بھیک اور عاشق اہل کرم
کہیں کوئی افسانہ، شاید کرشن چندر کا ایک افسانہ پڑھا تھا جس میں بیمہ ایجنٹ کا ذکر ہے
بخدا ہمیں تو اب پتہ چلا کہ بھیک مانگنا کتنا معززانہ بلکہ مقدسانہ کام ہے ورنہ یہ جو ہم اب تک اس مقدس پیشے کے بارے میں برا بھلا کہتے رہے ہیں ہرگز نہ کہتے۔ خیر اب تو ملامت کے جتنے بھی تیر ہم نادانی میں اس بابرکت اور باثواب ''پیشے'' بلکہ ''پیشہ مبارک'' پر چلا چکے ہیں وہ تو واپس آنہیں سکتے لیکن اتنی ہمیں تسلی ہے کہ ہم یا ہمارے بلکہ ساری دنیا کے سارے''تیر'' بھی اس کا بال تک بیکا نہیں کرسکتے کہ یہ پیشہ شریف اتنا ''سب کچھ پروف'' ہے کہ تیر تو کیا توپ وتفنگ بلکہ راکٹ میزائل اور ڈرون تک اس کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے بلکہ مزید سنوارنے کی سبیل ہوسکتے ہیں۔
کہیں کوئی افسانہ، شاید کرشن چندر کا ایک افسانہ پڑھا تھا جس میں بیمہ ایجنٹ کا ذکر ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اس بیمہ ایجنٹ سے میں ناک تک تنگ آگیا۔ہروقت ہر مقام پر لاحق ہوجاتا ہے،گھر سے نکلتا تو دروازے پر منتظر ہوتا اور پھر دفتر تک ساتھ دیتا، اسی طرح دفتر سے نکلتے ہی نازل ہوجاتا اور لائف انشورس کی اہمیت سے مجھے باخبر کرتا رہتا۔ ایک دن وہ دفتر سے گھر پہنچانے کے ساتھ ساتھ سیڑھیوں پرلاحق رہا۔ اپنے گھر کے دروازے پر بھی نہیں چھوڑ رہاتھا تو غصے میں آکر میں نے اسے ایک زوردار دھکا دیا کہ اب تو دفع ہوجا لیکن وہ کچھ زیادہ دفع ہوگیا اور سیڑھیوں پر سے لڑھکتے لڑھکتے نیچے فرش تک پہنچا اور ساکت ہو گیا۔ مجھے افسوس ہوا، جلدی سیٹرھیاں اترکر اس کی نبض وغیرہ دیکھی اور اٹھانے لگا، ساتھ ہی معذرت بھی کرتا رہا۔ اس کا منہُ خون سے بھرا ہوا تھا، چہرہ بھی خاصا متاثر ہوا تھا لیکن اس حالت میں بولا۔ دیکھیے جناب ایسا حادثہ آپ کے ساتھ بھی ہوسکتاہے، اس لیے پالیسی لے لیجیے۔
دراصل ہم بھی پرانے زمانے کے ''آدھ پڑھ'' قسم کے لوگوں میں سے ہیں اس لیے لوگوں کی دیکھا دیکھی، سناسنی اور لکھالکھی میں آکر''بھیک'' کو برا سمجھتے تھے بلکہ اس سلسلے میں خاص طور پر ہم اپنی تمام لاحق وسابق حکومتوں اور سابق ولاحق لیڈروں سے خاص طور پر معذرت خواہ ہیں۔ پشتو کہاوت کے مطابق ''انجان بے گناہ'' ہم جانتے ہی نہیں تھے کہ بھیک کتنا معززانہ پیشہ ہے۔ وہ تو ہمیں اپنے سابق دوست اور لاحق وزیرشوکت علی یوسف زئی کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ انھوں نے ریاست مدینہ کے قیام کا مژدہ دیتے ہوئے یہ خوش خبری بھی سنائی کہ پشاور میں''پانچ شیلٹر ہومز'' یا مہمان خانے قائم کیے جا رہے ہیں، جہاں قیام وطعام کا بندوبست بھی ہوگا اور بے گھر افراد کو لانے لے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ بھی مہیاکی جائے گی۔پجگی روڈ کے مہان خانے میں 230جب کہ باقی مہمان خانوں میں پچاس پچاس بیڈز کی گنجائش ہوگی۔یہ کل ملاکر پانچ چھ سو ہوجائیں گے۔
چونکہ اس سے پہلے بھی ایک دینی حکومت نے ''دارلکفالہ'' نام سے ایسے کچھ اعلانات کیے تھے جنھیں ہم نے بچشم خود اخباروں اور بیانوں میں ''دیکھا'' تھا وہ بھی دین داروں کی حکومت تھی اور یہ بھی ریاست مدینہ ہے، اس لیے یہ سوال تو بیچ ہی سے اڑ گیا کہ بھیک کی دینی حیثیت کیاہے؟ اور وہ اوپر والے ہاتھ اور نیچے والے ہاتھ کے معنی کیاہوتے ہیں اور اس واقعے کا کیا مطلب نکلتاہے کہ حضور کے پاس ایک آدمی نے آکر غربت کی فریاد اور کچھ امداد کی درخواست کرنے لگا تو آپ نے اس کے کاندھے پر رکھے ہوئے کمبل کے بارے میں پوچھا کہ کیا یہ کمبل تمہارا اپنا ہے؟ بندے نے اقرار کیا تو سردار دوجہاں نے اسے اپنے ساتھ لیا، بازار میں اس کاکمبل بکوایا، کچھ پیسے اسے دیے کہ اس سے نان ونفقہ گھر میں ڈال لے اور باقی پیسوں سے ایک کلہاڑی اور رسی خریدکردی کہ جا اور جنگل سے لکڑیاں کاٹ کرلا اور شہر میں بیچ۔
یہ اس ہستی نے کیا جو اگر چشم ابرو سے اشارہ کردیتے تو ''سارے غنی'' اس شخص کی مدد کرنے کو دوڑ پڑتے، لیکن چونکہ ہم ''ریاستوں'' کے بارے میں کچھ زیادہ جانکاری نہیں رکھتے یعنی
امور مملکت ملک خسرواں دانند
گدائے گوشہ نشینی تو حافظا مخروش
البتہ ایک گدائے شیرنشیں کی حیثیت سے ہمیں معلوم ہے کہ کم ازکم پشاور میں ''اتنے بے گھر اور بے در'' تو ہرگز موجود نہیںہیں ''حکومت پیشہ'' یعنی بھکاری یقیناً بہت ہیں لیکن ان میں سے اکثر کے کئی کئی گھر ہوتے ہیں، صحیح معنی میں بے چھت اور بے گھر شاید سو بھی نہ ہوں گے لیکن حکومت کے لیے یہ کچھ زیادہ مشکل بھی نہیں، ان مہمانوں کے انتظام وانصرام پر جو ''صادق اور امین'' متعین ہوں گے، وہ مہمانوں کا بندوبست بھی کرلیں گے۔
چنانچہ بھیک کے اس لفظ پر ہم نے اپنی تحقیق کا ٹٹو بھی دوڑایا تو بات ''بھکشو'' تک جاپہنچی۔ ویسے تو بھکشو بدھ مت کے زیادہ معروف ہیں لیکن تمام ہندی دھرموں میں ''بھکشا'' ایک باثواب بلکہ تقریباً عبادت جیسا فعل ہے۔ سارے یوگی، تپسوی اور رشی منی'' تپسیا'' کے ساتھ ساتھ بھیک مانگنا ضروری سمجھتے تھے اور اس کے لیے باقاعدہ ایک مقررہ جملہ ہوتا تھا۔ گھر کے سامنے کھڑے ہوکر آواز لگاتے تھے کہ ''بھکشا آ آم داہی'' یعنی مجھے بھیک دو۔ گھر والے جو کچھ چاہتے دے دیتے تھے۔ بھیک ملنے پر وہ''کلیان ہو'' یا ''کشل منگل بھوا'' کہہ کر چلاجاتا۔ہند کے تمام دھرموں میں دراصل ''بھیک'' کا مقصد کچھ لینا دینا نہیں ہے بلکہ''غرور اور تکبر'' کی روک تھام کرنا ہے کہ بڑے سے بڑا رشی منی بھی اپنی عبادت یا شخصیت یا مقام پر غرور نہ کرے۔اس کے کچھ اثرات اپنے ہاں بھی پائے جاتے ہیں۔ جن لوگوں کے ہاں برسوں کے بعد بیٹا پیدا ہو،ان کے لیے اکثریہ ہوتاہے کہ بچہ ہونے کے بعد امیر سے امیر آدمی بھی سال یا دوسال کے لیے ''بھیک'' مانگ کر اس کی پالن پوشن کرتاہے تاکہ اس کے دل سے غرور وتکبر کا احساس اگر ہو تو مٹ جائے۔
اس نقطہ نظر پر جب ہم نے اپنا ٹٹوئے تحقیق دوڑایا تو سارا مسئلہ ہی حل ہوگیا۔البتہ یہ پتہ تو نہیں لگایا جاسکا کہ وہ کون سا پیر فقیر یا سادھو سنت تھا جس نے اس ''بچے'' کے لیے جو 1947ء کو پیدا ہوا تھا، یہ نسخہ تجویزا تھا لیکن چونکہ یہ ایک بالکل ہی نئی قسم کا بچہ تھا جو بالکل ہی نئے طریقے پر نیانیا جنا تھا اور ابتدا میں دو ٹکڑے بھی تھا، اس لیے کسی بزرگ نے یہی نسخہ بتایا ہوگا کہ اس کی صحت وسلامتی کے لیے اس کی پرورش''بھکشام دہی'' کے ذریعے ہو تاکہ نظربد سے بھی بچا رہے اور آرام سے پل کر ''ماں باپ'' کا نام بھی روشن کرے۔ سو تب سے آج تک اس کے ''مائی باپ'' بھیک مانگ مانگ کر اس کا پالن پوشن کررہے ہیں بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر خود اس کو بھی بھکشام دہی کی لت لگاکر ''بھکشو'' بنائے ہوئے ہیں بلکہ عاشق اہل کرم بھی ہوجاتے ہیں۔
چھوڑی اسدؔ نہ ہم نے گدائی میں دل لگی
سائل ہوئے تو عاشق اہل کرم ہوئے
کہیں کوئی افسانہ، شاید کرشن چندر کا ایک افسانہ پڑھا تھا جس میں بیمہ ایجنٹ کا ذکر ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اس بیمہ ایجنٹ سے میں ناک تک تنگ آگیا۔ہروقت ہر مقام پر لاحق ہوجاتا ہے،گھر سے نکلتا تو دروازے پر منتظر ہوتا اور پھر دفتر تک ساتھ دیتا، اسی طرح دفتر سے نکلتے ہی نازل ہوجاتا اور لائف انشورس کی اہمیت سے مجھے باخبر کرتا رہتا۔ ایک دن وہ دفتر سے گھر پہنچانے کے ساتھ ساتھ سیڑھیوں پرلاحق رہا۔ اپنے گھر کے دروازے پر بھی نہیں چھوڑ رہاتھا تو غصے میں آکر میں نے اسے ایک زوردار دھکا دیا کہ اب تو دفع ہوجا لیکن وہ کچھ زیادہ دفع ہوگیا اور سیڑھیوں پر سے لڑھکتے لڑھکتے نیچے فرش تک پہنچا اور ساکت ہو گیا۔ مجھے افسوس ہوا، جلدی سیٹرھیاں اترکر اس کی نبض وغیرہ دیکھی اور اٹھانے لگا، ساتھ ہی معذرت بھی کرتا رہا۔ اس کا منہُ خون سے بھرا ہوا تھا، چہرہ بھی خاصا متاثر ہوا تھا لیکن اس حالت میں بولا۔ دیکھیے جناب ایسا حادثہ آپ کے ساتھ بھی ہوسکتاہے، اس لیے پالیسی لے لیجیے۔
دراصل ہم بھی پرانے زمانے کے ''آدھ پڑھ'' قسم کے لوگوں میں سے ہیں اس لیے لوگوں کی دیکھا دیکھی، سناسنی اور لکھالکھی میں آکر''بھیک'' کو برا سمجھتے تھے بلکہ اس سلسلے میں خاص طور پر ہم اپنی تمام لاحق وسابق حکومتوں اور سابق ولاحق لیڈروں سے خاص طور پر معذرت خواہ ہیں۔ پشتو کہاوت کے مطابق ''انجان بے گناہ'' ہم جانتے ہی نہیں تھے کہ بھیک کتنا معززانہ پیشہ ہے۔ وہ تو ہمیں اپنے سابق دوست اور لاحق وزیرشوکت علی یوسف زئی کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ انھوں نے ریاست مدینہ کے قیام کا مژدہ دیتے ہوئے یہ خوش خبری بھی سنائی کہ پشاور میں''پانچ شیلٹر ہومز'' یا مہمان خانے قائم کیے جا رہے ہیں، جہاں قیام وطعام کا بندوبست بھی ہوگا اور بے گھر افراد کو لانے لے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ بھی مہیاکی جائے گی۔پجگی روڈ کے مہان خانے میں 230جب کہ باقی مہمان خانوں میں پچاس پچاس بیڈز کی گنجائش ہوگی۔یہ کل ملاکر پانچ چھ سو ہوجائیں گے۔
چونکہ اس سے پہلے بھی ایک دینی حکومت نے ''دارلکفالہ'' نام سے ایسے کچھ اعلانات کیے تھے جنھیں ہم نے بچشم خود اخباروں اور بیانوں میں ''دیکھا'' تھا وہ بھی دین داروں کی حکومت تھی اور یہ بھی ریاست مدینہ ہے، اس لیے یہ سوال تو بیچ ہی سے اڑ گیا کہ بھیک کی دینی حیثیت کیاہے؟ اور وہ اوپر والے ہاتھ اور نیچے والے ہاتھ کے معنی کیاہوتے ہیں اور اس واقعے کا کیا مطلب نکلتاہے کہ حضور کے پاس ایک آدمی نے آکر غربت کی فریاد اور کچھ امداد کی درخواست کرنے لگا تو آپ نے اس کے کاندھے پر رکھے ہوئے کمبل کے بارے میں پوچھا کہ کیا یہ کمبل تمہارا اپنا ہے؟ بندے نے اقرار کیا تو سردار دوجہاں نے اسے اپنے ساتھ لیا، بازار میں اس کاکمبل بکوایا، کچھ پیسے اسے دیے کہ اس سے نان ونفقہ گھر میں ڈال لے اور باقی پیسوں سے ایک کلہاڑی اور رسی خریدکردی کہ جا اور جنگل سے لکڑیاں کاٹ کرلا اور شہر میں بیچ۔
یہ اس ہستی نے کیا جو اگر چشم ابرو سے اشارہ کردیتے تو ''سارے غنی'' اس شخص کی مدد کرنے کو دوڑ پڑتے، لیکن چونکہ ہم ''ریاستوں'' کے بارے میں کچھ زیادہ جانکاری نہیں رکھتے یعنی
امور مملکت ملک خسرواں دانند
گدائے گوشہ نشینی تو حافظا مخروش
