بجلی معاہدے اور ہماری حکومتوں کا کردار

رکاوٹوں اور مسائل کو حل کرنے کے لیے کبھی سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں


Editorial January 11, 2019
رکاوٹوں اور مسائل کو حل کرنے کے لیے کبھی سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں۔ فوٹو:فائل

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے آئی پی پیز (انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز) کو زائد ادائیگیوں سے متعلق کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے گلے کا پھندا بنے ہوئے ہیں۔ دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے سیکریٹری پاور سے کہا کہ رپورٹ کے مطابق ہر آئی پی پی کو159ملین سے زائد ادائیگی کی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عوام کے کروڑوں روپے دے دیے گئے' چاہے وہ کمپنیاں بجلی بنائیں یا نہ بنائیں' دنیا بھر میں اس طرح کے معاہدے منسوخ کیے جا رہے ہیں۔

ملک میں موجود کسی بھی سرکاری شعبے اور اس کے تحت ہونے والے معاہدوں اور ترقیاتی منصوبوں کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو ہر معاہدے اور منصوبے کے پیچھے ایسی ہی کہانیاں افشا ہوں گی کہ قومی مفاد کے لیے بنائے گئے ان منصوبوں میں قومی مفاد کہیں بھی ڈھونڈے سے نہیں ملتا' ہر معاہدے کے پیچھے کرپشن اور دھوکا دھی کی ایک طویل داستان رقم ہے۔ ہر ترقیاتی منصوبے کی بہتی گنگا میں حکمران اشرافیہ اور سرکاری اہلکاروں نے خوب ہاتھ دھوئے' اعلیٰ سرکاری عہدے داروں نے تو ہر معاہدے کی تشکیل سے پیشتر حصہ بقدر جثہ اپنا کمیشن طے کیا مگر کسی نے بھی ان کا احتساب نہیں کیا۔

اس سے زیادہ افسوسناک امر کیا ہو گا کہ ہر آئی پی پی کو قومی خزانے سے 159ملین سے زائد رقم کی بلارکاوٹ ادائیگی کی گئی چاہے وہ بجلی بنائے یا نہ بنائے۔ اس وقت ملک بھر میں بجلی کا جو شارٹ فال نظر آتا ہے اس کے پس منظر میں ایسے ہی معاہدوں میں ہونے والی کرپشن اور دھوکا دھی کا کلیدی کردار ہے۔سردیوں کے اس موسم میں جہاں بجلی کی لوڈشیڈنگ معمول بن چکی ہے وہاں گیس کا بحران بھی حسب روایت عوام کی پریشانیوں میں اضافے کا محرک بنا ہوا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت منگل کو ہونے والے کابینہ کمیٹی برائے توانائی کے اجلاس میں وزیراعظم نے ملک بھر میں بجلی اور گیس کی صورت حال معمول پر لانے کی ہدایت کی تھی' وزیراعظم نے گیس کے بحران پر سوئی سدرن اور ناردرن کے ایم ڈیز کی برطرفی کے احکامات بھی جاری کیے۔ 70سال گزر گئے مگر آج تک ملک مختلف النوع بحرانوں کی زد میں چل رہا ہے اور یہ بحران وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شدید سے شدید تر ہوتے جا رہے ہیں۔ اب تحریک انصاف کی حکومت کے لیے یہ ایک بڑا امتحان ہے کہ وہ ملک کو درپیش ان بحرانوں سے نمٹنے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے۔ ملک کی ترقی کے لیے تشکیل دیے گئے پانچ سالہ منصوبے بھی اپنا ہدف پورا کرنے میں کامیابی کی لکیر عبور نہیں کر سکے' ان اہداف کو حاصل کرنے میں جن ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ان رکاوٹوں اور مسائل کو حل کرنے کے لیے کبھی سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں۔

ہر آنے والی حکومت کے سامنے جب ملکی مسائل کا انبار آیا تو اس نے اسے حل کرنے کی پالیسی دینے کے بجائے سارا ملبہ جانے والی حکومت پر ڈال کر خود بری الذمہ ہونے کی کوشش کی۔ 70برسوں سے الزامات در الزامات کا یہی سلسلہ چلا آ رہا ہے۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود زرعی شعبے کی ''خوشحالی اور ترقی'' کا یہ عالم ہے کہ سبزیوں کی طلب پوری کرنے کے لیے ہمسایہ ممالک سے انھیں منگوایا جاتا ہے' 70سال پیشتر کسان کی جو دگرگوں حالت تھی آج بھی وہ اسی بدحالی کا رونا روتا نظر آتا ہے' اس کو آج بھی اس کی فصل کا مناسب معاوضہ نہیں ملتا اور وہ اپنے بنیادی مسائل کے حل کے لیے سڑکوں پر احتجاج کا راستہ ڈھونڈتا ہے۔ ٹیکسٹائل شعبہ بھی تنزلی کی جانب رواں ہے' حال یہ ہے کہ بنگلہ دیش جیسا غریب ملک آج ٹیکسٹائل انڈسٹری میں پاکستان سے کہیں آگے نکل چکا اور پاکستان کے پالیسی سازوں کی نااہلی کے سبب ملکی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرنے والا یہ شعبہ آج گوناگوں مسائل کی نذر ہو چکا ہے۔

درآمدات اور برآمدات میں موجود خسارہ آج بھی حکومتی بزرجمہروں کی توجہ کا طالب ہے' گزشتہ چند ماہ کے دوران برآمدات پر ڈیوٹیاں بڑھنے سے برآمدات کنندگان کو خسارے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مہنگائی کا گراف روز بروز بلند ہوتا جا رہا ہے اور اب پھر منی بجٹ کی صدائیں آ رہی ہیں اور عوام پریشان ہیں دیکھیے کہ مہنگائی میں کتنا اضافہ ہوتا ہے۔ حکومت بیرونی قرضہ جات کے دباؤ کو کم کرنے کے وعدے میں بھی کامیابی کا کوئی تمغہ اپنے سینے پر نہیں سجا سکی بلکہ ملکی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوششوں میں مزید غیرملکی قرضوں کے حصول کے لیے بھاگ دوڑ کر رہی ہے۔ ملکی ترقیاتی منصوبوں اور معاہدوں میں ہونے والی کرپشن نے جہاں ملک کے معاشی نظام کو شدید نقصان پہنچایا وہاں ابھی تک موجودہ حکومت کی کوئی ایسی معاشی اور تجارتی پالیسی سامنے نہیں آئی جس سے عوام میں موجود مایوسی کا خاتمہ ہو سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں