سارا قصور نعمت اﷲ خان کا ہے
چند برس ہوئے ہم لوگ یورپ میں تھے۔ آسٹریا سے بذریعہ سڑک اٹلی میں داخل ہوئے تو فرانسیسی نسل کا گائیڈ...
چند برس ہوئے ہم لوگ یورپ میں تھے۔ آسٹریا سے بذریعہ سڑک اٹلی میں داخل ہوئے تو فرانسیسی نسل کا گائیڈ، باب اٹھا اور بولا ''... اب ہم اٹلی میں داخل ہوچکے ہیں۔ اپنے پیسے، پاسپورٹ اور پرس سنبھال کے رکھیں۔ کیمرہ کندھے پر مت لٹکائیں۔ یہاں ہر چیز چھن سکتی ہے...'' یہ یورپ کا عجب ملک ہے۔ ایک دوپہر بازار گھومنے نکلے تو ہمارے ہاں والے ریگل کے علاقے کا لطف آگیا۔ ہارن پہ ہارن بج رہا تھا اور گاڑیوں میں بیٹھے لوگ، پیدل چلنے والوں سے لڑرہے تھے کہ تم لوگوں کو سڑک عبور کرنے کے لیے یہی جگہ ملی ہے؟ ہمیں یوں لگا کہ جیسے بوہری بازار اور زینب مارکیٹ کے کہیں آس پاس ہی ہوں۔
سنتے آئے ہیں کہ کسی شہر کے باسیوں کے مزاج کو سمجھنا ہو تو وہاں کی ٹریفک کو دیکھو۔ یہ روم والوں کا مزاج تھا۔ اس کی تصدیق بعد میں بھی ہوتی رہی۔ اس شہر میں اور میرے شہر میں بس یہی ایک مماثلت تھی۔ میرا گمان ہے کہ ہم اب اس معاملے میں بہتوں کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ اب آپ یہ مت سمجھیے گا کہ میں آگے لیاری کے میدان جنگ کی بپتا شروع کردوںگا۔ ہر گز نہیں مجھ سا کوڑھ مغز، توپ وتفنگ کی گتھیاں کیا سلجھائے گا۔ اس کے لیے آپ شام سات بجے کے بعد والے ٹی وی پروگرام دیکھیں۔ وہ ہر سوال کا جواب جانتے ہیں۔ میں تو بس اتنا جانتاہوں کہ جب لاہور میں پڑھتاتھا تو سنتاتھا کہ اگر ٹریفک کی روانی دیکھنی ہے تو کراچی میں دیکھو۔ ایک ایک پہیا اپنی لین کے اندر گھومتا ہے اور لائن کراس نہیں کرتا۔
ٹریفک پولیس کا رعب اتنا ہے کہ لوگ تھر تھر کانپتے ہیں۔ پھر کراچی آیا تو سب کچھ ایسا ہی پایا۔ سفید یونیفارم والے چست وچالاک ٹریفک کانسٹیبل کے سر پر لوہے کی نوکدار گاجر والی ٹوپی پہلی بار یہیں دیکھی۔ سفید دستانے پہن کے وہ اشارہ کرتاتھا اور کسی کی جرأت نہ تھی کہ حکم عدولی کرے۔ ٹرام کے آخری دن تھے ۔ وہ چلتی تو اس کی ٹن ٹن دھن پر باقی گاڑیاں محورقص نہ ہوتی تھیں۔ ہوش میں رہتیں اور اس کے پہلو بہ پہلو چلتیں۔ میں گھر سے یونیورسٹی پہلے روز سترہ منٹ میں پہنچا تھا۔ آخری روز بھی اتنا ہی وقت صرف ہوا۔ اس کے بعد گھر سے دفتر پہنچنے میں25منٹ لگتے رہے۔ نہ کبھی ٹریفک جام ہوا اور نہ ہی وی آئی پی موومنٹ نے خلل اندازی کی۔
اس کے بعد ہم نے ایک دم ترقی کرنا شروع کردی۔ ہم جدید ہونے لگے۔ ہم نے اپنی تاریخ کا پہلا فلائی اوور بنایا۔ یہ پل شاہراہ فیصل پر تھا اور شاید دنیا کا واحد فلائی اوور تھا جس کے اوپر ٹریفک کی روانی کو کسی رکاوٹ کے بغیر برقرار رکھنے کے لیے ٹریفک سگنل نصب کیے گئے تھے۔ اسے کامیاب سمجھاگیا تو پھر ایک کے بعد ایک بہت سے پل اور فلائی اوور سر اٹھانے لگے۔ پل بننے سے راستے تو آسان ہوئے مگر لمبے بھی ہوگئے۔ یہ کوئی خراب بات نہ تھی ۔ آسانی کی خاطر لوگ قدرے طویل سفر بخوشی قبول کرلیتے ہیں۔ پوری دنیا میں ایسا ہی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں ترقی کے اس سفر میں جب سڑکیں چوڑی کرنے کی بات آئی تو کچھ سڑکیں چوڑی ہوگئیں، بیشتر اہم مقامات پر سڑک کو چوڑا کرنے کے چکر میں سروس لین کا خاتمہ کردیاگیا اور اسے مرکزی سڑک میں شامل کردیاگیا۔ ساری خرابی کا آغاز یہیں سے ہوا۔
