روزہ دوسروں کے احساس کا نام
رمضان کے مقدس و بابرکت فضیلتوں اور رحمتوں والے مہینے کا آغاز ہوچکا ہے، جس کے مطابق...
رمضان کے مقدس و بابرکت فضیلتوں اور رحمتوں والے مہینے کا آغاز ہوچکا ہے، جس کے مطابق قرآن کریم کہتا ہے کہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی کرنے والی کتاب ہے اور جس میں حق و باطل میں امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں۔ ''تم میں سے جو کوئی اس مہینے کو پائے وہ اس کے روزے رکھے'' اور حضورؐ نے فرمایا کہ ''تباہ ہوگیا وہ شخص جس نے رمضان پایا اور اپنی بخشش نہیں کرا پایا''۔ اس کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے بریت ہے۔ اس میں نیکیوں کا اجر کئی گنا بڑھادیا جاتا ہے۔ لیلۃ القدر کی عبادت کو ہزار مہینوں کی عبادت سے بڑھ کر قرار دیا گیا ہے۔
صدقہ خیرات اور زکوٰۃ کی ادائیگی جیسے اموال اس ماہ میں خاص طور پر کیے جاتے ہیں۔ دوسرے مذاہب یا دوسرے ممالک کے مقابلے میں دیکھا گیا ہے کہ ہمارے ملک میں رمضان کا چاند نظر آنے سے پہلے ہی ذخیرہ اندوزی، مہنگائی خراب مال کی نکاسی غیر معیاری اشیاء کی تیاری اور ترسیل کا کام منظم طور پر شروع کردیا جاتا ہے، کم تولنا، جھوٹ بولنا، مہنگا بیچنا، دھوکا دینا گویا اپنا حق اور کاروباری مہارت سمجھی جاتی ہے، اس قسم کے کاروباری ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے کاروباری افراد کی اکثریت قرآن سے ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے اور رسولؐ کی تعلیمات اور عملی مثالوں کو نظرانداز کردیتی ہے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب رمضان آتا تھا تو نبیؐ کا رنگ تبدیل ہوجاتا تھا آپ کی نمازوں میں اضافہ ہوجاتا تھا۔
دعا میں بہت عاجزی فرماتے تھے اور اﷲ کا خوف غالب ہوجاتا تھا لیکن ہم میں رمضان کے موقع پر خوف خدا میں کمی واقع ہوجاتی ہے، اﷲ کی رضا حاصل کرنے کے بجائے اس کا غصہ مول لینے پر تل جاتے ہیں، ایک طرف ہفت روزہ، دس روزہ تراویح اور شبینوں اور شب بیداریوں اور سحر و افطار کے بڑے بڑے پروگرام کرتے ہیں، دوسری جانب خلق خدا اور رموز تجارت کے بنیادی حقوق اصول و ضوابط کو سلب کرنا اپنا حق سمجھ بیٹھتے ہیں، جس کے نتیجے میں رمضان جیسے مقدس مہینے میں خلق خدا کی مہنگائی اور غربت سے جو درگت بنتی ہے، وہ ناقابل برداشت اور ناقابل قبول ہے۔ اس وقت ملک کے عوام غربت، مہنگائی، بجلی وگیس اور سی این جی کی لوڈشیڈنگ کے جس عذاب مسلسل سے گزر رہے ہیں، انھیں اگر حکومت اور تاجر برادری کوئی بڑا ریلیف نہیں دے سکتی تو کم ازکم قیمتوں کی رمضان سے قبل سطح تو برقرار رکھے۔
رمضان آتے ہی انگور 200 روپے، کیلا 100 روپے اور آلو بخارے، خوبانی، آڑو 150 روپے تک فروخت ہورہا ہے، نہ دودھ کی قیمتوں پر حکومت کا کنٹرول ہے نہ گوشت و چکن کے نرخوں پر اس کی دسترس یا بیوپاریوں کا تعاون حاصل ہے۔ بس دعوے اور بیانات تک متعلقہ محکموں کا وجود نظر آتا ہے، چند دکاندار اور ٹھیلے والے گرفتار کرکے متعلقہ ارباب اختیار اپنے فرائض سے عہدہ برآ ہوجاتے ہیں۔ دوسرے ممالک اور دوسرے مذاہب کے تہواروں کے موقعوں پر اور دیگر مسلم ممالک میں بھی عید و رمضان کے موقعوں پر اشیائے صرف کی مانگ بڑھتی ہے، پھر وہاں گرانی کیوں نہیں بڑھتی وہاں کے تاجر رعایتیں اور حکومتیں امداد دیتی ہیں تاکہ عوام کا بجٹ نہ بگڑے اور وہ باآسانی و بخوشی رمضان اور عید جیسے تہوار گزار سکیں، مگر ہمارے ملک میں تو رمضان اور عید کے اخراجات برداشت کرنا ایک عام آدمی کے بس سے باہر ہوچکا ہے۔ اس کے لیے اسے ادھار اور ایڈوانس لینا پڑتا ہے جب کہیں جاکر اس مرحلے سے سرخ رو ہوکر نکلتا ہے۔
ملک کے طول و عرض میں غربت اور افلاس کی جو سطح ہے ہمارے حکمرانوں اور تاجروں کو اس پر خاص نظر رکھنی چاہیے۔ اپنے ہم وطنوں اور ہم مذہبوں کے شب و روز اور زندگیوں کی مشقتوں پر غور کرنا چاہیے۔ رمضان المبارک، قرآن اور نبیؐ کی ذات مبارکہ اور آپ کی تعلیمات کس بات کا تقاضا کرتی ہیں۔ حقوق اﷲ کے علاوہ حقوق العباد کی کیا ذمے داریاں ان پر عائد ہوتی ہیں اور وہ اس کو کہاں تک نبھا رہے ہیں۔ محض چراغاں، انعامات و تحائف خوش کن واعظوں، تقاریر، گفتگو کے مذہبی پروگراموں اور اجتماعات سے کچھ لوگوں کا دل بہلایا اور شہرت حاصل کی جاسکتی ہے لیکن رمضان کی مقصدیت اﷲ کا قرب، رحمت و مغفرت حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام کوئی کھیل تماشے کا دین نہیں ہے نہ ہی زیادہ ہنسنے والے اﷲ کو پسند ہیں۔ عاجزی، اخلاص اور عمل بنیادی عوامل ہیں۔ اسلام اور نبیؐ کی تعلیمات تو یہ ہیں کہ اگر پڑوسی کو پھل نہیں بھیج سکتے تو چھلکے کھلے عام نہ پھینکو تاکہ اس کے بچوں میں احساس محرومی پیدا نہ ہو، جس نے خود پیٹ بھر کے کھالیا اور پڑوسی بھوکا سوگیا تو ان کا بھی سخت محاسبہ ہوگا۔
حضرت عمرؓ کی مثال سامنے ہے آپؓ نے فرمایا کہ اگر نہر فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مر گیا تو قیامت کے دن عمرؓ اس کا جواب دہ ہوگا۔ ہمارے ملک میں غربت و افلاس کا یہ عالم ہوچکا ہے کہ لوگ اپنے جسم کے اعضاء اور بچے تک فروخت کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں، جرائم میں ملوث ہورہے ہیں، کہیں مفت کھانا یا راشن مل رہا ہو تو ہزاروں کی تعداد میں جمع ہوجاتے ہیں، گزشتہ پیر کو گلشن اقبال میں اسی قسم کے راشن تقسیم کے پروگرام کے دوران بھگدڑ کے نتیجے میں 2 خواتین پیروں تلے آکر مرگئیں اور 3 شدید زخمی ہوگئیں۔ غربت اور مہنگائی سے بدحال مفت راشن کے حصول اور اپنے اہل خانہ کو رمضان میں فاقوں سے بچانے کے لیے جانے والی دونوں خواتین کی میتیں جب ان کی رہائش گاہ پہنچیں تو کہرام برپا ہوگیا۔ ایک زخمی خاتون نے بتایا وہ راشن کے حصول کے لیے آئی تھی کہ کم ازکم رمضان میں تو بچوں کو فاقوں سے بچا سکوں۔ دو تین سال قبل جوڑیا بازار میں بھی راشن کی تقسیم کے دوران بدنظمی کے نتیجے میں 18 خواتین ہلاک ہوئی تھیں، جو اس لحاظ سے خاندان کی واحد کفیل تھیں کہ مانگ تانگ کر اپنے کمسن بچوں کا پیٹ پالتی تھیں۔
ہماری اجتماعی روش بن چکی ہے کہ کسی بھی واقعے کے ظاہری پہلو اور اپنی سطحی سوچ کی بنا پر بلاتامل ردعمل کا اظہار کردیتے ہیں۔ ہم ہر سائل کو جھوٹا سمجھ کر بلاتخصیص جھڑک دیتے ہیں۔ خودکشی کا واقعہ دیکھیں تو دو ٹوک کہہ دیتے ہیں کہ خودکشی حرام عمل ہے، اسے محنت کرنی اور حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے تھا، کچھ لوگ کمال بے نیازی سے کہہ دیتے ہیں کہ لوگ دکان سے پانچ پانچ کلو بکرے کا گوشت خرید رہے ہیں، یہاں کون غریب ہے؟ لیکن اپنے آس پاس موجود مالی، چپڑاسی اور ڈرائیور جیسے خدمت گزاروں کی تنخواہ کا جائزہ لینے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ دیکھ تو لیں پانچ کلو بکرے کے گوشت کے عوض ان کی کتنے ہفتے کی تنخواہ بنتی ہے؟ یوٹیلٹی اسٹورز پر آٹا، چینی کی لائنیں دیکھتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں یہ پیشہ ور افراد ہیں یہاں سے سستا لے کر مارکیٹ پر ہوٹل والوں کو بیچتے ہیں لیکن اگر کچھ افراد ایسا کرتے بھی ہیں تو ان کی مجبوری کا یہ پہلو تو دیکھنا چاہیے کہ وہ کام اور محنت کرنا چاہتے ہیں اگر ان کو کوئی روزگار میسر آجائے تو پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
رمضان کی مقصدیت حاصل کرنے اپنی عبادات کی مقبولیت کے لیے جس کا مقصد دوسروں کا احساس ہے۔ ہمیں، ہمارے حکمرانوں، ارباب اقتدار و اختیار، تاجروں اور تمام شعبوں اور طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے، اس قسم کی حق تلفیوں و ناانصافیوں میں ہمارا بالواسطہ اور بلاواسطہ کوئی کردار تو نہیں اور ہم رمضان کی صحیح مقصدیت، رحمت، مغفرت اور بریت کیوں کر حاصل کرسکتے ہیں۔