البتہ ایک گدائے شیرنشیں کی حیثیت سے ہمیں معلوم ہے کہ کم ازکم پشاور میں ''اتنے بے گھر اور بے در'' تو ہرگز موجود نہیںہیں ''حکومت پیشہ'' یعنی بھکاری یقیناً بہت ہیں لیکن ان میں سے اکثر کے کئی کئی گھر ہوتے ہیں، صحیح معنی میں بے چھت اور بے گھر شاید سو بھی نہ ہوں گے لیکن حکومت کے لیے یہ کچھ زیادہ مشکل بھی نہیں، ان مہمانوں کے انتظام وانصرام پر جو ''صادق اور امین'' متعین ہوں گے، وہ مہمانوں کا بندوبست بھی کرلیں گے۔
چنانچہ بھیک کے اس لفظ پر ہم نے اپنی تحقیق کا ٹٹو بھی دوڑایا تو بات ''بھکشو'' تک جاپہنچی۔ ویسے تو بھکشو بدھ مت کے زیادہ معروف ہیں لیکن تمام ہندی دھرموں میں ''بھکشا'' ایک باثواب بلکہ تقریباً عبادت جیسا فعل ہے۔ سارے یوگی، تپسوی اور رشی منی'' تپسیا'' کے ساتھ ساتھ بھیک مانگنا ضروری سمجھتے تھے اور اس کے لیے باقاعدہ ایک مقررہ جملہ ہوتا تھا۔ گھر کے سامنے کھڑے ہوکر آواز لگاتے تھے کہ ''بھکشا آ آم داہی'' یعنی مجھے بھیک دو۔ گھر والے جو کچھ چاہتے دے دیتے تھے۔ بھیک ملنے پر وہ''کلیان ہو'' یا ''کشل منگل بھوا'' کہہ کر چلاجاتا۔ہند کے تمام دھرموں میں دراصل ''بھیک'' کا مقصد کچھ لینا دینا نہیں ہے بلکہ''غرور اور تکبر'' کی روک تھام کرنا ہے کہ بڑے سے بڑا رشی منی بھی اپنی عبادت یا شخصیت یا مقام پر غرور نہ کرے۔اس کے کچھ اثرات اپنے ہاں بھی پائے جاتے ہیں۔ جن لوگوں کے ہاں برسوں کے بعد بیٹا پیدا ہو،ان کے لیے اکثریہ ہوتاہے کہ بچہ ہونے کے بعد امیر سے امیر آدمی بھی سال یا دوسال کے لیے ''بھیک'' مانگ کر اس کی پالن پوشن کرتاہے تاکہ اس کے دل سے غرور وتکبر کا احساس اگر ہو تو مٹ جائے۔
اس نقطہ نظر پر جب ہم نے اپنا ٹٹوئے تحقیق دوڑایا تو سارا مسئلہ ہی حل ہوگیا۔البتہ یہ پتہ تو نہیں لگایا جاسکا کہ وہ کون سا پیر فقیر یا سادھو سنت تھا جس نے اس ''بچے'' کے لیے جو 1947ء کو پیدا ہوا تھا، یہ نسخہ تجویزا تھا لیکن چونکہ یہ ایک بالکل ہی نئی قسم کا بچہ تھا جو بالکل ہی نئے طریقے پر نیانیا جنا تھا اور ابتدا میں دو ٹکڑے بھی تھا، اس لیے کسی بزرگ نے یہی نسخہ بتایا ہوگا کہ اس کی صحت وسلامتی کے لیے اس کی پرورش''بھکشام دہی'' کے ذریعے ہو تاکہ نظربد سے بھی بچا رہے اور آرام سے پل کر ''ماں باپ'' کا نام بھی روشن کرے۔ سو تب سے آج تک اس کے ''مائی باپ'' بھیک مانگ مانگ کر اس کا پالن پوشن کررہے ہیں بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر خود اس کو بھی بھکشام دہی کی لت لگاکر ''بھکشو'' بنائے ہوئے ہیں بلکہ عاشق اہل کرم بھی ہوجاتے ہیں۔
چھوڑی اسدؔ نہ ہم نے گدائی میں دل لگی
سائل ہوئے تو عاشق اہل کرم ہوئے