’’عربی کو شامل نصاب کیاجائے‘‘

چھوٹے بچوں کا ذہن خالی سلیٹ کی مانند ہوتا ہے، سادہ سلیٹ پر جو لکھاجائے اور پھر پڑھایاجائے۔


Naseem Anjum July 13, 2013
[email protected]

چھوٹے بچوں کا ذہن خالی سلیٹ کی مانند ہوتا ہے، سادہ سلیٹ پر جو لکھاجائے اور پھر پڑھایاجائے۔ بچہ وہی یاد کرتا ہے۔ اس کے دل ودماغ میں تختی کے الفاظ سماجاتے ہیں اور یہ سبق اسے ہمیشہ یاد رہتاہے۔ وہ کبھی نہیں بھولتا ہے۔

ہر طالب علم مہد سے لے کر لحد تک کچھ نہ کچھ کسی نہ کسی حوالے سے سیکھتا رہتاہے اور تعلیمی سفر جاری رکھتاہے۔ قرآن پاک میں بھی اﷲ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے جو سب سے پہلے وحی بھیجی اس کا پہلا لفظ ہی ''اقرأ '' تھا یعنی ''پڑھ'' اسلام میں تعلیم کی بے حد اہمیت ہے، وہ تعلیم جس سے خود بھی فائدہ اٹھایاجائے اور دوسرے بھی اس سے استفادہ کرسکیں۔

حال ہی کی خبر کے مطابق پہلی جماعت کا نصاب تبدیل کردیاگیا ہے اور یہ نصاب پرویز مشرف کے دور حکومت میں بنایاگیاتھا۔ نیز یہ کہ 2013کے لیے پہلی جماعت کی درسی کتابیں ایک اضافی مضمون جنرل نالج کے ساتھ سرکاری اسکولوں میں بھجوادی گئی ہیں۔ اس طرح پہلی جماعت میں پڑھانے والے مضامین کی تعداد پانچ ہوچکی ہے۔ اس کے علاوہ پچھلے برسوں میں پڑھائے جانے والے مضامین بھی تبدیل کیے گئے ہیں۔ نئے ایڈیشن میں آنے والی تینوں مضامین کی درسی کتب بھی سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں منظور کیے جانے والے نصاب کے مطابق شائع کی گئی ہیں۔

ابتدائی جماعتوں کا کورس اس طرح ہونا چاہیے کہ جن کے پڑھنے سے مثبت تبدیلیاں رونما ہوں۔ اگر جھوٹ اور غیبت کے حوالے سے بچوں کے لیے دلچسپ مضامین اور کہانیاں شامل نصاب ہوں تو بچے یہ بات جاننے کے بعد کہ برائی کا انجام برا ہوتا ہے تو وہ کبھی جھوٹ نہیں بولیںگے چونکہ ایک جھوٹ (اپنے عیبوں کو چھپانے کے لیے) دس جھوٹ بلواتاہے اور جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ انسان کی عزت ووقار جھوٹ بولنے کی ہی وجہ سے کم ہوتی ہے اور پھر اﷲ تعالیٰ نے جھوٹ پر لعنت بھی بھیجی ہے۔ لیکن افسوس ہمارے ملک میں نہ کہ دھڑلے سے جھوٹ بولاجاتاہے بلکہ حلف بھی جھوٹے اٹھالیے جاتے ہیں اور کسی قسم کی پشیمانی بھی نہیں ہوتی۔ جھوٹ اس ہی وقت اور وہی لوگ بولتے ہیں جن کی گھٹی میں جھوٹ شامل ہو اور جو شروع ہی سے بات بات پر جھوٹ بولتاہے بلکہ یوں کہاجائے کہ بولتا نہیں ہے بلکہ بولنا پڑتاہے کہ اس نے کوئی اچھا کام ہی نہیں کیا جسے وہ خوشی خوشی دوسرے کو بتائے۔

جس نصاب کے پڑھنے سے بچوں میں خوشگوار تبدیلی رونما نہ ہو اس کا پڑھنا اور نہ پڑھنا بے کار ہے۔ اس حوالے سے اساتذہ، اسکول انتظامیہ اور دوسرے متعلقین کا اولین فرض ہے کہ وہ اس محنت اور محبت کے ساتھ سبق پڑھائیں کہ طالب علموں کے دلوں میں اچھی باتیں گھر کرلیں۔ اور وہ خود ''مثال'' بن کر دکھائیں۔ ہمارے یہاں ہوتا یہ ہے کہ اساتذہ اپنی ذمے داریوں سے چشم پوشی کرتے ہیں اور انھیں کوئی دیکھنے والا نہیں ہوتا ہے۔ اس ہی لیے وہ من مانی کرتے ہیں۔

زیادہ تر کلاسیں خالی رہتی ہیں اور اساتذہ یا تو سرے ہی سے غیر حاضر یا پھر گپ شپ کرنے میں مصروف۔ کئی سرکاری اسکولوں کے حالات میرے سامنے ہیں۔ مزدور پیشہ حضرات کے بچے گورنمنٹ اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں، خواتین اساتذہ کا یہ حال ہے کہ بعض اوقات گھروں سے سبزی، ادرک، لہسن لے آتی ہیں اور جماعت کے بچے پڑھنے کی بجائے لہسن کے جوے چھیلنے اور سبزی کاٹنے میں مصروف رہتے ہیں اور اساتذہ گھریلو قصے کہانیاں بیان کرنے میں پیش پیش نظر آتی ہیں۔

اب ان بے چارے بچوں کا مستقبل تو ہوگیا برباد، جب کچھ سیکھنے، پڑھنے، لکھنے کے مواقعے فراہم نہیں کیے جائیںگے تو یقیناً بچہ نقل کرکے ہی پاس ہوگا۔ اور بڑی کلاسوں تک پہنچنے تک یہ عادت پختہ ہوچکی ہوگی اور اگر سرکاری افسران معائنہ کے لیے آگئے تو نقل کرتے ہوئے بچے پکڑے جاتے ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ نقل کرنے کا موقع کیوں دیاگیا...؟ اگر کلاس میں توجہ سے پڑھایاجاتا، ٹیسٹ باقاعدگی کے ساتھ لیے جاتے تو یقیناً یہ نوبت ہرگز نہ آتی۔

نیکیوں کا اجالا پھیلانے کے لیے محنت اور خلوص نیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ تب ہی روشنی دور تک پھیلتی ہے۔ نیک مقاصد کے لیے زندگی کو وقف کرنا پڑتاہے۔ ان کی محنت اور خلوص کے نتیجے میں بہت سارے بچوں کو منزل مل جاتی ہے اور کل کے چھوٹے بچے آنے والے وقت میں نابغہ روزگار شخصیات بن جاتی ہیں۔

ایسی قومیں وجود میں آتی ہیں جن کے نیک ارادے سیسہ پلائی دیوار کی طرح ہوتے ہیں۔ انھیں نہ کوئی سکوں کے لالچ میں خرید سکتاہے اور نہ وہ طمع کے عوض بکتے ہیں۔ اپنے ملک کے استحکام اور بقا کے لیے اپنی جانیں قربان کرلیتے ہیں جیسا کہ کشمیر میں اور پاکستان کے بنتے وقت حالات سامنے آئے۔ لیڈر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے اپنے ملک کی حفاظت کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کو برباد کرنے، غداری کی ایک نہیں بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ لیکن الحمدﷲ پاکستان قائم ودائم ہے کہ اس کی بنیادوں میں شہیدوں کا لہو شامل ہے۔ دیانت، راست بازی اور لا الٰہ الا اﷲ سے اس کا خمیر اٹھا اور دنیا کے نقشے پر موجود ہے اور موجود رہے گا۔

مسلم لیگی رہنماؤں کی تعلیم وتربیت نے نوجوانوں کو روشن راستے کی نوید دی۔ لیکن اب رہنما نہیں رہے۔

آج کے وہ طالب جو نقل کرتے اور کرانے میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ بات بات پر اسلحہ نکال لیتے ہیں اور اسلحے کا استعمال بھی خوب جان گئے ہیں۔ ان سے کیا توقع کی جاسکتی ہے؟ اور وہ ایسا ظلم کرنے پر کیوں مجبور ہوئے؟ چونکہ ہر بچہ اپنی پیدائش کے وقت بے حد معصوم پیدا ہوتاہے اب اس کے ماں باپ پر منحصر ہے کہ اسے اس دنیا کے جنجال پورے میں بھٹکنے کے لیے تنہا چھوڑدیں یا اس کی انگلی پکڑ کر اسے ان راستوں پر چلنا سکھائیں جہاں دانشوری، فہم وفراست اور تحمل ودانش کے گوہر آبدار تا حد نگاہ تک نظر آتے ہیں۔ اب بچے اور اس کے والدین کی بصیرت وبصارت ہی اسے صراط مستقیم پر گامزن کرسکتی ہے۔

اسکولوں میں غیر نصابی سرگرمیاں اور لائبریریوں کا قیام بھی ناگزیر ہے۔ دلچسپ مشاغل اور کتابوں کی دنیا طالب علموں کی زندگیوں کو بدل دیتی ہے۔ پرائیویٹ اسکولوں میں غیر نصابی سرگرمیاں بھی عروج پر ہوتی ہیں جن میں اسپورٹس ڈے، فنکشن، مذہبی وقومی تہوار باقاعدگی سے منائے جاتے ہیں جب کہ سرکاری اسکولوں میں اس قسم کی سرگرمیوں کا فقدان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری وپرائیویٹ اسکولوں کے بچے اپنی تعلیم وتربیت کے حوالے سے اپنی شناخت بخوبی رکھتے ہیں۔

طلبا کے کورس میں پہلی اور کچی پہلی ہی سے عربی کا مضمون لازمی متعارف کرایاجائے جس طرح انگریزی سکھائی جاتی ہے بالکل اسی طرح عربی کو کورس میں شامل کرنا لازمی ہے۔ تاکہ انہیں پتہ چل سکے کہ وہ ادائیگی نماز کے وقت اﷲ تعالیٰ سے کیا عہد کررہے ہیں اور کون کون سی دعائیں قرآنی سورتوں کی شکل میں مانگ رہے ہیں اور اس کی بزرگی و پاکی اس کی بڑائی کے کون سے کلمات ادا کررہے ہیں۔ اسی طرح قرآن پاک بھی (نعوذ باﷲ) رٹوں کی شکل میں پڑھایاجاتاہے، مطلب معلوم ہی نہیں کہ آج کون سے احکامات اور واقعات کی تلاوت کی گئی اور کن کاموں کے کرنے سے ثواب اور عذاب مقرر کیا گیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں