ہم کدھر جارہے ہیں
’’ہم کہاں جارہے ہیں‘‘۔۔۔’’ہم کہاں کھڑے ہیں‘‘۔۔۔ اکثراس قسم کےاحمقانہ بیانات پڑھ کرمیں سوچتی تھی کہ لوگوں کوکیاہو گیاہے
ISLAMABAD:
''ہم کہاں جارہے ہیں'' ۔۔۔۔ ''ہم کہاں کھڑے ہیں''۔۔۔۔ اکثر اس قسم کے احمقانہ بیانات پڑھ کر میں سوچتی تھی کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے۔ پتہ تو ہے کہ ہم مسلسل تباہی و بربادی کی طرف جا رہے ہیں۔ اخلاقی طور پر بھی، سماجی طور پر بھی، تعلیمی لحاظ سے بھی اور تہذیبی لحاظ سے بھی، تباہی کا گراف مسلسل بڑھ رہا ہے۔۔۔۔ لیکن گیارہ جولائی کو اخبارات میں ایک خبر پڑھ کر واقعی میں بھی یہ کہنے اور سوچنے پر مجبور ہوں کہ۔۔۔۔ ہم کہاں جا رہے ہیں۔۔۔۔؟ اور ساتھ ہی یہ بھی سوچ رہی ہوں کہ ہر طرف سے قبائلی، جاگیردارانہ اور انتہا پسند روایتی اور تعلیم سے محروم علاقوں ہی کو پاکستان میں شامل کیوں کیا گیا۔۔۔۔؟ ۔۔۔۔ کیا یہ بھی کوئی یہودیوں اور عیسائیوں کی سازش تھی۔۔۔۔؟ ۔۔۔۔ لگتا تو یہی ہے۔۔۔۔ مگر قائد اعظم محمد علی جناح اس سازش کو یا تو سمجھ نہ سکے۔
یا ان کی تشویش ناک حد تک گرتی ہوئی صحت نے بعض معاملات کی طرف سے توجہ ہٹا دی کہ وہ ہر صورت میں اپنی زندگی میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک ایسا علیحدہ ملک چاہتے تھے جہاں تمام مذاہب اور مسلکوں کے لوگ آزادی سے اپنی اپنی عبادت گاہوں میں مذہبی فرائض ادا کر سکیں۔۔۔۔ انھوں نے غالباً یہ بھی سوچا ہو گا کہ زمانہ آگے کی طرف بڑھتا ہے۔ آزادی کے بعد سول سوسائٹی کے مہذب اور پڑھے لکھے لوگ پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں بھی تعلیم عام کریں گے۔ لوگ جہالت، رقابت اور قبائلی دشمنیوں کے غاروں سے نکل کر کھلی اور آزاد فضا میں سانس لیں گے۔۔۔۔ لیکن انھیں کیا پتہ تھا کہ کچھ قوتوں نے پاکستان صرف لوٹ مار کرنے اور اپنے خزانے بھرنے کے لیے بنوایا ہے۔۔۔۔ اسی لوٹ مار اور اپنی بالادستی کو قائم رکھنے کے لیے انتہا پسندوں کے سر پر چھتریاں تان دی گئیں۔۔۔۔ اس طرح ہر میدان میں ہم مسلسل روبہ زوال ہیں۔۔۔۔ خاص کر عورتوں کے معاملے میں۔ ابھی تک تو تیزاب سے چہرے جلانے کا ایشو سب سے زیادہ اہم تھا۔
اس سے پہلے بلوچستان میں عورتوں کو زندہ دفن کرنے کا واقعہ بھی قبل مسیح کا واقعہ نہیں، بلکہ اسی دور کا ہے جس میں ایک لیڈر فخریہ ہنس کر کہتا ہے کہ ۔۔۔۔''ڈگری تو ڈگری ہے، جعلی ہو یا اصلی''۔۔۔۔ ''نوٹ تو نوٹ ہے اصلی ہو یا جعلی''۔۔۔۔۔ اور اسی کی انتہا یہ ہے کہ گیارہ جولائی کے اخبار میں ڈیرہ غازی خان میں دو بچوں کی ماں کے پاس سے موبائل برآمد ہونے پر پنچایت نے اسے سرعام سنگسار کر دیا۔ لوگ تماشائی بنے دیکھتے رہے۔ اور چپ چاپ بغیر ورثاء کو بتائے اسے دفنا دیا گیا۔۔۔۔!!۔۔۔۔ اس افسوسناک واقعے پر یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ ۔۔۔۔۔ہم کدھر جا رہے ہیں؟
ہمارے حکمرانوں کو جب جب ضرورت پڑتی ہے وہ اپنے بیانات میں یہ راگ الاپتے رہتے ہیں کہ۔۔۔۔ اسلام نے عورتوں کو بڑے حقوق دیے ہیں ۔۔۔۔ لیکن افسوس کہ اگر یہ سچ ہے تو وہ حقوق پاکستان میں نظر کیوں نہیں آتے۔۔۔۔؟۔۔۔۔ کہنے کو تو ملک ایک ہے لیکن قانون ایک نہیں۔۔۔۔ ہر علاقے کا اپنا قانون ہے جہاں ان کا راج ہے جن کے ہاتھ میں ہتھیار ہیں۔۔۔۔ لیکن کیا ڈیرہ غازی خاں کی عارفہ نامی خاتون کے پاس سے موبائل فون برآمد ہونا کوئی ایسا خطرناک جرم تھا جس کی پاداش میں اسے پنچایت نے سنگسار کر دیا۔۔۔۔؟ پنچایت ہی نے مختاراں مائی کی زندگی عذاب بنائی تھی۔۔۔۔ آخر یہ پنچایت ہے کیا۔۔۔۔؟ چند مردوں کی اجارہ داری۔۔۔۔؟ جس میں انھیں ہر قسم کے اختیارات حاصل ہیں، جسے چاہیں سنگسار کرا دیں، جسے چاہیں کتوں کے آگے پھنکوا دیں، جنھیں چاہیں زندہ دفن کروا دیں، کوئی حکومت کبھی ان پنچایتوں کے خلاف ایکشن نہیں لیتی، کیونکہ بدقسمتی سے اس ملک پر 1952ء کے بعد سے انہی لوگوں کی حکومت ہے جو پنچایتوں کی وجہ سے خدا بن بیٹھے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں موبائل فون کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
اور پاکستان ان ممالک میں سرفہرست ہے جہاں موبائل فون کا استعمال ایک وبا کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہے لیکن جیب میں موبائل ضروری ہے۔ لیکن موبائل رکھنا جرم تو نہیں۔۔۔۔۔ اور اگر ڈیرہ غازی خان کی پنچایت کے نزدیک موبائل رکھنا اتنا بڑا جرم تھا کہ کسی خاتون کے پاس اس کی برآمدگی ایک ناقابل معافی جرم تھا تو اس کے استعمال پر پابندی عائد کر دینی چاہیے تھی۔۔۔۔ اس واقعے کا سب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ اس جرم میں ملوث افراد میں سے کوئی گرفتار نہیں کیا گیا۔۔۔۔ کیونکہ مجرم مرد ہیں۔۔۔۔ پاکستان میں قبائلی اور جاگیرداری کلچر میں عورت صرف ضرورت کی شے ہے۔ جیسے پیر کی جوتی۔ جسے جب چاہا پیروں میں ڈال لیا اور جب چاہا اتار کر پھینک دیا۔۔۔۔ بدنصیبی سے جو جماعتیں اقتدار میں آئی ہیں ان کے سروں پر طالبان کا ہاتھ ہے، انہی کی آشیرواد سے وہ اپنی ''باری'' پوری کر رہی ہیں۔۔۔۔ طالبان سوچ کے حامل حکومت میں بھی ہیں، اسمبلیوں میں بھی ہیں اور وردیوں میں بھی۔ طالبان سوچ ایک ایسا عذاب ہے جسے ہر حکمران جماعت نے اپنے اپنے اقتدار کے لیے استعمال کیا اور جب انہی کی بدولت وہ جماعت اقتدار سے باہر ہوئی تو برملا اعتراف بھی کیا کہ ۔۔۔۔ ''طالبان کی سرپرستی ایک بہت بڑی غلطی تھی۔''
