حتمی ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ نہیں ایک مسودہ افشا ہوا
اختلافات کے باعث کمیشن کے3ارکان نے اپنے مسودے تیار کیے، سابق آئی جی عباس خان نے دلچسپی نہیں لی.
ان دنوں عرب ٹی وی چینل الجزیرہ کی طرف سے جاری کردہ ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ پر بحث گرم ہے۔
درحقیقت یہ رپورٹ کمیشن کی طرف سے تیار کردہ ابتدائی مسودہ ہے۔ کمیشن کے ارکان کی طرف سے الگ الگ مسودے تیار کئے گئے جنہیں ایک جگہ پر یکجا کرنا تھا۔ سنیئر سول حکام اور سیاستدانوں کے انٹرویوز سے معلوم ہوا ہے کہ جب کمیشن تشکیل دیا گیا تو اس کے ارکان میں انکوائری کے سکوپ، طریقے اور فائنڈنگ کی ڈرافٹنگ پر اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔ وزارت قانون میں ایک ذریعے کے مطابق دفتر خارجہ کے سابق بیوروکریٹ اشرف جہانگیر قاضی رپورٹ کو انتہائی جامع بنانا چاہتے تھے جبکہ کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال وزارت قانون کی طرف سے دی گئی ہدایات کے تحت ہی کام کرنا چاہتے تھے۔
ہدایات میں اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کے حوالے سے حقائق جاننا، 2 مئی کو ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن کے حقائق و حالات جاننا، متعلقہ حکام کی کوتاہیوں کی وجوہات، پس منظر و نوعیت کی تحقیقات کرنا اور اگر کوئی کوتاہیاں ہیں تو ان کے تدارک کیلئے سفارشات دینا شامل تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ طویل بحث سے بچنے کیلیے فیصلہ کیا گیا کہ کمیشن کا ہر رکن اپنا مسودہ تیار کریگا اور حتمی رپورٹ کیلیے تمام مسودوں سے مواد لیا جائیگا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں 3مسودے تیار ہوئے جبکہ چوتھے رکن عباس خان نے تحقیقات میں کچھ خاص دلچسپی نہیں دکھائی۔ الجزیرہ کی حاصل کردہ رپورٹ دراصل ان تینوں مسودوں میں سے ایک ہے۔ یہ مسودہ کس کا ہے؟ اس بات کا حتمی فیصلہ تو تحقیقات کرنیوالے ڈائریکٹر آئی بی کریں گے مگر غالب امکان ہے کہ یہ اشرف جہانگیر قاضی کا تیار کیا ہوا مسودہ ہے۔
وزارت قانون کے ایک سنیئر افسر کا کہنا ہے کہ اس نے تینوں مسودے دیکھے ہیں اور افشا ہونیوالا مسودہ ان تینوں میں سے سب سے جارحانہ ہے۔ عام ہونیوالے مسودے کی زبان انتہائی تلخ ہے، محاوروں کا سہارا لیا گیا اور تمام حوالے اسامہ بن لادن کو تلاش کرنے میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی اور پاکستانی سرزمین پر امریکی آپریشن کے دفاع میں ہیں۔ ایسا 'جارحانہ مسودہ' اشرف جہانگیر قاضی کا تیار کردہ ہوسکتا ہے۔ کمیشن کے کچھ اجلاسوں میں شریک ہونیوالے ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ کمیشن کے چاروں ارکان میں سے اشرف جہانگیر قاضی کی انکوائری انہی موضوعات پر تھی اور اپنے ساتھی ارکان سے گفتگو کے دوران جو محاورے وہ استعمال کرتے تھے وہی الجزیرہ کی طرف سے جاری ہونیوالے مسودے میں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ مسودہ کمیشن کے لیول پر لیک ہوا۔
وزیر اطلاعات پرویز رشید نے ٹیلیفونک انٹرویو میں بتایا کہ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے فاروق نائیک کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی تھی جس میں سیکرٹری دفاع، سیکرٹری خارجہ اور 2 دوسرے ارکان شامل تھے۔ کمیٹی نے رپورٹ پڑھنے کے بعد یہ فیصلہ کرنا تھا کہ رپورٹ کو کب اور کیسے جاری کیا جائے۔ مگر کمیٹی نے یہ نہیں کیا۔ اب ہم رپورٹ کو سرکاری طور پر جاری کرنے کیلئے حتمی مسودے پر غور کررہے ہیں۔ انھوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ الجزیرہ کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ صرف ایک مسودہ ہے۔ اس صورتحال میں یہ راز مزید گہرا ہوگیا ہے کہ حتمی رپورٹ کیسی ہوگی اور کیا حتمی مسودے کا لہجہ اور سفارشات وہی ہونگے جو لیک ہونیوالے مسودے میں ہے۔
حتمی رپورٹ دیکھنے کے دعویدار ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ حتمی رپورٹ میں بھی بیانات وہی ہیں جو لیک ہونیوالے مسودے میں، اس لئے حتمی رپورٹ میں ٹھوس حقائق میں کسی بڑی تبدیلی کا امکان نہیں۔ جزوی طور پر یہ صورتحال حقائق اکٹھے کرنے کے کسی واضح طریقے کے نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ نوٹس اور تاثرات ریسرچرز نے قلمبند کیے اور ارکان نے کم ہی ایسا کچھ کیا۔ اگر کوئی ٹھوس بیانات تحریری شکل میں پیش کئے گئے تو کمیشن نے ایسے بیانات کا آڈیو، وڈیو ریکارڈ نہ رکھنے کا فیصلہ کیا اور صرف نکات ضبط تحریر میں لانے پر اکتفا کیا گیا۔ اس لیے اب ایسے بیانات کو کراس چیک نہیں کیا جا سکتا۔ رپورٹ کا حتمی مسودہ جلد سامنے آسکتا ہے۔ وزارت خارجہ اور وزیراعظم کے مشیر اس بات پر قائل ہیں کہ اصلی رپورٹ کے اجرأ سے ابتدائی مسودہ کے لیک ہونے سے پیدا ہونیوالی سنسنی کو ختم کیا جاسکتا ہے۔
حتمی مسودہ سامنے نہ آنے کی وجہ سے الجزیرہ کی طرف سے جاری کردہ مسودہ قومی اور بین الاقوامی میڈیا اور دیگر فورمز پر زیربحث بنا ہوا ہے اور اب حتمی رپورٹ کا بھی اس مسودے کے ساتھ موازنہ کیا جائے گا اور دونوں میں موجود فرق پر بھی غور ہوگا اور ان پر بھی بحت کی جائیگی ۔ اگر بہت زیادہ فرق پایا گیا تو بغض حلقوں کی جانب سے یہ بھی کہا جائے گا کہ شدید تنقید سے بچنے کیلئے رپورٹ کو تبدیل کردیا گیا ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ حتمی رپورٹ کے بھی دو مسودے (version) ہیں۔ اطلاعات کے مطابق حتمی رپورٹ جنرل (ر) ندیم احمد نے لکھی جبکہ اس پر اشرف جہانگیر قاضی کا ایک اختلافی نوٹ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ممکن ہے کہ پاکستان میں کسی کو معلوم ہو کہ اسامہ بن لادن کہاں ہے۔ اس اختلافی نوٹ پر جسٹس (ر) جاوید اقبال نے بھی رائے دی ہے( یعنی اختلاف نوٹ پر اختلافی نوٹ ہے)۔
حکومت میں کوئی بھی ان اختلافی نوٹوں پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ اس لئے غالب امکان ہے کہ حتمی رپورٹ میں یہ متنازعہ پہلو شامل نہیں ہوگا۔ گوکہ یہ ریکارڈ کا حصہ ہے خواہ اسے جاری کیا جائے یا نہیں۔دریں اثنا اے پی پی کے مطابق وفاقی وزیراطلاعات و نشریات پرویز رشید نے میڈیا کی ان اطلاعات کی تردید کی ہے جن میں کہا گیا ہے کہ ایبٹ آباد واقعہ کی رپورٹ وزیراعظم کے دفتر سے غائب ہوگئی ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ یہ رپورٹ حکومت کی محفوظ تحویل میں ہے۔ '' اے پی پی'' سے بات چیت کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ رپورٹ حکومت کے پاس محفوظ ہے اور کسی غیرمجاز شخص کی اس تک رسائی نہیں ہوسکتی۔ انھوں نے کہا کہ یہ رپورٹ نہ تو وزیراعظم کے دفتر سے غائب ہوئی اور نہ ہی افشاء ہوئی۔ اس حوالے سے میڈیا رپورٹس اور کمنٹس غیرمصدقہ، نامکمل اور رپورٹ کی مسخ شدہ قسم ہے۔ انھوں نے ذرائع ابلاغ پر زور دیا کہ بے سروپا قیاس آرائیاں نہ کی جائیں اورکسی تجزیہ کیلیے اصل رپورٹ کے اجراء کا انتظارکیا جائے۔
درحقیقت یہ رپورٹ کمیشن کی طرف سے تیار کردہ ابتدائی مسودہ ہے۔ کمیشن کے ارکان کی طرف سے الگ الگ مسودے تیار کئے گئے جنہیں ایک جگہ پر یکجا کرنا تھا۔ سنیئر سول حکام اور سیاستدانوں کے انٹرویوز سے معلوم ہوا ہے کہ جب کمیشن تشکیل دیا گیا تو اس کے ارکان میں انکوائری کے سکوپ، طریقے اور فائنڈنگ کی ڈرافٹنگ پر اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔ وزارت قانون میں ایک ذریعے کے مطابق دفتر خارجہ کے سابق بیوروکریٹ اشرف جہانگیر قاضی رپورٹ کو انتہائی جامع بنانا چاہتے تھے جبکہ کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال وزارت قانون کی طرف سے دی گئی ہدایات کے تحت ہی کام کرنا چاہتے تھے۔
ہدایات میں اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی کے حوالے سے حقائق جاننا، 2 مئی کو ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن کے حقائق و حالات جاننا، متعلقہ حکام کی کوتاہیوں کی وجوہات، پس منظر و نوعیت کی تحقیقات کرنا اور اگر کوئی کوتاہیاں ہیں تو ان کے تدارک کیلئے سفارشات دینا شامل تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ طویل بحث سے بچنے کیلیے فیصلہ کیا گیا کہ کمیشن کا ہر رکن اپنا مسودہ تیار کریگا اور حتمی رپورٹ کیلیے تمام مسودوں سے مواد لیا جائیگا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں 3مسودے تیار ہوئے جبکہ چوتھے رکن عباس خان نے تحقیقات میں کچھ خاص دلچسپی نہیں دکھائی۔ الجزیرہ کی حاصل کردہ رپورٹ دراصل ان تینوں مسودوں میں سے ایک ہے۔ یہ مسودہ کس کا ہے؟ اس بات کا حتمی فیصلہ تو تحقیقات کرنیوالے ڈائریکٹر آئی بی کریں گے مگر غالب امکان ہے کہ یہ اشرف جہانگیر قاضی کا تیار کیا ہوا مسودہ ہے۔
وزارت قانون کے ایک سنیئر افسر کا کہنا ہے کہ اس نے تینوں مسودے دیکھے ہیں اور افشا ہونیوالا مسودہ ان تینوں میں سے سب سے جارحانہ ہے۔ عام ہونیوالے مسودے کی زبان انتہائی تلخ ہے، محاوروں کا سہارا لیا گیا اور تمام حوالے اسامہ بن لادن کو تلاش کرنے میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی اور پاکستانی سرزمین پر امریکی آپریشن کے دفاع میں ہیں۔ ایسا 'جارحانہ مسودہ' اشرف جہانگیر قاضی کا تیار کردہ ہوسکتا ہے۔ کمیشن کے کچھ اجلاسوں میں شریک ہونیوالے ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ کمیشن کے چاروں ارکان میں سے اشرف جہانگیر قاضی کی انکوائری انہی موضوعات پر تھی اور اپنے ساتھی ارکان سے گفتگو کے دوران جو محاورے وہ استعمال کرتے تھے وہی الجزیرہ کی طرف سے جاری ہونیوالے مسودے میں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ مسودہ کمیشن کے لیول پر لیک ہوا۔
وزیر اطلاعات پرویز رشید نے ٹیلیفونک انٹرویو میں بتایا کہ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے فاروق نائیک کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی تھی جس میں سیکرٹری دفاع، سیکرٹری خارجہ اور 2 دوسرے ارکان شامل تھے۔ کمیٹی نے رپورٹ پڑھنے کے بعد یہ فیصلہ کرنا تھا کہ رپورٹ کو کب اور کیسے جاری کیا جائے۔ مگر کمیٹی نے یہ نہیں کیا۔ اب ہم رپورٹ کو سرکاری طور پر جاری کرنے کیلئے حتمی مسودے پر غور کررہے ہیں۔ انھوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ الجزیرہ کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ صرف ایک مسودہ ہے۔ اس صورتحال میں یہ راز مزید گہرا ہوگیا ہے کہ حتمی رپورٹ کیسی ہوگی اور کیا حتمی مسودے کا لہجہ اور سفارشات وہی ہونگے جو لیک ہونیوالے مسودے میں ہے۔
حتمی رپورٹ دیکھنے کے دعویدار ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ حتمی رپورٹ میں بھی بیانات وہی ہیں جو لیک ہونیوالے مسودے میں، اس لئے حتمی رپورٹ میں ٹھوس حقائق میں کسی بڑی تبدیلی کا امکان نہیں۔ جزوی طور پر یہ صورتحال حقائق اکٹھے کرنے کے کسی واضح طریقے کے نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ نوٹس اور تاثرات ریسرچرز نے قلمبند کیے اور ارکان نے کم ہی ایسا کچھ کیا۔ اگر کوئی ٹھوس بیانات تحریری شکل میں پیش کئے گئے تو کمیشن نے ایسے بیانات کا آڈیو، وڈیو ریکارڈ نہ رکھنے کا فیصلہ کیا اور صرف نکات ضبط تحریر میں لانے پر اکتفا کیا گیا۔ اس لیے اب ایسے بیانات کو کراس چیک نہیں کیا جا سکتا۔ رپورٹ کا حتمی مسودہ جلد سامنے آسکتا ہے۔ وزارت خارجہ اور وزیراعظم کے مشیر اس بات پر قائل ہیں کہ اصلی رپورٹ کے اجرأ سے ابتدائی مسودہ کے لیک ہونے سے پیدا ہونیوالی سنسنی کو ختم کیا جاسکتا ہے۔
حتمی مسودہ سامنے نہ آنے کی وجہ سے الجزیرہ کی طرف سے جاری کردہ مسودہ قومی اور بین الاقوامی میڈیا اور دیگر فورمز پر زیربحث بنا ہوا ہے اور اب حتمی رپورٹ کا بھی اس مسودے کے ساتھ موازنہ کیا جائے گا اور دونوں میں موجود فرق پر بھی غور ہوگا اور ان پر بھی بحت کی جائیگی ۔ اگر بہت زیادہ فرق پایا گیا تو بغض حلقوں کی جانب سے یہ بھی کہا جائے گا کہ شدید تنقید سے بچنے کیلئے رپورٹ کو تبدیل کردیا گیا ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ حتمی رپورٹ کے بھی دو مسودے (version) ہیں۔ اطلاعات کے مطابق حتمی رپورٹ جنرل (ر) ندیم احمد نے لکھی جبکہ اس پر اشرف جہانگیر قاضی کا ایک اختلافی نوٹ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ممکن ہے کہ پاکستان میں کسی کو معلوم ہو کہ اسامہ بن لادن کہاں ہے۔ اس اختلافی نوٹ پر جسٹس (ر) جاوید اقبال نے بھی رائے دی ہے( یعنی اختلاف نوٹ پر اختلافی نوٹ ہے)۔
حکومت میں کوئی بھی ان اختلافی نوٹوں پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ اس لئے غالب امکان ہے کہ حتمی رپورٹ میں یہ متنازعہ پہلو شامل نہیں ہوگا۔ گوکہ یہ ریکارڈ کا حصہ ہے خواہ اسے جاری کیا جائے یا نہیں۔دریں اثنا اے پی پی کے مطابق وفاقی وزیراطلاعات و نشریات پرویز رشید نے میڈیا کی ان اطلاعات کی تردید کی ہے جن میں کہا گیا ہے کہ ایبٹ آباد واقعہ کی رپورٹ وزیراعظم کے دفتر سے غائب ہوگئی ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ یہ رپورٹ حکومت کی محفوظ تحویل میں ہے۔ '' اے پی پی'' سے بات چیت کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ رپورٹ حکومت کے پاس محفوظ ہے اور کسی غیرمجاز شخص کی اس تک رسائی نہیں ہوسکتی۔ انھوں نے کہا کہ یہ رپورٹ نہ تو وزیراعظم کے دفتر سے غائب ہوئی اور نہ ہی افشاء ہوئی۔ اس حوالے سے میڈیا رپورٹس اور کمنٹس غیرمصدقہ، نامکمل اور رپورٹ کی مسخ شدہ قسم ہے۔ انھوں نے ذرائع ابلاغ پر زور دیا کہ بے سروپا قیاس آرائیاں نہ کی جائیں اورکسی تجزیہ کیلیے اصل رپورٹ کے اجراء کا انتظارکیا جائے۔