نواز لیگ اورپیپلزپارٹی کا ممکنہ اتحاد

دنیا جانتی ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی اپنی بقاء کے لیے کسی حد تک بھی جاسکتی ہیں


علی احمد ڈھلوں January 09, 2019
[email protected]

ابھی تو پاکستان میں کرپشن کی جڑیں نہیں، صرف، صرف اور صرف شاخیں ہی چھانگی جا رہی ہیں جس سے بظاہر تو یہی لگ رہا ہے کہ شجر ِکرپشن کی نشوونما میں اضافے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ کیا یہ ٹولہ اتنا مضبوط ہے کہ ہم چاہ کر بھی ملک کا پیسہ لوٹنے والوں کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتے؟ سمجھ سے باہر ہے کہ یہ کیسا نظام ہے جو مرغی چور کو تو الٹا لٹکا دیتا ہے۔ صرف ایک مرغی چرانے والے سے زبردستی یہ منوالیا جاتا ہے کہ اس نے پورا پولٹری فارم چرایا ہے جب کہ سیون اسٹار چور مل کر پہلے اتحاد بناتے ہیں اور پھر ریاست کو دباؤ میں لاتے ہیں اور پھر ایک چپ سو سکھ۔

شریف خاندان اور زرداری کا احتساب برائے نام ہو رہا ہے ، ان کے پارٹی رہنماؤں کا احتساب بھی برائے نام ہو رہا ہے ، یہ لوگ عدالتوں سے ریلیف لے رہے ہیںاور پھر ان سب کو ایک سیاسی لڑی میں پرونے کے لیے آج کل مولانا فضل الرحمن ''ثالثی'' کا کردار ادا کررہے ہیں اور کہتے پائے جا رہے ہیں کہ '' کیا ہم اُس وقت اکٹھے ہوں گے جب ہم سب جیل میں ہوں گے۔'' حیرت تو اس بات کی ہے کہ ان کے پروڈکشن آرڈرز بھی جاری ہوتے ہیں، اہم ترین کمیٹیوں کی سربراہیاں بھی ان کے سپرد، پروٹوکول بھی پورا، میڈیکل چیک اپ بھی جاری، خوراکیں اور پوشاکیں بھی ان کی پسندیدہ۔ پھر عوام کو بتایا جاتا ہے کہ ''یہ قانون کے تقاضے ہیں''۔

اب مولانا فضل الرحمن ڈرائیونگ سیٹ خود سنبھالنے کے موڈ میں ہیں۔ تحریک انصاف کا مقابلہ کرنے کے لیے کل کے حریف آج کے حلیف بن گئے ہیں،اس نئے ممکنہ اتحاد کی خاص بات یہ ہوگی کہ ن لیگ اور پی پی پی جو کل تک ایک دوسرے کے خلاف زہر اگلتے دکھائی دیتی تھیں، آج ان کی زبان سے ایک دوسرے کے لیے پھول جھڑ رہے ہیں، اس میں حیران ہونے کی بات نہیں ، فرق صرف یہ ہے کہ پہلے سیاسی اتحاد مارشل لاؤں کے خلاف بنتے تھے، اب سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف اتحاد بنانے کی جانب گامزن ہیں۔جو سیدھا سیدھا مارشل لاء کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اور شاید یہ پہلا سیاسی ''اتحاد'' ہو گاجو احتساب کے خلاف ہے یعنی ذاتی مفادات کے لیے بنے گا،اس لیے یقینا اس اتحاد کے نکات میں عوام کا کوئی مسئلہ ڈسکس نہیں ہوگا۔ اس اتحاد میں نہ کہیں صاف پانی کا ذکر ہے ، نہ کہیں ڈیم بنانے کا ذکر ہے۔

آپ نے اگر اپنے دس سالہ دور میں کوئی ڈیم نہیں بنایا یا ڈیم کے پیسے کھا لیے ہیں تو اس میں موجودہ حکومت کا کیا قصور ہے؟ سندھ کی حالت جوں کی توں ہے، بلوچستان کے عوام آج بھی پہاڑوں پر ہیں اور جو زمین پر ہیں وہ احساس کمتری کا شکار ہوکر دشمن کے ہاتھوں فروخت ہونے پر مجبور ہیں۔ ملک میں پینے کا پانی موجود نہیں ہے،صحت کی سہولیات نہیں ہیں، تعلیم نہیں ہے ۔کوئی ایسا سرکاری اسکول نہیں ہے جس میں ہم اپنا بچہ پڑھا سکیں،جہاں ساری دنیا کی اوسط عمر بڑھ رہی ہے ہماری اوسط عمر کم ہو گئی ہے، ہمارا کھانا ناقص ہے، ہمارا پانی ناقص ہے، ہماری دوائیاں ناقص ہیں، ہماری ہر چیز میں ملاوٹ ہے، دنیا جہان کی برائیاں ہمارے اندر موجود ہیں، ان چیزوں کے خاتمے کے لیے تو ہم نے کبھی اتحاد بنایا نہیں لیکن ہم ''احتساب'' روکنے کے لیے صف آرا ہو رہے ہیں۔

دنیا جانتی ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی اپنی بقاء کے لیے کسی حد تک بھی جاسکتی ہیں۔آج مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو یکدم ایک دوسرے کا خیال آگیا ہے، جو لوگ صبح شام ایک دوسرے پر تنقید کے تیر برساتے تھے وہ آج ایک دوسرے کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا مک مکا سامنے آگیا ہے تو غلط نا ہوگا۔ عوام جانتے ہیں کہ دونوں جماعتوں کی قیادت کے پس پردہ عزائم کیا ہیںلہٰذایہ پہلا اتحاد ہوگا جس میں کہیں عوام کی بھلائی یا ملک کی بھلائی کی بات نہیں ہوگی۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے اتحاد کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کو اس بات کا خطرہ ہے کہ ان کی قیادت کو کرپشن الزامات میں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ شہباز شریف اور سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف پہلے ہی گرفتار ہیں جب کہ یہ خبر بھی گردش کر رہی ہے کہ مزید گرفتاریاں بھی متوقع ہیں کیونکہ کرپشن کے خلاف کام کرنے والے ادارے ان سے کرپشن کی ایک ایک پائی کا حساب لینا چاہتے ہیں۔ سابق صدر کی گزشتہ چند تقاریر پر روشنی ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری کو خود بھی گرفتاری کا خطرہ ہے جو فی الوقت ٹل گیا ہے مگر مستقبل قریب میں گرفتاری کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ اور رہی بات مولانا موصوف کی تو کیا انھیں گزشتہ 17سال سے مہنگائی، کرپشن، اداروں کی تباہی اور اقرباء پروری نظر نہیں آئی جب وہ مختلف ادوار میں حکومت کا حصہ بنے رہے۔

گزشتہ 70 سالہ پارلیمانی تاریخ میں کئی بار مختلف حکومتوں کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد بنتے اور ختم ہوتے رہے ہیں تاہم ان کا مقصد عوام کی فلاح یا ملک و قوم کے اجتماعی مقصد کے لیے کام کرنا ہوتا تھا۔ مگر اب یہ جو سارے اکٹھے ہو رہے ہیں یہ اس لیے ہیں کہ انھیں ''کھانے'' کو کچھ نہیں مل رہا، ان کی دہاڑیاں بند ہوگئی ہیں۔ تبھی تو انھوں نے ملک میں تعلیم کو فروغ نہیں دیا تاکہ ان کی شخصیت پرستی ختم نہ ہو جائے۔ حد تو یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی پاکستان میں علاج نہیں کراتا۔کوئی بھی اپنے بچوں کو پاکستان میں نہیں پڑھاتا، یہ لوگ پاکستان میں جہالت کے ذمے دار ہیں، یہی سیاستدان ہیں جو آج جمہوری حکومت کے خلاف اور ملک میں احتساب کے خلاف اتحاد بنا رہے ہیں ۔ آپ کسی بھی سیاسی پارٹی کے ورکر سے پوچھ لیں کہ اُس کی جماعت کا منشور کیا ہے، وہ اپنی پارٹی کے منشور کی دو لائنیں بتانے سے بھی قاصر ہوگا۔