جمعرات کو پہلا روزہ اور ایک دن پہلے ایک عورت کو موبائل رکھنے کے جرم میں سنگسار کر دیا جاتا ہے، بلال شیخ کو دن دہاڑے دہشت گردی کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے۔۔۔۔۔ پھر بھی حکومت کے کان پر جوں نہیں رینگی۔۔۔۔۔ عام آدمی کی تو یہاں کوئی اوقات ہی نہیں، 31 مئی 2013ء کو نہایت بارونق والے علاقے میں گولیوں سے بھون دیا گیا، ساتھ ہی ڈرائیور بھی بے چارہ جاں بحق۔۔۔۔ لیکن آج تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔۔۔۔ اور اب براہ راست بلال شیخ جو صدر کے سیکیورٹی آفیسر یعنی محافظ تھے، لیکن خود اپنی حفاظت نہ کر سکے۔۔۔۔ کاش! وہ بھی اپنے سر سے کالے بکروں کا صدقہ دیتے رہتے تو شاید محفوظ رہتے۔۔۔۔ یا پھر کسی پیر فقیر کی ہدایت پہ عمل کرتے تو اپنا راستہ تبدیل کر لیتے۔۔۔۔ لیکن جو رات قبر میں آنی ہے اسے کوئی نہیں بدل سکتا۔ خواہ پہاڑوں کی چوٹیوں پہ بسیرا کرو یا سمندر کی گہرائیوں میں ۔۔۔۔موت خود زندگی کی حفاظت کرتی ہے جب تک چاہتی ہے۔۔۔۔
موت کا جو رقص اس شہر کراچی میں بپا ہے وہ یوں اچانک نہیں کھیلا جانے لگا بلکہ اس کے لیے کئی برسوں سے اسٹیج تیار کیا جا رہا تھا، لیکن کسی حکومت نے یہاں امن و امان قائم کرنے کی ضرورت یوں محسوس نہیں کی کہ سب کا دال دلیہ اسی بدامنی کی وجہ سے چل رہا ہے۔ کبھی کوئی امن کمیٹی بنائی جاتی ہے اور اس کمیٹی کے پروردہ ''بچے'' مزید بدامنی پھیلاتے ہیں۔ علاقوں کو بانٹ لیا گیا ہے۔ ہر قسم کے نعروں اور تصاویر سے شہر اٹا پڑا ہے۔ بھتہ خوری اور اغواء برائے تاوان کی ''صنعت'' نے غیر معمولی ترقی کر لی ہے۔ جو حکومت شہر سے وال چاکنگ نہ ختم کروا سکے، مختلف خود ساختہ لیڈروں کی تصاویر نہ اتروا سکے اس حکومت سے امن کی امید رکھنا ایسا ہی ہے جیسے کوہ قاف سے سفید گلاب لانا۔۔۔۔ اور پھر کراچی تو ویسے ہی دہشت گردوں کے نشانے پر ہے کہ یہاں سمندر بھی ہے۔۔۔۔۔ بدنصیبی اس شہر کی یہ بھی ہے کہ یہاں ہر شخص کو روزگار ملتا ہے، یہاں آنے والا نہ بھوکا سوتا ہے نہ بھوکا اٹھتا ہے۔ رزق کی تلاش میں جگہ جگہ سے آنے والے اس شہر میں محبتوں سے رہتے تھے کہ حق حلال کی روزی کمانے والا دشمنیوں اور نفرتوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔۔۔۔ اس شہر میں بڑے بڑے ڈکیت، مجرم اور بدمعاش صرف خنجر یا گراری والا چاقو رکھتے تھے۔
