاف صرف مادّی نہیں بلکہ روحانی جہت بھی رکھتا ہے، دوم یہ کہ مسلم و غیر مسلم، امیر و غریب یا کسی بھی امتیاز و تفریق کے بغیر معاشرہ عدل و انصاف کا یکساں استحقاق رکھتا ہے۔

انصاف کی اس تفہیم پر مبنی قوانین میں پوشیدہ غلط کاریوں پر بھی گرفت کی جاتی ہے۔ لیکن پاکستانی قوانین چوں کہ جاگیرداروں نے اپنے ہی طبقے کے لیے بنائے ہیں، اسی لیے اس میں دولت کی خفیہ لوٹ مار کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ ہم بھلا کیسے کسی کی دولت کو لوٹ کا مال کہہ سکتے ہیں ، اگر ہمارے پاس ان ناجائز ذرایع کے لیے ثبوت ہی نہ ہوں؟ اس سوال کا جواب ''ذرایع آمدن سے زاید دولت'' کا کلیہ ہے ، جس کا مستعدی اور بے رحمی سے اطلاق کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک دیانت دار فرد اپنے ذرایع آمدن کے بارے میں آسانی سے تفصیلات بتا سکتا ہے اور اگر کسی کو اس میں تامل ہو تو شبہ پیدا ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت حال میں ''بار ثبوت'' کا تعین کرکے نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے ملکیت رکھنے والے کو ذرایع آمدن ، زمین یا دیگر اثاثوں کے حصول کے ذرایع اور ان پر ادا کیے گئے ٹیکس کی تفصیلات فراہم کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ اگر وہ یہ شواہد فراہم نہ کرسکے تو جب تک اُن ذرایع کی تفصیلات فراہم نہیں کردی جاتیں، ایسے اثاثے اس وقت تک ریاستی تحویل میں لے لینے چاہئیں۔


ہمارا بنیادی مسئلہ ناقص قانونِ شہادت ہے جو اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگی نہیں رکھتا۔ جب ہم کہتے ہیں کہ انصاف میں تاخیر بھی ناانصافی ہے تو کیا ہمیں تکنیکی مین میخ نکال کر قانونی عمل کو تاخیر کا شکار کرنے والے چالاک وکیلوں کو روکنے کی بھی کوشش نہیں کرنی چاہیے؟ منی لانڈرنگ کے مقدمات میں بہت جلد نتیجے تک پہنچا جاسکتا ہے، لیکن یہ عدالتوں میں کھنچتے چلے جاتے ہیں۔ وکلا کو تکنیکی اعتبار سے قانون کے نفاذ کے لیے ''عدالت کا مددگار'' تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے بجائے وہ اپنے مؤکل کے خلاف پیش ہونے والے ہر ثبوت کو یا تو عدالت میں پیش ہونے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں یا اسے عدالت کے لیے ناقابل قبول بنانے کے لیے مختلف قانونی داؤ پیچ کا سہارا لیتے ہیں۔

پھر ہم نے جھوٹی گواہی کی روک تھام کے لیے کیا کیا؟جھوٹی گواہی اور عدالت کو گمراہ کرنے کے ہتھکنڈے استعمال کرنے والے انتہائی خطرناک مجرم ہیں ، اس لیے کہ وہ ملکی قوانین اور عدالتی نظام کے اصل ہدف یعنی انصاف کی فراہمی میں خلل ڈالتے ہیں۔ انصاف کی فراہمی ہی سے اداروں یا حکومت کا اعتبار قائم ہوتا ہے، اگر وہ اس میں ناکام ہوجائیں تو ان کا بھرم قائم نہیں رہتا، دوسری جانب یہی نظام اور ریاست کی جڑیں کم زور ہونے کا باعث بنتا ہے۔ ملک کے دیانت دار شہری تو عدالت جانے کا حوصلہ نہیں کرپاتے کیوں کہ انھیں انصاف کی امید ہی نہیں ہوتی جب کہ مجرم بے خوف ہو کر عدالتوں میں جاتے ہیں کیوں کہ انھیں پورا یقین ہوتا ہے کہ وہ اپنے مرضی کے نتائج حاصل کرنے میں کام یاب ہوجائیں گے۔ اسی لیے عدالتی نظام میں انصاف کی فراہمی بہتر بنانے کے لیے جھوٹی گواہی کی روک تھام کے لیے متعلقہ قوانین پر مکمل عمل درآمد انتہائی ضروری ہے۔

انصاف کا بنیادی اصول یہ ہے کہ قانون کی نظر میں ہر کس و ناکس برابر ہے، یکساں طور پر یہ سب پر لاگو ہوتا ہے، چاہے وزیر اعلیٰ ہو یا ایک عام شہری۔ لیکن پاکستان میں آج تک اس بات کو نہیں سمجھا گیا۔ یہاں کچھ ''معزز خاندان'' ہیں اور دیگر وہ ہیں جو بے پناہ دولت کے بل بوتے پر شرفاء میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد یا تو قانون کا اطلاق برابری پر نہیں ہوتا یا سرے سے فراموش کردیا جاتا ہے لیکن جدید جمہوریت میں ہر پاکستانی ایک مثالی شہری کے طور پر نظام عدل اور اس کے عمل درآمد کی تفہیم تو کرسکتا ہے اور اگر اس کی دیانت پر سوال اٹھے تو قانون کے سامنے سر تسلیم خم کرسکتا ہے۔ دنیا میں کہیں بھی کرپشن کا مقابلہ کرنا ایک مشکل کام ہیں لیکن پاکستان میں یہ اس لیے بھی مزید پیچیدہ ہوجاتا ہے کہ یہاں حکمراں طبقے اور برسر اقتدار سیاست دانوں کی غالب اکثریت اس مرض کی دوا نہیں بلکہ اس کا سبب ہیں۔

ہمارے مسئلے کا حل اس نکتے کو سمجھنے میں مضمر ہے کہ ہم جس ریاستی نظام پر اصرار کررہے ہیں، وہ ہمارے سماج سے ہم آہنگ نہیں۔ مغرب کا نظام عدل چوں کہ مادی جہت تک محدود ہے اس لیے وہاں اخلاق اور روحانی قدروں کی پامالی کا احتساب ممکن نہیں، یہ وہ عدل نہیں جو الہامی تصور عدل سے مطابقت رکھتا ہے جس کا پیغام انبیاء ؑ نے دیا۔مغرب اس حوالے سے اپنی سمت کا تعین کرچکا۔ تبھی وہاں کہا جاتا ہے کہ ''مجرم ثابت ہونے تک ہرکوئی بے گناہ ہے''۔ لیکن کیا ایک اسلامی مملکت میں یہ اصول اسی طرح لاگو ہونا چاہیے؟

لوٹ کا مال لوٹ کا ہی کہلائے گا جب تک کچھ اور ثابت نہیں ہوجاتا۔ مشکوک یا گناہ گار کو کچھ اور ثابت ہوجانے تک یہی سمجھا جائے گا۔ چھپائی گئی دولت اور اثاثوں کے باوجود اگر کوئی قانون کی گرفت سے بچ نکلتا ہے تو ایسے لوگ دراصل معاشرے کو غیر محسوس طریقے سے بددیانت بنا رہے ہوتے ہیں۔ جب ایک اس طرح بچ سکتا ہے تو دوسرا کیوں نہیں؟ اسلام کے نظام عدل میں ظاہر و باطن کی تفریق نہیں پائی جاتی۔ ایک اسلامی معاشرے میں قانون کا نفاذ ظاہر تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس کی روح مطلوب ہوتی ہے۔ عدل وہی ہے جسے خدا نے عدل فرمایا۔ مسلمانوں کے لیے اس دنیا ہی نہیں اگلے جہان کے لیے بھی یہ سوال اہم ہے کہ قانون کون بناتا ہے، اس کا نافذ کرنے والا کون ہے اور اس سے روگردانی کس نے کی۔

اس تناظر میں اس سوال کا کیا جواب دیا جائے کہ ہمارے ملک میں نافذ قانون شہادت انصاف کی فراہمی میں معاون ہے یا اس کی راہ میں رکاوٹ؟
Load Next Story