خیالات کی جیل

ایک معروف کمپنی کا ملازم ایک دن اپنے دفتر پہنچا تو اس کی نگاہ دفتر کے گیٹ پر لگے ہوئے نوٹس پر پڑی، جس پر لکھا تھا۔۔۔

ایک معروف کمپنی کا ملازم ایک دن اپنے دفتر پہنچا تو اس کی نگاہ دفتر کے گیٹ پر لگے ہوئے نوٹس پر پڑی، جس پر لکھا تھا جو شخص کمپنی میں آپ کی ترقی اور بہتری میں رکاوٹ تھا، کل رات اس کا انتقال ہوگیا، آپ سے گزارش ہے کہ اس کی آخری رسومات اور جنازے کے لیے کانفرنس ہال میں تشریف لے آئیں، جہاں پر اس کی میت رکھی ہوئی ہے، یہ پڑھتے ہی وہ اداس ہوگیا کہ اس کا کوئی ساتھی ہمیشہ کے لیے اس سے جدا ہوگیا، لیکن چند لمحوں بعد اس پر تجسس غالب آگیا کہ آخر وہ شخص کون تھا جو اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ تھا۔

اس تجسس کو ساتھ لیے وہ جلدی سے کانفرنس ہال میں پہنچا تو وہاں اس کے دفتر کے باقی سارے ساتھی بھی اسی نوٹس کو پڑھ کر آئے ہوئے تھے اور سب حیران تھے کہ آخر یہ شخص کون تھا۔ کانفرنس ہال کے باہر میت کو دیکھنے کے لیے لوگوں کا اس قدر ہجوم ہوگیا کہ سیکیورٹی گارڈز کو یہ حکم جاری کرنا پڑا کہ سب لوگ ایک ایک کرکے اندر جائیں اور میت کا چہرہ دیکھ لیں۔ ملازمین ایک ایک کرکے اندر جاتے گئے، جو بھی اندر جاتا اور میت کے چہر ے سے کفن ہٹا کر اس کا چہرہ دیکھتا ایک لمحے کے لیے حیرت زدہ اور گنگ ہو کر رہ جاتا، یوں لگتا کہ گویا کسی نے اس کے دل پر گہری ضرب لگائی ہو، اپنی باری آنے پر وہ شخص بھی اندر گیا اور میت کے چہرے سے کپڑا ہٹا کر دیکھا تو اس کا حال بھی دوسروں جیسا ہی ہوا۔ کفن کے اندر ایک بڑا سا آئینہ رکھا ہوا تھا اور اس کے ایک کو نے پر لکھا تھا۔ ''دنیا میں ایک ہی شخص ہے جو آپ کی صلاحیتوں کو محدود کرکے آپ کی ترقی میں رکاوٹ بن سکتا ہے اور وہ آپ خود ہیں۔''

یاد رکھیے آپ کی زندگی میں تبدیلی آپ کی کمپنی تبدیل ہونے سے یا آپ کا باس تبدیل ہونے سے یا آپ کے دوست احباب تبدیل ہو نے سے نہیں آتی، آپ کی زندگی میں تبدیلی تب آتی ہے جب آپ اپنی صلاحیتوں پر اعتبار کرنا شروع کردیتے ہیں، ناممکن کو ممکن اور مشکلات کو صحیح چیلنج سمجھتے ہیں، مطالعہ تاریخ دراصل ایک سائنس ہے، اس میں ذاتی پسند یا ناپسند کاکوئی دخل نہیں ہے۔ تاریخ کوئی عقیدہ نہیں ہے، اس کا مطالعہ عقائد کی بنیاد پر نہیں بلکہ معروضیت کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔

عقیدہ پرستی کے شکنجے میں پھنس کر نہ تو ماضی کی اصل حقیقت سے آگاہی حاصل ہوسکتی ہے، نہ حال کو سمجھا جاسکتا ہے اور نہ مستقبل کے بارے میں کوئی درست پیش گوئی کی جاسکتی ہے۔ نظریہ پاکستان، نظریاتی سرحدیں، اسلامی ریاست، اسلامی نفاذ، نفاذ شریعت یا نفاذ اسلام، احیائے اسلام، اسلامی امہ وغیرہ، اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو ان اصطلاحوں کا استعمال قیام پاکستان سے پہلے کہیں نظر نہیں آتا، ان اصطلاحوں کا استعمال قیام پاکستان کے بعد شروع کیا گیا کیونکہ اس وقت کے حکمران طبقوں کو اقتدار پر اپنے قبضے کے تسلط کو برقرار رکھنے کے لیے ان نعروں اور نظریوں کی شدید ضرورت پڑگئی تھی۔ اس لیے انھوں نے فیصلہ کیا کہ مذہب کو بطور نظریاتی ہتھیار استعمال کیا جائے۔


یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ جب عوام اپنا حق حاکمیت و جمہوری حقوق کا مطالبہ کریں تو اسے اسی نظریہ کے نام پر رد کیا جاسکے۔ جب مشرقی پاکستان کے عوام اپنے حقوق کا مطالبہ کریں، بنگالی کو اکثریت کی بنیاد پر قومی زبان بنانے کا نعرہ لگائیں اور آبادی کی بنیاد پر ایک فرد ایک ووٹ کا مطالبہ کریں، تو کہا جائے کہ نظریہ پاکستان کی نفی کی جارہی ہے اور نظریہ کے نام پر ان مطالبات کو کچل دیا جائے اور ساتھ ساتھ سندھ، پختونخوا اور بلوچستان کے عوام صوبائی خودمختاری کا مطالبہ کردیں تو ان ہی نظریاتی ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا جائے۔

ہندوستان نے آزادی کے فوراً بعد آئین تشکیل دے دیا، جب کہ ہم نے آئین سازی کے عمل کو پس پشت ڈال دیا۔ قائداعظم کی 11 اگست 1947 کی دستور ساز اسمبلی کی افتتاحی تقریر کو رد کرکے قرارداد مقاصد منظور کی گئی، جو قائداعظم کے نظریات کی نفی کرتی تھی اور جو مذہبی نعروں پر مبنی تھی۔ اقلیتی ارکان نے اس کی شدید مخالفت کی اور اس کے خلاف ووٹ دیا۔ اس وقت کے وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل پاکستان چھوڑ کر ہندوستان چلے گئے۔ 1953 میں فسادات کے نتیجے میں لاہور میں پاکستان کا پہلا مار شل لا لگا دیا گیا۔ 1955 میں سندھ، سرحد، پنجاب، بلوچستان کا ون یونٹ بنا کر صوبہ مغربی پاکستان قائم کردیا گیا۔ 1956 میں چوہدری محمد علی نے پہلا دستور بنایا، جس میں پیریٹی کے نام پر مشرقی پاکستان کے 54 فیصد کو مغربی پاکستان کے 46 فیصد کے برابر کردیا گیا۔

یاد رہے یہ چوہدری محمد علی وہی تھے جنھوں نے 60 کی دہائی میں نظام اسلام پارٹی بنائی اور جنھوں نے سیکریٹری جنرل حکومت پاکستان کی حیثیت سے پہلی پریس ایڈوائس جاری کی تھی کہ قائداعظم کی11 اگست کی تقریر کے مکمل متن کو شائع نہ کیا جائے، مگر ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین نے تقریر کا پورا متن شا ئع کردیا تھا۔ 1956 سے 1958 تک چوہدری محمد علی، سر ظفراﷲ، غلام محمد، اسکندر مرزا نے اسلام اور نظریہ کے نام پر ملک کو جمہوریت سے دور رکھا اور سیاسی طور پر غیر مستحکم کردیا اور ایوب خان کے مارشل لا کی راہ ہموار کی۔ ایوب خان کے دس سالہ دور میں اسلام اور نظریے کا بے دریغ باربار اپنے اقتدار کو طو ل دینے کے لیے استعمال کیا گیا۔ یحییٰ خان کے 3 سالہ دور میں تمام سرکاری وسائل دائیں بازوکی جماعتوں کے حوالے کردیے گئے۔

1970 کے پاکستان کے پہلے عام انتخابات کے نتائج کو یہ کہہ کر مسترد کردیا گیا کہ نظریہ پاکستان کی مخالف جماعتیں کامیاب ہوگئی ہیں، اس لیے ان انتخابات کو کالعدم کرکے نئے انتخابات کرائے جائیں۔ مشرقی پاکستان میں ایکشن شروع کردیا گیا، جس کے نتیجے میں 1971 میں ملک دولخت ہوگیا۔ 1972 سے لے کر 1977 تک بھٹو دور میں مذہبی جماعتوں نے اسلام اور نظریہ پاکستان کا بے دریغ استعمال کیا اور 5 جولائی 1977 کو نظریہ پاکستان کے نام پر پاکستان کی پہلی جمہوری و عوامی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ ضیا الحق کے دور میں پاکستان کا سیاسی، معاشرتی، ثقافتی نظام تہہ و بالا کرکے رکھ دیا گیا۔ مذہبی انتہا پسندی جنونیت میں تبدیل ہوگئی، جس کی وجہ سے ملک آتش فشاں کے دہانے پر پہنچ گیا، بعد میں پرویز مشرف دور نے رہی سہی کسر پوری کردی۔

قانونی مقولہ ہے ایک غلطی تو بہت کچھ غلط، جب کہ کنفیوشس کہتا ہے، غلطی کو غلطی جان کر بھی اس کی اصلاح نہ کرنے والا ایک اور غلطی کررہا ہے۔ آج ہم شدید فکری اور نظریاتی انتشار کا شکار ہیں، انھی غلطیوں کی وجہ سے ہم ایسی گاڑی میں سوار ہوچکے ہیں جس کی کوئی منزل ہی ہے نہیں، جس کے بریک فیل ہوچکے ہیں، جو تیزی سے مکمل ناکامی کی طرف بڑھ رہی ہے اور حد تو یہ ہے کہ ہم اسے روکنے کی کوئی بھی کوشش نہیں کررہے۔ منفی اور فرسودہ خیالات کو بہتر خیالات ہی سے شکست دی جاسکتی ہے۔ خیالات ہی انسانی زندگی اور اس کے ہر معاملے کی بنیاد ہیں لیکن انھیں عملی شکل دینا ضروری ہوتا ہے۔ شیکسپیئر نے کہا تھا اپنے خیالات کو اپنا جیل خانہ مت بناؤ۔ جب تک ہم اپنے رجعت پسند، فرسودہ، منفی خیالات کو نئے اور روشن خیالات سے تبدیل نہیں کریں گے کچھ بھی تبدیل ہونے والا نہیں۔
Load Next Story