جماعت اسلامی کو قاضی حسین کی تلاش
سراج الحق کو چاہیے کہ وہ بدلتے منظر نامے میں جماعت اسلامی کی سیاست کا رخ متعین کریں
قاضی حسین احمد کو خالق حقیقی سے ملے چھ سال ہو گئے۔ لیکن شاید آج بھی جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کی تلاش میں ہے۔شاید آج بھی جماعت اسلامی ان کی کمی پوری نہیں کر سکی۔ قومی منظر نامے پر ان کی کمی کا ایک احساس ہے ۔ قاضی حسین احمد کی وفات سے جماعت اسلامی یتیم ہوگئی اور اس یتیمی کے احساس میں روز بروز اضافہ ہی ہوا ہے ۔ شاید میری بات سے کچھ لوگ اختلاف کریں لیکن آج جماعت اسلامی کو مولانا مودودی کی کمی اتنی محسوس نہیں ہوتی جتنی قاضی حسین احمد کی ہو رہی ہے۔ خدا نخواستہ میں دونوں شخصیات کا موازنہ نہیں کر رہا۔ لیکن کہیں نہ کہیں یہ احساس ہے کہ مولانا مودودی کے بعد قاضی حسین احمد نے جماعت اسلامی کو سنبھال لیا تھا۔ لیکن ان کے بعد جماعت اسلامی کی حالت سب کے سامنے ہے۔
میرا قاضی حسین احمد سے تعارف برادرم امیر العظیم کی وساطت سے ہوا۔ 1991-1992کی بات ہے۔ میں نے نئی نئی رپورٹنگ شروع کی تھی۔ بچپن کے دوست نعمان کی وساطت سے امیر العظیم صاحب سے ملاقات ہوئی۔ میں نے قاضی حسین احمد سے ملاقات کی خواہش کی۔ وہ مسکرائے اور انھوں نے نعمان کی سفارش پر ملاقات کرادی۔ بس پھر میرا قاضی حسین سے ایک قریبی تعلق قائم ہوگیا۔ ساتھ سفر بھی کیا اور غیر رسمی گپ شپ کی ان گنت محفلیں بھی ہوئیں۔ وہ میری خبروں پر ناراض بھی ہوئے اور صلح بھی ہوتی رہی۔
قاضی حسین احمد کے ناقدین ان کی سیاست سے اختلاف کر سکتے ہیں۔لیکن اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ انھوں نے اپنے دور امارت میں جماعت اسلامی کو قومی منظر نامہ کے اندر غیر اہم نہیں ہونے دیا۔ انھیں بلا شبہ منظر نامہ اپنے ارد گرد رکھنا آتا تھا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ قاضی حسین احمد کی سیاست میں یکسوئی نہیں تھی۔ وہ ایک جذباتی انسان تھے۔ غصہ بہت آتا تھا۔ پسند نا پسند کے معاملے میں بہت سخت موقف رکھتے تھے۔ لیکن پھر بھی انھوں نے جماعت اسلامی کو پوری قوت سے زندہ رکھا۔
آپ قاضی حسین احمد کو جماعت اسلامی کا بھٹو بھی کہہ سکتے ہیں۔ انھوں نے جماعت اسلامی کو بند کمروں سے عام آدمی تک لے جانے کی شعوری کوشش کی۔ وہ جماعت اسلامی کو عام آدمی جماعت بنانے کی خواہش رکھتے تھے۔ اسی لیے 1993کے انتخابات میں جب انھوں نے پاکستان اسلامک فرنٹ بنایا۔ پاسبان کے نام سے جماعت اسلامی کی ایک نوجوان سیاسی تنظیم بنائی۔ تب وہ جماعت اسلامی کوعام آدمی تک لیجانے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ وہی انتخاب تھا جب ظالمو قاضی آرہا ہے کے نعرہ لگائے گئے۔ برادرم محمد علی درانی کی قیادت میں پاسبان نے انتخابات میں ایک رنگ بھر دیا۔ قاضی حسین احمد کے ترانے بنائے گئے اور جماعت اسلامی کے سابق امیر میاں طفیل نے ان کی کھلم کھلا مخالفت بھی کی ۔ مجھے آج بھی یاد ہے انھی انتخابات کے دوران میں نے منصورہ میں میاں طفیل محمدکا ایک انٹرویو کیا جس میں انھوں نے کہا کہ قاضی حسین احمد تو بھٹو سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ یہ جماعت اسلامی ہے یہاں کسی بھٹو کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ برادرم محمد علی درانی کی ٹیم نے قاضی حسین احمد کی انتخابی مہم کے لیے ایک ترانہ بنایا جو منصورہ کی قدامت پسند قیادت نے روک دیا۔ جس سے پاسبان کے نوجوان بہت دلبرداشتہ ہوئے۔ یہی وہ وقت تھا جب قاضی حسین احمد ایک طرف انتخاب لڑ رہے تھے تو دوسری طرف منصورہ کے اندر بھی ایک جنگ لڑ رہے تھے۔ لیکن تب قاضی حسین احمد جوان تھے۔ ان کے جذبے جوان تھے وہ دونوں محاذوں پر خوب لڑ رہے تھے۔ لیکن وہ انتخاب ہار گئے۔ پھر قاضی حسین احمد نے ایک شام اچانک جماعت اسلامی کی امارت سے استعفیٰ دے دیا۔ وہ اپنا استعفیٰ دیکر جا چکے تھے۔ یہ بھی صرف قاضی حسین احمد ہی کر سکتے تھے۔وہ اپنے گھر پر نہیں تھے۔ منصورہ میں نہیں تھے۔ بہن بھائیوں کے گھر پر نہیں تھے۔ دوستوں عزیز و اقارب کے گھر پر نہیں تھے۔ جماعت سلامی ان کی تلاش میں تھی اور وہ نہیں مل رہے تھے۔ بعد میں پتہ چلا کہ ننھیال کے گاؤں میں چلے گئے ہیں۔بڑی مشکل سے انھیں واپس لایا گیا۔ انھوں نے استعفیٰ واپس لینے سے انکار کر دیا۔
جماعت اسلامی ایک جمہوری جماعت ہے۔ بے شک قاضی حسین احمد نے استعفیٰ دے دیا تھا لیکن اگلا امیر کون ہو گا، یہ فیصلہ نہ تو مرکزی مجلس شوریٰ کے ہاتھ میںتھا اور نہ ہی کوئی اور یہ فیصلہ کر سکتا ہے۔ جماعت اسلامی میں امیر جماعت اسلامی کا دوبارہ انتخاب ہوا۔ قاضی حسین احمد عام انتخابات میں تو ہار گئے لیکن امیر جماعت کا انتخاب دوبارہ جیت گئے۔ جماعت اسلامی کے عام کارکن نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انتخابات سے بائیکاٹ کی سیاست قاضی حسین احمد کی سیاست کا کو ئی مثبت پہلو نہیں ہے۔ الیکشن بائیکاٹ نے جماعت اسلامی کی سیاست کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا۔ مستحکم ووٹ بینک ٹوٹ گیا۔کارکن سیاسی عمل سے دور ہو گیا۔ قاضی حسین احمد کا انداز سیاست اتحادی سیاست کے لیے بھی موزوں نہیں تھا۔ اسی لیے اتحاد بناتے اور توڑتے رہے۔ سخت فیصلہ کرنا اور نفع نقصا ن کی پرواہ کیے بغیر اس پر قائم رہنا ان کا خاصا تھا۔ ان کے فیصلوں سے جماعت اسلامی کو نقصان بھی ہوا اور فائدہ بھی ہوا۔
آج جماعت اسلامی جمہوری انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔ قاضی حسین احمد کے بعد دو امیر آچکے ہیں۔ سید منور حسن امیر بنے لیکن وہ قاضی حسین احمد نہیں تھے۔ سراج الحق امیر بنے ہیں۔ لیکن وہ بھی قاضی حسین احمد نہیں ہیں۔اسی لیے قاضی حسین احمد کی کمی آج بھی محسوس ہو رہی ہے۔ شاید کہیں یہ احساس بھی ہے کہ جماعت اسلامی کو قاضی حسین احمد کی تلاش ہے۔
آج سراج الحق کو چاہیے کہ وہ بدلتے منظر نامے میں جماعت اسلامی کی سیاست کا رخ متعین کریں۔ اسے حالات کے رحم وکرم پر مت چھوڑیں۔ مجھے احساس ہے کہ سراج الحق نے انتخابی سیاست کو بہت اہمیت دی لیکن حالیہ انتخابات میں انھیں مطلوبہ نتائج نہیں ملے ہیں۔ ووٹ بینک دن بدن کم ہو رہا ہے۔ جماعت اسلامی کو ایک نئی روح اور ایک نئی سمت کی تلاش ہے۔
ملک میں انصاف کی کمی ہے۔ احتساب عدالتوں میں کرپشن کے ہزاروں مقدمات ایر التوا ہیں۔نیب میں لاکھوں انکوائریاں زیر التوا ہیں۔ کرپشن کے خلاف جنگ تب تک نہیں جیتی جا سکتی جب تک احتساب عدالتیں اور نیب ٹھیک کام نہ کرے۔ سراج الحق کو چاہیے ملک کے سیاسی منظر نامہ سے خود کو الگ کر کے جماعت اسلامی کو صرف احتساب اور انصاف تک محدود کر لیں۔ نیب اور نیب عدالتوں پر دباؤ بڑھائیں۔ کرپشن کے خلاف نئے ریفرنس دائر کریں۔ یہ کام جماعت اسلامی صرف اس لیے کر سکتی ہے کہ اس کے کسی بھی لیڈر کے خلاف کرپشن کا کوئی الزام نہیں۔ نیب میں ان کی کوئی انکوائری زیر التوا نہیں۔ احتساب عدالتوں میں ان کا کوئی ریفرنس زیر سماعت نہیں۔ اس لیے میری رائے میں ملک میں کرپشن کے خلاف جنگ اور حقیقی احتساب اور انصاف کے لیے جماعت اسلامی کے سوا کوئی جماعت جدو جہد نہیں کر سکتی۔ اس مقصد کے لیے انھیں ملک کے نوجوانوں کی حمایت بھی مل جائے گی اور ناراض ووٹ بینک بھی واپس آجائے گا۔