کالم لکھتے لکھتے ٹی وی کی آواز نے سلسلہ روک دیا۔۔۔۔ لیجیے اسلام آباد میں آئی جی کی بہو کو اس کے قریبی رشتے داروں نے گھر میں گھس کر قتل کر دیا۔ مقدمہ درج ہو گیا۔۔۔۔ یقینا مجرم پکڑے جائیں گے کہ کوئی عام عورت نہیں ماری گئی۔۔۔۔ آئی جی کی بہو کا قتل ہوا ہے۔ یہ کوئی ڈیرہ غازی خان کی بے گناہ اور بدنصیب عارفہ تھوڑی ہے، تیزاب سے جلنے والی رابیل بھی نہیں۔ یہ آئی جی کی بہو ہیں۔ ان کے قاتل ضرور پکڑے جائیں گے۔ ہو سکتا ہے کالم چھپنے تک وہ گرفتار ہو چکے ہوں۔ پورا ملک دہشت گردوں کی صنعت بنا ہوا ہے۔ سب سے زیادہ ظلم کراچی والوں پر ہو رہا ہے۔ یہاں کوئی پرسان حال نہیں۔۔۔۔ نہ حکومت نہ حکومت کی حلیف جماعتیں کہ حکومت میں اکثریت اندرون سندھ کے آقاؤں کی ہے جو جمعے کی دوپہر ہیلی کاپٹروں میں بیٹھ کر اپنے اپنے گاؤں چلے جاتے ہیں جو شہری سندھ کے دعویدار ہیں وہ ہزاروں میل دور سمندر پار بیٹھ کر ٹیلی فونک خطاب سے ورکروں کا خون گرماتے رہتے ہیں۔۔۔۔ رہ گیا عام آدمی تو اس کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں۔ بس بندوقوں کے منہ کھلے ہیں جن کی آگ اگلتی گولیاں ان کا مقدر ہیں۔ ایک بار پھر یہ کہنے کو جی چاہ رہا ہے کہ۔۔۔۔۔ ہم کہاں جا رہے ہیں۔۔۔؟ بربریت کے دور میں یا پتھر کے دور میں۔۔۔؟
''ہم کہاں جارہے ہیں'' ۔۔۔۔ ''ہم کہاں کھڑے ہیں''۔۔۔۔ اکثر اس قسم کے احمقانہ بیانات پڑھ کر میں سوچتی تھی کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے۔ پتہ تو ہے کہ ہم مسلسل تباہی و بربادی کی طرف جا رہے ہیں۔ اخلاقی طور پر بھی، سماجی طور پر بھی، تعلیمی لحاظ سے بھی اور تہذیبی لحاظ سے بھی، تباہی کا گراف مسلسل بڑھ رہا ہے۔۔۔۔ لیکن گیارہ جولائی کو اخبارات میں ایک خبر پڑھ کر واقعی میں بھی یہ کہنے اور سوچنے پر مجبور ہوں کہ۔۔۔۔ ہم کہاں جا رہے ہیں۔۔۔۔؟ اور ساتھ ہی یہ بھی سوچ رہی ہوں کہ ہر طرف سے قبائلی، جاگیردارانہ اور انتہا پسند روایتی اور تعلیم سے محروم علاقوں ہی کو پاکستان میں شامل کیوں کیا گیا۔۔۔۔؟ ۔۔۔۔ کیا یہ بھی کوئی یہودیوں اور عیسائیوں کی سازش تھی۔۔۔۔؟ ۔۔۔۔ لگتا تو یہی ہے۔۔۔۔ مگر قائد اعظم محمد علی جناح اس سازش کو یا تو سمجھ نہ سکے۔