بہرکیف جب ان کے اتحاد سے ملک میں غیر یقینی کیفیت ہوگی یا پیدا کی جائے گی تو پھر کیا ہوگا، اس کا ہر باشعور شخص کو اندازہ ہے۔ ایسے اتحادوں سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے۔ مثلاََپاکستان میں اتحادی سیاست کا آغاز 1952 میں ہوا جب ڈیموکریٹک یوتھ لیگ اورایسٹ پاکستان کمیونسٹ پارٹی نے مسلم لیگ کے خلاف اتحاد بنایا تھا مگر یہ اتحاد اتنا کامیاب نہیں ہوا، اس لیے تاریخ میں اس کا ذکر اتنا نہیں کیا جاتا جتنا 1953میں بنے، دی یونائیٹڈ فرنٹ کا کیا جاتا ہے۔یہ اتحاد چار پارٹیوں پر مشتمل تھا جس میں عوامی مسلم لیگ، نظام اسلام،جنتا دل اورکرشک پراجاپارٹی شامل تھیں۔ یہ اتحادبھی مسلم لیگ کے خلاف بنا ،اس کی وجہ پارٹی میں اندرونی انتشار ، لیڈر شپ کا بحران، ا نتظامی نا اہلی اور غیر ذمے دارانہ رویہ تھا ۔اس اتحاد کے بعد اتحادی سیاست کی فضا جو قائم ہوئی اس کے اثرات جنرل ایوب خان کے خلاف دیکھے جا سکتے ہیں۔

اس اتحاد کے بعد 30 اپریل 1967 نوابزادہ نصراللہ خان کاپانچ پارٹیوں پر مبنی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے ایک سیاسی اتحا د بنا، اس اتحاد نے ایوب خان کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا ،بعد میں اس اتحاد کا نام بدل کر پاکستان ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی رکھا گیا ،یہ اتحاد اپنے مقاصد حاصل کرنے میں بہت حد تک کامیاب رہا۔ اتحادی سیاست کا سلسلہ ، گزرتے وقت کے ساتھ ملک کے سیاسی کلچر میں عام ہو گیا تھا، اس تجرباتی عرصے میں کبھی جمہوری اتحاد بنے تو کبھی اسلامی اتحاد بنے، ان میں سے کچھ اتحاد، جن کے نقش اتنے گہرے ہو چکے ہیں کہ ان کو بھولے سے بھی کوئی نہیں بھلا سکتا۔1971 میں ملک ٹوٹنے کے بعد پہلی مرتبہ 1977 میں انتخابات منعقد ہوئے تو اس میں اتحادی سیاست نے بھی خوب اپنے رنگ دکھائے، پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف 9سیاسی و مذہبی جماعتوں نے مل کرپاکستان قومی اتحاد (پاکستان نیشنل الائنس یا پی این اے)کے نام سے ایک اتحاد بنایا،پی این اے کا نصب العین ، تھا کہ وہ ملک میں نظامِ مصطفی نافذ کریں گے۔

پھر جمہوریت کی بحالی کے لیے6 فروری 1981میں ایم آر ڈی تحریک کی بنیاد رکھی گئی اس تحریک کا بنیادی مقصد جمہوریت کی بحالی تھا ،اس تحریک کی قیادت بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے کی،ایم آر ڈی کی تحریک میں10 سے زیادہ سیاسی جماعتیں شامل تھیں،اس کے بعد 1997 میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے نام سے ایک نیا اتحاد بنا جس کی قیادت نصراللہ خان کررہے تھے ،یہ اتحادنواز شریف کی حکومت کے خلاف بنایا گیا تھا جس کے بعد 12اکتوبر 1999 کو مشرف نے ایک منتخب جمہوری حکومت کو ختم کر کے اقتدار پر قبضہ حاصل کرنے کے ساتھ ،جی ڈی اے کا کام بھی تمام کر دیا۔اس کے بعد بھی جو سیاسی اتحاد بنا وہ مشرف کے خلاف بنا ۔ لیکن آج ملک جس ''سیاسی اتحاد'' کی طرف جاتا دکھائی دے رہا ہے، یقینا ملک اُس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں