لوٹ کھسوٹ کا کلچر
حضرت جریر بن عبداللہؓ کا واقعہ ہے۔ ایک مرتبہ انھوں نے اپنے نوکر سے گھوڑا خرید کر لانے کوکہا۔ نوکر نے تین سو درہم...
حضرت جریر بن عبداللہؓ کا واقعہ ہے۔ ایک مرتبہ انھوں نے اپنے نوکر سے گھوڑا خرید کر لانے کوکہا۔ نوکر نے تین سو درہم میں گھوڑا خریدکردیا۔آپ نے گھوڑا دیکھا تو اندازہ ہوا گھوڑے کی قیمت زیادہ ہونی چاہیے تھی، خیال ہوا کہ شاید غلطی سے مالک نے گھوڑا سستا دے دیا ہے، چنانچہ آپ گھوڑے والے کے پاس پہنچ گئے اور کہا کہ اگر میں آپ کو گھوڑے کے چار سو درہم دے دوں تو؟ گھوڑا فروخت کرنے والا کہنے لگا کہ بہت اچھی بات ہے، آپ نے پھر کہا اگر میں اس کے پانچ سو درہم دے دوں تو؟ اس نے جواب دیا یہ تو اور بھی اچھی بات ہے، اسی طرح آپؓ نے آٹھ سو درہم تک بڑھا دیے اور گھوڑے والے کو اس کی قیمت 8 سو درہم دے دی۔
جب آپ نے گھوڑے والے کو قیمت دیدی اور وہ چلا گیا تو نوکر نے آپ سے کہا جناب! میں تو اچھا سودا کرکے لایا تھا آپ نے مزید درہم کیوں دے دیے؟ اس بات پر حضرت جریر بن عبداللہؓ نے جواب دیا کہ مالک کو اپنے گھوڑے کی قیمت کا درست اندازہ نہیں تھا یہ گھوڑا آٹھ سو درہم کا ہے اگر میں اس گھوڑے کو چار سو درہم میں لے کر اپنا مالی فائدہ حاصل کرلیتا تو کل اللہ کے ہاں کیا جواب دیتا؟ جب کہ میں نے اللہ کے نبیؐ کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ جب تک زندہ رہوں گا مسلمان کی خیرخواہی چاہوں گا۔
مذکورہ واقعہ نہ صرف اسلامی تعلیمات کو کھل کر بیان کر رہا ہے بلکہ اسلامی معاشرے کی حقیقی روح کو بھی بیان کر دیا ہے۔ آج ہمارا اسلامی معاشرہ فرقہ وارانہ اختلاف میں تو ایک مضبوط ترین معاشرہ نظر آتا ہے لیکن کیا اسلامی تعلیمات میں پچاس فیصد بھی اسلامی معاشرہ ہے؟
رمضان المبارک کا مہینہ ہے آئیے ذرا مذکورہ واقعے کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا جائزہ لیں۔ ایک پھل فروش ہو یا کوئی دکاندار، ایک فیکٹری کا مالک ہو یا بڑا کاروباری ادارہ چلانے والا! کیا کوئی خرید وفروخت میں ایمانداری کا مظاہرہ کرتا ہے؟ آنکھ بچنے پر ایک پھل فروش بھی اپنی مرضی کی قیمت لینے کے باوجود گلے سڑے پھل ترازو میں ڈال دیتا ہے۔ کسی دکان سے کوئی شے خریدیں اور پھر کوئی شکایت کرنے یا تبدیل کرانے پہنچے تو وہ آپ کو پہچاننے سے ہی انکار کردیتا ہے۔دو نمبر مال بلکہ اس سے بھی گھٹیا مال کو اصل مال سے مشابہ کرکے اصل مال کی قیمت وصول کرنا بھی عام ہے جب کہ ہم سب کو ہی حاجی اور نمازی ہونے پر بھی فخر ہے۔
راقم کو اس وقت شہید حکیم سعید کا سنایا ہوا وہ واقعہ بھی یاد آرہا ہے کہ جس میں انھوںنے سوئٹزرلینڈ میں ایک دکان سے کپڑا خریدا اور ابھی دکان سے نکل کر چند قدم چلے ہی تھے کہ وہاں کی ملازمہ دوڑتی ہوئی پیچھے آئی اور آپ کو بلاکر دکان میں لے گئی۔ جہاں سیلز مین نے حکیم سعید صاحب سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ جناب آپ کو جو کپڑا دیا ہے وہ ریجیکٹ پیس ہے، آپ سوٹ کا دوسرا کپڑا لے لیں۔ حکیم سعید کہتے ہیں کہ میں نے اس ریجیکٹ کپڑے کو دیکھا تو وہ پورا درست اور صاف تھا بس ایک جگہ چھوٹی سی سانٹھ آئی ہوئی تھی۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب آج کے دور میں غیرمسلم اخلاقیات اور ایمانداری کو یوں اپنا سکتے ہیں تو بھلا ہم مسلم ہوکر اپنے اسلاف کی یہ تعلیمات کیوں نہیں اپنا سکتے؟ آخر ہم کیوں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے اور ایک دوسرے کی جیب سے سب کچھ چھیننے پر تلے ہوئے ہیں۔
ہم صرف اپنے مسلک پر ہی کیوں فخر کرتے ہیں؟ اس حدیث پہ کیوں عمل نہیں کرتے جس کے تحت مسلمان جب کوئی مال فروخت کرے تو اس کی خامیاں بھی خریدار کو بتانا ضروری ہوتی ہیں۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ جن مسلمانوں کا رہبر (حضرت محمدؐ) انھیں مال فروخت کرتے وقت اس کی خامیاں بھی بیان کرنے کا درس دے ان کے معاشرے میں حالت یہ ہو کہ جان بچانے کی دوائیں بھی جعلی بناکر بازار میں فروخت کی جارہی ہوں، کھانے پینے کی اشیاء میں اس قدر ملاوٹ کی جارہی ہو اور ان اشیاء کی بھی ملاوٹ کی جارہی ہو جو انسانی جان کے لیے بھی مضر ہو، کہیں پریشر کے ذریعے گوشت میں پانی بھر کر فروخت کیا جارہا ہے، کہیں کتوں کے گوشت اور چربی کو خاموشی سے دیگر گوشت اور پکوان تیل و گھی کے ساتھ فروخت کیا جارہا ہے۔ کہیں کیمیکل ملی ہوئی بغیر ٹماٹرکی کیچپ فروخت ہورہی ہے، کہیں دودھ میں مضر صحت اشیاء کی ملاوٹ کے ساتھ ساتھ کپڑے دھونے کا سوڈا بھی ملاکر جھاگ بنائے جارہے ہیں تاکہ دودھ جھاگ والا اصلی لگے۔
غرض یہ سارا عمل سارا سال چلتا ہے اور رمضان میں تو اور بھی عروج پر پہنچ جاتا ہے۔
کیا ہم اس رمضان میں اپنے آپ کو اسلامی تعلیمات یا ان اخلاقی اصولوں سے قریب تر نہیں کرسکتے جس کے تحت غیر اسلامی ممالک میں بھی کوئی شخص اپنے ہی معاشرے کے فرد کو دھوکہ نہیں دیتا، اپنے تہوار پر اپنے لوگوں کو اشیائے فروخت میں قیمتیں کم کرکے فائدہ پہنچاتے ہیں۔ آئیے! ہم بھی اس رمضان اپنے اردگرد کے لوگوں کو لوٹنے کے بجائے فائدہ پہنچانے کی کوشش کریں، افطار و سحری میں کھانے پینے کی اشیاء ہوں یا عید کے کپڑے وغیرہ تمام اشیاء پر ناجائز منافع کے بجائے غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کو بھی رعایت دیں اور کم ازکم رمضان کے مہینے میں تو لوٹ کھسوٹ کے اس کلچر کو جاری نہ رکھیں جو سارا سال جاری رکھتے ہیں۔
جب آپ نے گھوڑے والے کو قیمت دیدی اور وہ چلا گیا تو نوکر نے آپ سے کہا جناب! میں تو اچھا سودا کرکے لایا تھا آپ نے مزید درہم کیوں دے دیے؟ اس بات پر حضرت جریر بن عبداللہؓ نے جواب دیا کہ مالک کو اپنے گھوڑے کی قیمت کا درست اندازہ نہیں تھا یہ گھوڑا آٹھ سو درہم کا ہے اگر میں اس گھوڑے کو چار سو درہم میں لے کر اپنا مالی فائدہ حاصل کرلیتا تو کل اللہ کے ہاں کیا جواب دیتا؟ جب کہ میں نے اللہ کے نبیؐ کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ جب تک زندہ رہوں گا مسلمان کی خیرخواہی چاہوں گا۔
مذکورہ واقعہ نہ صرف اسلامی تعلیمات کو کھل کر بیان کر رہا ہے بلکہ اسلامی معاشرے کی حقیقی روح کو بھی بیان کر دیا ہے۔ آج ہمارا اسلامی معاشرہ فرقہ وارانہ اختلاف میں تو ایک مضبوط ترین معاشرہ نظر آتا ہے لیکن کیا اسلامی تعلیمات میں پچاس فیصد بھی اسلامی معاشرہ ہے؟
رمضان المبارک کا مہینہ ہے آئیے ذرا مذکورہ واقعے کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا جائزہ لیں۔ ایک پھل فروش ہو یا کوئی دکاندار، ایک فیکٹری کا مالک ہو یا بڑا کاروباری ادارہ چلانے والا! کیا کوئی خرید وفروخت میں ایمانداری کا مظاہرہ کرتا ہے؟ آنکھ بچنے پر ایک پھل فروش بھی اپنی مرضی کی قیمت لینے کے باوجود گلے سڑے پھل ترازو میں ڈال دیتا ہے۔ کسی دکان سے کوئی شے خریدیں اور پھر کوئی شکایت کرنے یا تبدیل کرانے پہنچے تو وہ آپ کو پہچاننے سے ہی انکار کردیتا ہے۔دو نمبر مال بلکہ اس سے بھی گھٹیا مال کو اصل مال سے مشابہ کرکے اصل مال کی قیمت وصول کرنا بھی عام ہے جب کہ ہم سب کو ہی حاجی اور نمازی ہونے پر بھی فخر ہے۔
راقم کو اس وقت شہید حکیم سعید کا سنایا ہوا وہ واقعہ بھی یاد آرہا ہے کہ جس میں انھوںنے سوئٹزرلینڈ میں ایک دکان سے کپڑا خریدا اور ابھی دکان سے نکل کر چند قدم چلے ہی تھے کہ وہاں کی ملازمہ دوڑتی ہوئی پیچھے آئی اور آپ کو بلاکر دکان میں لے گئی۔ جہاں سیلز مین نے حکیم سعید صاحب سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ جناب آپ کو جو کپڑا دیا ہے وہ ریجیکٹ پیس ہے، آپ سوٹ کا دوسرا کپڑا لے لیں۔ حکیم سعید کہتے ہیں کہ میں نے اس ریجیکٹ کپڑے کو دیکھا تو وہ پورا درست اور صاف تھا بس ایک جگہ چھوٹی سی سانٹھ آئی ہوئی تھی۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب آج کے دور میں غیرمسلم اخلاقیات اور ایمانداری کو یوں اپنا سکتے ہیں تو بھلا ہم مسلم ہوکر اپنے اسلاف کی یہ تعلیمات کیوں نہیں اپنا سکتے؟ آخر ہم کیوں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے اور ایک دوسرے کی جیب سے سب کچھ چھیننے پر تلے ہوئے ہیں۔
ہم صرف اپنے مسلک پر ہی کیوں فخر کرتے ہیں؟ اس حدیث پہ کیوں عمل نہیں کرتے جس کے تحت مسلمان جب کوئی مال فروخت کرے تو اس کی خامیاں بھی خریدار کو بتانا ضروری ہوتی ہیں۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ جن مسلمانوں کا رہبر (حضرت محمدؐ) انھیں مال فروخت کرتے وقت اس کی خامیاں بھی بیان کرنے کا درس دے ان کے معاشرے میں حالت یہ ہو کہ جان بچانے کی دوائیں بھی جعلی بناکر بازار میں فروخت کی جارہی ہوں، کھانے پینے کی اشیاء میں اس قدر ملاوٹ کی جارہی ہو اور ان اشیاء کی بھی ملاوٹ کی جارہی ہو جو انسانی جان کے لیے بھی مضر ہو، کہیں پریشر کے ذریعے گوشت میں پانی بھر کر فروخت کیا جارہا ہے، کہیں کتوں کے گوشت اور چربی کو خاموشی سے دیگر گوشت اور پکوان تیل و گھی کے ساتھ فروخت کیا جارہا ہے۔ کہیں کیمیکل ملی ہوئی بغیر ٹماٹرکی کیچپ فروخت ہورہی ہے، کہیں دودھ میں مضر صحت اشیاء کی ملاوٹ کے ساتھ ساتھ کپڑے دھونے کا سوڈا بھی ملاکر جھاگ بنائے جارہے ہیں تاکہ دودھ جھاگ والا اصلی لگے۔
غرض یہ سارا عمل سارا سال چلتا ہے اور رمضان میں تو اور بھی عروج پر پہنچ جاتا ہے۔
کیا ہم اس رمضان میں اپنے آپ کو اسلامی تعلیمات یا ان اخلاقی اصولوں سے قریب تر نہیں کرسکتے جس کے تحت غیر اسلامی ممالک میں بھی کوئی شخص اپنے ہی معاشرے کے فرد کو دھوکہ نہیں دیتا، اپنے تہوار پر اپنے لوگوں کو اشیائے فروخت میں قیمتیں کم کرکے فائدہ پہنچاتے ہیں۔ آئیے! ہم بھی اس رمضان اپنے اردگرد کے لوگوں کو لوٹنے کے بجائے فائدہ پہنچانے کی کوشش کریں، افطار و سحری میں کھانے پینے کی اشیاء ہوں یا عید کے کپڑے وغیرہ تمام اشیاء پر ناجائز منافع کے بجائے غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کو بھی رعایت دیں اور کم ازکم رمضان کے مہینے میں تو لوٹ کھسوٹ کے اس کلچر کو جاری نہ رکھیں جو سارا سال جاری رکھتے ہیں۔