ماہ صیام میانہ روی کا متقاضی ہے

سحر و افطار میں بے جا اخراجات دانش مندی نہیں


Sana Ghori July 14, 2013
سحر و افطار میں بے جا اخراجات دانش مندی نہیں۔ فوٹو: فائل

ماہ صیام کی برکتوں اور رحمتوں کے باعث ہر مسلمان ہی اس مہینے کا انتظار کرتا ہے، دوسری طرف اس پُر لطف اور پُر کیف لمحوں کو حالات کی ستم ظریفی اچھی خاصی متاثر کر رہی ہے۔

مہنگائی اور کھٹن معاشی حالات نے ماہ صیام کی خوشیوں میں بھی تشویش شامل کر دی ہے۔ منہگائی ایک اژدھے کے مانند اپنا منہ کھولے سب کچھ نگل لینے کو ہے، دہشت گردی کے متواتر واقعات کے باعث ہر ایک ذہن میں خدشات ابھر رہے ہیں۔ بجلی بحران نیندیں اچاٹ کر رہا ہے، لیکن ان حالات کے باوجود ہمیں ان مبارک ساعتوں کے استقبال کی تیاری کرنی ہے، کیوں کہ دلوں کے سکون کے لیے ان پرنور لمحوں سے بڑھ کر اور کون سا موقع ہوگا۔

رمضان المبارک کے بعد عید بھی ایسا تہوار ہے کہ جس کا سارا سال انتظار کیا جاتا ہے۔ نچلے اور متوسط گھرانے بھی اس سالانہ تہوار کے لیے کچھ اضافی اخراجات کی سوچ بچار میں ہوتے ہیں۔ اگرچہ ان کے لیے یہ امر کافی مشکل ہوتا ہے۔ بہت سی گھریلو خواتین عید اور رمضان کے اخراجات پورے کرنے کے لیے پورے سال بچت کرتی ہیں۔ جس کی وجہ سے اس ماہ کے اخراجات پورے کرنے میں کسی حد تک مدد حاصل ہوتی ہے، لیکن منہگائی نے اس سال ایسی کمر توڑ دی ہے کہ بچت کرنے کے باوجود اخراجات قابو میں نہیں آپاتے۔ سحر و افطار کا اہتمام، ملبوسات کی تیاری، عید کے موقع پر گھر کی تزئین و آرایش، دسترخوان، پردے اور دیگر ضروری سامان کی خریداری کے لیے اچھے خاصے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان میں سب سے اہم رمضان میں باورچی خانے کے اخراجات ہیں۔ سحر و افطار میں خصوصی پکوانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

ہمارے ہاں خاص طور پر دکان دار عید اور رمضان کے دنوں کو کمائی کے دن تصور کرتے ہیں۔ اگرچہ حکومت کی طرف سے نرخ نامے جاری کیے جاتے ہیں اور ان پر سختی سے عمل درآمد کروانے کی یقین دہانیاں بھی کرائی جاتی ہیں، لیکن حال یہ ہوتا ہے کہ رمضان کی آمد سے قبل ہی دودھ، دہی، پھل، گوشت، بیسن، چنا، پیاز، ٹماٹر وغیرہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ یوں نہ چاہتے ہوئے بھی اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ اگر ذرا سی سوجھ بوجھ سے کام لیا جائے تو اخراجات پر خاطر خواہ حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ سگھڑ خواتین باورچی خانے میں مصروف سحر و افطار کا خاص اہتمام کرتی ہیں۔ گھر کے ہر فرد کی پسند کا خیال رکھا جاتا ہے۔ فروٹ چاٹ، دہی بڑے، چھولے، پکوڑے، سموسے، رول، آلو کے کباب، کٹلس غرض کہ دسترخوان سجانے کے لیے کیا جتن نہیں کیے جاتے، اس کے بعد کھانے اور صبح سحری کے لیے الگ اہتمام ہوتا ہے۔ اگر پہلے روزے ہی سے خوب دسترخوان بھر کے مختلف انواع کے پکوان تیار کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا جائے تو ماہ رمضان کے بجٹ اور عید کے خرچ کا کیا ہوگا؟

رمضان کی آمد سے قبل ہی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر یہ ممکن نہیں رہا کہ روزانہ دسترخوان انواع و اقسام کے پکوانوں سے سجایا جائے۔ اس لیے سمجھ داری کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے باورچی خانے کے اخراجات کو مناسب منصوبہ بندی اور میانہ روی کے ساتھ قابو میں کیا جائے۔ مختلف اور لذیذ کھانے ضرور پکائے جائیں، لیکن ان کھانوں کے لیے مختلف دن مختص کر کے اہتمام کیا جائے۔ دسترخوان پر افطاری کے وقت اگر دو ڈشز بھی رکھی جائیں، تو کوئی روزے پر فرق نہیں آجائے گا۔ ساتھ ہی کھانے کی پیش کش کا پہلو مد نظر رکھنا چاہیے۔ کھانے کا متوازن، لذیذ اور غذائیت سے بھرپور ہونا ضروری ہے، اگر اس کی پیش کش بھی اچھے طریقے سے کی جائے تو اس کی لذت دوچند ہو جاتی ہے۔ سادہ اشیا بھی اگر خوب صورت انداز میں پیش کی جائیں تو وہ بھی مزے دار لگتی ہیں۔

ساتھ ہی اس رمضان کے موقع پر کھانے کی سجاوٹ اور پیش کش کے کچھ انوکھے طریقے اختیار کیجیے۔ سادہ پکوڑوں کے ساتھ مختلف اقسام کی گھر کی بنی چٹنیاں پیش کیجیے اور انھیں پہلے ہی تیار کر کے فریج میں محفوظ کر لیجیے۔ ساتھ ہی یہ تجربہ بھی کیجیے کہ افطار کا اہتمام کرنے کے بہ جائے رات کا کھانے پر توجہ دیں۔ اس طرح کھانا زیادہ رغبت سے کھایا جائے گا۔ فروٹ چاٹ بنانے کے بہ جائے ایک ہی پھل اچھے طریقے سے کاٹ کر رکھ دیا جائے، تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ اس رمضان میں موسم گرما کی سوغات آم دستیاب ہے۔ اگر مصنوعی مشروبات کے بجائے کبھی کبھار آم دودھ بنا کر پیش کیا جائے تو اس سے غذائی ضروریات بھی پوری ہوں گی اور منہگے مشروبات کی مد میں ہونے والا خرچ بھی بچے گا۔

کوشش کریں کہ اس بار رمضان ذرا مختلف انداز میں گزاریں۔ ان بابرکت ایام کے لیے منصوبہ بندی کر کے خاتون خانہ اپنے سگھڑاپے کا ثبوت دے سکتی ہیں۔ یہ تہوار یہ بابرکت مہینا ہمیں زندگی سے محبت کرنا سیکھا رہے ہیں ورنہ جن معاشی مسائل میں ہم گھِرے ہوئے ہیں وہاں خوشیوں کا بس تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔ ہر کوئی اس وقت کو یاد کرتا نظر آتا ہے، جب زندگی اس قدر جھمیلوں میں الجھی ہوئی نہیں تھی۔ آج ہمارے مسائل میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ رمضان کے روزے ہمیں مسائل سے نکلنے کے لیے ذہنی اور جسمانی تربیت فراہم کرتے ہیں اس لیے سادگی اپناتے ہوئے ان ایام کی برکتوں سے مستفیض ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں