چشم بینائے قوم ذرایع ابلاغ
بقول جیمزایلس’’ اخبار دنیا کی شکل کو منعکس کرنے والے آئینے ہوتے ہیں۔
WASHINGTON:
صد افسوس ! گزشتہ دنوں صحافتی دنیا کا انمول درخشندہ ستارہ جو چند ہی ایام قبل '' مقتدا منصور'' کے نام سے آسمان پر چمک رہا تھا اچانک گل ہوگیا ۔ یقینا مقتدا منصورکی اچانک رحلت دنیائے صحافت کا ناقابل تلافی نقصان ہے ۔ان کا مجموعی عرصہ حیات اڑسٹھ سال رہا ، لیکن پھر بھی وہ اپنی صلاحیتوں کا سکہ اس قلیل عرصے میں منوا گئے۔ ان کی صحافتی کار زار میں گرانقدر خدمات کو کسی بھی لمحہ فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ انھوں نے ہمیشہ سچ کا ساتھ دیا اور جھوٹ سے نفرت کی۔
وہ نہ صرف ایک سینئر صحافی، ادیب، نقاد ، محقق، منجھے ہوئے تجزیہ نگار،کالم نگار ہی نہیں تھے بلکہ لوگوں سے وسیع القلبی کے ساتھ ملنے جلنے کا ڈھنگ خوب جانتے تھے۔ اپنی پیشہ ورانہ صحافتی سرگرمیوں کے اعتبار سے ان کا حلقہ احباب خواہ وہ سیاسی ہو، معاشرتی ہو، سماجی ہو یا ادبی ، بہت وسیع تھا۔ لوگوں کی غم وخوشی دونوں میں اپنی موجودگی کو یقینی بناتے تھے۔ اپنی گونا ںگوں صحافتی مصروفیت کے باوجود انھوں نے خود کو اپنے گھرکی چار دیواری میں محدود نہیں کیا تھا۔ تاریخ برصغیر پاک و ہند پرگہری نظر رکھنے کے حوالے سے تاریخ کے نشیب وفراز سے بھی خوب واقف تھے، بلکہ وہ تاریخ پر عبور رکھنے کی نسبت سے مستند تاریخ کی جامع لغت کہلائے جانے کے مستحق تھے۔ روزنامہ ایکسپریس کے ایڈیٹوریل میں ''صدائے جرس '' کے نام سے اشاعت پذیر ہونے والے کالمز عوام میں خاصے مقبول رہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی ان کے درجات میں بلندی عطا فرمائے۔(آمین)
بقول جیمزایلس'' اخبار دنیا کی شکل کو منعکس کرنے والے آئینے ہوتے ہیں۔'' آ ج کل اخبارات اورالیکٹرونک میڈیا مالی مشکلات سے دوچار ہے ۔ حال ہی میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے سیکڑوں صحافی اور دیگر عملہ بے روزگار ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ ا خباری شعبہ ایک مخصوص قسم کا ورک اسائینمیٹ ہے، اس کام کی زندگی کے کسی بھی دوسرے شعبوں میں کھپت یا نعم البدل نہیں ہوسکتی، لہٰذا وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے کہ انسانی ہمدردی کے تحت ان کے حال پر رحم کیا جائے، درحقیقت یہ معاشرے کا بڑا مظلوم طبقہ ہے۔
قارئین کی یاد داشت کے لیے عرض ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں میں ریاستی سر پرستی میں چلنے والے PTV Network نے زندگی کے تمام اہم شعبوں کو اپنے پہلو میں سمیٹ کر رکھا ہوا تھا۔ صحافت، شعر وادب، تعلیمی، علمی، سماجی، انڈور یا آوٹ ڈورکھیل کے میدان کا معاملہ ہو یا تفریح وطبع کے لیے اصلاحی ڈرامے جو صحافت کا نعم البدل بھی ہوا کرتے تھے اور معاشرے میں رو نما ہونے والے حالات و واقعات اور ان کی اصلاح کی تلاش جیسے امور سر انجام پاتے تھے۔ غرض تیار کیے گئے پروگرام بڑے جامع، معیاری اور دلچسپی کے اعتبار سے عوام میں بے پناہ مقبولیت کے حامل ہوا کرتے تھے، جس کی بنیادی وجہ تھی کہ یہ تمام پروگرامز قابل اور تجربہ کارعملے کی بدولت بڑی محنت سے تیار ہوتے تھے۔
پروگرامزکی ریکارڈنگ کے لیے پی ٹی وی کے اپنے جدیدکیمرے اور حساس آلات کے ساتھ ساتھ ڈیزائن یافتہ دلکش کشادہ اسٹوڈیوز تھے۔ قابل غور ہے یہ امرکہ اس زمانے میں ان پروگرامز پر آنے والے مجموعی اخراجات حکومت پاکستان برداشت کیا کرتی تھی۔ پھر حالات نے کروٹ لی اور معروف کمپنیوں نے اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیے PTV کا سہارا لیا۔ چلتے پروگرام کے دوران پندرہ سے بیس منٹ کا اشتہاری وقفے کا باقاعدہ آغاز ہوگیا ، اشتہارات کے پروموز کی تیاری کے لیے مختلف مارکیٹنک کمپنیوں نے جنم لینا شروع کر دیا۔ یوں PTV نے ایک منافع بخش ادارے کی شکل اختیار کر لی اور اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
شریفوں کا اقتدا ر آیا تو سب سے پہلے وہ ادارے جو ذوالفقار علی بھٹوکے دور میں قومی تحویل میں لیے گئے تھے ، نجی کمیشن کے ذریعے ان اداروں کی نجکاری کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں نجی سطح پر نیوز چینلزکے کھولنے کی اجازت دے دی گئی ۔ یوں ملک میں الیکٹرانک میڈیا کا فروغ شروع ہوگیا جس سے عوام میں آگاہی کے نئے دور کا آغاز ہوا۔
اب ہم پرنٹ میڈیا یعنی اخبارات کی اہمیت و افادیت کی طرف نظر ڈالتے ہیں۔ بقول جیمز ایلس ''اخبار دنیا کی شکل کو منعکس کرنے والے آئینے ہوتے ہیں '' جدید ترقیاتی تبدیلیوں نے کاغذ ی اہمیت کوکسی حد تک متاثر توضرورکیا ہے مگر ہم سمجھتے ہیں کہ کاغذکی اہمیت ماضی کی ضرورت رہی ہے اور مستقبل میں بھی انشااللہ رہے گی ،کیونکہ ہم حقیقت کی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں کہ دنیا گول ہے۔ اخبار تو خبروں کے مجموعے کا نام ہی تو ہے اور خبر کے لیے عام فہم زبان میں پریس کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔
قدیم زمانہ میںصحافت یا پریس کی تعلیم کی شناخت لفظ ابلاغ عامہ ہوا کرتی تھی لیکن الیکٹرانک میڈیا کے آنے سے اس کی ہیت ابلاغ عامہ سے تبدیل ہوکر ماس کمیونیکیشن نے لے لی اور یوں پریس کا نام بھی بدل کر پرنٹ میڈیا مشہور ہوگیا۔ خبریں چھاپنا اور تازہ ترین صورتحال سے عوام کو باخبر رکھنا اور رونما ہونے والے حالات و واقعات پر اخبارات تنقید وتبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہارکرنا پریس کی بنیادی ذمے داریو ں کا احاطہ کرتی ہیں۔ اخبارات اپنی ان ذمے داریوں کو بخوبی نبھا رہے ہیں۔
آ پ کو یاد ہوگا کہ کسی زمانے میں اہم خبرکی اشاعت ایک صفحے پر مشتمل ہوا کرتی تھی اور ہاکرز بلند آواز میں گلی محلوں میں اس خبر کی سرخی کی صدائیں لگایا کرتا تھا جسے عرف عام میں ''ضمیمہ '' یا supplement کہا جاتا تھا۔ کیونکہ اس زمانے میں الیکٹرونک میڈ یا اتنا فعال نہیں ہوا تھا جتنا کہ آج ہے۔ کسی بھی ملک میں ہر عام آدمی کو رائے کے اظہار کی آزادی کا بنیادی حق ہی دراصل درست پیرائے میں جمہوری عمل ہے کیونکہ آزادی تحریر و تقریر کے بغیر قومیں گلاب کے اس پودے کی طرح مر جھا جاتی ہیں جو ایسی جگہ رکھا ہو جہاں اسے دھوپ اور ہوا میسر نہ آئے۔اسی لیے شاعر مشرق اور تصور پاکستان کے خالق علامہ محمد اقبال اپنے آخری اور ابدی سانسوں تک اس کا برملا اظہارکچھ ان مختصر الفاظ میں ادا کرگئے ''ذرایع ابلاغ چشم بینائے قوم ہیں ۔''
صد افسوس ! گزشتہ دنوں صحافتی دنیا کا انمول درخشندہ ستارہ جو چند ہی ایام قبل '' مقتدا منصور'' کے نام سے آسمان پر چمک رہا تھا اچانک گل ہوگیا ۔ یقینا مقتدا منصورکی اچانک رحلت دنیائے صحافت کا ناقابل تلافی نقصان ہے ۔ان کا مجموعی عرصہ حیات اڑسٹھ سال رہا ، لیکن پھر بھی وہ اپنی صلاحیتوں کا سکہ اس قلیل عرصے میں منوا گئے۔ ان کی صحافتی کار زار میں گرانقدر خدمات کو کسی بھی لمحہ فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ انھوں نے ہمیشہ سچ کا ساتھ دیا اور جھوٹ سے نفرت کی۔
وہ نہ صرف ایک سینئر صحافی، ادیب، نقاد ، محقق، منجھے ہوئے تجزیہ نگار،کالم نگار ہی نہیں تھے بلکہ لوگوں سے وسیع القلبی کے ساتھ ملنے جلنے کا ڈھنگ خوب جانتے تھے۔ اپنی پیشہ ورانہ صحافتی سرگرمیوں کے اعتبار سے ان کا حلقہ احباب خواہ وہ سیاسی ہو، معاشرتی ہو، سماجی ہو یا ادبی ، بہت وسیع تھا۔ لوگوں کی غم وخوشی دونوں میں اپنی موجودگی کو یقینی بناتے تھے۔ اپنی گونا ںگوں صحافتی مصروفیت کے باوجود انھوں نے خود کو اپنے گھرکی چار دیواری میں محدود نہیں کیا تھا۔ تاریخ برصغیر پاک و ہند پرگہری نظر رکھنے کے حوالے سے تاریخ کے نشیب وفراز سے بھی خوب واقف تھے، بلکہ وہ تاریخ پر عبور رکھنے کی نسبت سے مستند تاریخ کی جامع لغت کہلائے جانے کے مستحق تھے۔ روزنامہ ایکسپریس کے ایڈیٹوریل میں ''صدائے جرس '' کے نام سے اشاعت پذیر ہونے والے کالمز عوام میں خاصے مقبول رہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی ان کے درجات میں بلندی عطا فرمائے۔(آمین)
بقول جیمزایلس'' اخبار دنیا کی شکل کو منعکس کرنے والے آئینے ہوتے ہیں۔'' آ ج کل اخبارات اورالیکٹرونک میڈیا مالی مشکلات سے دوچار ہے ۔ حال ہی میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے سیکڑوں صحافی اور دیگر عملہ بے روزگار ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ ا خباری شعبہ ایک مخصوص قسم کا ورک اسائینمیٹ ہے، اس کام کی زندگی کے کسی بھی دوسرے شعبوں میں کھپت یا نعم البدل نہیں ہوسکتی، لہٰذا وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے کہ انسانی ہمدردی کے تحت ان کے حال پر رحم کیا جائے، درحقیقت یہ معاشرے کا بڑا مظلوم طبقہ ہے۔
قارئین کی یاد داشت کے لیے عرض ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں میں ریاستی سر پرستی میں چلنے والے PTV Network نے زندگی کے تمام اہم شعبوں کو اپنے پہلو میں سمیٹ کر رکھا ہوا تھا۔ صحافت، شعر وادب، تعلیمی، علمی، سماجی، انڈور یا آوٹ ڈورکھیل کے میدان کا معاملہ ہو یا تفریح وطبع کے لیے اصلاحی ڈرامے جو صحافت کا نعم البدل بھی ہوا کرتے تھے اور معاشرے میں رو نما ہونے والے حالات و واقعات اور ان کی اصلاح کی تلاش جیسے امور سر انجام پاتے تھے۔ غرض تیار کیے گئے پروگرام بڑے جامع، معیاری اور دلچسپی کے اعتبار سے عوام میں بے پناہ مقبولیت کے حامل ہوا کرتے تھے، جس کی بنیادی وجہ تھی کہ یہ تمام پروگرامز قابل اور تجربہ کارعملے کی بدولت بڑی محنت سے تیار ہوتے تھے۔
پروگرامزکی ریکارڈنگ کے لیے پی ٹی وی کے اپنے جدیدکیمرے اور حساس آلات کے ساتھ ساتھ ڈیزائن یافتہ دلکش کشادہ اسٹوڈیوز تھے۔ قابل غور ہے یہ امرکہ اس زمانے میں ان پروگرامز پر آنے والے مجموعی اخراجات حکومت پاکستان برداشت کیا کرتی تھی۔ پھر حالات نے کروٹ لی اور معروف کمپنیوں نے اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیے PTV کا سہارا لیا۔ چلتے پروگرام کے دوران پندرہ سے بیس منٹ کا اشتہاری وقفے کا باقاعدہ آغاز ہوگیا ، اشتہارات کے پروموز کی تیاری کے لیے مختلف مارکیٹنک کمپنیوں نے جنم لینا شروع کر دیا۔ یوں PTV نے ایک منافع بخش ادارے کی شکل اختیار کر لی اور اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
شریفوں کا اقتدا ر آیا تو سب سے پہلے وہ ادارے جو ذوالفقار علی بھٹوکے دور میں قومی تحویل میں لیے گئے تھے ، نجی کمیشن کے ذریعے ان اداروں کی نجکاری کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں نجی سطح پر نیوز چینلزکے کھولنے کی اجازت دے دی گئی ۔ یوں ملک میں الیکٹرانک میڈیا کا فروغ شروع ہوگیا جس سے عوام میں آگاہی کے نئے دور کا آغاز ہوا۔
اب ہم پرنٹ میڈیا یعنی اخبارات کی اہمیت و افادیت کی طرف نظر ڈالتے ہیں۔ بقول جیمز ایلس ''اخبار دنیا کی شکل کو منعکس کرنے والے آئینے ہوتے ہیں '' جدید ترقیاتی تبدیلیوں نے کاغذ ی اہمیت کوکسی حد تک متاثر توضرورکیا ہے مگر ہم سمجھتے ہیں کہ کاغذکی اہمیت ماضی کی ضرورت رہی ہے اور مستقبل میں بھی انشااللہ رہے گی ،کیونکہ ہم حقیقت کی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں کہ دنیا گول ہے۔ اخبار تو خبروں کے مجموعے کا نام ہی تو ہے اور خبر کے لیے عام فہم زبان میں پریس کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔
قدیم زمانہ میںصحافت یا پریس کی تعلیم کی شناخت لفظ ابلاغ عامہ ہوا کرتی تھی لیکن الیکٹرانک میڈیا کے آنے سے اس کی ہیت ابلاغ عامہ سے تبدیل ہوکر ماس کمیونیکیشن نے لے لی اور یوں پریس کا نام بھی بدل کر پرنٹ میڈیا مشہور ہوگیا۔ خبریں چھاپنا اور تازہ ترین صورتحال سے عوام کو باخبر رکھنا اور رونما ہونے والے حالات و واقعات پر اخبارات تنقید وتبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہارکرنا پریس کی بنیادی ذمے داریو ں کا احاطہ کرتی ہیں۔ اخبارات اپنی ان ذمے داریوں کو بخوبی نبھا رہے ہیں۔
آ پ کو یاد ہوگا کہ کسی زمانے میں اہم خبرکی اشاعت ایک صفحے پر مشتمل ہوا کرتی تھی اور ہاکرز بلند آواز میں گلی محلوں میں اس خبر کی سرخی کی صدائیں لگایا کرتا تھا جسے عرف عام میں ''ضمیمہ '' یا supplement کہا جاتا تھا۔ کیونکہ اس زمانے میں الیکٹرونک میڈ یا اتنا فعال نہیں ہوا تھا جتنا کہ آج ہے۔ کسی بھی ملک میں ہر عام آدمی کو رائے کے اظہار کی آزادی کا بنیادی حق ہی دراصل درست پیرائے میں جمہوری عمل ہے کیونکہ آزادی تحریر و تقریر کے بغیر قومیں گلاب کے اس پودے کی طرح مر جھا جاتی ہیں جو ایسی جگہ رکھا ہو جہاں اسے دھوپ اور ہوا میسر نہ آئے۔اسی لیے شاعر مشرق اور تصور پاکستان کے خالق علامہ محمد اقبال اپنے آخری اور ابدی سانسوں تک اس کا برملا اظہارکچھ ان مختصر الفاظ میں ادا کرگئے ''ذرایع ابلاغ چشم بینائے قوم ہیں ۔''