اسلام آباد بذریعہ جمہوریت اور صدر مرسی
پاکستان کے بعض اسلام پسند حلقے مصر میں اخوان المسلمون کے حمایت یافتہ صدر مرسی کے برسراقتدار آنے پر شاداںوفرحاں تھے۔
ISLAMABAD:
پاکستان کے بعض اسلام پسند حلقے مصر میں اخوان المسلمون کے حمایت یافتہ صدر مرسی کے برسراقتدار آنے پر شاداںوفرحاں تھے۔ یہاں تک کہ کچھ جذباتی اسے اسلام کی فتح اور طاغوت کی شکست وغیرہ جیسے الفاظ سے یاد کرنے لگے تھے۔ یہ ایک طرح سے ہمارا مجموعی قومی مزاج بنتا جارہا ہے کہ غیر متعلق سی باتوں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں اور جذباتی ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ذہنوں میں قطعی طور پر یہ خیال نہیں آیا کہ مصر کی تحریک ایک قومی سطح کی تحریک تھی اور ہے۔ اس تحریک کے نتیجے میں صرف ایک خاص فرد کے اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ یہ کسی بھی قسم کا انقلاب نہیں تھا۔
اس تحریک نے قربانیاں دے کر جو مقصد حاصل کیا وہ صرف حسنی مبارک کے طویل اقتدار کے خاتمے کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا۔ 2011 میں آنے والی اس تبدیلی کو غیر ضروری طور پر انقلاب سے تعبیر کیا گیا۔ اس تحریک کے دوران 846افراد ہلاک اور 6000 سے زائد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ احتجاج کے دوران 90 پولیس اسٹیشن بھی جلائے گئے اور دیگر املاک کو بھی شدید نقصان پہنچایا گیا۔ حسنی مبارک کے اقتدار کے خاتمے کی تحریک میں اسلامی اور غیر اسلامی تمام قوتیں شانہ بہ شانہ تھیں۔ یہاں بالکل ایسا ہی تھا کہ جیسا ایران میں شاہ کو اقتدار سے ہٹانے کی تحریک کے دوران ہوا ۔ وہاں بھی اقتدار مذہبی سیاسی قیادت کے ہاتھ آیا لیکن مصر میں اخوان اس سطح کی بالغ نگاہی کا ثبوت نہ دے سکی جیساکہ ایران کی قیادت نے پیش کیا۔ زمینی حقائق کے اختلاف کے ساتھ یہ مماثلت بہرحال ہے کہ اقتدار مذہبی افراد کو منتقل ہوا۔
مصر کی تحریک 25 جنوری 2011 تا 11 فروری 2011 (کل دو ہفتے تین دن) کا بہ غور جائزہ لیں۔ احتجاجی نعروں اور مطالبات کو دیکھیں تو آپ کو کہیں بھی اسلام نظر نہیں آتا۔ اگرچہ اس تحریک کے چلانے والے قریباً سب کے سب مصر کے مسلمان ہیں۔ لیکن تحریک کے عنوان سے لے کر طریقہ کار، اہداف، مطالبات، نعرے، احتجاج کہیں بھی آپ کو اسلامیت نظر نہیں آتی۔ تحریک کے مرکز کا نام ہے ''میدان التحریر''۔ عربی کے یہ الفاظ ہمارے ہاں اردو میں عام ہیںمیدان اور تحریر، حریت۔۔۔۔آزادی۔ آزادی کے میدان میں مصری، آزادی کے لیے جمع تھے، نہ کہ کسی ''اسلامی انقلاب'' کے لیے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان، کشمیر، فلسطین، مصر کہیں کے، دنیا کے کسی خطے کے ہمارے اسلامی بھائی آزادی کی کوئی جدوجہد کریں ہم اسے فوراً اسلامی انقلاب کا نام دے کر اس کے مالک بننے کی کوشش شروع کردیتے ہیں۔ حضرات کا موقف یہ ہے کہ ''جہاد اسلامی'' اور ''جہاد حریت'' میں فرق کیا جانا چاہیے۔
اگر کسی خطے کے مسلمان اپنی قومی جدوجہد کو خود آزادی یا کسی ایک خاص فرد کے اقتدار کے خاتمے کا عنوان دے رہے ہیں تو ہمیں حق نہیں کہ ہم اس پر ''اسلامی انقلاب کی چھاپ لگا کر ارض پاک پر اسلامی انقلاب کے عنوان کے تحت احتجاج یا جذباتیت کا مظاہرہ کریں۔ مصر کی تحریک ایک اقتدار کے خاتمے اور ایک خاص طرز کی سرمایہ دارانہ جمہوریت کے لیے تھی۔ وہ اہداف حاصل ہوئے۔ اب مصر کی اور عالم اسلام کی کئی مذہبی سیاسی جماعتوں اور عمائدین کو یہ غلط فہمی لاحق ہوگئی کہ یہ تمام تر اچھل کود جو مچائی گئی ہے اس سے کوئی اسلامی انقلاب کا قافلہ آگے بڑھ رہا ہے۔ وہ یہ نہیں سمجھ پائے کہ آزادی اور جمہوریت کی تحریک میں شامل ہوکر آپ اس نظام پر مکمل اعتماد اور یقین کا اظہار کر رہے ہیں کہ جس کے لیے تحریک بپا کی گئی ہے۔
یہ بات خود بہ خود پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ آپ کو موجودہ نظام جمہوریت و سرمایہ داریت سے کوئی بنیادی اختلاف نہیں ہے۔ البتہ دیگر جماعتوں کی طرح آپ کو بھی صرف اپنی جماعت کے لوگوں ہی کے چہرے پسند ہیں۔ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی۔ آپ جس سرمایہ دارانہ جمہوری نظام میں شامل ہیں وہ ازخود یہ ثابت کرتا ہے کہ آپ کو اس مغربی جدیدیت پسند نظام کے اصولوں، اقتدار، روایات، رویوں، اخلاقیات، مقاصد، اہداف اور سب سے بڑھ کر مابعد الطبیعات سے کوئی اختلاف نہیں۔ آپ متفق ہیں کہ اس نظام کا سانچہ، ڈھانچہ، بنیادیں، رخ، اصول، طریقہ کار وغیرہ سب ٹھیک ہے۔ بس نظام جس فرد یا پارٹی کے ساتھ ہے آپ اس کو ہٹانا چاہتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اسلامی حکومت نہ کبھی جدید تھی، نہ جمہوری نہ سرمایہ دارانہ تو آپ نے کافرانہ نظام زندگی میں اسلام کی تخم کاری کرنے کا کیسے سوچ لیا۔ کیا گندم کاشت کرکے جو کی فصل حاصل کی جاسکتی ہے؟
بات مصر کے تناظر میں تھی۔ آپ دیکھیے کہ وہاں کی مقبول سیاسی جماعت جس کی قیادت محمد مرسی کرتے ہیں اس کا نام کیا ہے؟ مذہبی سیاسی جماعت ہے اور اس کا نام ہے ''حزب الحریہ ولعدالہ''۔ حزب یعنی پارٹی ، تنظیم، حریر، حریت، آزادی۔ عدالہ، عدالت، انصاف اس پارٹی کا نعرہ ہے ''مصر کی بھلائی، مصر کی فلاح، بہتری''۔ اور ظاہر ہے کہ یہاں بھلائی اور بہتری سے مصر کی مادی ترقی مراد ہے نہ کہ مصر کے مسلمانوں کی اخروی فلاح اور نجات۔ اب بتائیے! آخر آپ کو مغرب سے اختلاف کیا ہے؟ ذرا تصور کیجیے ، اوباما صاحب، مرسی اور احمد نژاد صاحبان۔
سب ایک ساتھ کھڑے ہیں، ان کے لباس، ان کی چال ڈھال، ان کے طرز بودوباش ان کے دفاتر۔ آخر ان میں فرق کیا ہے؟ جیسا لباس اوباما کا ویسا ہی محمد مرسی اور نژاد کا۔ وہ حضرت بھی کرسی پر بیٹھتے ہیں، دفتر میں تزئین وآرائش ہے، شیشے لگے ہیں وغیرہ وغیرہ کم و بیش ویسے ہی دفاتر ان دونوں کے بھی ہیں۔ اوباما صاحب بھی جمہوریت اور ترقی کے اور آزادی کے علم بردار ہیں۔ انھیں کب انکار ہے۔ یہ سب بھی ترقی کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے پاس بھی فوج ہے۔ ان کے پاس بھی فوج ہے۔ وہ بھی سائنس دان رکھتے ہیں۔ ان کے بھی سائنسدان ہیں۔ وہ بھی ووٹ کے ذریعے اقتدار میں آئے ہیں۔ یہ بھی ووٹ کی طاقت کے بل پر آئے ہیں اور اسی پر اعتماد کرتے ہیں۔ آخر کیا فرق ہوا؟ بس یہ کہ یہ دونوں کلمہ پڑھتے ہیں اور اوباما کلمہ نہیں پڑھتے؟
محمد مرسی صاحب اقتدار ملنے کے بعد اپنے تئیں بہت محتاط رہے۔انھوں نے کوئی ایسا براہ راست اقدام نہیں کیا جو ان کے اقتدار کے لیے خطرہ ثابت ہوتا یا جس سے یہی ثابت ہوتا کہ وہ اخوان المسلمون جیسی تنظیم سے آئے ہیں۔ لیکن انھوں نے ایک سامنے کی حقیقت کو فراموش کردیا۔ صدر حسنی مبارک کم و بیش 30 برس تک مصر پر راج کرتے رہے ہیں۔ وہ امریکا کے تعاون سے نہ صرف یہ کہ 440,000 فوج کو پالتے تھے بلکہ پولیس، عدلیہ، خفیہ پولیس، میڈیا، اشرافیہ غرض کہاں ان کے افراد نہیں ہیں۔ صرف ایک فرد کے ہٹ جانے سے وہ سب تو نہیں ہٹ سکتے اور نہ ہی ہٹائے جاسکتے ہیں۔ محمد مرسی نے ان سب کے ساتھ نہایت نرمی اور اعتماد کا رویہ رکھا۔ انھوں نے کبھی بھی ریاستی مشینری یا ریاست کی عامل قوتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
وہ یہ بھی بھول گئے کہ فوج اپنا ہی ملک فتح کرنے کے لیے ہے نہ کہ خارجی خطرات سے دفاع کے لیے۔ امریکا مصر کی فوج کو ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ امداد دیا کرتا تھا۔ یہ امداد ان رقوم کے علاوہ ہے جو اعلیٰ سول اور فوجی قیادت، پولیس کے سربراہان اور بیوروکریٹس وغیرہ کو پیش کی جاتی ہے۔ مصر کی فوج کو امریکا نے ایف۔ سولہ لڑاکا طیارے دیے۔ ایم۔ جون ٹینک، بکتر بند گاڑیاں، الیکٹرانک آلات، ریڈار سسٹم وغیرہ کیا یہ عام سی باتیں بھی مرسی صاحب کے پیش نظر نہ تھیں؟ کیا صرف سربراہ کی تبدیلی سے وہ یہ سمجھتے کہ پورا ادارہ ان کا حامی ہوجائے گا۔
فوج کی ہمدردیاں مرسی صاحب کے ساتھ ہوجائیں گی۔ امداد اور پیسہ تو ملے امریکا سے اور وہ بات مانیں گے مرسی کی۔ یہ سادگی نہ معلوم کیوں تھی۔ یہی سبب ہے کہ جب فوج نے محمد مرسی کو اقتدار سے بے دخل کیا تو واشنگٹن نے اس عمل کی مخالفت نہیں کی۔ اسے فوج کا اقتدار پر قبضہ قرار نہیں دیا گیا۔ مرسی اور اخوانی یہ اندازہ بھی نہیں کرسکے تھے کہ وہ بہت جلد عوامی مقبولیت کھوسکتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے خلاف ہونے والا احتجاج خود پولیس اور خفیہ پولیس کے افراد ترتیب دے رہے ہوں گے۔
اخوان المسلمون اور صدر مرسی کو اقتدار کی دوڑ میں شریک نہیں ہونا چاہیے تھا۔ انھیں یک طرفہ طور پر اقتدار کے لیے دیگر قوتوں کو آگے آنے دینا چاہیے۔ عبرت کا مقام ہے کہ تحلیل کی گئی پارلیمنٹ میں 90 فی صد افراد مذہبی جماعتوں سے آئے ہوئے ہیں۔ النور پارٹی کی قیادت بھی مذہبی قیادت ہے جو دوسری بڑی پارلیمانی جماعت ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر مصر کی سڑکوں پر احتجاج کرنے والے کون ہیں؟
مصر تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے۔ وہاں کی معاشیات سے لے کر اخلاقیات تک سب کچھ تباہ کی جاچکی ہے۔ تاریخ کے اس مشکل ترین موڑ پر محمد مرسی اور ان کے تمام حامی، تمام اخوانی ایک مشکل ترین لیکن قابل عمل فیصلہ کرکے تمام تر سازشوں کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ اب تک بیسیوں نوجوان ہلاک ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ ''سول وار'' ہونے کا خدشہ ظاہر کرچکا ہے۔ مرسی کا صرف ایک تاریخی فیصلہ اس سب کو یک لخت ختم کرسکتا ہے۔ اور اگر اقتدار ہی منزل ہے تو مستقبل میں اس ہدف کے امکان بھی روشن ہیں وہ فیصلہ ہے اقتدار سے یک طرفہ طور پر علیحدگی اور آنے والی حکومت کے ہر اچھے کام میں غیر مشروط تعاون کی یقین دہانی آج مصر کو دوبارہ زندہ کرسکتا ہے۔