یا ان کی تشویش ناک حد تک گرتی ہوئی صحت نے بعض معاملات کی طرف سے توجہ ہٹا دی کہ وہ ہر صورت میں اپنی زندگی میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک ایسا علیحدہ ملک چاہتے تھے جہاں تمام مذاہب اور مسلکوں کے لوگ آزادی سے اپنی اپنی عبادت گاہوں میں مذہبی فرائض ادا کر سکیں۔۔۔۔ انھوں نے غالباً یہ بھی سوچا ہو گا کہ زمانہ آگے کی طرف بڑھتا ہے۔ آزادی کے بعد سول سوسائٹی کے مہذب اور پڑھے لکھے لوگ پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں بھی تعلیم عام کریں گے۔ لوگ جہالت، رقابت اور قبائلی دشمنیوں کے غاروں سے نکل کر کھلی اور آزاد فضا میں سانس لیں گے۔۔۔۔ لیکن انھیں کیا پتہ تھا کہ کچھ قوتوں نے پاکستان صرف لوٹ مار کرنے اور اپنے خزانے بھرنے کے لیے بنوایا ہے۔۔۔۔ اسی لوٹ مار اور اپنی بالادستی کو قائم رکھنے کے لیے انتہا پسندوں کے سر پر چھتریاں تان دی گئیں۔۔۔۔ اس طرح ہر میدان میں ہم مسلسل روبہ زوال ہیں۔۔۔۔ خاص کر عورتوں کے معاملے میں۔ ابھی تک تو تیزاب سے چہرے جلانے کا ایشو سب سے زیادہ اہم تھا۔
اس سے پہلے بلوچستان میں عورتوں کو زندہ دفن کرنے کا واقعہ بھی قبل مسیح کا واقعہ نہیں، بلکہ اسی دور کا ہے جس میں ایک لیڈر فخریہ ہنس کر کہتا ہے کہ ۔۔۔۔''ڈگری تو ڈگری ہے، جعلی ہو یا اصلی''۔۔۔۔ ''نوٹ تو نوٹ ہے اصلی ہو یا جعلی''۔۔۔۔۔ اور اسی کی انتہا یہ ہے کہ گیارہ جولائی کے اخبار میں ڈیرہ غازی خان میں دو بچوں کی ماں کے پاس سے موبائل برآمد ہونے پر پنچایت نے اسے سرعام سنگسار کر دیا۔ لوگ تماشائی بنے دیکھتے رہے۔ اور چپ چاپ بغیر ورثاء کو بتائے اسے دفنا دیا گیا۔۔۔۔!!۔۔۔۔ اس افسوسناک واقعے پر یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ ۔۔۔۔۔ہم کدھر جا رہے ہیں؟
ہمارے حکمرانوں کو جب جب ضرورت پڑتی ہے وہ اپنے بیانات میں یہ راگ الاپتے رہتے ہیں کہ۔۔۔۔ اسلام نے عورتوں کو بڑے حقوق دیے ہیں ۔۔۔۔ لیکن افسوس کہ اگر یہ سچ ہے تو وہ حقوق پاکستان میں نظر کیوں نہیں آتے۔۔۔۔؟۔۔۔۔ کہنے کو تو ملک ایک ہے لیکن قانون ایک نہیں۔۔۔۔ ہر علاقے کا اپنا قانون ہے جہاں ان کا راج ہے جن کے ہاتھ میں ہتھیار ہیں۔۔۔۔ لیکن کیا ڈیرہ غازی خاں کی عارفہ نامی خاتون کے پاس سے موبائل فون برآمد ہونا کوئی ایسا خطرناک جرم تھا جس کی پاداش میں اسے پنچایت نے سنگسار کر دیا۔۔۔۔؟ پنچایت ہی نے مختاراں مائی کی زندگی عذاب بنائی تھی۔۔۔۔ آخر یہ پنچایت ہے کیا۔۔۔۔؟ چند مردوں کی اجارہ داری۔۔۔۔؟ جس میں انھیں ہر قسم کے اختیارات حاصل ہیں، جسے چاہیں سنگسار کرا دیں، جسے چاہیں کتوں کے آگے پھنکوا دیں، جنھیں چاہیں زندہ دفن کروا دیں، کوئی حکومت کبھی ان پنچایتوں کے خلاف ایکشن نہیں لیتی، کیونکہ بدقسمتی سے اس ملک پر 1952ء کے بعد سے انہی لوگوں کی حکومت ہے جو پنچایتوں کی وجہ سے خدا بن بیٹھے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں موبائل فون کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
اور پاکستان ان ممالک میں سرفہرست ہے جہاں موبائل فون کا استعمال ایک وبا کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہے لیکن جیب میں موبائل ضروری ہے۔ لیکن موبائل رکھنا جرم تو نہیں۔۔۔۔۔ اور اگر ڈیرہ غازی خان کی پنچایت کے نزدیک موبائل رکھنا اتنا بڑا جرم تھا کہ کسی خاتون کے پاس اس کی برآمدگی ایک ناقابل معافی جرم تھا تو اس کے استعمال پر پابندی عائد کر دینی چاہیے تھی۔۔۔۔ اس واقعے کا سب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ اس جرم میں ملوث افراد میں سے کوئی گرفتار نہیں کیا گیا۔۔۔۔ کیونکہ مجرم مرد ہیں۔۔۔۔ پاکستان میں قبائلی اور جاگیرداری کلچر میں عورت صرف ضرورت کی شے ہے۔ جیسے پیر کی جوتی۔ جسے جب چاہا پیروں میں ڈال لیا اور جب چاہا اتار کر پھینک دیا۔۔۔۔ بدنصیبی سے جو جماعتیں اقتدار میں آئی ہیں ان کے سروں پر طالبان کا ہاتھ ہے، انہی کی آشیرواد سے وہ اپنی ''باری'' پوری کر رہی ہیں۔۔۔۔ طالبان سوچ کے حامل حکومت میں بھی ہیں، اسمبلیوں میں بھی ہیں اور وردیوں میں بھی۔ طالبان سوچ ایک ایسا عذاب ہے جسے ہر حکمران جماعت نے اپنے اپنے اقتدار کے لیے استعمال کیا اور جب انہی کی بدولت وہ جماعت اقتدار سے باہر ہوئی تو برملا اعتراف بھی کیا کہ ۔۔۔۔ ''طالبان کی سرپرستی ایک بہت بڑی غلطی تھی۔''
جمعرات کو پہلا روزہ اور ایک دن پہلے ایک عورت کو موبائل رکھنے کے جرم میں سنگسار کر دیا جاتا ہے، بلال شیخ کو دن دہاڑے دہشت گردی کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے۔۔۔۔۔ پھر بھی حکومت کے کان پر جوں نہیں رینگی۔۔۔۔۔ عام آدمی کی تو یہاں کوئی اوقات ہی نہیں، 31 مئی 2013ء کو نہایت بارونق والے علاقے میں گولیوں سے بھون دیا گیا، ساتھ ہی ڈرائیور بھی بے چارہ جاں بحق۔۔۔۔ لیکن آج تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔۔۔۔ اور اب براہ راست بلال شیخ جو صدر کے سیکیورٹی آفیسر یعنی محافظ تھے، لیکن خود اپنی حفاظت نہ کر سکے۔۔۔۔ کاش! وہ بھی اپنے سر سے کالے بکروں کا صدقہ دیتے رہتے تو شاید محفوظ رہتے۔۔۔۔ یا پھر کسی پیر فقیر کی ہدایت پہ عمل کرتے تو اپنا راستہ تبدیل کر لیتے۔۔۔۔ لیکن جو رات قبر میں آنی ہے اسے کوئی نہیں بدل سکتا۔ خواہ پہاڑوں کی چوٹیوں پہ بسیرا کرو یا سمندر کی گہرائیوں میں ۔۔۔۔موت خود زندگی کی حفاظت کرتی ہے جب تک چاہتی ہے۔۔۔۔
موت کا جو رقص اس شہر کراچی میں بپا ہے وہ یوں اچانک نہیں کھیلا جانے لگا بلکہ اس کے لیے کئی برسوں سے اسٹیج تیار کیا جا رہا تھا، لیکن کسی حکومت نے یہاں امن و امان قائم کرنے کی ضرورت یوں محسوس نہیں کی کہ سب کا دال دلیہ اسی بدامنی کی وجہ سے چل رہا ہے۔ کبھی کوئی امن کمیٹی بنائی جاتی ہے اور اس کمیٹی کے پروردہ ''بچے'' مزید بدامنی پھیلاتے ہیں۔ علاقوں کو بانٹ لیا گیا ہے۔ ہر قسم کے نعروں اور تصاویر سے شہر اٹا پڑا ہے۔ بھتہ خوری اور اغواء برائے تاوان کی ''صنعت'' نے غیر معمولی ترقی کر لی ہے۔ جو حکومت شہر سے وال چاکنگ نہ ختم کروا سکے، مختلف خود ساختہ لیڈروں کی تصاویر نہ اتروا سکے اس حکومت سے امن کی امید رکھنا ایسا ہی ہے جیسے کوہ قاف سے سفید گلاب لانا۔۔۔۔ اور پھر کراچی تو ویسے ہی دہشت گردوں کے نشانے پر ہے کہ یہاں سمندر بھی ہے۔۔۔۔۔ بدنصیبی اس شہر کی یہ بھی ہے کہ یہاں ہر شخص کو روزگار ملتا ہے، یہاں آنے والا نہ بھوکا سوتا ہے نہ بھوکا اٹھتا ہے۔ رزق کی تلاش میں جگہ جگہ سے آنے والے اس شہر میں محبتوں سے رہتے تھے کہ حق حلال کی روزی کمانے والا دشمنیوں اور نفرتوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔۔۔۔ اس شہر میں بڑے بڑے ڈکیت، مجرم اور بدمعاش صرف خنجر یا گراری والا چاقو رکھتے تھے۔
کالم لکھتے لکھتے ٹی وی کی آواز نے سلسلہ روک دیا۔۔۔۔ لیجیے اسلام آباد میں آئی جی کی بہو کو اس کے قریبی رشتے داروں نے گھر میں گھس کر قتل کر دیا۔ مقدمہ درج ہو گیا۔۔۔۔ یقینا مجرم پکڑے جائیں گے کہ کوئی عام عورت نہیں ماری گئی۔۔۔۔ آئی جی کی بہو کا قتل ہوا ہے۔ یہ کوئی ڈیرہ غازی خان کی بے گناہ اور بدنصیب عارفہ تھوڑی ہے، تیزاب سے جلنے والی رابیل بھی نہیں۔ یہ آئی جی کی بہو ہیں۔ ان کے قاتل ضرور پکڑے جائیں گے۔ ہو سکتا ہے کالم چھپنے تک وہ گرفتار ہو چکے ہوں۔ پورا ملک دہشت گردوں کی صنعت بنا ہوا ہے۔ سب سے زیادہ ظلم کراچی والوں پر ہو رہا ہے۔ یہاں کوئی پرسان حال نہیں۔۔۔۔ نہ حکومت نہ حکومت کی حلیف جماعتیں کہ حکومت میں اکثریت اندرون سندھ کے آقاؤں کی ہے جو جمعے کی دوپہر ہیلی کاپٹروں میں بیٹھ کر اپنے اپنے گاؤں چلے جاتے ہیں جو شہری سندھ کے دعویدار ہیں وہ ہزاروں میل دور سمندر پار بیٹھ کر ٹیلی فونک خطاب سے ورکروں کا خون گرماتے رہتے ہیں۔۔۔۔ رہ گیا عام آدمی تو اس کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں۔ بس بندوقوں کے منہ کھلے ہیں جن کی آگ اگلتی گولیاں ان کا مقدر ہیں۔ ایک بار پھر یہ کہنے کو جی چاہ رہا ہے کہ۔۔۔۔۔ ہم کہاں جا رہے ہیں۔۔۔؟ بربریت کے دور میں یا پتھر کے دور میں۔۔۔؟