کیا ہم واقعی آزاد ہیں
’’ آپ کے ملک کا نام کیا ہے بیٹا؟ ‘‘<br />
’’ پاکستان … ‘‘<br />
’’ پاکستان کس نے بنایا تھا؟ ‘‘<br />
’’ مستریوں اور مزدوروں نے… ‘‘
'' آپ کے ملک کا نام کیا ہے بیٹا؟ ''
'' پاکستان ... ''
'' پاکستان کس نے بنایا تھا؟ ''
'' مستریوں اور مزدوروں نے... ''
'' نہیں نہیں بیٹا... میرا مطلب ہے کہ پاکستان بنانے کے لیے جدو جہد کس نے کی؟'' جواب میں مایوسی!
'' اچھا قائد اعظم کون تھے اور ہم انھیں قائد اعظم کیوں کہتے ہیں؟ ''
'' ان کا نام قائد اعظم ہو گا ، اس لیے آپ انھیں قائد اعظم کہتے ہیں...''
'' بیٹا! قائد اعظم نے پاکستان بنایا... ''
'' اچھا؟ '' ویسے مجھے تھوڑا سا آئیڈیا تھا، کیونکہ میں نے پڑھا تھا کہیں مگر ذہن سے نکل گیا تھا... ''
''اچھا بتائیں کہ پاکستان کس لیے بنایا گیا؟ ''
'' رہنے کے لیے اور امریکا کے لیے... ''
'' امریکا کے لیے؟ وہ کیسے؟ ''
'' آپ کو تو یہ سوال نہیں پوچھنا چاہیے... ظاہر ہے کہ اس ملک میں سب کچھ وہی ہوتا ہے جو امریکا چاہتا ہے، اس لیے یہ ملک اصل میں تو امریکا کے لیے ہی ہوا نا...''
'' ہمارے قومی شاعر کون ہیں؟ ''
'' ہوں ... معلوم نہیں ! مجھے شاعری سے کوئی دلچسپی نہیں... ''
'' اچھا ہمارا قومی ترانہ... سنا کبھی آپ نے؟ ''
'' ہاں ... فلم سے پہلے سینما میں سنواتے ہیں نا اور لکھا ہوتا ہے کہ سب لوگ کھڑے ہو جائیں... مگر اس وقت کون کھڑا ہو سکتا ہے کہ ہاتھوں میں پاپ کارن اور ڈرنک پکڑ رکھی ہوتی ہے... ''
'' اچھا ہمارا قومی ترانہ لکھا کس نے؟ ''
'' ہوں... اے آر رحمن نے... یا پھر آر ڈی برمن نے؟ '' دل افسوس سے بھر گیا۔
'' ہمارے ملک میں صوبے کتنے ہیں؟ ''
''چار یا پانچ ہیں مگر پلیز مجھ سے ان کے نام نہ پوچھئے گا... مجھے پنجاب اور سندھ کے سوا کسی کا نام نہیں آتا...''
'' ملک کے دارالخلافہ کا تو علم ہو گا آپ کو؟ ''
'' اسلام آباد... '' پہلا درست جواب، اسلام آباد میں رہنے والے بچوں کو اتنا تو علم ہونا چاہیے۔
ہمارا قومی پھول کون سا ہے؟ ''
'' شایدگلاب ... '' تھوڑا سا وقفہ، '' ویسے قومی پھول ہوتا کس لیے ہے؟ ''
'' ہمارے جھنڈے کے رنگوں کا تو علم ہو گا آپ کو بیٹا؟ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اس کے رنگ کس بات کی نمائندگی کرتے ہیں؟ ''
''اچھا یہ رنگ شروع سے یہی ہیں... کبھی تبدیل نہیں ہوئے؟ '' حیرت کا اظہار کیا گیا، '' سبز رنگ میرا خیال ہے کہ ملک میں سبزے کی نشاندہی کرتا ہے اور سفید رنگ برفانی پہاڑی علاقوں کی! '' بیٹا اتنا سبزہ تو ہمارے ہاں ہے نہیں جتنی نمائندگی آپ کہہ رہے ہیں! ''
'' ہمارے صدر محترم اور وزیر اعظم کا کیا کیا نام ہے ؟ ''
''صدر وہ جو بلاول کے بابا ہیں... something زرداری اور و زیر اعظم جو ابھی نئے بنے ہیں... نواز شہباز... ''
'' نواز شریف بیٹا... شہباز تو ان کے بھائی کا نام ہے... ''
'' مگر وہ دونوں ہوتے تو ہر وقت ساتھ ساتھ ہی ہیںنا... اس لیے اندازہ نہیں ہوتا کہ کون وزیر اعظم ہے... ''
'' آپ کو لگتا ہے کہ اب ملک کے حالات بہتر ہوں گے؟ ''
'' اونہوں ... '' صاف اور کھرا جواب ملا، '' کیونکہ اس ملک کے حالات ٹھیک ہونا ممکن نہیں... ''
'' یہ تو کوئی بات نہ ہوئی، ہمیں تو اس نسل سے بہت امیدیں ہیں... آپ لوگوں سے... کیا آپ اس ملک کی بہتری کے لیے کام نہیں کرنا چاہیں گے؟ ''
'' میں... '' زور کی ہنسی، '' میں کیا کام کر سکتا ہوں اس ملک کے لیے... مجھے تو یوں بھی دو ایک برسوں میں باہر چلے جانا ہے، جہاں بھی جاؤں گا وہاں سکون سے رہوں گا، پڑھوں گا اور ممکن ہوا تو وہیں رہ جاؤں گا! ''
یہ تو ایک بہت بڑا المیہ ہے بیٹا... آپ لوگ اس ملک میں نہ رہیں گے تو ملک کیسے سنورے گا؟ ''
'' یہ ملک سنورنے والا نہیں، نہ ہی کوئی اسے سنوارنا چاہتا ہے، چاہے کوئی آمر ہو، یا کوئی بھاری مینڈیٹ لے کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے والا... الیکشن میں جیتنے کے لیے جہاں پیسہ اور طاقت سب سے اہم ہوں، جہاں پڑھے لکھے لوگ اس لیے الیکشن میں نہ جیت سکیں کہ ان کے پاس اپنی الیکشن مہم چلانے کے لیے رقم نہ ہو، جہاں سفارش چلتی ہو اور قابل لوگوں کو ملازمتیں بھی نہ ملیں... جہاں گھر سے باہر نکلیں تو یہ بھی یقین نہ ہو کہ لوٹ کر زندہ گھر بھی جانا ہے، جہاں دہشت گردی عادت کی طرح اپنا لی جائے...
جہاں بیرونی قوتیں ہمارے نظام کی تخلیق کرتی ہوں ، جہاں عام آدمی کو مہنگائی کی چکی میں پیس کر رکھ دیا گیا ہو... جہاں حکمرانوں کے اللے تللے کم کرنے کی بجائے ٹیکسوں کا مزید بوجھ عوام پر ہی ڈالا جائے... اس ملک میں کیا رہنا اور ہم اس ملک کا کیا سنوار سکتے ہیں؟
ہم ایک بے حس قوم ہو چکے ہیں، جنھوں نے غلط کو غلط سمجھنا بھی چھوڑ دیا ہے... زندگی تو ایک ہی بار ملنی ہے تو اسے اس ملک میں رہ کر کسمپرسی سے کیوں گزارا جائے، کیوں نہ ایک بار رقم خرچ کر کے اس ملک سے نکلا جائے، باہر... جہاں کہیں بھی جائیں گے، کم از کم وہاں کوئی قانون ہو گا، عزت اور جان و مال کے تحفظ کی ضمانت تو ہو گی، موت تو مقررہ وقت پر ہی آنی ہے مگر ہر وقت موت کے خوف میں مبتلا رہ کر ذہنی امراض کا شکار تو نہ ہوں گے...جس ملک میں کھانے پینے کے نام پر حرام بک رہا ہو، دودھ ، گوشت ناقص ہو... اور تو اور پینے کا پانی ... زندگی بچانے والی دوائیں...
کس طرح اس ملک میں سکون سے رہا جا سکتا ہے، ہر روز ٹیلی وژن پر کسی نہ موضوع پر پروگرام چلتا ہے اور ہمیں علم ہوتا ہے کہ ہمارے ساتھ کیا کیا جا رہا ہے، کیا حکومتی عہدے داران یہ سب نہیں دیکھتے، پھر بھی یہ سب ہوئے جا رہا ہے،اس ملک میں کیا رہیں جہاں حکمرانوں کو ہم سے سوائے ووٹ کے اور کچھ نہیں چاہیے، اس کے بعد وہ بھول جاتے ہیں کہ انھوں نے ہم سے کیا کیا وعدے کیے تھے... '' اس کی تقریر میں وقفہ آیا۔
ہم نئی نسل کو جتنا گھامڑ سمجھتے ہیں، اتنے وہ ہیں نہیں... انھیں شاید ملک کے بارے میں ابتدائی معلومات نہیں ہیں مگر حالات حاضرہ سے ہرگز نا واقف نہیں... ہمارے بچے سمجھتے ہیں کہ کیا غلط ہو رہا ہے اور اس غلط ہونے کی جڑیں کہاں ہیں۔ ہم نے آزادی کس لیے حاصل کی تھی؟ کیا اس ملک میں وہ سب کچھ ہو رہا ہے جوہمار ے دو قومی نظرئیے کی بنیاد تھا، کس لیے ہم سوچتے تھے کہ ہمیں ایک علیحدہ ملک چاہیے؟
چھیاسٹھ برس بیت چکے... ہم تب سے آزاد ہیں، کیا ایک آزاد ملک کی فضاؤں میں سانس لیتے ہیں، کیا ہمیں اپنے مذہبی اور معاشرتی عقائد اور رسومات پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہے... کیا ہماری معیشت آزاد ہے... ہمارے ہاں قانون آزاد ہے ، لوگ آزاد ہیں، اظہار رائے کی آزادی ہے؟
ایک آزاد ملک ہونے کا عمومی مقصد تو یہی ہوتا ہے نا... تو کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