اب صورت حال یہ ہے کہ شہر میں پلوں کا ایک ہجوم موجود ہے۔ یہ اوور ہیڈ برج اور فلائی اوور شہر کی شان بڑھاتے ہیں۔ دنیا کے بیشتر بڑے شہروں میں ان کی تعداد بس اتنی ہی ہوتی ہے۔ اسی لیے کئی برسوں کے بعد وطن لوٹنے والوں کو یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ ملک ترقی کررہاہے۔ اس کے بعد انھیں جو کچھ نظر آتاہے وہاں سب ''خیر ہی خیر'' ہے۔ وہ بلبلاتے ہوئے واپس بھاگ جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں مانچسٹر سے ایک مہمان تشریف لائیں۔ ایک ہی دن میں بچوں سے دوستی ہوگئی تو شام کو بولیں ''ڈرائیور کو چھوڑو، آج میں بچوں کو سیر کراکے آتی ہوں، بس کوئی مجھے راستہ بتاتاجائے'' سب بچے گاتے بجاتے ان کے ساتھ روانہ ہوگئے۔ پندرہ منٹ کے بعد وہ واپس لوٹ آئیں۔ چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ سیدھی اپنے بیڈ روم میں گئیں اور بیڈ پر گرکے لمبی لمبی سانسیں لینے لگیں۔ حواس درست ہوئے تو بولیں '' میں نے پوری زندگی میں صرف دو بار ہارن کی آواز سنی ہے۔ آج دو سو بار سن لی۔ ہر کوئی ہارن بجارہا تھا اور مجھے ٹکر مارنے پر تلا ہواتھا۔ کئی ایک کو تو میں خود ٹکر مارتے مارتے بچی کیونکہ آگے چلنے والی گاڑیوں کی پچھلی بتیاں فیوز تھیں۔''
سروس لین، یعنی مرکزی سڑک کی بغلی سڑک، کسی بھی جگہ کی ٹریفک کو رواں رکھنے میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔ جب اس کا وجود ختم کردیا جائے تو وہی ہوتاہے جو ہمارے ہاں ہورہاہے۔ پہلے پہل تو یہ ہوا کہ مجبوری کے نام پر لوگ سڑک کے کنارے اس جگہ پر ٹریفک کے الٹے رخ پر چلنے لگے جہاں کبھی سروس لین ہوتی تھی پر اب نہیں ہے۔ وہاں گاڑیاں پارک ہونے لگیں تو الٹا چلنے والی سڑک کے ذرا اور بیچ میں چلنے لگی۔ انھیں روکا کسی نے نہیں۔ ٹریفک پولیس مجبوری سمجھ کر نظریں چرالیتی، پھر ہر کوئی شیر ہوگیا۔ ہر قانون کا جلوس نکل گیا اور ہر کسی نے ایسا کرنے کے لیے اپنے اپنے جواز تراش لیے۔ کون سا قانون؟ کیسا قانون؟ کیا پرویز مشرف کو آئین کی سڑک پر الٹا چلنے سے کسی نے روکاتھا؟... چلو سامنے سے ہٹو ورنہ نیچے دے دوںگا۔''
یہاں اب ٹریفک پولیس، ٹریفک رولز اور ٹریفک سگنلز بے معنی اور بے توقیر ہوچکے۔ آپ قانون کے مطابق اپنے ہاتھ پر سیدھے جارہے ہوں تو سامنے سے الٹا آنے والا آپ سے لڑتاہے کہ اس کا راستہ کھوٹا کیوں کرتے ہیں۔ لال سگنل پر رک جائیں تو پیچھے آنے والے ہارن بجا بجاکر پاگل کردیتے ہیں۔ پھر بھی رکے رہیں تو کسی پچھلی گاڑی سے اتر کر آنے والا کوئی شخص پہلے آپ کی گاڑی کا شیشہ اور پھر آپ کا سر توڑسکتا ہے... کسی شہر کا مزاج سمجھنا ہو تو اس شہر کی ٹریفک کو دیکھو۔ یہ نفیس لوگوں کا نفیس شہر ہے۔ لیکن اب یہ ایک نیا معاشرہ ہے۔ آبادی کی بے بہا یلغار اور تعمیر کی بے سری پلاننگ صورت حال کو خراب کررہی ہے اور اس کے کلچر کو بدل رہی ہے۔ روز روز کا ٹریفک جام اور قانون کی ایسی تیسی اس کلچر کا حصہ ہے۔
آیئے اس کی فرد جرم عائد کرکے دیکھتے ہیں۔ باوا آدم تو اس کے ذمے دار ہیں ہی۔ نہ جنت سے نکلتے اور نہ یہ دنیاوی بکھیڑا ہوتا۔ ان کے بعد مجھے تو قراقلی ٹوپی اوڑھنے والا ایک اسی سالہ بوڑھا ہی دکھائی دیتا ہے جس کے گلے میں یہ پھندا فٹ کیاجاسکے۔ اسی نے شہر میں طوفانی رفتار سے پل بنانا شروع کیے تھے۔ یہ سارا قصور اسی کا ہے۔ سارا قصور اسی نعمت اﷲ خان (ایڈووکیٹ) کا ہے۔