رجعت قہقری پر مجبور معاشرہ
وہ بے چارہ اِس مقدمے کے فیصلے کے انتظار میں دارفانی ہی سے کوچ کرگیا
مشہور زمانہ اصغر خان کیس کا حالیہ انجام بھی وہی ہوا جو مجبوریوں اور مصلحتوں کے تحت ایسے مقدمات کا ہوتا ہے۔ ویسے تو پاکستان کی عدالتی تاریخ نادیدہ دباؤ اور مجبوریوں کے تحت کیے جانے والے بے شمار فیصلوں سے بھری پڑی ہے لیکن 2007ء کی تحریک بحالی عدلیہ کے بعد یہ سمجھا جا رہا تھا کہ اب اِس ملک میں ایسا دور ہوگا جس میں ہر چھوٹے اور معمولی قد وقامت کے شخص کے لیے بھی قانون کا وہی پیمانہ دستیاب ہوگا جوکسی بڑے مالدار اور با اختیار شخص کے لیے مختص ہوتا ہے۔
تقریبا 25 برس پہلے ہمارے یہاں ایک اکیلے شخص نے سیاست اور جمہوریت میں دیگر اداروں کی بے جا مداخلت اور رخنہ اندازی کو روکنے کی غرض سے ایک مقدمہ وطن عزیز کی اعلیٰ عدالتوں کے سپرد کیا تھا کہ وہ اُسے سن کرکوئی ایسا فیصلہ صادرکر دیں جس سے اِس ملک کے سیاسی معاملات میں دوسروں کی مداخلت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجائے مگر افسوس کہ اُس کی زندگی میں یہ مقدمہ فیصلہ کن مرحلے تک پہنچا ہی نہیں ۔ ہمیشہ کسی نہ کسی بہانے سے اُسے سرد خانے میں ڈال دیا جاتا رہا ۔
وہ بے چارہ اِس مقدمے کے فیصلے کے انتظار میں دارفانی ہی سے کوچ کرگیا۔ ایک لحاظ سے یہ اُس کے حق میں اچھا ہی ہوا کہ وہ کوئی فیصلہ سننے سے پہلے ہی اپنی طبعی موت کے ذریعے خاموشی سے دوسری دنیا میں جا بسا، ورنہ اگر دو چار سال مزید زندہ رہ جاتا توآج اپنے اِس کیس کا حتمی انجام سنتے ہی شدت غم سے یقینا اختلاج قلب کا شکار ہو جاتا ۔ ملک کے سیاسی حالات وواقعات پرنظر رکھنے والوں نے تو پہلے ہی نتائج اخذ کرلیے تھے کہ اِس کیس کا کوئی حتمی فیصلہ قطعاً ممکن نہیں ہے۔ یہ یونہی ایک ادارے سے دوسرے ادارے کے چکر لگاتے لگاتے بالآخرکسی قبرکی آغوش میں سو جائے گا۔ ایف آئی اے کی جانب سے جو مشورہ اِس سلسلے میں آج دیاگیا ہے وہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اگر پہلے ہی سمجھ لیتے تو قوم اِس کشمکش اور بے یقینی کی مزید اذیت سے یقینا بچ جاتی۔
2007ء کی تحریک بحالی عدلیہ کی کامیابی کے بعد اُس کے سپہ سالار افتخار محمد چوہدری نے شاید یہ سمجھ لیا تھا کہ وہ اب اِس ملک سے ساری نا انصافیاں یک دم دورکردیں گے۔اُنہوں نے اپنے دور میں کئی ایک سو موٹو لیے اور کئی ایک بڑے فیصلے بھی کیے لیکن کسی ایک کو بھی نتیجہ خیز بنانے میں کامیاب نہیں ہوئے ۔
اُن کے دور میں جوڈیشل ایکٹو ازم کامظاہرہ تو ضرور دیکھا گیا لیکن اُس کے فیصلوں سے عوام کوکوئی ریلیف نہیں ملا ۔ اصغر خان کیس کے مردے کو سرد خانے سے نکال کر کمرہ عدالت میں لانے کے اُن کے عمل نے ہمارے کچھ نا سمجھ اورکم عقل دانشوروں کو اِس خوش فہمی میں مبتلا کر دیا کہ جیسے اب اِس ملک کا سارا نظام ہی بدل جائے گا اور وہ روزانہ ٹی وی پر بیٹھ کر اپنی صحافتی بصیرت اوردانش مندی کے جوہر دکھانے لگے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی اِسے نعمت غیر مترقبہ جانا اور مسلم لیگ نون دشمنی میں پرانے ادھار چکانے شروع کر دیے ۔ لعن طعن کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہو گیا اور اپنے سیاسی مخالفوں کو مورد الزام ٹہرایا جانے لگا، اِس کیس سے جڑے تانے بانے ہماری سلطنت کے اُن درودیوار تک جا پہنچتے ہیں جہاں ہم جیسے کئی کمزور اور بے بس انسانوں کے پَر فوراً ہی جلنا شروع ہو جاتے ہیں۔
خوش گمانیوں اور خوش فہمیوں کے چند ایک سال گزارنے کے بعد آج ہم پر یہ راز ایک بار پھر افشا ہوا ہے کہ یہاں طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں اور ہی ہے۔اِس کیس میں چونکہ اصل ضرب طاقتور لوگوں پر پڑ رہی تھی لہذا 25سال کی ساری محنت و مشقت رائیگاں اور فضول قرار پائی۔ مہران بینک کے یونس حبیب اور جناب اسد درانی کے اقبالی بیانات کے باوجود یہ کہا جارہا ہے کہ طویل وقت گزرجانے کی وجہ سے پیسہ دینے والوں اور پیسہ لینے والوں سے متعلق کوئی ٹھوس ثبوت نہیں مل پا رہے ۔گواہوں کے بیانات میں تضادات کی وجہ سے تحقیقاتی ادارہ کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے سے قاصر ہے لہذا عدلیہ سے التماس ہے کہ اِس کیس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا جائے۔
اصغر خان کیس سیاست اور جمہوریت میں دوسروں کی مداخلت کاایک چھوٹا سا معمولی کیس ہے، ورنہ مملکت کے معرض وجود میں آنے کی دن سے اب تک بڑے بڑے واقعات اور اسکینڈل ایسے گزرے ہیں جن پر لب کشائی کرنے سے پہلے ہی ہم سب کی زبانیں کند ہوجاتی ہیں ۔ سانحہ مشرقی پاکستان یا سقوط ڈھاکا کے اندوہناک واقعے کے اصل ذمے داروں کا تعین بھی آج تک اِسی انجانے خوف اور ڈرکی وجہ سے نہ ہوسکا اور مشہور زمانہ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ بھی شاید اِسی لیے منظر عام پرلانے سے پہلے ہی ناقابل تشہیرقرار دیدی گئی ۔
زرداری اور مشرف کے خلاف کئی سال سے دائر ''این آر او'' کا مقدمہ بھی اچانک داخل دفترکردیا گیا ہے۔ لوٹی ہوئی دولت واپس لانے میں بھی تاحال کوئی کامیابی نہ ہو سکی۔ بیرون ملک ہمارے کئی مالدار لوگوں کی جائیداد کا واپس لانا یقینا ایک مشکل اور ناممکن کام تھا مگر بڑے بڑے قرضے لے کر خود کو دیوالیہ اورکنگال ظاہر کرنے والوں سے پیسہ واپس تو لایا جا سکتا تھا مگر دیکھا یہ گیا کہ اِس ضمن میں مضبوط قدم نہیں اٹھایا گیا۔ اِن قرض خواہوں سے پوچھ گچھ توکجا اُنہیں ایک روزکے لیے بھی عدالت طلب نہیں کیا گیا، بلکہ اِس معاملے سے ایسا صرف نظر برتا گیا جیسے وہ کوئی شجر ممنوعہ ہو ۔ ملکی بینکوں سے قرضے لینے والے بہت سے بڑے بڑے ملزمان آج بھی سینہ تان کر سب کے سامنے گھوم پھر رہے ہیں لیکن کیامجال کہ ملک کا کوئی ادارہ یا کوئی آہنی ہاتھ اُن کے گریبانوں تک بھی پہنچ جائے ۔ یہ حال دیکھ کر ہمارے لوگ مایوس اور بد دل ہو جاتے ہیں اور اُن کا ریاست پر سے اعتماد اور بھروسہ شدید مجروح اور متزلزل ہو جاتا ہے ۔