کم از کم زرداری اور نواز شریف کا احتساب تو یکساں کر لو
عوام کو ریلیف دینے کے بجائے تکلیف ہی دینی ہوگی۔ بجلی گیس مہنگی کرنی ہوگی۔ ٹیکس بڑھانے ہوںگے
ملک میں احتساب کا بہت شورہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف کے پاس سوائے احتساب کے نعرے کے کوئی کام نہیں ہے ۔ مہنگائی بڑھ رہی ہے۔گیس بجلی کی لوڈ شیڈنگ عروج پر ہے۔ نئے ٹیکسوں کی بھر مار ہے۔ ٹیکسوں کی ریکوری گر رہی ہے۔ لیکن احتساب اور چور چور کا شور تاحال مچا ہوا ہے۔ ایک دوست کا بتانا ہے کہ یہ ایک شعوری کوشش ہے۔ حکومت کو برسر اقتدار آنے کے بعد علم تھا کہ وہ عوام کو کچھ نہیں دے سکتی۔
عوام کو ریلیف دینے کے بجائے تکلیف ہی دینی ہوگی۔ بجلی گیس مہنگی کرنی ہوگی۔ ٹیکس بڑھانے ہوںگے۔ قرض مانگنے ہوںگے، اس لیے یہ طے کیا گیا تھا کہ سیاسی منظرنامے میں احتساب کے شور کا رنگ گہرا کیا جائے گا تا کہ کوئی حکومت کی کارکردگی پر سوال نہ کر سکے۔ چور چور کا ایسا شور مچا دیا جائے گا کہ ایسا لگے کہ پورا ملک چور ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک کامیاب حکمت عملی تھی، وقتی طور پر اس کے اچھے نتائج آئے ہیں۔ لیکن آخر میں حکومت کو اپنی کارکردگی کا جواب دینا ہوگا۔جہاں تک احتساب کا تعلق ہے۔ میں ذاتی طور پر ملک میں یکساں منصفانہ اور شفاف احتساب کا حامی ہوں۔ لیکن جب ایک کو سزا دیں گے اور باقی سب آزاد پھریں گے تو پھر وہ ملزم مظلوم بن جائے گا۔ اور عوام میں اپنی مظلومیت کا رونا رو کر خود کو بے گناہ کہتا رہے گا۔عوام بھی اس سے متاثر ہونا شروع ہوجائیں گے۔
ابھی تحریک انصاف اور باقی جماعتوں کا حقیقی احتساب شروع نہیں ہوا۔ کہیں نہ کہیں ان کے احتساب کو بریک لگی ہوئی ہے۔ لیکن ن لیگ کا احتساب بہت تیزی سے جاری ہے۔ آصف زرداری اور ان کے ساتھیوں کا احتساب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن آصف زرداری اور نواز شریف کے احتساب کے موازنہ میں کہیں نہ کہیں آصف زرداری کو رعایت ملتی نظر آرہی ہے، اس کی قانونی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ لیکن عام آدمی کی نظر سے بات کی جائے تو اسے فرق نظر آرہا ہے۔ لوگ منی لانڈرنگ کی جے آئی ٹی کا پاناما کی جے آئی ٹی سے موازنہ کر رہے ہیں۔ اگر پاناما کی جے آئی ٹی پاناما سے نکل کر اقامہ تک پہنچ سکتی ہے تو آ صف زرداری کی جے آئی ٹی منی لانڈرنگ سے نکل کر نیو یارک والے فلیٹ کو کیوں نہیں لا سکی۔
لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ اگر بلاول معصوم ہے تو مریم نواز معصوم کیوں نہیں۔لوگ جانناچاہتے ہیں کہ اگر بلاول کو اس تناظر میں رعایت ملی ہے کہ انھوں نے کبھی کوئی پبلک آفس نہیں رکھا تو یہ اصول مریم نواز پر کیوں لاگو نہیں کیا گیا۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ اگر سندھ کے وزیر اعلیٰ کا نام ای سی ایل سے نکالنا جمہوریت کے لیے ضروری ہے تو قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف کا نا م ای سی ایل پر رکھنا کتنا جمہوری ہے۔کیا قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کو جمہوریت میں برابر کی حیثیت حاصل نہیں۔احتساب عدالتوں میں پی پی پی کے ریفرنس پہلے ہی سالہا سال سے زیر سماعت ہیں اور ان کا کوئی فیصلہ نہیں ہو رہا۔ ان میں سابق وزرا اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے ریفرنس شامل ہیں۔ لیکن نواز شریف کے ریفرنس بعد میں فائل ہوئے اور پہلے فیصلے ہو گئے۔ ڈاکٹر عاصم کا ریفرنس پہلے فائل ہوا اور آج تک لٹک رہا ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ ا س بار بھی ماضی کی طرح آصف زرداری کے کرپشن مقدمات سالہاسال چلتے رہیں گے اور پھر کسی موقعے پر ایک اور این آر او ہو جائے گا۔ کسی کو زرداری کو نا اہل کرنے کی ویسے جلدی نہیں ہے ۔
حیرانگی کی بات تو یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف بھی اس معاملے پر اشک شوئی ہی کر رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ وفاقی وزرا فوری طو پر پریس کانفرنس کر دیتے ہیں۔ نام ای سی ایل میں ڈال دیے گئے۔لیکن یہ اشک شوئی ہی ہے۔ کب تحریک انصاف کو علم ہوگا کہ وہ اپوزیشن میں نہیں حکومت میں ہے۔ کیا یہ بات دلچسپ نہیں کہ جب تحریک انصاف اپوزیشن میں تھی تو پاناما کے کیس میں فریق بن گئی تھی۔ لیکن آج حکومت میں ہوتے ہوئے تحریک انصاف جعلی اکاؤنٹس کیس میں فریق بننے سے اجتناب کر رہی ہے۔ کیوں حکومت اس معاملے میں صرف زبانی جمع خرچ کر رہی ہے۔ عجیب بات ہے جب دل چاہتا ہے کہ زرداری والے معاملے میں یہ موقف لے لیا جاتا ہے کہ یہ مقدمات ہم نے نہیں بنائے ہیں۔ یہ پرانے مقدمات ہیں۔ ہم کیا کریں ۔ ہمارا کیا قصور ہے اور جب دل چاہتا ہے پریس کانفرنس کی حد تک فریق بن جاتے ہیں۔
حکومت کا یہ موقف بھی نہایت کمزور موقف ہے کہ انھوں نے ابھی تک تو کسی کے خلاف کوئی کیس نہیں بنایا۔ بھائی کیوں نہیںبنایا ۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ن لیگ کے خلاف بنانا چاہتے ہیں اور اس کے خلاف کوئی کیس مل نہیں رہا۔ اور پی پی پی کے خلاف آپ بنانا نہیں چاہتے۔ آپ آج بھی سینیٹ میں پی پی پی کے اتحادی ہیں اور نہ آپ اور نہ ہی پی پی پی سینیٹ میں یہ اتحاد ختم کرنے کے لیے تیار ہے۔کیا ایسا نہیں کہ یک طرفہ احتساب کے طعنے کو ختم کرنے کے لیے ڈراما کیاجا رہا ہے۔ اسی لیے ن لیگ کو نہ تو اس بات پر یقین ہے کہ زرادری کا کوئی احتساب ہو رہا ہے اور نہ ہی اس بات پر یقین ہے کہ زرداری اپوزیشن کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ تحریک انصاف کو مقدس گائے کی حیثیت حاصل ہے۔ لیکن کم از کم نواز شریف اور زرداری کا احتساب تو یکساں کر لیں۔ بلاول اور مریم کا احتساب تو یکساں ہونا چاہیے۔ شہباز شریف اور مراد علی شاہ کا احتساب تو یکساں ہونا چاہیے۔ لیکن ایسا نظر نہیں آرہا۔ کہیں نہ کہیں فرق نظرا ٓرہا ہے۔ بے شک قانون کی زبان میں فرق نہ ہو لیکن عوام فرق محسوس کر رہے ہیں۔
عوام کو ریلیف دینے کے بجائے تکلیف ہی دینی ہوگی۔ بجلی گیس مہنگی کرنی ہوگی۔ ٹیکس بڑھانے ہوںگے۔ قرض مانگنے ہوںگے، اس لیے یہ طے کیا گیا تھا کہ سیاسی منظرنامے میں احتساب کے شور کا رنگ گہرا کیا جائے گا تا کہ کوئی حکومت کی کارکردگی پر سوال نہ کر سکے۔ چور چور کا ایسا شور مچا دیا جائے گا کہ ایسا لگے کہ پورا ملک چور ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک کامیاب حکمت عملی تھی، وقتی طور پر اس کے اچھے نتائج آئے ہیں۔ لیکن آخر میں حکومت کو اپنی کارکردگی کا جواب دینا ہوگا۔جہاں تک احتساب کا تعلق ہے۔ میں ذاتی طور پر ملک میں یکساں منصفانہ اور شفاف احتساب کا حامی ہوں۔ لیکن جب ایک کو سزا دیں گے اور باقی سب آزاد پھریں گے تو پھر وہ ملزم مظلوم بن جائے گا۔ اور عوام میں اپنی مظلومیت کا رونا رو کر خود کو بے گناہ کہتا رہے گا۔عوام بھی اس سے متاثر ہونا شروع ہوجائیں گے۔
ابھی تحریک انصاف اور باقی جماعتوں کا حقیقی احتساب شروع نہیں ہوا۔ کہیں نہ کہیں ان کے احتساب کو بریک لگی ہوئی ہے۔ لیکن ن لیگ کا احتساب بہت تیزی سے جاری ہے۔ آصف زرداری اور ان کے ساتھیوں کا احتساب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن آصف زرداری اور نواز شریف کے احتساب کے موازنہ میں کہیں نہ کہیں آصف زرداری کو رعایت ملتی نظر آرہی ہے، اس کی قانونی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ لیکن عام آدمی کی نظر سے بات کی جائے تو اسے فرق نظر آرہا ہے۔ لوگ منی لانڈرنگ کی جے آئی ٹی کا پاناما کی جے آئی ٹی سے موازنہ کر رہے ہیں۔ اگر پاناما کی جے آئی ٹی پاناما سے نکل کر اقامہ تک پہنچ سکتی ہے تو آ صف زرداری کی جے آئی ٹی منی لانڈرنگ سے نکل کر نیو یارک والے فلیٹ کو کیوں نہیں لا سکی۔
لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ اگر بلاول معصوم ہے تو مریم نواز معصوم کیوں نہیں۔لوگ جانناچاہتے ہیں کہ اگر بلاول کو اس تناظر میں رعایت ملی ہے کہ انھوں نے کبھی کوئی پبلک آفس نہیں رکھا تو یہ اصول مریم نواز پر کیوں لاگو نہیں کیا گیا۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ اگر سندھ کے وزیر اعلیٰ کا نام ای سی ایل سے نکالنا جمہوریت کے لیے ضروری ہے تو قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف کا نا م ای سی ایل پر رکھنا کتنا جمہوری ہے۔کیا قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کو جمہوریت میں برابر کی حیثیت حاصل نہیں۔احتساب عدالتوں میں پی پی پی کے ریفرنس پہلے ہی سالہا سال سے زیر سماعت ہیں اور ان کا کوئی فیصلہ نہیں ہو رہا۔ ان میں سابق وزرا اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے ریفرنس شامل ہیں۔ لیکن نواز شریف کے ریفرنس بعد میں فائل ہوئے اور پہلے فیصلے ہو گئے۔ ڈاکٹر عاصم کا ریفرنس پہلے فائل ہوا اور آج تک لٹک رہا ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ ا س بار بھی ماضی کی طرح آصف زرداری کے کرپشن مقدمات سالہاسال چلتے رہیں گے اور پھر کسی موقعے پر ایک اور این آر او ہو جائے گا۔ کسی کو زرداری کو نا اہل کرنے کی ویسے جلدی نہیں ہے ۔
حیرانگی کی بات تو یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف بھی اس معاملے پر اشک شوئی ہی کر رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ وفاقی وزرا فوری طو پر پریس کانفرنس کر دیتے ہیں۔ نام ای سی ایل میں ڈال دیے گئے۔لیکن یہ اشک شوئی ہی ہے۔ کب تحریک انصاف کو علم ہوگا کہ وہ اپوزیشن میں نہیں حکومت میں ہے۔ کیا یہ بات دلچسپ نہیں کہ جب تحریک انصاف اپوزیشن میں تھی تو پاناما کے کیس میں فریق بن گئی تھی۔ لیکن آج حکومت میں ہوتے ہوئے تحریک انصاف جعلی اکاؤنٹس کیس میں فریق بننے سے اجتناب کر رہی ہے۔ کیوں حکومت اس معاملے میں صرف زبانی جمع خرچ کر رہی ہے۔ عجیب بات ہے جب دل چاہتا ہے کہ زرداری والے معاملے میں یہ موقف لے لیا جاتا ہے کہ یہ مقدمات ہم نے نہیں بنائے ہیں۔ یہ پرانے مقدمات ہیں۔ ہم کیا کریں ۔ ہمارا کیا قصور ہے اور جب دل چاہتا ہے پریس کانفرنس کی حد تک فریق بن جاتے ہیں۔
حکومت کا یہ موقف بھی نہایت کمزور موقف ہے کہ انھوں نے ابھی تک تو کسی کے خلاف کوئی کیس نہیں بنایا۔ بھائی کیوں نہیںبنایا ۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ن لیگ کے خلاف بنانا چاہتے ہیں اور اس کے خلاف کوئی کیس مل نہیں رہا۔ اور پی پی پی کے خلاف آپ بنانا نہیں چاہتے۔ آپ آج بھی سینیٹ میں پی پی پی کے اتحادی ہیں اور نہ آپ اور نہ ہی پی پی پی سینیٹ میں یہ اتحاد ختم کرنے کے لیے تیار ہے۔کیا ایسا نہیں کہ یک طرفہ احتساب کے طعنے کو ختم کرنے کے لیے ڈراما کیاجا رہا ہے۔ اسی لیے ن لیگ کو نہ تو اس بات پر یقین ہے کہ زرادری کا کوئی احتساب ہو رہا ہے اور نہ ہی اس بات پر یقین ہے کہ زرداری اپوزیشن کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ تحریک انصاف کو مقدس گائے کی حیثیت حاصل ہے۔ لیکن کم از کم نواز شریف اور زرداری کا احتساب تو یکساں کر لیں۔ بلاول اور مریم کا احتساب تو یکساں ہونا چاہیے۔ شہباز شریف اور مراد علی شاہ کا احتساب تو یکساں ہونا چاہیے۔ لیکن ایسا نظر نہیں آرہا۔ کہیں نہ کہیں فرق نظرا ٓرہا ہے۔ بے شک قانون کی زبان میں فرق نہ ہو لیکن عوام فرق محسوس کر رہے ہیں۔